صحیح بخاری جلد دؤم :کتاب تقصیر الصلوۃ (نماز میں قصر کرنے کا بیان) : حدیث:-1108

كتاب تقصير الصلاة
کتاب: نماز میں قصر کرنے کا بیان

Chapter No: 13

باب الْجَمْعِ فِي السَّفَرِ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ

To offer the Maghrib and Isha prayers together on a journey.

باب: سفر میں مغرب اور عشاء (اور ظہر عصر)ملا کر پڑھنا۔

 

[quote arrow=”yes” "]

1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]

2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:

3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:

4: حدیث کا اردو ترجمہ:

5: حدیث کی اردو تشریح:

English Translation :6 

[/quote]

حدیث اعراب کے ساتھ:  [sta_anchor id=”artash”]

حدیث نمبر:1108          

وَعَنْ حُسَيْنٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَجْمَعُ بَيْنَ صَلاَةِ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ فِي السَّفَرِ‏.‏ وَتَابَعَهُ عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ وَحَرْبٌ عَنْ يَحْيَى عَنْ حَفْصٍ عَنْ أَنَسٍ جَمَعَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم.‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏

.حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ:  
[sta_anchor id=”arnotash”]

1108 ـ وعن حسين، عن يحيى بن أبي كثير، عن حفص بن عبيد الله بن أنس، عن أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ قال كان النبي صلىالله عليه وسلم  يجمع بين صلاة المغرب والعشاء في السفر‏.‏ وتابعه علي بن المبارك وحرب عن يحيى عن حفص عن أنس جمع النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:   [sta_anchor id=”urnotash”]
1108 ـ وعن حسین، عن یحیى بن ابی کثیر، عن حفص بن عبید اللہ بن انس، عن انس بن مالک ـ رضى اللہ عنہ ـ قال کان النبی صلى اللہ علیہ وسلم یجمع بین صلاۃ المغرب والعشاء فی السفر‏.‏ وتابعہ علی بن المبارک وحرب عن یحیى عن حفص عن انس جمع النبی صلى اللہ علیہ وسلم‏.‏

‏‏‏اردو ترجمہ:   [sta_anchor id=”urdtrjuma”]

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: نبیﷺ مغرب اور عشاء کی نماز سفر میں ملا کر پڑھتے اور حسین معلم کے ساتھ اس حدیث کو علی بن مبارک نے بھی یحییٰ سے روایت کیا ۔انہوں نے حفص سے ، انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہ نبی ﷺنے جمع کیا۔


حدیث کی اردو تشریح:   [sta_anchor id=”urdtashree”]

 تشریح : امام بخاری رحمہ اللہ جمع کا مسئلہ قصر کے ابواب میں اس لیے لائے کہ جمع بھی گویا ایک طرح کاقصر ہی ہے۔ سفر میں ظہر عصر اور مغرب عشاءکا جمع کرنا اہل حدیث اور امام احمد رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ اور ثوری رحمہ اللہ اور اسحاق سب کے نزدیک جائز ہے خواہ جمع تقدیم کرے یعنی ظہر کے وقت عصر اور مغرب کے وقت عشاءپڑھ لے خواہ جمع تاخیر کرے یعنی عصر کے وقت ظہر اور عشاءکے وقت مغرب بھی پڑھ لے۔ اس بارے میں مزید تفصیل مندرجہ ذیل احادیث سے معلوم ہو سکتی ہے۔
عن معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ قال کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی غزوۃ تبوک اذا زاغت الشمس قبل ان یرتحل جمع بین الظھر والعصر وان ارتحل قبل ان تزیغ الشمس اخر الظھر حتی ینزل للعصر وفی المغرب مثل ذلک اذا غابت الشمس قبل ان یر تحل جمع بن المغرب والعشاءوان ارتحل قبل ان تغیب الشمس اخر المغرب حتی ینزل العشاءثم یجمع بینھما۔ رواہ ابوداؤد والترمذی وقال ھذا حدیث حسن غریب یعنی معاذ بن جبل کہتے ہیں کہ غزوہ تبوک میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اگر کسی دن کوچ کرنے سے پہلے سورج ڈھل جاتا تو آپ ظہر اور عصر ملا کر پڑھ لیتے ( جسے جمع تقدیم کہا جاتا ہے ) اور اگر کبھی آپ کا سفر سورج ڈھلنے سے پہلے ہی شروع ہوجاتا تو ظہر اور عصر ملاکر پڑھتے ( جسے جمع تاخیر کہا جاتا ہے ) مغرب میں بھی آپ کا یہی عمل تھا اگر کوچ کرتے وقت سورج غروب ہو چکا ہوتا تو آپ مغرب اور عشاءملا کر پڑھ لیتے اور اگر سورج غروب ہونے سے قبل ہی سفر شروع ہو جاتا تو پھر مغرب کو مؤخر کر کے عشاءکے ساتھ ملاکر ادا کرتے۔ مسلم شریف میں بھی یہ روایت مختصر مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک میں ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاءملا کر پڑھ لیا کرتے تھے۔
ایک اور حدیث حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس میں مطلق سفر کاذکر ہے اور ساتھ ہی حضرت انس رضی اللہ عنہ یہ بھی بیان فرماتے ہیں کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذارتحل قبل ان تزیغ الشمس اخر الظھر الی وقت العصر الحدیث یعنی سفر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمو ل تھا کہ اگر سفرسورج ڈھلنے سے قبل شروع ہوتا توآپ ظہر کو عصر میں ملالیا کرتے تھے اور اگر سورج ڈھلنے کے بعد آپ سفر کرتے تو ظہر کے ساتھ عصر ملا کر سفر شروع کرتے تھے۔
مسلم شریف میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی ایسا ہی مروی ہے اس میں مزید یہ ہے کہ قال سعیدفقلت لابن عباس ما حملہ علی ذلک قال اراد ان لایحرج امتہ ( رواہ مسلم ص:246 ) یعنی سعید نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اس لیے کیا تاکہ امت تنگی میں نہ پڑ جائے۔
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس بارے میں حضرت علی اور ابن عمر اور انس اور عبد اللہ بن عمر اور حضرت عائشہ اور ابن عباس اور اسامہ بن زید اور جابر رضی اللہ عنہم سے بھی مرویات ہیں اور امام شافعی اوراحمد اور اسحاق رحمہم اللہ بھی یہی کہتے ہیں کہ سفر میں دو نمازوں کا جمع کرنا خواہ جمع تقدیم ہو یا تاخیر بلاخوف وخطر جائز ہے۔
علامہ نووی نے شرح مسلم میں امام شافعی رحمہ اللہ اور اکثر لوگوں کا قول نقل کیا ہے کہ سفر طویل میں جو48میل ہاشمی پر بولا جاتا ہے جمع تقدیم اور جمع تاخیر ہر دو طورپر جمع کرنا جائز ہے اور چھوٹے سفر کے بارے میں امام شافعی رحمہ اللہ کے دو قول ہیں اور ان میں بہت صحیح قول یہ ہے کہ جس سفر میں نماز کا قصر کرنا جائز نہیں اس میں جمع بھی جائز نہیں ہے علامہ شوکانی دررالبھیۃ میں فرماتے ہیں کہ مسافر کے لیے جمع تقدیم اورجمع تاخیر ہر دو طور پر جمع کرنا جائز ہے۔ خواہ اذان اور اقامت سے ظہر میں عصر کو ملائے یا عصر کے ساتھ ظہر کو ملائے۔ اسی طرح مغرب کے ساتھ عشاءپڑھے یا عشاءکے ساتھ مغرب ملائے۔ حنفیہ کے ہاں سفر میں جمع کر کے پڑھنا جائز نہیں ہے۔ ان کی دلیل حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی روایت ہے جسے بخاری اور مسلم اور ابو داؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے کہ میں نے مزدلفہ کے سوا کہیں نہیں دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دو نمازیں ملاکر ادا کی ہوں۔
اس کا جواب صاحب مسک الختام نے یوں دیا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ بیان ہمارے مقصود کے لیے ہرگز مضر نہیں ہے کہ یہی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اپنے اس بیان کے خلاف بیا ن دے رہے ہیں جیسا کہ محدث سلام اللہ نے محلّی شرح مؤطا امام مالک رحمہ اللہ میں مسند ابی سے نقل کیا ہے کہ ابو قیس ازدی کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سفرمیں دو نمازوں کو جمع فرمایا کرتے تھے۔ اب ان کے پہلے بیان میں نفی ہے اور اس میں اثبات ہے اور قاعدہ مقررہ کی رو سے نفی پر اثبات مقدم ہوتا ہے۔ لہذا ثابت ہوا کہ ان کا پہلا بیان محض نسیان کی وجہ سے ہے۔ دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اللہ پاک نے قرآن مجید میں فرمایا ان الصلوٰ ۃ کانت علی المومنین کتابا موقوتا ( النساء: 103 ) یعنی نماز مومنوں پر وقت مقررہ میں فرض ہے اس کا جواب یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کے مفسراول ہیں۔ اور آپ کے عمل سے نمازمیں جمع ثابت ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ جمع بھی وقت موقت ہی میں داخل ہے ورنہ آیت کو اگر مطلق مانا جائے تو پھر مزدلفہ میں بھی جمع کرنا جائز نہیں ہوگا۔ حالانکہ وہاں کے جمع پر حنفی، شافعی اور اہل حدیث سب کا اتفاق ہے۔ بہر حال امر ثابت یہی ہے کہ سفر میں جمع تقدیم وجمع تاخیر ہر دو صورتوں میں جائز ہے۔
وقد روی مسلم عن جابر انہ صلی اللہ علیہ وسلم جمع بین الظھر والعصر بعرفۃ فی وقت الظھر فلو لم یرد من فعلہ الا ھذا لکان ادل دلیل علی جواز جمع التقدیم فی السفر۔ ( قسطلانی ج:2ص:249 ) یعنی امام مسلم نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عصر کی نمازوں کو عرفہ میںظہر کے وقت میں جمع کر کے ادا فرمایا۔ پس اگرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف اسی موقع پر صحیح روایت سے جمع ثابت ہوا۔ یہی بہت بڑی دلیل ہے کہ جمع تقدیم سفر میں جائز ہے۔
علامہ قسطلانی نے امام زہری کا قول نقل کیا ہے کہ انہوں نے سالم سے پوچھا کہ سفر میں ظہر اور عصر کا جمع کرنا کیسا ہے؟انہوں نے فرمایا کہ بلا شک جائز ہے تم دیکھتے نہیں کہ عرفات میں لوگ ظہر اور عصر ملا کر ادا کرتے ہیں۔
پھر علامہ قسطلانی فرماتے ہیں کہ جمع تقدیم کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اول والی نماز پڑھی جائے مثلا ظہر وعصرکو ملانا ہے توپہلے ظہر ادا کی جائے اور یہ بھی ضروری ہے کہ نیت بھی پہلے ظہر ادا کرنے کی جائے اور یہ بھی ضرور ی ہے کہ ان ہر دو نمازوں کو پے در پے پڑھا جائے درمیان میں کسی سنت راتبہ وغیرہ سے فصل نہ ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نمرہ میں ظہر اور عصر کو جمع فرمایا تو والی بینھما وترک الرواتب واقام الصلوۃ بینھماورواہ الشیخان آپ نے ان کو ملا کر پڑھا درمیان میں کوئی سنت نماز نہیں پڑھی اور درمیان میں تکبیر کہی۔ اسے بخاری ومسلم نے بھی روایت کیا ہے ( حوالہ مذکور ) 
ا س بارے میں علامہ شوکانی نے یوں باب منعقد فرمایا ہے باب الجمع باذان واقامتین من غیر تطوع بینھما یعنی نماز کو ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ جمع کرنا اور ان کے درمیان کوئی نفل نماز نہ ادا کرنا۔ پھر آپ اس بارے میں بطور دلیل حدیث ذیل کو لائے ہیں۔
عن ابن عمران النبی صلی اللہ علیہ وسلم صلی المغرب والعشاءبالمزدلفہ جمیعا کل واحدۃ منھما باقامۃ ولم یسبح بینھما ولا علی اثر واحدۃ منھما۔ ( رواہ البخاری والنسائی ) یعنی حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ مزدلفہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب اور عشاءکو الگ الگ اقامت کے ساتھ جمع فرمایا اور نہ آپ نے ان کے درمیان کوئی نفل نماز ادا کی اور نہ ان کے آگے پیچھے۔ جابر کی روایت سے مسلم اوراحمد اور نسائی میں اتنا اور زیادہ ہے ثم اضطجع حتی طلع الفجر پھر آپ لیٹ گئے یہاں تک کہ فجر ہوگئی۔
English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] 
Narrated Anas bin Malik: The Prophet used to offer the Maghrib and the ‘Isha prayers together on journeys.

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں