صحیح بخاری جلد اول : كتاب الإيمان (ایمان کا بیان) : حدیث 58

كتاب الإيمان
کتاب: ایمان کے بیان میں
.(THE BOOK OF BELIEF (FAITH
 
42- بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الدِّينُ النَّصِيحَةُ لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ وَلأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ»
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ دین سچے دل سے اللہ کی فرمانبرداری اور اس کے رسول اور مسلمان حاکموں اور تمام مسلمانوں کی خیر خواہی کا نام ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ جَرِيرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ يَوْمَ مَاتَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ قَامَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ "عَلَيْكُمْ بِاتِّقَاءِ اللَّهِ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَالْوَقَارِ وَالسَّكِينَةِ حَتَّى يَأْتِيَكُمْ أَمِيرٌ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّمَا يَأْتِيكُمُ الْآنَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ اسْتَعْفُوا لِأَمِيرِكُمْ فَإِنَّهُ كَانَ يُحِبُّ الْعَفْوَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ أَمَّا بَعْدُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنِّي أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ أُبَايِعُكَ عَلَى الْإِسْلَامِ، ‏‏‏‏‏‏فَشَرَطَ عَلَيَّ وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ، ‏‏‏‏‏‏فَبَايَعْتُهُ عَلَى هَذَا”، ‏‏‏‏‏‏وَرَبِّ هَذَا الْمَسْجِدِ إِنِّي لَنَاصِحٌ لَكُمْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ اسْتَغْفَرَ وَنَزَلَ.
عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:        [sta_anchor id=”arnotash”] 
58 ـ حدثنا أبو النعمان، قال حدثنا أبو عوانة، عن زياد بن علاقة، قال سمعت جرير بن عبد الله، يقول يوم مات المغيرة بن شعبة قام فحمد الله وأثنى عليه وقال عليكم باتقاء الله وحده لا شريك له، والوقار والسكينة حتى يأتيكم أمير، فإنما يأتيكم الآن، ثم قال استعفوا لأميركم، فإنه كان يحب العفو‏.‏ ثم قال أما بعد، فإني أتيت النبي صلى الله عليه وسلم قلت أبايعك على الإسلام‏.‏ فشرط على والنصح لكل مسلم‏.‏ فبايعته على هذا، ورب هذا المسجد إني لناصح لكم‏.‏ ثم استغفر ونزل‏.‏
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:   [sta_anchor id=”urnotash”]
58 ـ حدثنا ابو النعمان، قال حدثنا ابو عوانۃ، عن زیاد بن علاقۃ، قال سمعت جریر بن عبد اللہ، یقول یوم مات المغیرۃ بن شعبۃ قام فحمد اللہ واثنى علیہ وقال علیکم باتقاء اللہ وحدہ لا شریک لہ، والوقار والسکینۃ حتى یاتیکم امیر، فانما یاتیکم الان، ثم قال استعفوا لامیرکم، فانہ کان یحب العفو‏.‏ ثم قال اما بعد، فانی اتیت النبی صلى اللہ علیہ وسلم قلت ابایعک على الاسلام‏.‏ فشرط على والنصح لکل مسلم‏.‏ فبایعتہ على ہذا، ورب ہذا المسجد انی لناصح لکم‏.‏ ثم استغفر ونزل‏.‏

حدیث کا اردو ترجمہ:   [sta_anchor id=”urdtrjuma”]

ہم سے ابونعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، انہوں نے زیاد سے، انہوں نے علاقہ سے، کہا میں نے جریر بن عبداللہ سے سنا جس دن مغیرہ بن شعبہ (حاکم کوفہ) کا انتقال ہوا تو وہ خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے اور اللہ کی تعریف اور خوبی بیان کی اور کہا تم کو اکیلے اللہ کا ڈر رکھنا چاہیے اس کا کوئی شریک نہیں اور تحمل اور اطمینان سے رہنا چاہیے اس وقت تک کہ کوئی دوسرا حاکم تمہارے اوپر آئے اور وہ ابھی آنے والا ہے۔ پھر فرمایا کہ اپنے مرنے والے حاکم کے لیے دعائے مغفرت کرو کیونکہ وہ (مغیرہ) بھی معافی کو پسند کرتا تھا پھر کہا کہ اس کے بعد تم کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے عرض کیا کہ میں آپ سے اسلام پر بیعت کرتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھ سے ہر مسلمان کی خیر خواہی کے لیے شرط کی، پس میں نے اس شرط پر آپ سے بیعت کر لی (پس) اس مسجد کے رب کی قسم کہ میں تمہارا خیرخواہ ہوں پھر استغفار کیا اور منبر سے اتر آئے۔

حدیث کی اردو تشریح:   [sta_anchor id=”urdtashree”]

تشریح : اللہ اور رسول کی خیرخواہی یہ ہے کہ ان کی تعظیم کرے۔ زندگی بھر ان کی فرمانبرداری سے منہ نہ موڑے، اللہ کی کتاب کی اشاعت کرے، حدیث نبوی کو پھیلائے، ان کی اشاعت کرے اور اللہ ورسول کے خلاف کسی پیرومرشد مجتہد امام مولوی کی بات ہرگز نہ مانے۔

ہوتے ہوئے مصطفی کی گفتار
مت دیکھ کسی کا قول و کردار
جب اصل ہے تو نقل کیا ہے
یاں وہم و خطا کا دخل کیا ہے

حضرت مغیرہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے کوفہ کے حاکم تھے۔ انھوں نے انتقال کے وقت حضرت جریر بن عبداللہ کو اپنا نائب بنادیا تھا، اس لیے حضرت جریر نے ان کی وفات پر یہ خطبہ دیا اور لوگوں کو نصیحت کی کہ دوسرا حاکم آنے تک کوئی شروفساد نہ کرو بلکہ صبر سے ان کا انتظار کرو۔ شروفساد کوفہ والوں کی فطرت میں تھا، اس لیے آپ نے ان کو تنبیہ فرمائی۔ کہتے ہیں کہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت مغیرہ کے بعد زیادکوکوفہ کا حاکم مقرر کیا جو پہلے بصرہ کے گورنر تھے۔
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الایمان کو اس حدیث پر ختم کیا جس میں اشارہ ہے کہ حضرت جریر رضی اللہ عنہ کی طرح میں نے جو کچھ یہاں لکھا ہے محض مسلمانوں کی خیرخواہی اور بھلائی مقصود ہے ہرگز کسی سے عناد اور تعصب نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ خیال کرتے چلے آتے ہیں اور آج بھی موجود ہیں۔ ساتھ ہی حضرت امام قدس سرہ نے یہاں یہ بھی اشارہ کیا کہ میں نے ہمیشہ صبروتحمل سے کام لیتے ہوئے معافی کو پسند کیا ہے پس آنے والے مسلمان بھی قیامت تک میری مغفرت کے لیے دعا کرتے رہا کریں۔ غفراللہ لہ آمین۔
صاحب ایضاح البخاری نے کیا خوب فرمایا ہے کہ “ امام ہمیں یہ بتلارہے ہیں کہ ہم نے ابواب سابقہ میں مرجیہ، خارجیہ اور کہیں بعض اہل سنت پر تعریضات کی ہیں لیکن ہماری نیت میں اخلاص ہے۔ خواہ مخواہ کی چھیڑ چھاڑ ہمارا مقصد نہیں اور نہ ہمیں شہرت کی ہوس ہے بلکہ یہ ایک خیرخواہی کے جذبہ سے ہم نے کیا اور جہاں کوئی فرقہ بھٹک گیا یا کسی انسان کی رائے ہمیں درست نظر نہ آئی وہاں ہم نے بہ نیت ثواب صحیح بات وضاحت سے بیان کردی۔ ” ( ایضاح البخاری، ص: 428 )
امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: والنصیحۃ من نصحۃ العسل اذا صفیتہ اومن النصح وہو الخیاطۃ بالنصیحۃ یعنی لفظ نصیحت نصحہ العسل سے ماخوذ ہے جب شہد موم سے الگ کرلیاگیا ہو یانصیحت سوئی سے سینے کے معنی میں ہے جس سے کپڑے کے مختلف ٹکڑے جوڑجوڑ کر ایک کردیئے جاتے ہیں۔ اسی طرح نصیحت بمعنی خیرخواہی سے مسلمانوں کا باہمی اتحاد مطلوب ہے۔ ( الحمد للہ کہ کتاب الایمان آج اواخرذی الحجہ1386ھ کو بروز یک شنبہ ختم ہوئی۔ راز

English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] 

Narrated Ziyad bin’Ilaqa: I heard Jarir bin ‘Abdullah (Praising Allah). On the day when Al-Mughira bin Shu’ba died, he (Jarir) got up (on the pulpit) and thanked and praised Allah and said, "Be afraid of Allah alone Who has none along with Him to be worshipped.(You should) be calm and quiet till the (new) chief comes to you and he will come to you soon. Ask Allah’s forgiveness for your (late) chief because he himself loved to forgive others.” Jarir added, "Amma badu (now then), I went to the Prophet and said, ‘I give my pledge of allegiance to you for Islam.” The Prophet conditioned (my pledge) for me to be sincere and true to every Muslim so I gave my pledge to him for this. By the Lord of this mosque! I am sincere and true to you (Muslims). Then Jarir asked for Allah’s forgiveness and came down (from the pulpit).

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں