کھڑے ہو کر پینے کی شرعی حیثیت

کھڑے ہو کر پینے کی شرعی حیثیت
تحریر: شیخ الحدیث علامہ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری حفظه الله
کھڑے ہو کر پانی پینے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جواز اور منع دونوں طرح کی احادیث ثابت ہیں۔آئیے دونوں طرح کی احادیث کا فہمِ سلف کی روشنی میں مطالعہ کرتے ہیں تاکہ ان سے کھڑے ہو پانی وغیرہ پینے کا صحیح حکم معلوم ہو سکے۔
جواز کی احادیث :
1 (ا) نزال بن سبرہ ہلالی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
أَتٰی عَلِيٌّ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ عَلٰی بَابِ الرَّحَبَۃِ، فَشَرِبَ قَائِمًا، فَقَالَ : إِنَّ نَاسًا یَّکْرَہُ أَحَدُہُمْ أَنْ یَّشْرَبَ وَہُوَ قَائِمٌ، وَإِنِّي رَأَیْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَعَلَ، کَمَا رَأَیْتُمُونِي فَعَلْتُ ۔
’’سیدنا علی رضی اللہ عنہ باب الرحبہ پر آئے،وہاں کھڑے ہو کر پانی پیا اور فرمایا : کچھ لوگ کھڑے ہو کر پینے کو ناپسند کرتے ہیں،لیکن میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے،جیسے آپ لوگوں نے مجھے کرتے دیکھا ہے۔‘‘
(صحیح البخاري : 5615)
(ب) زاذان رحمہ اللہ کا بیان ہے :
إِنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ شَرِبَ قَائِمًا، فَنَظَرَ إِلَیْہِ النَّاسُ کَأَنَّہُمْ أَنْکَرُوہُ، فَقَالَ : مَا تَنْظُرُونَ؟ إِنْ أَشْرَبْ قَائِمًا؛ فَقَدْ رَأَیْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَشْرَبُ قَائِمًا، وَإِنْ أَشْرَبْ قَاعِدًا، فَقَدْ رَأَیْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَشْرَبُ قَاعِدًا ۔
’’سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر پانی پیا،تو لوگوں نے ان کی طرف عجیب نظروں سے دیکھا،گویا اس عمل کو غلط سمجھ رہے ہوں۔آپ نے فرمایا : کیا دیکھ رہے ہو،اگر میں کھڑے ہو کر پیتا ہوں، تو اس لیے کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑے ہو کر پیتے دیکھا ہے اور اگر میں بیٹھ کر پیتا ہوں، تو اس لیے کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیٹھ کر پیتے دیکھا ہے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 101/1، ح : 795، وسندہٗ حسنٌ)
2 سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
سَقَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ زَمْزَمَ، فَشَرِبَ وَہُوَ قَائِمٌ ۔
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آبِ زمزم پیش کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر نوش فرمایا۔‘‘
(صحیح البخاري : 5617، صحیح مسلم : 2027، واللفظ لہٗ)
3 سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کا بیان ہے :
رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَشْرَبُ قَائِمًا وَّقَاعِدًا ۔
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر،دونوں طرح پیتے ہوئے دیکھا۔‘‘(مسند الإمام أحمد : 178/2، 179، 206، سنن الترمذي : 1883، وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ’’حسن صحیح‘‘قرار دیا ہے۔
4 یزید بن عطاردتابعی بیان کرتے ہیں :
سَأَلْتُ ابْنَ عُمَر عَنِ الشُّرْبِ قَائِمًا، فَقَالَ : قَدْ کُنَّا عَلٰی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَشْرَبُ قِیَامًا، وَنَأْکُلُ وَنَحْنُ نَسْعٰی ۔
’’میں نے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کھڑے ہو کر پینے کے بارے میں سوال کیا، تو انہوں نے فرمایا : یقینا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد ِمبارک میں کھڑے ہو کر پی لیتے اور چلتے ہوئے کھا لیتے تھے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 12/2، 24، 29، مسند الطیالسي : 1904، شرح معاني الآثار للطحاوي : 273/4، 274، وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (5243)نے ’’صحیح‘‘کہا ہے۔
5 سیدہ عائشہr فرماتی ہیں :
رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَشْرَبُ قَائِمًا وَّقَاعِدًا ۔
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑے اور بیٹھے دونوں حالتوں میں پیتے ہوئے دیکھا۔‘‘(سنن النسائي : 1362، وسندہٗ حسنٌ)
6 سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے :
إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلٰی أُمِّ سُلَیْمٍ، وَفِي الْبَیْتِ قِرْبَۃٌ مُّعَلَّقَۃٌ، فَشَرِبَ مِنْ فِیہَا وَہُوَ قَائِمٌ، قَالَ : فَقَطَعَتْ أُمُّ سُلَیْمٍ فَمَ الْقِرْبَۃِ، فَہُوَ عِنْدَنَا ۔
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ ام سلیمrکے گھر آئے۔گھر میں ایک مشکیزہ لٹکا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر مشکیزے کے منہ سے پانی پیا۔سیدہ ام سلیمr نے (بطور ِتبرک)مشکیزے کا منہ کاٹ لیا،وہ ابھی تک ہمارے پاس محفوظ ہے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 431/6، شمائل الترمذي : 215، وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابن جارود رحمہ اللہ (868)نے ’’صحیح‘‘قرار دیا ہے۔
7 سیدہ عائشہr سے روایت ہے :
إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَی امْرَأَۃٍ مِّنَ الْـأَنْصَارِ، وَفِي الْبَیْتِ قِرْبَۃٌ مُّعَلَّقَۃٌ، فَاخْتَنَثَہَا، وَشَرَبَ وَہُوَ قَائِمٌ ۔
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری صحابیہ کے گھر تشریف لے گئے۔وہاں ایک مشکیزہ لٹک رہا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا منہ کھولا اور کھڑے ہو کر پانی نوش فرمایا۔‘‘(مسند الإمام أحمد : 161/6، وسندہٗ حسنٌ)
8 سیدہ کبشہr بیان کرتی ہیں :
دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَشَرِبَ مِنْ فِي قِرْبَۃٍ مُّعَلَّقَۃٍ قَائِمًا، فَقُمْتُ إِلٰی فِیہَا، فَقَطَعْتُہٗ ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائے اور لٹکے ہوئے مشکیزے سے کھڑے ہو کر پانی پیا۔میں نے مشکیزے کے منہ کو کاٹ کر محفوظ کر لیا۔‘‘
(مسند الحمیدي : 353، سنن الترمذي : 1892، وسندہٗ صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ’’حسن صحیح غریب‘‘،جبکہ امام ابن جارود(867)، امام ابن حبان(5318)H نے ’’صحیح‘‘قرار دیا ہے۔
9 ابو جعفر قاری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
رَأَیْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ یَشْرَبُ قَائِمًا ۔
’’میں نے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو کھڑے ہو کر پیتے ہوئے دیکھا۔‘‘
(المؤطّأ للإمام مالک : 926/2، وسندہٗ صحیحٌ)
0 عامر بن عبد اللہ تابعی رحمہ اللہ ،سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں :
إِنَّہٗ کَانَ یَشْرَبُ قَائِمًا ۔ ’’آپ کھڑے ہو کر پی لیتے تھے۔‘‘
(المؤطّأ للإمام مالک : 926/2، وسندہٗ صحیحٌ)
! مسلم بن ابو بکرہ تابعی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
شَرِبَ أَبُو بَکْرَۃَ قَائِمًا ۔
’’سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر پانی پیا۔‘‘
(التاریخ الکبیر للبخاري : 354/2، وسندہٗ حسنٌ)
@ بشر بن غالب کا بیان ہے :
رَأَیْتُ الْحَسَنَ (بْنَ عَلِيٍّ) یَشْرَبُ، وَہُوَ قَائِمٌ ۔
’’میں نے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو کھڑے ہو کر پیتے ہوئے دیکھا۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 205/8، وسندہٗ حسنٌ)
# عباد بن منصوربیان کرتے ہیں :
لَقَدْ رَأَیْتُ سَالِمًا یَّشْرَبُ وَہُوَ قَائِمٌ ۔
’’میں نے سالم تابعی رحمہ اللہ کو کھڑے ہو کر پیتے دیکھا۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 203/8، وسندہٗ حسنٌ)
$،% عبد الملک بن میسرہ کا بیان ہے :
سَأَلْتُ طَاوٗسًا وَسَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ عَنِ الشُّرْبِ قَائِمًا، فَلَمْ یَرَیَا بِہٖ بَأْسًا ۔
’’میں نے امام طاؤس اور سعید بن جبیرHسے کھڑے ہو کر پینے کے متعلق پوچھا،تو انہوں نے اس میں کوئی حرج خیال نہیں کیا۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 204/8، وسندہٗ صحیحٌ)
^ عبد الرحمن بن عجلان کہتے ہیں :
سَأَلْتُ إِبْرَاہِیمَ عَنْہُ، فَقَالَ : لَا بَأْسَ بِہٖ، إِنْ شِئْتَ قَائِمًا، وَإِنْ شَئْتَ قَاعِدًا ۔
’’میں نے امام ابراہیم نخعی تابعی رحمہ اللہ سے اس بارے میں سوال کیا، تو انہوں نے فرمایا : اس میں کوئی حرج نہیں۔چاہو تو کھڑے ہو کر پیو اور چاہو تو بیٹھ کر۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 203/8، وسندہٗ حسنٌ)
ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر دونوں طرح پینا ثابت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی عمل مبارک کی روشنی میں صحابہ کرام بھی دونوں طرح پینا جائز سمجھتے تھے۔تابعین ائمہ دین بھی کھڑے ہو کر پینے کو جائز ہی سمجھتے تھے۔
منع کی احادیث :
آئیے اب وہ احادیث ملاحظہ فرمائیے جن میں کھڑے ہو کر پینے کی ممانعت ہے؛
1 (ا) سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ ،رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
إِنَّہٗ نَہٰی أَنْ یَّشْرَبَ الرَّجُلُ قَائِمًا ۔
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پینے سے منع فرمایا۔‘‘(صحیح مسلم : 2024)
(ب) سیدنا انس رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے :
إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ زَجَر عَنِ الشُّرْبِ قَائِمًا ۔
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پینے سے ڈانٹاہے۔‘‘
(صحیح مسلم : 112/2024)
2 (ا) سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے :
إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی أَنْ یَشْرَبَ الرَّجُلُ قَائِمًا ۔
’’بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ کوئی کھڑا ہو کر پیے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 327/2، وسندہٗ صحیحٌ)
(ب) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’لَا یَشْرَبَنَّ أَحَدُکُمْ قَائِمًا، فَمَنْ نَّسِيَ؛ فَلْیَسْتَقِیْٔ‘ ۔
’’تم میں سے کوئی کھڑا ہو کر نہ پیے۔جو بھول کر ایسا کر بیٹھے،وہ قَے کرے۔‘‘
(صحیح مسلم : 2026)
3 سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمََ زَجَر عَنِ الشُّرْبِ قَائِمًا ۔
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پینے سے ڈانٹا ہے۔‘‘
(صحیح مسلم : 2025)
4 سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں :
إِنَّہٗ رَاٰی رَجُلًا یَّشْرَبُ قَائِمًا، فَقَالَ لَہٗ : قِہٖ، قَالَ : لِمَہْ ؟ قَالَ : أَیَسُرُّکَ أَنْ یَّشْرَبَ مَعَکَ الْہِرُّ ؟ قَالَ : لَا، قَالَ : ’فِإِنَّہٗ قَدْ شَرِبَ مَنْ ہُوَ شَرٌّ مِّنْہُ، الشَّیْطَانُ‘ ۔
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو کھڑے ہو کر پیتے دیکھا،تو اسے فرمایا : قَے کر دیجیے۔اس نے عرض کیا : کیوں؟فرمایا : کیا آپ پسند کرتے ہیں کہ آپ کے ساتھ بِلّا پیے؟اس نے عرض کیا : نہیں۔فرمایا : اس کی نسبت بہت بُرے نے آپ کے ساتھ پیا ہے۔وہ شیطان ہے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 301/2، وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث کا راوی ابو زیاد طحان ’’موثق،حسن الحدیث‘‘ہے۔ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے اسے ’’ثقہ‘‘اور امام ابو حاتم رحمہ اللہ نے ’’شیخ صالح الحدیث‘‘قرار دیا ہے۔
امام شعبہ رحمہ اللہ جو غالباً ’’ثقہ‘‘ہی سے روایت لیتے ہیں،وہ اس حدیث کو ابو زیاد سے بیان کر رہے ہیں۔
فائدہ 1 :
ایک روایت میں ہے :
’لَو یَعْلَمُ الَّذِي یَشْرَبُ وَہُوَ قَائِمٌ؛ لَاسْتَقَائَ‘ ۔
’’اگر کھڑا ہو کر پانی پینے والا جان لے(کہ اس میں کتنا نقصان ہے)،تو ضرور قَے کر ڈالے۔‘‘(مسند الإمام أحمد : 283/2، صحیح ابن حبّان : 5324)
لیکن اس کی سند امام زہری رحمہ اللہ کی ’’تدلیس‘‘کی وجہ سے ’’ضعیف‘‘ہے۔
فائدہ 2 :
علامہ،ابو عبد اللہ،محمد بن علی بن عمر،مازری(م : 536ھ)لکھتے ہیں :
وَلَا خِلَافَ فِي جَوَازِ الْـأَکْلِ قَائِمًا ۔
’’کھڑے ہو کر کھانے کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں۔‘‘
(فتح الباري لابن حجر : 23/10)
ممانعت والی احادیث منسوخ یا تنزیہ پر محمول ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاکھڑے ہو کر پینا،صحابہ کرامyکا کھڑے ہو کر پینے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بتانا اور خود کھڑے ہو کر پینا بھی،نیز تابعین و ائمہ دین کا اسے جائز بتانا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ جن احادیث میں کھڑے ہو کر پینے سے منع فرمایا گیا ہے،وہ یا تو منسوخ ہیں یا ان سے مراد نہی تنزیہی ہے،یعنی کھڑے ہو کر پانی پینا بہتر نہیں،البتہ کوئی پی لے،تو گناہ گار نہیں ہو گا،جیسا کہ :
امام احمد بن حسین،بیہقی رحمہ اللہ (458-384ھ)احادیث میں کھڑے ہو کر پینے کی ممانعت کے بارے میں فرماتے ہیں :
إِمَّا أَنْ یَّکُونَ نَہْيَ تَنْزِیہٍ، أَوْ نَہْيَ تَحْرِیمٍ، ثُمَّ صَارَ مَنْسُوخًا ۔
’’یا تو یہ ممانعت تنزیہی ہے یا پھر تحریمی ہے جو بعد میں منسوخ ہو گئی۔‘‘
(السنن الکبرٰی : 282/7)
علامہ،ابو عبد اللہ،محمد بن علی بن عمر،مازری(م : 536ھ)لکھتے ہیں :
فَإِنَّ الْـأَمْرَ فِي حَدِیثِ أَبِي ہُرَیْرَۃَ بِالِاسْتِقَائِ؛ لَا خِلَافَ بَیْنَ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي أَنَّہٗ لَیْسَ عَلٰی أَحَدٍ أَنْ یَّسْتَقِيئَ ۔
’’سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں کھڑے ہو کر پانی پینے والے کو قَے کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے،اس کے بارے میں اہل علم کا اتفاق ہے کہ ایسا کرنا کسی پر فرض نہیں۔‘‘(فتح الباري لابن حجر : 82/10، 83)
محمد بن حسن شیبانی کہتے ہیں :
لَا نَرٰی بِالشُّرْبِ قَائِمًا بَأْسًا، وَہُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِیفَۃَ وَالْعَامَّۃِ مِنْ فُقَہَائِنَا ۔
’’ہم کھڑے ہو کر پینے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے۔امام ابو حنیفہ اور ہمارے اکثر فقہا کا یہی قول ہے۔‘‘(المؤطّأ لمحمّد بن حسن، ص : 375)
علامہ،عبد الحئی،لکھنوی،حنفی(1304-1264ھ)لکھتے ہیں :
وَالْحَقُّ فِي ہٰذَا الْبَابِ عَلٰی مَا ذَکَرَہُ الْبَیْہَقِيُّ والنَّوَوِيُّ وَالْقَارِيُّ وَالسُّیُوطِيُّ وَغَیْرُہُمْ؛ أَنَّ النَّہْيَ لِلتَّنْزِیہِ، وَالْفِعْلُ لِبَیَانِ الْجَوَازِ ۔
’’اس مسئلے میں حق بات وہی ہے جو امام بیہقی،نووی،(ملا علی)قاری،سیوطی وغیرہ نے ذکر کی ہے کہ یہ ممانعت تنزیہی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کھڑے ہو کر پینا بیانِ جواز کے لیے تھا۔‘‘(التعلیق الممجّد علی مؤطّأ محمّد، ص : 375)
معلوم ہوا کہ بیٹھ کر پینا اولیٰ اور بہتر ہے،جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو اصحاب ِ صفہ کو پلانے کے لیے دودھ کا پیالہ دیا،جب پلا چکے ،تو فرمایا :
اُقْعَدْ، فَاشْرَبْ ۔ ’’بیٹھیے اور نوش کیجیے۔‘‘
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : فَقَعَدْتُّ، فَشَرِبْتُ ۔
’’چنانچہ میں نے بیٹھ کر دودھ پیا۔‘‘(صحیح البخاري : 6452)
لیکن کھڑے ہو کر پینا حرام نہیں،بلکہ جائز ہے۔اسے گناہ سمجھنا یا اسے آبِ زمزم کے ساتھ خاص کرنا نصوصِ شرعیہ اور صحابہ و تابعین و ائمہ دین کے فہم کے سراسر خلاف ہے۔

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں