صحیح بخاری پر اعتراض – کیا قرآن کی کوئی آیت منسوخ بھی ہو سکتی ہے؟

ابھی ایک دوست نے ایک "صاحب ” کی پوسٹ کا سکرین شارٹ بھجوایا ہے کہ جس میں موصوف بخاری شریف کی ایک حدیث کو لے کر اعتراض جڑ رہے ہیں –
پہلے ان صاحب کی عبارت ملاحظہ کیجئے
……
بخاری شریف، جلد 5، صفحہ 415
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رعل، ذکوان قبائل نے نبی ﷺ سے اپنے دشمنوں کے مقابلے کیلئے مدد مانگی اور آپ ﷺ نے ستر انصاری صحابہ کو روانہ کردیا۔ یہ صحابہ دن کے وقت لکڑیاں جمع کرتے اور رات میں نماز پڑھا کرتے۔ جب یہ حضرات معونہ کے مقام پر پہنچے تو ان قبیلے والوں نے دھوکے سے انہیں شہید کردیا۔
حضور ﷺ کو خبر ہوئی تو آپ ﷺ نے فجر کی نماز میں ایک مہینے تک بددعا کی۔ انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان صحابہ کے بارے میں قرآن کی آیت بھی نازل ہوئی جس کی ہم تلاوت کیا کرتے تھے۔ اس آیت کا ترجمہ تھا:
"ہماری طرف سے ہماری قوم کوخبر پہنچا دو کہ ہم اپنے رب کے پاس پہنچ گئے اور ہمارا رب ہم سے راضی ہے اور ہمیں بھی اپنی نعمتوں سے اس نے خوش رکھا ہے”
انس رضی اللہ عنہ کے مطابق(بمطابق بخاری شریف)، یہ آیت بعد میں قرآن میں سے منسوخ کردی گئی۔
سوال:
کیا قرآن کی ایسی آیات بھی تھیں جو نازل تو ہوئیں، اور ان کی تلاوت بھی مسلمان کیا کرتے تھے، لیکن وہ بعد میں منسوخ کردی گئیں اور قرآن سے نکال دی گئیں؟
یہ بخاری شریف میں تحریر ہے اور اس کا سکرین شاٹ بھی موجود ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس دعوے کا مطلب کیا ہے اور اس کی آڑ میں قرآن پر کس قسم کے حملے ہوسکتے ہیں؟؟؟
یہ ایک علمی سوال ہے، جواب بھی علمی ہونا چاہیئے، اگر کافر کا فتوی دینا ہے تو پھر سمجھ جائیں کہ آپ کے پاس جواب نہیں!!!
………………
جی دوستو ! آپ نے موصوف کی عبارت پڑھ لی مصیبت یہ ہے کہ ایک بندہ اٹھتا ہے اعتراض کرتا ہے اور بہت سے لوگ دین کے بارے شک میں مبتلا ہو جاتے ہیں ..خود موصوف لمبی تان کے سو جاتے ہیں اور بہت سوں کے ایمان بگڑ جاتے ہیں – اصولی طور پر اگر سوال کا جواب درکار ہوتا ہے تو اس موضوع پر کسی اتھارٹی یا ماہر سے بات کرنی چاہیے ..وگرنہ اس شک میں بہت وزن پیدا ہو جاتا ہے کہ مقصد سوال تھا نہ سمجھنے کا جذبہ بلکہ مقصود لوگوں کو حدیث کے بارے میں بدگمان کرنا تھا اور بس …خیر ہم موضوع کی طرف آتے ہیں –
پہلی بات یہ سمجھ لیجئے کہ قران کی کوئی آیت منسوخ ہو سکتی ہے یا نہیں – تو عرض ہے کہ جی بالکل قران کی آیات منسوخ ہو بھی سکتی ہیں اور ہوئی بھی ہیں –
خود قران میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِها نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْها أَوْ مِثْلِها ۗ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّه عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾ القرآن الکریم، سورۃ البقرة 2: 106
﴿جو منسوخ کرتے ہیں ہم کوئی آیت یا بھلا دیتے ہیں،تو بھیج دیتے ہیں اس سے بہتر یا اس کے برابر، کیا تجھ کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے﴾
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
﴿وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَكَانَ آيَةٍ ۙ وَاللَّه أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُوا إِنَّمَا أَنْتَ مُفْتَرٍ ۚ بَلْ أَكْثَرُهمْ لَا يَعْلَمُونَ﴾
﴿اور جب ہم بدلتے ہیں ایک آیت کی جگہ دوسری آیت،اور اللہ خوب جانتا ہے،جو اتارتا ہے،تو کہتے ہیں،تو،تو بنا لاتا ہے،یہ بات نہیں،پر اکثروں کو ان میں خبر نہیں﴾ سورۃ النحل 16: 101
اصولی طور اس آیت کے بعد اعتراض ہی ختم ہو جاتا ہے ..کیونکہ قران میں اللہ تعالی نے جب خود کہہ دیا کہ ہم منسوخ کرتے ہیں تو کوئی اعتراض کیوں کر کر سکتا ہے اور اگر اعتراض کرے گا تو اس کا اعتراض اللہ کے فیصلے پر ہو گا –
اب اگر آپ کی مان لیتے ہیں تو اعتراض یہی رہ جاتا ہے نا کہ حدیث منسوخ کر سکتی ہے یا نہیں؟
لیکن اس سے پہلے یہ بتاتا چلوں کے قران کی منسوخ آیات تین قسم کی ہیں
(الف) کسی آیت کا حکم منسوخ کردیا گیا، لیکن قرآن شریف میں تلاوت اس کی باقی رہی۔
(ب) تلاوت منسوخ کردی گئی مگر حکم باقی رہا۔
(ج) تلاوت اور حکم دونوں منسوخ کردیئے گئے المنسوخ إما أن یکون ھو الحکم فقط أو التلاوة فقط أو ہما معًا (تفسیر کبیر: ج۳ ص۲۰۸، ط بیروت)
اب دیکھئے آیات کا منسوخ ہونا تو خود قران میں کہا جا رہا ہے – اب ان منسوخ کی اقسام کی ہم ایک ایک مثال ذکر کراتے ہیں
پہلا نسخ کہ آیت موجود ہے مگر حکم منسوخ ہے
شروع اسلام میں جس عورت کا شوہر فوت ہو جائے اس کی عدت کی مدت ایک سال تھی، چناں چہ قرآن کریم میں ہے:
﴿وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنکُمْ وَیَذَرُونَ أَزْوَاجاً وَصِیَّةً لِّأَزْوَاجِہِم مَّتَاعاً إِلَی الْحَوْلِ غَیْْرَ إِخْرَاج﴾․( البقرہ:140)
ترجمہ:” اور جو لوگ تم میں سے مرجایں اور چھوڑ جایں اپنی عورتیں تو وہ وصیت کر دیں اپنی عورتوں کے واسطے خرچ دینا ایک برس تک، بغیر نکالنے کے گھر سے ۔“
آیت میراث نازل ہونے کے بعد جب ان کا حصّہ مقرر ہو گیا تو عورت کی عدت چار مہینے دس دن ٹھہرا دی گئی۔ تب سے اس آیت کا حکم منسوخ ہو گیا، چناں چہ ارشاد الہٰی ہے ﴿وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنکُمْ وَیَذَرُونَ أَزْوَاجاً یَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِہِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْہُرٍ وَعَشْرا﴾․ (البقرہ:234)
ترجمہ:” اور جو لوگ مر جاویں تم میں سے اور چھوڑ جاویں اپنی عورتیں تو چاہیے کہ وہ عورتیں انتظار میں رکھیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن۔“
دوسری قسم ہے تلاوت تو منسوخ ہو گئی مگر حکم باقی رہا
اس کی سب سے بڑی مثال رجم کی سزاء ہے ۔ یہی نقطۂ امتحان ہے اور دل میں رسول اور رسول مکرم کے اقوال سے محبت کا امتحان بھی – سیدنا عمر بن خطاب فرماتے ہیں:
إِنَّ اﷲ تَعالیٰ بَعثَ محمّدًا ﷺ وَأنزَل علیہ الکتابَ، فَکانَ مِمّا أَنزَل عَلَیہ آیَۃ الرَّجم فَقَرأناہا وعَقَلنَاہا ووَعَیناہا، فأخشَیٰ إن طَالَ بالنّاس زَمانٌ أن یقُولَ قَائِل: وَاﷲِ مَا نَجِدُ آیۃَ الرّجمِ في کتاب اﷲ فیَضِلُّوا بتَرکِ فَریضۃٍ أَنزَلہَا اﷲُ والرّجمُ في کتَابِ اﷲ حقٌّ عَلیٰ من زَنیٰ إذا أُحصِنَ من الرِّجَالِ وَالنِّسَآء إذا قَامَتِ البَیِّنَۃُ أو کان الحَبلُ أوِ الاعترافُ۔(صحیح البخاري: ۶۸۳۰)
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے محمدﷺ کو مبعوث فرمایا اور ان پر کتاب نازل کی اور اس میں آیت ِرجم بھی نازل کی گئی جس کو ہم نے پڑھا، سمجھا اور اس پر عمل کیا۔ مجھے ڈر ہے کہ ایک لمبا عرصہ گزر نے کے بعد لوگ کہیں یہ نہ کہنے لگ جائیں کہ ہم کتاب اللہ میں آیت ِرجم کو نہیں پاتے پس وہ ایک ایسے فرض کو ترک کرنے کی بنا پر گمراہ ہوجائیں جسے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا اور رجم اللہ تعالیٰ کی کتاب میں اس پر ثابت ہے جس نے شادی شدہ مردوں اور عورتوں میں سے زنا کیا، اس شرط پر کہ اس پر گواہیاں پوری ہو جائیں یا پھر وہ حاملہ ہو جائے یا اِعتراف کر لے۔‘‘
اب رجم کی سزا کو تو وہ بھی مانتے ہیں کہ نبی کریم کے دور میں دی گئی اور اس پر عمل کیا گیا جو حدیث کا کسی نہ کسی انداز میں انکار کرتے ہیں – – سوال یہ ہے رجم کا جب قران میں ذکر نہیں تو کیونکر اسے اختیار کیا گیا ؟
ظاہر ہے یہی سبب تھا کہ تلاوت منسوخ ہونے کے باوجود حکم باقی تھا
منسوخ کی تیسری قسم وہ ہے جس میں حکم بھی منسوخ ہے اور تلاوت بھی منسوخ –
اس کی مثال اُم المومنین سیدہ عائشہ رض سے مروی حدیث ہے، فرماتی ہیں:
کَانَ فِیمَا أُنزِل مِن القُرآنِ عَشرُ رَضَعاتٍ مَعلُومَاتٍ یُحرِّمْنَ ثُمّ نُسِختْ بِخَمسٍ مَعلُوماتٍ فتُوفِّيَ رَسولُ اﷲ ﷺ وہِيَ فیما یُقْرأُ مِن الْقُرْآنِ۔(صحیح مسلم: ۱۴۵۲)
’’قرآنِ کریم میں تھا کہ اگر کوئی دس گھونٹ دودھ پی لے تو یہ حرمت میں داخل ہے پھر یہ حکم منسوخ ہوگیا اور پانچ گھونٹ پینا موجب ِحرمت ٹھہرا، پس رسول اللہﷺ وفات پاگئے اور یہ چیز قرآن پاک میں تلاوت کی جاتی تھی۔‘‘
مذکورہ روایت کا جزء اَول عَشْرُ رَضَعَاتٍ مَعْلُومَاتٍ یُحَرِّمْنَ کا حکم اور تلاوت دونوں منسوخ ہیں جبکہ جزء ثانی خَمْسٍ مَعْلُومَاتٍ – جو پہلے جزء کا ناسخ ہے – کا حکم باقی اور تلاوت منسوخ ہے۔
اب معاملہ آتا ہے کہ کیا حدیث کے سبب قران کی کوئی آیت منسوخ ہو سکتی ہے ؟
تو بات کو سمجھئے ۔۔۔جذباتی ہو کے فیصلہ مت کیجئے ۔کل کے مضمون میں مثال دی تھی کہ قران میں ہے کہ مردار حرام ہے ۔۔۔لیکن آپ سب عالم اسلام مچھلی کھاتا ہے ۔۔اب مچھلی کیا ہوتی ہے ؟
ظاہر ہے مردار ۔۔۔اس مردار کو حلال کس نے کیا ؟
جی جناب اس کا حکم صرف حدیث میں ہے ۔۔۔اب ماحول بنا دیا گیا ہے کہ جیسے حدیث کوئی بہت نچلے درجے کی کوئی غیر معتبر شے ہو ۔۔۔۔حالانکہ حدیث بھی اسی رسول کا قول ہے کہ جس کی زبان مبارک سے قران سن کے ہم نے تسلیم کیا یہ خدا کا کلام اور کتاب ہے ۔۔۔۔اسی حدیث کے حلال کو آپ سب حلال مان رہے ہیں اور خوب خوب مچھلی کھا رہے ہیں ۔۔۔۔جبکہ قران کے مطابق وہ حرام بنتی ہے ۔۔۔۔دوسرے لفظوں میں آپ نے عملی طور پر تسلیم کر لیا کہ ایسا ممکن ہے کہ قران کے حکم کی حدیث وضاحت کرےاور کچھ بدل دے ۔۔۔
میرے بھائی ٹھنڈے دل سے ، یہ تبدیلی کسی انسان کی طرف سے نہیں بلکہ رسول اگر کوئی بھی حکم دیتے ہیں تو وہ بھی من جانب الله ہوتا ہے ۔۔ اور اگر کسی آیت کے نسخ کا حکم آتا ہے اور رسول اسے نافذ کرتے ہیں تو یہ اصل میں الله کی طرف سے ہی ہے ۔۔۔۔۔

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں