بہترین نمونہ کون؟؟؟؟؟

✿ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّـهَ كَثِيرًا ٭ وَلَمَّا رَأَى الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَـذَا مَا وَعَدَنَا اللَّـهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللَّـهُ وَرَسُولُهُ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا
” ( مسلمانو ! ) تمہارے لئے اللہ کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات )میں بہترین نمونہ ہے جو بھی ہے اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہو اور جب مومنوں نے ان لشکروں کو دیکھا تو کہنے لگے : یہ تو وہی بات ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا۔ اس واقعے نے ان کے ایمان اور فرمانبرداری کو مزید بڑھا دیا۔ “ [الاحزاب : 22، 21 ]
فقہ القرآن :
٭ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ . . . إلخ اس آیت کا تعلق شان نزول کے اعتبار سے اگرچہ جنگِ خندق سے ہے لیکن اس الفاظ کی وجہ سے عام ہے اسے کسی ایک اور خاص شعبہ سے وابستہ نہیں کیا جاسکتا۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی مذکورہ آیت سے عام استدلال و اشتشہاد کرتے تھے۔ جیسا کہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حجر اسود کے متعلق فرمانا کہ بے شک میں جانتا ہوں تو پتھر ہے اور اگر میں نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔ آخر میں یہ آیت تلاوت کی لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (مفہوماً)۔ [ مسند احمد 21/1 و الموسوعة الحديثية 281/1 ح 131 و إسناده حسن مزيد ديكهئے جامع التفسير 1602/3 ]
◈ قرآن مجید اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم حجت شرعیہ ہیں بلکہ حدیث قرآن مجید کی تفسیر ہے اور انکار حدیث کفر ہے۔
◈ ”روشن خیالیوں“ کے لئے لمحہ فکریہ ہے جو ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو آئیڈیل بناتے پھرتے ہیں۔
◈ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا آئیڈیل اور حدیث و سنن کو اپنے سینے میں صرف وہی شخص لگائے گا جو آخرت میں اللہ کی ملاقات پر یقین رکھتا اور کثرت سے اللہ کو یاد کرتا ہو۔
◈ ہم نے آیت نمبر 12 کے تحت منافقین کے حالات اور لشکروں کو دیکھ کر ان کی کیفیت کے متعلق لکھا تھا کہ منافقین کے برعکس مومنین کے ایمان متزلزل ہونے کے بجائے اور زیادہ بڑھ گئے اور اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری سے فرار کے بجائے وہ زیادہ یقین و اطمینان کے ساتھ اپنا سب کچھ اسی کے حوالے کردینے پر آمادہ ہو گئے۔
◈ ایمان کم بھی ہوتا اور زیادہ بھی۔ یہی اہل سنت کا عقیدہ ہے۔ امام بخاری رحمه الله نے آیت وَمَا زَادَهُمْ اِلَّا اِيْمَانًا وَّ تَسْلِيْمًا کو بطور دلیل پیش کیا ہے کہ (الایمان ) یزید و ینقص کہ ایمان زیادہ بھی ہوتا ہے اور کم بھی۔ [ ديكهئے صحيح البخاري كتاب الايمان قبل ح 8] امام ابن ک
ثیر رحمه الله لکھتے ہیں کہ جمہور ائمہ کے نزدیک ایمان کم بھی ہوتا ہے اور زیادہ بھی۔ [تفسير ابن كثير بتحقيق عبدالرزاق المهدي 157/5]

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں