صحیح بخاری جلد اول : كتاب الإيمان (ایمان کا بیان) : حدیث 36

كتاب الإيمان
کتاب: ایمان کے بیان میں
.(THE BOOK OF BELIEF (FAITH
 
26- بَابُ الْجِهَادُ مِنَ الإِيمَانِ:
باب: جہاد بھی جزو ایمان ہے۔
حَدَّثَنَا حَرَمِيُّ بْنُ حَفْصٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عُمَارَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو زُرْعَةَ بْنُ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "انْتَدَبَ اللَّهُ لِمَنْ خَرَجَ فِي سَبِيلِهِ لَا يُخْرِجُهُ إِلَّا إِيمَانٌ بِي وَتَصْدِيقٌ بِرُسُلِي، ‏‏‏‏‏‏أَنْ أُرْجِعَهُ بِمَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ أَوْ غَنِيمَةٍ أَوْ أُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي مَا قَعَدْتُ خَلْفَ سَرِيَّةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَوَدِدْتُ أَنِّي أُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أُحْيَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أُقْتَلُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أُحْيَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أُقْتَلُ”.

حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:        [sta_anchor id=”arnotash”] 

36 ـ حدثنا حرمی بن حفص، قال حدثنا عبد الواحد، قال حدثنا عمارۃ، قال حدثنا ابو زرعۃ بن عمرو بن جریر، قال سمعت ابا ہریرۃ، عن النبی صلى اللہ علیہ وسلم قال ‏”‏ انتدب اللہ لمن خرج فی سبیلہ لا یخرجہ الا ایمان بی وتصدیق برسلی ان ارجعہ بما نال من اجر او غنیمۃ، او ادخلہ الجنۃ، ولولا ان اشق على امتی ما قعدت خلف سریۃ، ولوددت انی اقتل فی سبیل اللہ ثم احیا، ثم اقتل ثم احیا، ثم اقتل ‏”‏‏.‏
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:   [sta_anchor id=”urnotash”]
36 ـ حدثنا حرمي بن حفص، قال حدثنا عبد الواحد، قال حدثنا عمارة، قال حدثنا أبو زرعة بن عمرو بن جرير، قال سمعت أبا هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏”‏ انتدب الله لمن خرج في سبيله لا يخرجه إلا إيمان بي وتصديق برسلي أن أرجعه بما نال من أجر أو غنيمة، أو أدخله الجنة، ولولا أن أشق على أمتي ما قعدت خلف سرية، ولوددت أني أقتل في سبيل الله ثم أحيا، ثم أقتل ثم أحيا، ثم أقتل ‏”‏‏.‏

حدیث کا اردو ترجمہ:   [sta_anchor id=”urdtrjuma”]

ہم سے حرمی بن حفص نے بیان کیا، ان سے عبدالواحد نے، ان سے عمارہ نے، ان سے ابوزرعہ بن عمرو بن جریر نے، وہ کہتے ہیں میں نے ابوہریرہ سے سنا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ کی راہ میں (جہاد کے لیے) نکلا، اللہ اس کا ضامن ہو گیا۔ (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) اس کو میری ذات پر یقین اور میرے پیغمبروں کی تصدیق نے (اس سرفروشی کے لیے گھر سے) نکالا ہے۔ (میں اس بات کا ضامن ہوں) کہ یا تو اس کو واپس کر دوں ثواب اور مال غنیمت کے ساتھ، یا (شہید ہونے کے بعد) جنت میں داخل کر دوں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) اور اگر میں اپنی امت پر (اس کام کو) دشوار نہ سمجھتا تو لشکر کا ساتھ نہ چھوڑتا اور میری خواہش ہے کہ اللہ کی راہ میں مارا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں۔

۔

حدیث کی اردو تشریح:   [sta_anchor id=”urdtashree”]

تشریح : حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ نے پچھلے ابواب میں نفاق کی نشانیوں کا ذکر فرمایا تھا، اب ایمان کی نشانیوں کو شروع فرما رہے ہیں۔ چنانچہ لیلۃ القدر کا قیام جوخالصاً اللہ کی رضاکے لیے ہو۔ بتلایاگیا کہ وہ بھی ایمان کا ایک حصہ ہے۔ اس سے حضرت امام کا مقصد ثابت ہوا کہ  اعمال صالحہ ایمان میں داخل ہیں اور ان کی کمی وبیشی پر ایمان کی کمی وبیشی منحصرہے۔ پس مرجیہ وکرامیہ جوعقائد رکھتے ہیں وہ سراسر باطل ہیں۔لیلۃ القدر تقدیر سے ہے یعنی اس سال میں جو حوادث پیش آنے والے ہیں ان کی تقدیرات کا علم فرشتوں کودیا جاتا ہے، قدر کے معنی حرمت کے بھی ہیں اور اس رات کی عزت قرآن مجید ہی سے ظاہر ہے، شب قدر رمضان شریف کی طاق راتوں میں سے ایک رات ہے جو ہرسال ادلتی بدلتی رہتی ہے۔ قیام رمضان اور قیام لیلۃ القدر من الدین کے درمیان حضرت امام نے “ جہاد ” کا ذکر فرمایا کہ یہ بھی ایمان کا ایک جزواعظم ہے۔ حضرت امام نے اپنی گہری نظر کی بنا پر جہاں اشارہ فرمایا ہے کہ جہاد مع النفس ہو ( یعنی نفس کے ساتھ جہاد ہو ) جیسا کہ رمضان شریف کے روزے اور قیام لیلۃ القدر وغیرہ ہیں۔ یہ بھی ایمان میں داخل ہیں۔ اور جہاد بالکفار ہو تو یہ بھی ایمان کا حصہ ہے۔ نیز اس طرف بھی اشارہ کرنا ہے کہ جہاد اگر رمضان شریف میں واقع ہو تو اور زیادہ ثواب ہے۔ پھر اگر شہادت فی سبیل اللہ بھی نصیب ہوجائے تو نور علی نو رہے۔
حدیث سے جہاد کا مفہوم ظاہر ہے کہ مجاہد فی سبیل اللہ صرف وہی ہے جس کا خروج خالص اللہ کی رضا کے لیے ہو۔ تصدیق رسل سے مراد ان جملہ بشارتوں پر ایمان لانا اور ان کی تصدیق کرنا ہے جو اللہ کے رسولوں نے جہاد فی سبیل اللہ سے متعلق بیان فرمائی ہیں۔ مجاہد فی سبیل اللہ کے لیے اللہ پاک نے دوذمہ داریاں لی ہیں۔ اگراسے درجہ شہادت مل گیا تو وہ سیدھا جنت میں داخل ہوا، حوروں کی گود میں پہنچا اور حساب وکتاب سب سے مستثنیٰ ہوگیا۔ وہ جنت کے میوے کھاتا ہے اور معلق قندیلوں میں بسیرا کرتا ہے اور اگروہ سلامتی کے ساتھ گھر واپس آگیا تو وہ پورے پورے ثواب کے ساتھ اور ممکن ہے کہ مال غنیمت کے ساتھ بھی واپس ہوا ہو۔
اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شہادت کی تمنا فرمائی۔ جس سے آپ امت کو مرتبہ شہادت بتلانا چاہتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ نے مومنوں سے ان کی جانوں اور مالوں کے بدلے میں جنت کا سودا کرلیا ہے جو بہترین سودا ہے۔
حدیث شریف میں جہاد کو قیامت تک جاری رہنے کی خبر دی گئی ہے۔ ہاں طریقہ کارحالات کے تحت بدلتا رہے گا۔ آج کل قلبی جہاد بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔

English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] 

Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "The person who participates in (Holy battles) in Allah’s cause and nothing compels him to do so except belief in Allah and His Apostles, will be recompensed by Allah either with a reward, or booty (if he survives) or will be admitted to Paradise (if he is killed in the battle as a martyr). Had I not found it difficult for my followers, then I would not remain behind any sariya going for Jihad and I would have loved to be martyred in Allah’s cause and then made alive, and then martyred and then made alive, and then again martyred in His cause.”

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں