قبرِ نبی کی زیارت شفاعت کا ذریعہ

قبرِ نبی کی زیارت شفاعت کا ذریعہ

______________________

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"من زار قبري، وجبت له شفاعتي”

جو شخص میری قبر کی زیارت کرے گا، اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوجائے گی۔

(سنن الدارقطني: ۲۷۸/۲، ح:۲۶۶۹، شعب الإیمان للبیھقي: ۴۹۰/۳، ح: ۵۱۶۹، مسند البزار (کشف الأستار): ۵۷/۲، ح: ۱۱97)

ضعیف: اس کی سند "ضعیف” ہے۔ اس کے بارے میں:

امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ” میرے دل میں اس کے بارے میں خلش ہے۔ میں اس کی ذمہ داری سے بری ہوں” (لسان المیزان لابن حجر: ۱۳۵/۶)

نیز اس روایت کو امام صاحب نے "منکر” بھی قرار دیا ہے۔ (ایضاً)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ، امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کی ساری بحث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: "امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کی عبارت بیان ہوچکی ہے، نیز انہوں نے اس روایت کی علت بھی بیان کردی ہے، اس سب کچھ کے ہوتے ہوئے یہ کہنا درست نہیں کہ اس روایت کو امام ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ ہاں! وضاحت کرکے ایسا بیان کیا جاسکتا ہے۔” (ایضاً)

حافظ سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ روایت صحیح ابن خزیمہ میں ہے، لیکن امام صاحب نے اس کے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔” (المقاصد الحسنة في بیان کثیر من الأحادیث المشتھرۃ علی الأ لسنة : ۱۱۲۵)

امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس میں کمزوری ہے” (الضعفاء الکبیر: ۱۷۰/۴)

حافظ بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ روایت منکر ہے” (شعب الإیمان: ۴۹۰/۳)

حافظ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے۔ (المجموع شرح المھذّب: ۲۷۲/۸)

حافظ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ” یہ حدیث نہ صحیح ہے نہ ثابت۔ یہ تو فن حدیث کے ائمہ کے ہاں منکر اور ضعیف الاسناد روایت ہے۔ ایسی (روایت ) دلیل بننے کے لائق نہیں ہوتی۔ علم حدیث میں ناپختہ کار لوگ ہی ایسی روایات کو اپنی دلیل بناتے ہیں۔” (الصارم المنکي في الردّ علی السبکي، ص: ۳۰)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "اس بارے میں کچھ بھی ثابت نہیں” (التلخیص الحبیر: ۲۶۷/۲)

نیز فرماتے ہیں: "اس روایت میں کمزوری ہے” (اتّحاف المھرة: ۱۲۳/۹ – ۱۲۴)

حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ حدیث منکر ہے” (تاریخ الإسلام: ۲۱۲/۱۱، وفي نسخة: ۱۱۵/۱۱)

دوسری حديث:

_________

(جس نے میرے انتقال کے بعد میری زیارت کی تو گویا کہ اس نے میری حیات میں میری زیارت کی)۔

اسے دارقطني نے آل حاطب کے ایک شخص سے روایت کیا ہے، اور وہ حاطب سے روایت کرتے ہیں اور انہوں نے نبی کریم صلى الله عليه وسلم سے اس لفظ سے روایت کیا ہے، اور اس کی سند میں ایک مجہول شخص ہے، اور اسے ابو یعلی نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے، اور ابن عدی نے اپنی کامل میں روایت کیا ہے، اور اس کی سند میں حفص بن ابو داؤد ہیں اور وہ ضعيف الحديث ہیں۔

تيسری حديث:

_________

(جس نے مدینے میں ثواب کی نیت سے میری زیارت کی میں قیامت كے دن اس کے لئے شفاعت کروں گا اور گواہی دوں گا)

اسے ابن ابی دنیا نے بطريق انس بن مالک روایت کیا اور وہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم سے مذکورہ لفظ سے روایت کرتے ہیں، اور اس کی سند میں سليمان بن زيد كعبی ہیں اور وہ ضعيف الحديث ہیں، اور اسے ابو داؤد طيالسي نے بطریق عمر روایت کیا ہے اور ان کی سند میں ایک راوی مجہول ہے۔

چوتھی حدیث :

_________

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"من جاء ني زائرا لا یعلمه حاجة إلا زیارتي، کان حقا علي أن أکون له شفیعا یوم القیامة”

جو شخص صرف میری زیارت کی خاطر میرے پاس آئے گا، مجھ پر روز قیامت اس کی سفارش کرنا واجب ہوجائے گی۔

(المعجم الکبیر للطبرانی: ۲۹۱/۱۲ح۱۳۱۴۹، المعجم الأوسط للطبرانی: ۴۵۴۳، الخلعیات للخلعي: ۵۲، المعجم لابن المقرئ: ۱۵۸، تاریخ أصبھان لأبي نعیم الأصبھاني: ۱۹۰/۲، الدرّة الثمینة في أخبار المدینة لابن النجّار: ۱۵۵)

ضعیف: اس کی سند ضعیف ہے۔ اس کا راوی مسلمہ بن سالم جہنی (مسلم بن سالم جہنی) "مجہول” اور "ضعیف” ہے۔

حافظ ہیثمی (مجمع الزوائد: ۲/۴) اور حافظ ابن حجر (تقریب التہذیب: ۶۶۲۸) نے اسے "ضعیف” قرار دیا ہے۔ حافظ ابن عبد الہادی (الصارم المنکي: ص۳۶) نے اسے موسیٰ بن ہلال عبدی کی طرح "مجہول الحال” کہا ہے۔ اس کی کوئی توثیق ثابت نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ علامہ نووی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو” ضعیف” قرار دیا ہے۔ (المجموع شرح المھذّب: ۲۷۲/۸)

لہٰذا حافظ عراقی رحمہ اللہ (تخریج أحادیث الإحیاء: ۳۰۶/۱) کا اس کے بارے میں [وصححه ابن السکن] کہنا اس کی صھت کے لیے مفید نہیں۔

حافظ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔ اسے دلیل بنانا اور اس جیسی روایت پر اعتماد کرنا جائز نہیں۔” (الصارم المنکي في الردّ علی السبکي: ص۳۶)

پھر اگر اس روایت کو صحیح مان بھی لیا جائے تو اس سے مراد نبی اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ میں آپ ﷺ کی زیارت ہے، نہ کہ وفات کے بعد قبر کی زیارت۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

حج کے دوران قبر نبی کی زیارت کرنا گویا نبی کریمﷺ کی زندگی میں زیارت کرنا

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا

” من حج، فزار قبري بعد موتي، کان کمن زارني في حیاتي "

جو شخص میری وفات کے بعد حج کرے، پھر میری قبر کی زیارت کرے، گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی ہے۔

(المعجم الکبیر لکبیر للطبرانی:۴۰۶/۱۲، سنن الدارقطنی:۲۷۸/۲، الکامل فی الضعفاء الرجال لابن عدی: ۷۹۰/۲، السنن الکبریٰ للبیہقی:۲۴۶/۵، أخبار مکّة للفاکھی:۴۳۷/۱، مسند أبی یعلیٰ کما فی المطالب العالیة لابن حجر:۳۷۲/۱)

سخت ضعیف : یہ روایت سخت ترین ضعیف ہے، کیونکہ :

اس کا راوی حفص بن سلیمان قاری "متروک الحدیث” ہے۔ (تقریب التہذیب لابن حجر: 1404)

حافظ ہیثمی فرماتے ہیں: "اسے جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔” (مجمع الزوائد: ۱۶۳/۱۰)

حافظ سخاوی رحمہم اللہ فرماتے ہیں: "اسے جمہور اہل علم نے ضعیف کہا ہے” (القول البدیع في الصلاۃ علی الحبیب الشفیع: ص، ۱۲۰)

اس کا دوسرا راوی لیث بن ابو سلیم جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔

حافظ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "اسے جمہور محدثین نے ضعیف قراردیا ہے” (شرح صحیح مسلم: ۵۲/۱)

حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اسے جمہور محدثین نے ضعیف قراردیا ہے” (تخریج أحادیث الاحیاء: ۱۸۱۷)

علامہ ہیثمی کہتے ہیں : "اسے جمہور اہل علم نے ضعیف قراردیا ہے” (مجمع الزوائد: ۹۰/۱، ۹۱، ۱۷۸/۲)

حافظ بوصیری لکھتے ہیں: "اسے جمہور نے ضعیف قراردیا ہے” (زوائد ابن ماجہ: ۵۴۲)

حافظ ابن ملقن فرماتے ہیں: "یہ راوی جمہور کے نزدیک ضعیف ہے” (البدر المنیر: ۱۰۴/۲، تحفة المحتاج:۴۸/۲)

علامہ ابو الحسن سندھی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "زوائد میں ہے کہ لیث بن ابو سلیم راوی کو جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے” (حاشیة السندي علی ابن ماجه: ۱۸۹۱)

” من زار قبری حلت له شفاعتی "

__________________

” جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کی لیے میری شفاعت لازم هو گئی. "

( رواه البزار فی مسنده )

سند یوں لائے ہیں :

حدثنا قتیبه حدثنا عبد الله بن ابراھیم حدثنا عبد الرحمن بن یزید عن ابیه عن ابن عمر عن النبی صلی الله علیه وسلم قال من زار قبری حلت له شفاعتی

یه روایت ائمہ حدیث کے نزدیک ضعیف اور منکر ہی نہیں بلکہ موضوع کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے .

اس روایت کے اندر عبد الله بن ابراھیم هے جو ابو عمرو الغفاری کا بیٹا هے اور یه ایسا راوی هے جو منکر روایتیں بیان کرتا هے. اور بعض ائمہ حدیث نے اس کو کذاب ( جھوٹا ) اور وضاع الحدیث ( یعنی جھوٹی روایتیں بنانے والا ) کہا هے

امام ابو داؤد کا قول هے که یہ شیخ (راوی ) منکر الحدیث هے

امام الدارقطنی کہتے ہیں ں که اس کی روایتیں منکر هوتی هیں

امام الحاکم کہتے ہیں کہ عبدالله ثقات ( سچے ) راویوں کے نام سے گھڑی هوئی روایتیں بیان کرتا هے اور اس کے دوسرے ہم سبق ان جھوٹی روایتوں کو بیان نہیں کرتے

خود امام البزار اس روایت کو بیان کرنے کے بعد لکھتے هیں که عبد الله بن ابراهیم کی اس روایت اور دوسری روایتوں کو کوئی دوسرا بیان نہیں کرتا

میزان الاعتدال الذھبی جلد ٢ صفحه ٣٨٨ تا ٣٨٩

یہاں یه بات سمجھ لینی چاہیے کہ احادیث کے جمع کرنے والے امام یا آئمه کبھی کبھی صحیح ‘ حسن ‘ ضعیف اور موضوع ساری قسم کی روایات کو امت کی معلومات کے لیے لکھ دیتے هیں اور اس کے بعد جو ان روایات کی حیثیت هوتی هے اس کو بھی بیان کر دیتے هیں ظلم تو وه لوگ کرتے جو روایت تو لکھ دیتے هیں مگر جو تبصره محدث ( حدیث لکھنے والے ائمہ نے کیا تھا) اس کو چھوڑ دیتے ہیں . اس طرح سے امت کی گمراهی میں اضافہ هوتا هے

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں