صحیح بخاری جلد دؤم : کتاب الجنائز( جنازے کے احکام و مسائل) : حدیث:-1368

کتاب الجنائز
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل

Chapter No: 85

باب ثَنَاءِ النَّاسِ عَلَى الْمَيِّتِ

The praising of a deceased by the people.

باب: میت کی تعریف کرنا جائز ہے۔

[quote arrow=”yes” "]
1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]

2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:

3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:

4: حدیث کا اردو ترجمہ:

5: حدیث کی اردو تشریح:

English Translation :6 

[/quote]

حدیث اعراب کے ساتھ:  [sta_anchor id=”artash”]

حدیث نمبر:1368         

حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي الْفُرَاتِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِي الأَسْوَدِ، قَالَ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ وَقَدْ وَقَعَ بِهَا مَرَضٌ، فَجَلَسْتُ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ـ رضى الله عنه ـ فَمَرَّتْ بِهِمْ جَنَازَةٌ فَأُثْنِيَ عَلَى صَاحِبِهَا خَيْرًا فَقَالَ عُمَرُ ـ رضى الله عنه ـ وَجَبَتْ‏.‏ ثُمَّ مُرَّ بِأُخْرَى فَأُثْنِيَ عَلَى صَاحِبِهَا خَيْرًا، فَقَالَ عُمَرُ ـ رضى الله عنه ـ وَجَبَتْ‏.‏ ثُمَّ مُرَّ بِالثَّالِثَةِ، فَأُثْنِيَ عَلَى صَاحِبِهَا شَرًّا فَقَالَ وَجَبَتْ‏.‏ فَقَالَ أَبُو الأَسْوَدِ فَقُلْتُ وَمَا وَجَبَتْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ قُلْتُ كَمَا قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ أَيُّمَا مُسْلِمٍ شَهِدَ لَهُ أَرْبَعَةٌ بِخَيْرٍ أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ ‏”‏‏.‏ فَقُلْنَا وَثَلاَثَةٌ قَالَ ‏”‏ وَثَلاَثَةٌ ‏”‏‏.‏ فَقُلْنَا وَاثْنَانِ قَالَ ‏”‏ وَاثْنَانِ ‏”‏‏.‏ ثُمَّ لَمْ نَسْأَلْهُ عَنِ الْوَاحِدِ‏‏‏.‏

.حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ:    [sta_anchor id=”arnotash”]

1368 – حدثنا عفان بن مسلم، حدثنا داود بن أبي الفرات، عن عبد الله بن بريدة، عن أبي الأسود، قال قدمت المدينة وقد وقع بها مرض، فجلست إلى عمر بن الخطاب ـ رضى الله عنه ـ فمرت بهم جنازة فأثني على صاحبها خيرا فقال عمر ـ رضى الله عنه ـ وجبت‏.‏ ثم مر بأخرى فأثني على صاحبها خيرا، فقال عمر ـ رضى الله عنه ـ وجبت‏.‏ ثم مر بالثالثة، فأثني على صاحبها شرا فقال وجبت‏.‏ فقال أبو الأسود فقلت وما وجبت يا أمير المؤمنين قال قلت كما قال النبي صلى الله عليهوسلم  ‏”‏ أيما مسلم شهد له أربعة بخير أدخله الله الجنة ‏”‏‏.‏ فقلنا وثلاثة قال ‏”‏ وثلاثة ‏”‏‏.‏ فقلنا واثنان قال ‏”‏ واثنان ‏”‏‏.‏ ثم لم نسأله عن الواحد‏.‏
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:   [sta_anchor id=”urnotash”]
1368 ـ حدثنا عفان بن مسلم، حدثنا داود بن ابی الفرات، عن عبد اللہ بن بریدۃ، عن ابی الاسود، قال قدمت المدینۃ وقد وقع بہا مرض، فجلست الى عمر بن الخطاب ـ رضى اللہ عنہ ـ فمرت بہم جنازۃ فاثنی على صاحبہا خیرا فقال عمر ـ رضى اللہ عنہ ـ وجبت‏.‏ ثم مر باخرى فاثنی على صاحبہا خیرا، فقال عمر ـ رضى اللہ عنہ ـ وجبت‏.‏ ثم مر بالثالثۃ، فاثنی على صاحبہا شرا فقال وجبت‏.‏ فقال ابو الاسود فقلت وما وجبت یا امیر المومنین قال قلت کما قال النبی صلى اللہ علیہوسلم  ‏”‏ ایما مسلم شہد لہ اربعۃ بخیر ادخلہ اللہ الجنۃ ‏”‏‏.‏ فقلنا وثلاثۃ قال ‏”‏ وثلاثۃ ‏”‏‏.‏ فقلنا واثنان قال ‏”‏ واثنان ‏”‏‏.‏ ثم لم نسالہ عن الواحد‏.‏
‏‏‏‏‏‏‏اردو ترجمہ:   [sta_anchor id=”urdtrjuma”]

ابو الاسود سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں مدینہ میں آیا اس وقت وہاں بیماری پھیلی ہوئی تھی۔میں حضرت عمررضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا تھا، اتنے میں ایک جنازہ سامنے سے گزرا۔ لوگوں نے اس کی تعریف کی۔حضرت عمررضی اللہ عنہ نے کہا: واجب ہوگئی۔ پھر ایک اور جنازہ گزرا۔ لوگوں نے اس کی تعریف کی۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: واجب ہوگئی۔پھر ایک اور جنازہ گزرا لوگوں نے اس کی برائی کی۔ انہوں نے کہا: واجب ہوگئی۔ ابولاسود نے کہا: اے امیرالمؤمنین کیا چیز واجب ہوگئی۔حضرت عمررضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے وہی کہا جیسے نبیﷺ نے فرمایا تھا جس مسلمان کی اچھائی پر چارمسلمان گواہی دیں اللہ اس کو جنّت میں لےجائے گا ہم نے عرض کیا اگرتین مسلمان گواہی دیں آپﷺنے فرمایا: تین بھی۔ ہم نے عرض کیا اگر دو مسلمان گواہی دیں؟آپ ﷺنے فرمایا دو بھی۔پھر ہم نے یہ نہیں پوچھا کہ اگر ایک مسلمان گواہی دے۔

حدیث کی اردو تشریح:   [sta_anchor id=”urdtashree”]

تشریح : باب کا مقصد یہ ہے کہ مرنے والوں نیکیوں کا ذکر خیر کرنا اور اسے نیک لفظوں سے یاد کرنا بہتر ہے۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فی روایۃ النضربن انس عن ابیہ عند الحاکم کنت قاعدا عندالنبی صلی اللہ علیہ وسلم فمر بجنازۃ فقال ما ہذہ الجنازۃ قالوا جنازۃ فلان الفلانی کان یحب اللہ ورسولہ ویعمل بطاعۃ اللہ ویسعی فیہا وقال ضد ذلک فی التی اثنوا علیہا شرا ففیہ تفسیر ماابہم من الخیر والشر فی روایۃ عبدالعزیز والحاکم ایضا من حدیث جابر فقال بعضہم لنعم المرالقد کان عفیفا مسلما وفیہ ایضا فقال بعضہم بئس المرا کان ان کان لفظا غلیظا ( فتح الباری ) یعنی مسند حاکم میں نضربن انس عن ابیہ کی روایت میں یوں ہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک جنازہ وہاں سے گزارا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ کس کا جنازہ ہے؟ لوگوں نے کہا کہ فلان بن فلان کا ہے جو اللہ اور رسول سے محبت رکھتا اور طاعت الٰہی میں عمل کرتا اور کوشاں رہتا تھا اور جس پر برائی کی گئی اس کا ذکر اس کے برعکس کیا گیا۔ پس اس روایت میں ابہام خیرو شر کی تفصیل مذکور ہے اور حاکم میں حدیث جابر بھی یوں ہے کہ بعض لوگوں نے کہا کہ یہ شخص بہت اچھا پاک دامن مسلمان تھا اور دوسرے کے لیے کہا گیا کہ وہ برا آدمی اور بداخلاق سخت کلامی کرنے والا تھا۔
خلاصہ یہ کہ مرنے والے کے متعلق اہل ایمان نیک لوگوں کی شہادت جس طور بھی ہو وہ بڑا وزن رکھتی ہے لفظ انتم شہداءاللہ فی الارض میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔ خود قرآن مجید میں بھی یہ مضمون ان لفظوں میں مذکور ہے وَکَذٰلِکَ جَعَلنٰکُم اُمَّۃً وَّسَطاً لِّتَکُونُوا شُہَدَائَ عَلَی النَّاسِ ( البقرۃ:143 ) ہم نے تم کو درمیانی امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بن جاؤ۔ شہادت کی ایک صورت یہ بھی ہے جو یہاں حدیث میں مذکور ہے۔
English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] 
Narrated By Abu Al-Aswad : I came to Medina when an epidemic had broken out. While I was sitting with ‘Umar bin Al-Khattab a funeral procession passed by and the people praised the deceased. ‘Umar said, "It has been affirmed to him.” And another funeral procession passed by and the people praised the deceased. ‘Umar said, "It has been affirmed to him.” A third (funeral procession) passed by and the people spoke badly of the deceased. He said, "It has been affirmed to him.” I (Abu Al-Aswad) asked, "O chief of the believers! What has been affirmed?” He replied, "I said the same as the Prophet had said, that is: if four persons testify the piety of a Muslim, Allah will grant him Paradise.” We asked, "If three persons testify his piety?” He (the Prophet) replied, "Even three.” Then we asked, "If two?” He replied, "Even two.” We did not ask him regarding one witness.

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں