جنازہ قبر اور تعزیت کی چند بدعات

تالیف: احمد بن عبداللہ السلمی حفظ اللہ

بسم الله الرحمن الرحيم
الحمد لله رب العالمين والعاقبة للمتقين والصلاة والسلام على أشرف الأنبياء والمرسلين نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين و بعد
میرے محترم دینی بھائیو! ہم آپ کی خدمت میں جنازہ اور قبر اورتعزیت کی چند بدعتوں کا ذکر کر رہے ہیں، اس لئے کہ بہت سارے لوگ جہالت اور اندھی تقلید کی وجہ سے ان میں گرفتار ہیں، میں نے مناسب سمجھا کہ ایک دینی بھائی کی حیثیت سے نصیحت کا فریضہ انجام دے دوں، میں نے کوشش کی ہے کہ اس رسالہ میں صرف مشہور بدعتوں کا ذکر کروں۔
➊ موت سے غافل ہو جانا، موت کو یاد نہ کرنا حالانکہ موت ایک نصیحت ہے۔
➋ بہت سارے لوگ وصیت لکھنے کا کوئی اہتمام نہیں کرتے ہیں، بلکہ اگر وصیت لکھنا چاہتے ہیں تو لوگ کہتے ہیں ابھی تو موت بہت دور ہے۔ ابھی سے مرنے کی کیا فکر کر رہے ہو، وغیرہ۔ حالانکہ اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان ہے کہ جب کوئی مسلمان دو راتیں زندہ رہتا ہے اور اس کے پاس وصیت کے لئے کوئی چیز ہو تو اسے اپنی وصیت لکھ کر (اپنے سرہانے ) تکیے کے نیچے رکھ دینی چاہئے، سیدنا عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب سے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی اس کے بعد اپنی وصیت لکھ کر رکھ دی۔ [بخاري و مسلم۔]
➌ مردے کو دفن کرنے کے بعد لوگ فوراً تعزیت اور دعوت کی طرف دوڑ پڑتے ہیں، مردے کی وصیت اور اس کا قرض پورا کرنے سے غافل ہو جاتے ہیں، کیا انہیں معلوم نہیں کہ قرض کی وجہ سے مومن کی روح معلق رہتی ہے۔ یہ ایک بہت بڑی غلطی ہے وہ لوگ واجب کو چھوڑ کر بدعت کی طرف دوڑ رہے ہیں۔
➍ کچھ لوگ ملک الموت کو عزرائیل کے نام سے پکارتے ہیں، اس کی بھی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
➎ میت کی وفات سے لے کر اس کی تجہیذ و تکفین تک قرآن خوانی کرنا یا اسی طرح روح قبض کے وقت سورہ یسین کا ختم کرانا، اس کے لئے کرایہ پر پڑھنے والوں کو طلب کرنا۔
➏ موت کے وقت یا مرنے کے بعد اس کے سینے پر یا سرہانے مصحف رکھنا۔
➐ نوحہ کرنا، چیخنا چلانا، گریبان پھاڑنا، منہ نوچنا، اور اللہ کی تقدیر پر یہ کہہ کر اعتراض کرنا کہ فلاں تو مصیبت کے لائق نہ تھا فلاں کو ابھی نہیں مرنا چاہئے تھا یا یہ کہنا کہ اے رب ! میں نے تیرا کیا کیا ہے کہ تو مجھے یہ مصیبت دے رہا ہے، جب ایسے لوگوں کو صبر کی دعوت دی جاتی ہے تو کہتے ہیں : ہم نے تو بہت صبر کیا اب کتنا صبر کریں، حالانکہ ایسے لوگوں کو میت کی وفات پر انالله وانا اليه راجعون پڑھنا چاہئے، اور اللہ کی تقدیر پر راضی ہو کر اس کا شکر ادا کرنا چاہئے۔
➑ یہ عقیدہ رکھنا کہ میاں بیوی میں سے ایک دوسرے کو غسل نہیں دے سکتے، حالانکہ بعض صحابہ کرام سے ثابت ہے کہ انہوں نے اپنی بیویوں کو غسل دیا ہے۔
➒ میت کو جب قبرستان لے جاتے ہیں تو اس کے جنازہ کو ایک کپڑا سے ڈھانک دیتے ہیں، جس پر آیتہ الکرسی یا کوئی آیت لکھی ہوتی ہے۔ یہ بھی ایک غلطی ہے۔
➓ اوقات ممنوعہ (طلوع آفتاب، زوال آفتاب اورغروب آفتاب) میں نماز ادا کرنا، طلوع و غروب کے وقت پندرہ منٹ اورزوال کے وقت سات منٹ انتظار کرنا چاہے۔
⓫ قبرستان میں فرض صلاة ادا کرنا، حالانکہ اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صریح حدیث مروی ہے، میرے لئے ساری روئے زمین مسجد بنائی دی گئی ہے سوائے قبرستان اور حمام کے۔ ایک دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قبروں کی طرف رخ کرکے نماز نہ پڑھو۔ اس لئے کہ قبروں کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا، دعا کرنا، قرآن پڑھنا یہ سب شرک کے وسائل میں سے ہیں، البتہ جنازہ کی نماز قبرستان میں پڑھی جا سکتی ہے۔
⓬ تاخیر سے جنازہ ادا کرنا : بعض لوگ اپنے قریبی رشتہ داروں کے انتظار میں یا ختم قرآن کے انتظار میں جنازہ میں تاخیر کرتے ہیں، حالانکہ اس سلسلے میں سنت یہ ہے کہ جنازہ میں جلد بازی سے کام لیا جائے، اور رشتہ دار وغیرہ جب پہنچیں تو قبر پر جا کر نماز جنازہ ادا کر لیں۔
⓭ بعض جگہوں پر میت کے گھر والے امام کے دائیں جانب کھڑے ہو کر جنازه پڑھتے ہیں، جب کہ یہ ہے کہ عام مقتدیوں کی طرح میت کے اقارب بھی امام کے پیچھے صف لگائیں اور نماز ادا کریں۔
⓮ بے نمازی کی جنازہ ادا کرنا، ایسا کرنا درست نہیں ہے، بلکہ ایک دھوکہ اور خیانت ہے، اس ل
ئے جب کسی بے نمازی کا جب انتقال ہو جائے تو نہ اسے غسل دیا جائے، نہ ہی اس کی جنازہ پڑھی جائے، اور نہ ہی اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے۔
⓯ جنازه کی نماز کے طریقہ سے غافل ہونا۔
⓰ چار ماہ سے زائد کا حمل ساقط ہو جانے پر جنازہ ادا نہ کرنا، اس لئے کہ اس مدت میں روح پھونک دی جاتی ہے، پس جب چار ماہ کا بچہ ساقط ہو تو بہتر یہ ہے کہ اسے غسل دیا جائے، اس کی جنازہ پڑھی جائے اور مسلمانوں کے قبرستان میں اسے دفن کیا جائے، البتہ چار ماہ سے قبل پر جنازہ نہیں ہے۔
⓱ یہ عقیدہ رکھنا کہ جب صالح شخص کا جنازہ ہو تو اس کی میت ہلکی ہوتی ہے، اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
⓲ جنازہ کو دھیرے اور آہستہ رفتار میں لے جانا،حالانکہ سنت یہ ہے کہ جنازہ کو تیزی سے لے جایا جائے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : جنازہ کو لے جانے میں جلدی کرو۔
⓳ جنازہ لے جاتے وقت زور سے اللہ اکبر، یا لا الہ الا اللہ کہنا، یا یہ کہنا کہ اے غافل اللہ کو یاد کرو، نبی پر درود بھیجو، وغیرہ۔
⓴ جنازہ کی نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا کرنا۔
21 جنازہ کے بارے میں غفلت برتنا، اور اس کے اجر و ثواب کی پرواہ نہ کرنا، جب کہ حدیث میں ہے : جو شخص جنازہ میں حاضر ہوا اور نماز ادا کیا تو اس کے لئے ایک قیراط ہے، اور جو دفن تک حاضر رہا تو اس کے لئے دو قیراط ہے، پوچھا گیا دو قیراط کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو بڑے پہاڑ کی ماند [متفق عليه۔]
22 یہ عقیدہ رکھنا کہ جنازہ میں حاضر ہونا نظر کی بیماری کا علاج ہے، یہ ایک جہالت ہے۔
23 بعض لوگوں کے یہاں جب کوئی مر جاتا ہے تو اس کا بستر اور اس کے کھانے پینے کی تمام چیزیں یہاں تک کہ اس کی چارپائی وغیرہ گھر سے باہرنکال دیتے ہیں، اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس کا استعمال جائز نہیں ہے، یہ بھی ایک جہالت ہے۔

قبر کی بدعتیں:
➊ رات میں دفن نہ کرنا، حالانکہ صحیح بات یہ ہے کہ حسب ضرورت رات میں دفن کر سکتے ہیں۔
➋ قبر کی ایک بدعت یہ بھی ہے کہ بعض لوگ پہلے سے اپنی من پسند قبر کھودواتے ہیں اور اسی میں ان کی وصیت کر جاتے ہیں۔
➌ قبر کی بڑی غلطیوں میں سے ایک غلطی یہ بھی ہے کہ لوگ قبرستان جا کر خاموشی سے فکر آخرت کے بجائے شور و غل کرنے لگتے ہیں۔
➍ میت کوقبر میں داخل کرتے وقت اذان یا اقامت کہنا، یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجنا، ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے، اس سلسلے میں صرف اتنا ثابت ہے کہ میت کو قبر میں اتارتے وقت بسم الله وعلي ملة رسول الله يا بسم الله وعلي سنه رسول الله کہا جائے۔
➎ بعض لوگ دفن کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ میت کو اس کے آخری ٹھکانے پہنچا دیا گیا، ایسا کہنا غلط ہے اس لئے کہ آخری ٹھکانا جنت یا جہنم ہے قبر نہیں، اسی طرح کچھ لوگ کہتے ہیں کہ قبر بڑی تنگ جگہ ہے، یہ بھی صحیح نہیں ہے، اس لئے کہ قبر تو کافر کے لئے تنگ جگہ ہے، مومن کے لئے تو اس کی قبرتاحد نظر وسیع کر دی جائے گی۔
➏ میت کو دفنا کے بعد مٹی دیتے وقت منها خلقناكم وفيها نعيدكم ومنهانخرجكم تارة اخري کہنا بھی ثابت نہیں ہے۔
➐ قبرکو ایک بالشت سے زیادہ اونچی کرنا۔
➑ دفنانے کے بعد کھڑے ہو کر میت سے خطاب کرنا اور یہ کہنا کہ اے فلان بن فلان اب یاد کر کے دنیا سے تو کیا لے گیا۔
➒ دفنانے کے بعد میت کے لئے دعاء مغفرت اور ثات قدمی کی دعا نہ کرنا۔
➓ قبر پر کتبہ لگانا۔
⓫ میت کو گھر سے لے جاتے وقت یا قبر میں اتارتے وقت جانور ذبح کرنا، بعض جگہوں پر اسے عقرہ کہتے ہیں، جس کے بارے میں حدیث میں وضاحت ہے کہ اسلام میں عقر نہیں ہے۔
⓬ مردہ کا احترام نہ کرنا، اس کی دو صورتیں ہیں، قبر پر بیٹھنا، قبر پر جوتے چپل پہن کر چلنا، قبرستان میں پیشاب پاخانہ کرنا قبرستان میں گندگی اور کچرا پھینکنا قبروں کو لائٹ اور بتیوں سے چراغاں کرنا، بزرگ یا ولی کی قبر کو مقدس سمجھنا، اور یہ عقیدہ رکھنا کہ درخت میت کی خوش بختی کی علامت ہیں، ان درختوں کو کاٹنے والامصیبت میں گرفتار ہو گا، دراصل یہ ساری صورتیں قبر اور مردے کی توہین کی ہیں۔
⓭ قبروں کی شرکیہ زیارت کرنا، صاحب قبر سے دعا کی درخواست کے لئے سفر کرنا، ان سے حاجت طلب کرنا، مرادیں مانگنا، ان کی قبروں کا طواف کرنا، ان کے نام کی نذر ماننا، یہ سب کھلا ہوا شرک اور عظیم گمراہی ہے، یہ وہ عمل ہے جو بندے کی نیکیاں مٹا دیتا ہے، یہ سب اعمال ذلت و رسوائی اور جہنم میں داخلہ کا سبب ہیں، اسی طرح صلاۃ ادا کرنے کی نیت سے قبر کا سفر کرنا قرآن پڑھنا، ان کے مقام و مرتبہ کا وسیلہ پکڑنا یہ سارے اعمال بدعت ہیں، اور بدعت کفر کی ڈاک ہوتی ہے، جب بھی کوئی بدعت ظہور پذیر ہوتی ہے تو ایک سنت اٹھا لی جاتی ہے۔
⓮ قبروں کی زیارت کے لئے سفر کرنا، خواہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے لئے ہو، یہ سب بدعت ہے، اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے سفر کرنے کا حکم ہے، نہ قبرکی زیارت کی غرض سے، البتہ جب کوئی وہاں پہنچ جائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زیارت کرے، اور آپ پر درود و سلام بھیجے۔
⓯ جمعہ اور عیدین کے دن خصوصیت سے قبروں کی زیارت کرنا۔
⓰ قبر کی زیارت کے وقت قبر پر ہاتھ رکھنا، یا اس پرکوئی پتھر وغیرہ رکھ دینا۔
⓱ قبر پرمیت کی والدہ کا نام ل؎ کر سلام بھیجا۔
⓲ قبر کی زیارت کے وقت قبر پر پانی چھڑکنا۔
⓳ قبر پر قرآن پڑھنا۔
⓴ یہ عقیدہ رکھنا کہ مسجد نبوی میں اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر نہ ہوتی تو وہاں کوئی نورانیت نہ ہوتی، اسی طرح آپ کی قبر پر جا کر آپ سے دعائے مغفرت طلب کرنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ طلب کرنا، یہ سب صوفیاء کی خرافات اور ہفوات ہے۔ اسی طرح یہ عقیدہ رکھنا کہ جس نے حج کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زیارت نہیں کی اس کا حج نہیں ہوگا، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی جالیاں چومنا، انہیں چھو کر اپنے جسم پر ملنا، اور انہیں تریاق سمجھنا، بدعت ہے، اور اس کے لئے چند من گھڑت احادیث سے استدلال کرنا، چند من گھڑت حدیثیں جو مشہور ہیں یہ ہیں :
٭جس نے حج کیا اور میری زیارت نہیں کی اس نے بھی ظلم کیا۔
٭جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو گئی۔
٭ جو شخص میری قبر کی زیارت کی نیت سے مدینہ میں آیا اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو گئی۔
٭جب تمہیں کوئی معاملہ درپیش ہوتو قبر والوں سے مدد طلب کرو۔
٭ اگر آپ نہ ہوتے تو میں آسمان و زمین کو نہیں پیدا کرتا۔
٭میں اس وقت نبی تھا جب آدم پانی اور کیچڑ کے درمیان تھے۔ میرے مقام و مرتبہ کے ذریعے وسیلہ طلب کرو، اس لئے کہ میرا مقام بہت بلند ہے۔
٭اے جابر ! اللہ نے ہر چیز پیدا کرنے سے پہلے تمہارے نبی کا نور پیدا کیا۔
٭آدم علیہ السلام نے نبی کا وسیلہ طلب کیا تو الله تعالی نے فرمایا: اگر محمد نہ ہوتے تو میں تمہیں نہ پیدا کرتا۔
یہ سب من گھڑت اور باطل باتیں ہیں۔ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گھڑ کر منسوب کر دی گئی ہیں، اسی طرح کچھ لوگ شرک پر مشتمل مشہور قصیدہ نگار بوصیری کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جب وہ بیمار پڑا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنا جبہ عنایت فرمایا، جس کے بعد وہ شفایاب ہو گیا۔
21 ایک من گھڑت روایت پیش کرنا کہ جو جگہ میری قبر اور منبر کے درمیان ہے وہ جنت کا ایک ٹکڑا ہے، حالانکہ حدیث میں قبر کے بجائے گھر کا لفظ ہے جو کہ میرے گھر اور منبر کے درمیان ہے وہ جنت کا ایک ٹکڑا ہے، اس لئے کہ اس وقت تو قبر کا وجود ہی نہ تھا۔

تعزیت کی بدعتیں :
➊ تعزیت کی خصومی مجلسیں منعقد کرتا اور اس کے لئے راستہ وغیرہ بند کر کے لوگوں کو تکلیف دینا۔
➋ میت کے اہل خانہ کی طرف سے شادی کی طرح پکوان کا اہتمام کرنا، حالانکہ اس سلسلے میں ثابت تو یہ ہے کہ میت کے رشتہ دار یا پڑوسی میت کے گھر والوں کے لئے کھانا تیار کریں، مگر آج الٹا ہی ہو رہا ہے، لوگ جنازہ میں شرکت کے بعد میت کے گھر اس طرح بیٹھ کر کھاتے ہیں گویا وہ کسی شادی کی دعوت میں ہوں۔
➌ تعزیت کی مجلس میں قرآن کے سپارے تقسیم کر کے قرآن خوانی کرانا۔
➍ یہ عقیدہ رکھنا کہ تعزیت دفن کے بعد ہی کی جا سکتی ہے حالانکہ تعزیت وفات کے بعد کسی بھی وقت کی جا سکتی ہے۔
➎ میت کی روح پر فاتحہ خوانی کرنا، اور یہ کہنا کہ اس کا ثواب فلاں کو پہنچے۔
➏ جب عورتیں تعزیت کے لئے کسی کے گھر جاتی ہیں تو پہلے زور سے رونا شروع کر دیتی ہیں، یہ بھی بدعت ہے۔
➐ میت کو مغفور و مرحوم اور یہ کہنا کہ ان کی روح اعلیٰ علیین میں چلی گئی ہے، حالانکہ یہ سب غیبی امور ہیں جن کا علم اللہ کے سوا کسی کے پاس نہیں ہے۔

 

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں