صحیح بخاری جلد اول :كتاب صلاة الخوف (نماز خوف کے مسائل کے بیان میں) : حدیث:-947

كتاب صلاة الخوف
کتاب: نماز خوف کا بیان
The Book of Salat-Ul-Khauf (Fear Prayer).
6- بَابُ التَّبْكِيرِ وَالْغَلَسِ بِالصُّبْحِ وَالصَّلاَةِ عِنْدَ الإِغَارَةِ وَالْحَرْبِ:
باب: حملہ کرنے سے پہلے صبح کی نماز اندھیرے میں جلدی پڑھ لینا اسی طرح لڑائی میں (طلوع فجر کے بعد فوراً ادا کر لینا)۔
(6) Chapter. Takbir (Allah is the Most Great) and offering the Fajr prayer early when it is still dark and offering As-Salat (the prayers) while attacking the enemy and in battles.

 

[quote arrow=”yes” "]

1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]

2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:

3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:

4: حدیث کا اردو ترجمہ:

5: حدیث کی اردو تشریح:

English Translation :6 

[/quote]

حدیث اعراب کے ساتھ:  [sta_anchor id=”artash”]

حدیث نمبر:947           

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حَمَّادُ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ ، وَثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، ” أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى الصُّبْحَ بِغَلَسٍ ، ثُمَّ رَكِبَ فَقَالَ : اللَّهُ أَكْبَرُ خَرِبَتْ خَيْبَرُ ، إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ ، فَخَرَجُوا يَسْعَوْنَ فِي السِّكَكِ وَيَقُولُونَ : مُحَمَّدٌ ، وَالْخَمِيسُ ، قَالَ : وَالْخَمِيسُ الْجَيْشُ فَظَهَرَ عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَتَلَ الْمُقَاتِلَةَ وَسَبَى الذَّرَارِيَّ ، فَصَارَتْ صَفِيَّةُ لِدِحْيَةَ الْكَلْبِيِّ وَصَارَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ تَزَوَّجَهَا وَجَعَلَ صَدَاقَهَا عِتْقَهَا ، فَقَالَ عَبْدُ الْعَزِيز لِثَابِتٍ : يَا أَبَا مُحَمَّدٍ أَنْتَ سَأَلْتَ أَنَسًامَا أَمْهَرَهَا ؟ قَالَ : أَمْهَرَهَا نَفْسَهَا فَتَبَسَّمَ ” .

.حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ:        [sta_anchor id=”arnotash”]

947 ـ حدثنا مسدد، قال حدثنا حماد، عن عبد العزيز بن صهيب، وثابت البناني، عن أنس بن مالك، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى الصبح بغلس ثم ركب فقال ‏”‏ الله أكبر خربت خيبر، إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين ‏”‏‏.‏ فخرجوا يسعون في السكك ويقولون محمد والخميس ـ قال والخميس الجيش ـ فظهر عليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم فقتل المقاتلة وسبى الذراري، فصارت صفية لدحية الكلبي، وصارت لرسول الله صلى الله عليه وسلم ثم تزوجها وجعل صداقها عتقها‏.‏ فقال عبد العزيز لثابت يا أبا محمد، أنت سألت أنسا ما أمهرها قال أمهرها نفسها‏.‏ فتبسم‏.‏

حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:   [sta_anchor id=”urnotash”]

947 ـ حدثنا مسدد، قال حدثنا حماد، عن عبد العزیز بن صہیب، وثابت البنانی، عن انس بن مالک، ان رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم صلى الصبح بغلس ثم رکب فقال ‏”‏ اللہ اکبر خربت خیبر، انا اذا نزلنا بساحۃ قوم فساء صباح المنذرین ‏”‏‏.‏ فخرجوا یسعون فی السکک ویقولون محمد والخمیس ـ قال والخمیس الجیش ـ فظہر علیہم رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم فقتل المقاتلۃ وسبى الذراری، فصارت صفیۃ لدحیۃ الکلبی، وصارت لرسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ثم تزوجہا وجعل صداقہا عتقہا‏.‏ فقال عبد العزیز لثابت یا ابا محمد، انت سالت انسا ما امہرہا قال امہرہا نفسہا‏.‏ فتبسم‏.‏

‏‏‏اردو ترجمہ:   [sta_anchor id=”urdtrjuma”]

´ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے عبدالعزیز بن صہیب اور ثابت بنانی نے، بیان کیا ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز اندھیرے ہی میں پڑھا دی، پھر سوار ہوئے (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر پہنچ گئے اور وہاں کے یہودیوں کو آپ کے آنے کی اطلاع ہو گئی) اور فرمایا «الله اكبر» خیبر پر بربادی آ گئی۔ ہم تو جب کسی قوم کے آنگن میں اتر جائیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح منحوس ہو گی۔ اس وقت خیبر کے یہودی گلیوں میں یہ کہتے ہوئے بھاگ رہے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلملشکر سمیت آ گئے۔ راوی نے کہا کہ (روایت میں) لفظ «خميس» لشکر کے معنی میں ہے۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح ہوئی۔ لڑنے والے جوان قتل کر دئیے گئے، عورتیں اور بچے قید ہوئے۔ اتفاق سے صفیہ، دحیہ کلبی کے حصہ میں آئیں۔ پھر رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کو ملیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیا اور آزادی ان کا مہر قرار پایا۔ عبدالعزیز نے ثابت سے پوچھا: ابو محمد! کیا تم نے انس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا تھا کہ صفیہ کا مہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کیا تھا انہوں نے جواب دیا کہ خود انہیں کو ان کے مہر میں دے دیا تھا۔ کہا کہ ابو محمد اس پر مسکرا دیئے۔


حدیث کی اردو تشریح:   [sta_anchor id=”urdtashree”]

تشریح : ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز سویرے اندھیرے منہ پڑھ لی اورسوار ہوتے وقت نعرہ تکبیر بلند کیا۔ خمیس لشکر کو اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں پانچ ٹکڑیاں ہوتی ہیں مقدمہ، ساقہ، میمنہ، میسرہ، قلب۔ صفیہ شاہزادی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دلجوئی اور شرافت نسبی کی بنا پر انہیں اپنے حرم میں لے لیا اور آزاد فرما دیا ان ہی کو ان کے مہر میں دینے کا مطلب ان کوآزاد کر دینا ہے، بعد میں یہ خاتون ایک بہترین وفادار ثابت ہوئیں۔ امہا ت المومنین میں ان کا بھی بڑا مقام ہے۔ رضی اللہ عنہا وارضاھا۔ علامہ خطیب بغدادی لکھتے ہیں کہ حضرت صفیہ حی بن اخطب کی بیٹی ہیں جو بنی اسرائیل میں سے تھے اور ہارون ابن عمران علیہ السلام کے نواسہ تھے۔ یہ صفیہ کنانہ بن ابی الحقیق کی بیوی تھیں جو جنگ خیبر میں بماہ محرم 7 ھ قتل کیا گیا اور یہ قید ہو گئیں تو ان کی شرافت نسبی کی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنے حرم میں داخل فرمالیا، پہلے دحیہ بن خلیفہ کلبی کے حصہ غنیمت میں لگا دی گئی تھیں۔ بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا حال معلوم فرماکر سات غلاموں کے بدلے ان کو دحیہ کلبی سے حاصل فرمالیا اس کے بعد یہ برضا ورغبت اسلام لے آئیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجیت سے ان کومشرف فرمایا اور ان کو آزاد کر دیا اور ان کی آزادی ہی کو ان کا مہر مقرر فرمایا۔ حضرت صفیہ نے 50 ھ میں وفات پائیں اور جنت البقیع میں سپرد خاک کی گئیں۔ ان سے حضرت انس اور ابن عمر وغیرہ روایت کرتے ہیں حی میں یائے مہملہ کا پیش اور نیچے دو نقطوں والی یاءکا زبر اور دوسری یاءپر تشدید ہے۔
صلوۃالخو ف کے متعلق علامہ شوکانی نے بہت کافی تفصیلات پیش فرمائی ہیں اور چھ سات طریقوں سے اس کے پڑھنے کا ذکر کیا ہے۔ علامہ فرماتے ہیں وقد اختلف فی عدد الانواع الواردۃ فی صلوۃ الخوف فقال ابن قصار المالکی ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم صلاھا افی عشرۃ مواطن وقال النووی انہ یبلغ مجموع انواع صلوۃ الخوف ستۃ عشر وجھا کلھا جائزۃ وقال الخطابی صلوۃ الخوف انواع صلاھا النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی ایام مختلفۃ واشکال متباینۃ یتحری فی کلھا ما ھو احوط للصلوۃ وابلغ فی الحراسۃ الخ ( نیل الاوطار )
یعنی صلوۃ خوف کی قسموں میں اختلاف ہے جو وارد ہوئی ہیں ابن قصار مالکی نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دس جگہ پڑھا ہے اور نووی کہتے ہیں کہ اس نماز کی تمام قسمیں سولہ تک پہنچی ہیں اور وہ سب جائز درست ہیں۔ خطابی نے کہا کہ صلوۃ الخوف کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایام مختلفہ میں مختلف طریقوں سے ادا فرمایا ہے۔ اس میں زیادہ تر قابل غور چیز یہی رہی ہے کہ نماز کے لیے بھی ہر ممکن احتیاط سے کام لیا جائے اور اس کا بھی خیال رکھا جائے کہ حفاظت اور نگہبانی میں بھی فرق نہ آنے پائے۔ علامہ ابن حزم نے اس کے چودہ طریقے بتلائے ہیں اور ایک مستقل رسالہ میں ان سب کا ذکر فرمایا ہے۔
الحمد للہ کہ اواخر محرم 1389ھ میں کتاب صلوۃ الخوف کی تبیض سے فراغت حاصل ہوئی، اللہ پاک ان لغزشوں کو معاف فرمائے جو اس مبارک کتاب کا ترجمہ لکھنے اور تشریحات پیش کرنے میں مترجم سے ہوئی ہونگی۔ وہ غلطیاں یقینامیری طرف سے ہیں۔ اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین عالیہ کا مقام بلند وبرتر ہے، آپ کی شان اوتیت جوامع الکلم ہے۔ اللہ سے مکرر دعا ہے کہ وہ میری لغزشوں کو معاف فرما کر اپنے دامن رحمت میں ڈھانپ لے اور اس مبارک کتاب کے جملہ قدردانوں کو برکات دارین سے نوازے آمین یا رب العالمین۔

English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] 

Narrated Anas bin Malik: Allah’s Apostle (p.b.u.h) offered the Fajr prayer when it was still dark, then he rode and said, ‘Allah Akbar! Khaibar is ruined. When we approach near to a nation, the most unfortunate is the morning of those who have been warned.” The people came out into the streets saying, "Muhammad and his army.” Allah’s Apostle vanquished them by force and their warriors were killed; the children and women were taken as captives. Safiya was taken by Dihya Al-Kalbi and later she belonged to Allah’s Apostle go who married her and her Mahr was her manumission.

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں