بچے کا نام تبرکاً محمد رکھنے والے جنتی- والدین کا بچے کا نام محمد رکھنے پر بخشا جانا

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بچے کا نام تبرکاً محمد رکھنے والے جنتی

_________________________

سیدنا ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مَنْ وُلِدَ لَهُ مَوْلُودٌ فَسَمَّاهُ مُحَمَّدًا تَبَرُّكًا بِهِ كَانَ هُوَ وَمَوْلُودُهُ فِي الْجَنَّةِ.

"جس نے اپنے پیدا ہونے والے بچے کا نام تبرکاً محمد رکھا، وہ اور اس کا بچہ دونوں جنتی ہوں گے۔”

(فضائل التسمیة لابن بکیر: ۳۰ ، مشیخة قاضي المارستان: ۴۵۳)

موضوع (من گھڑت) : یہ جھوٹی روایت ہے۔ اسے تراشنے والا حامد بن حماد بن مبارک عسکری ہے، جیسا کہ:

٭ حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: المتهم بوضعهٖ حامد بن حماد العسکري.

"اس حدیث کو گھڑنے کا الزام حامد بن حماد عسکری کے سر ہے۔” (تلخیص کتاب الموضوعات: ص ۳۵)

٭حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اسے موضوعات (۱۵۷/۱) میں ذکر کیا ہے۔

٭حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے "موضوع” (من گھڑت) کہا ہے۔

٭حافظ سیوطی (اللآلي المصنوعة : ۱۰۶/۱) کا اس جھوٹی روایت کی سند کو "حسن” کہنا انتہائی تساہل ہے۔

*** اہل علم کی تصریحات***

محمد نام کی فضیلت اور فوائد و برکات کے متعلق جتنی بھی احادیث وارد ہوئی ہیں، وہ ساری کی ساری جھوٹی ہیں، جیسا کہ:

٭حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں: وقدروي في ھذا الباب أحادیث ، لیس فیها ما یصح.

"اس باب میں بیان کی جانے والی کوئی روایت صحیح نہیں۔” (الموضوعات : ۱۵۸/۱)

٭حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: وھذہٖ أحادیث مکذوبةٌ.

"یہ ساری روایتیں جھوٹی ہیں۔” (میزان الاعتدال في نقد الرجال: ۱۲۹/۱)

٭حافظ ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: و في ذٰلک جزءٌ ، کله کذب.

"اس بارے میں پورا ایک کتابچہ ہے جو کہ سارا جھوت کا پلندہ ہے۔” (المنار المنیف فی الصحیح و الضعیف: ص ۵۲)

٭علامہ حلبی کہتے ہیں: قال بعضهم : ولم یصح في فضل التسمیة بمحمد حدیث ، وکل ماورد فیه ؛ فهو موضوع.

"بعض علما کا کہنا ہے کہ محمد نام کی فضیلت میں کوئی حدیث صحیح نہیں ، بلکہ اس بارے میں بیان کی جانے والی ساری روایات من گھڑت ہے۔” (إنسان العیون في سیرۃ الأمین المأمون ، المعروف به السیرۃ الحلبیّة: ۱۲۱/۱)

٭علامہ زرقانی لکھتے ہیں: وذکر بعض الحفاظ أنه لم یصح في فضل التسمیة بمحمد حدیث.

"بعض حفاط کا کہنا ہے کہ محمد نام کی فضیلت میں کوئی حدیث صحیح نہیں۔” (شرح الزرقانی علی مواھب اللدنیة : ۳۰۷/۷)

٭ابن عراق کنانی لکھتے ہیں: قال الأُبِّيُّ: لم یصح في فضل التسمیة بمحمد حدیث ، بل قال الحافظ أبو العباس تقی الدین الحراني : کل ما ورد فیه ؛ فهو موضوع.

"علامہ اُبّی کہتے ہیں کہ محمد نام کی فضیلت میں کوئی حدیث ثابت نہیں ، بلکہ حافظ ابو عباس تقی الدین حرانی (علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ) کے بقول اس بارے میں بیان کی جانے والی ساری کی ساری روایات من گھڑت ہیں۔” (تنزیعه الشریعة المرفوعة عن الأخبار الشنیعة الموضوعة : ۱۷۴/۱)

حَدَّثَنَا الحُمَيْدِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ، أَنَّهُ سَمِعَ عَلْقَمَةَ بْنَ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى المِنْبَرِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا، أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ»

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں