صحیح بخاری جلد اول : كتاب العلم (علم کا بیان) : حدیث 125

كتاب العلم
کتاب: علم کے بیان میں
THE BOOK OF KNOWLEDGE
47- بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيلاً}:
باب: اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تشریح میں کہ تمہیں تھوڑا علم دیا گیا ہے۔

[quote arrow=”yes”]

حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ حَفْصٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ سُلَيْمَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلْقَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "بَيْنَا أَنَا أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خَرِبِ الْمَدِينَةِ وَهُوَ يَتَوَكَّأُ عَلَى عَسِيبٍ مَعَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَمَرَّ بِنَفَرٍ مِنْ الْيَهُودِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ:‏‏‏‏ سَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ لَا تَسْأَلُوهُ، ‏‏‏‏‏‏لَا يَجِيءُ فِيهِ بِشَيْءٍ تَكْرَهُونَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ لَنَسْأَلَنَّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ رَجُلٌ مِنْهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا أَبَا الْقَاسِمِ، ‏‏‏‏‏‏مَا الرُّوحُ؟ فَسَكَتَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ إِنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُمْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا انْجَلَى عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلا قَلِيلا سورة الإسراء آية 85″، ‏‏‏‏‏‏قَالَ الْأَعْمَشُ:‏‏‏‏ هَكَذَا فِي قِرَاءَتِنَا.
الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:        [sta_anchor id=”arnotash”] 
125 ـ حدثنا قيس بن حفص، قال حدثنا عبد الواحد، قال حدثنا الأعمش، سليمان عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله، قال بينا أنا أمشي، مع النبي صلى الله عليه وسلم في خرب المدينة، وهو يتوكأ على عسيب معه، فمر بنفر من اليهود، فقال بعضهم لبعض سلوه عن الروح‏.‏ وقال بعضهم لا تسألوه لا يجيء فيه بشىء تكرهونه‏.‏ فقال بعضهم لنسألنه‏.‏ فقام رجل منهم فقال يا أبا القاسم، ما الروح فسكت‏.‏ فقلت إنه يوحى إليه‏.‏ فقمت، فلما انجلى عنه، قال ‏{‏ويسألونك عن الروح قل الروح من أمر ربي وما أوتيتم من العلم إلا قليلا‏}‏‏.‏ قال الأعمش هكذا في قراءتنا‏.‏
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:   [sta_anchor id=”urnotash”]
125 ـ حدثنا قیس بن حفص، قال حدثنا عبد الواحد، قال حدثنا الاعمش، سلیمان عن ابراہیم، عن علقمۃ، عن عبد اللہ، قال بینا انا امشی، مع النبی صلى اللہ علیہ وسلم فی خرب المدینۃ، وہو یتوکا على عسیب معہ، فمر بنفر من الیہود، فقال بعضہم لبعض سلوہ عن الروح‏.‏ وقال بعضہم لا تسالوہ لا یجیء فیہ بشىء تکرہونہ‏.‏ فقال بعضہم لنسالنہ‏.‏ فقام رجل منہم فقال یا ابا القاسم، ما الروح فسکت‏.‏ فقلت انہ یوحى الیہ‏.‏ فقمت، فلما انجلى عنہ، قال ‏{‏ویسالونک عن الروح قل الروح من امر ربی وما اوتیتم من العلم الا قلیلا‏}‏‏.‏ قال الاعمش ہکذا فی قراءتنا‏.‏
‏.‏

ا اردو ترجمہ:   [sta_anchor id=”urdtrjuma”]

ہم سے قیس بن حفص نے بیان کیا، ان سے عبدالواحد نے، ان سے اعمش سلیمان بن مہران نے ابراہیم کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے علقمہ سے نقل کیا، انہوں نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کیا، وہ کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کے کھنڈرات میں چل رہا تھا اور آپ کھجور کی چھڑی پر سہارا دے کر چل رہے تھے، تو کچھ یہودیوں کا (ادھر سے) گزر ہوا، ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ آپ سے روح کے بارے میں کچھ پوچھو، ان میں سے کسی نے کہا مت پوچھو، ایسا نہ ہو کہ وہ کوئی ایسی بات کہہ دیں جو تمہیں ناگوار ہو (مگر) ان میں سے بعض نے کہا کہ ہم ضرور پوچھیں گے، پھر ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا، اے ابوالقاسم! روح کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار فرمائی، میں نے (دل میں) کہا کہ آپ پر وحی آ رہی ہے۔ اس لیے میں کھڑا ہو گیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (وہ کیفیت) دور ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (قرآن کی یہ آیت جو اس وقت نازل ہوئی تھی) تلاوت فرمائی (اے نبی!) تم سے یہ لوگ روح کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ کہہ دو کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے۔ اور تمہیں علم کا بہت تھوڑا حصہ دیا گیا ہے۔ (اس لیے تم روح کی حقیقت نہیں سمجھ سکتے) اعمش کہتے ہیں کہ ہماری قرآت میں «وما اوتوا» ہے۔ ( «‏‏‏‏وما اوتيتم» ‏‏‏‏) نہیں۔

حدیث کی اردو تشریح:   [sta_anchor id=”urdtashree”]

تشریح : چونکہ توارۃ میں بھی روح کے متعلق یہ ہی بیان کیا گیا کہ وہ خدا کی طرف سے ایک چیز ہے، اس لیے یہودی معلوم کرنا چاہتے تھے کہ ان کی تعلیم بھی توراۃ کے مطابق ہے یا نہیں؟ یاروح کے سلسلہ میں یہ بھی ملاحدہ وفلاسفہ کی طرح دوراز کار باتیں کہتے ہیں۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوال آپ سے مکہ شریف میں بھی کیا گیا تھا، پھر مدینہ کے یہودی نے بھی اسے دہرایا۔اہل سنت کے نزدیک روح جسم لطیف ہے جو بدن میں اسی طرح سرایت کئے ہوئے ہے، جس طرح گلاب کی خوشبو اس کے پھول میں سرایت کئے ہوتی ہے۔ روح کے بارے میں ستراقوال ہیں۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے کتاب الروح میں ان پر خوب روشنی ڈالی ہے۔ واقعہ یہی ہے کہ روح خالص ایک لطیف شئے ہے، اس لیے ہم اپنی موجودہ زندگی میں جو کثافت سے بھرپورہے کسی طرح روح کی حقیقت سے واقف نہیں ہوسکتے، اکابراہل سنت کی یہی رائے ہے کہ ادب کا تقاضا یہی ہے کہ روح کے بارے میں سکوت اختیار کیا جائے، بعض علماءکی رائے ہے کہ من امرربی سے مراد روح کا عالم امر سے ہونا ہے جو عالم ملکوت ہے، جمہور کا اتفاق ہے کہ روح حادث ہے جس طرح دوسرے تمام اجزا حادث ہیں۔ حضرت امام قدس سرہ کا منشائے باب یہ ہے کہ کوئی شخص کتنا ہی بڑا عالم فاضل محدث مفسر بن جائے مگر پھر بھی انسانی معلومات کا سلسلہ بہت محدود ہے اور کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ وہ جملہ علوم پر حاوی ہوچکا ہے ،الا من شاءاللہ۔

 

English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] 

Narrated `Abdullah: While I was going with the Prophet through the ruins of Medina and he was reclining on a date-palm leaf stalk, some Jews passed by. Some of them said to the others: Ask him (the Prophet) about the spirit. Some of them said that they should not ask him that question as he might give a reply which would displease them. But some of them insisted on asking, and so one of them stood up and asked, "O Abul-Qasim ! What is the spirit?” The Prophet remained quiet. I thought he was being inspired Divinely. So I stayed till that state of the Prophet (while being inspired) was over. The Prophet then said, "And they ask you (O Muhammad) concerning the spirit –Say: The spirit — its knowledge is with my Lord. And of knowledge you (mankind) have been given only a little).” (17.85)

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں