علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا شراب پی کر نماز پڑھانا

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا شراب پی کر نماز پڑھانا

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

سوال: السلام علیکم ورحمت اللہ

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہیں اور عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کو ایک انصاری نے بلایا اور انہیں شراب پلائی اس وقت تک شراب حرام نہیں ہوئی تھی پھر علی رضی اللہ عنہ نے مغرب پڑھائی اور سورۃ «قل يا أيها الكافرون» کی تلاوت کی اور اس میں کچھ گڈ مڈ کر دیا تو آیت: «لا تقربوا الصلاة وأنتم سكارى حتى تعلموا ما تقولون» ”نشے کی حالت میں نماز کے قریب تک مت جاؤ یہاں تک کہ تم سمجھنے لگو جو تم پڑھو“ نازل ہوئی۔

(ابی داود:3671)

ایک مرتبہ ڈاکٹر اسرار احمد نے کسی بیان میں شراب کے حوالے سے بات کرتے ہوئے یہ روایت بیان کی تھی کہ علی رضی اللہ عنہ نے شراب پی کر نماز پڑھائی اور یہ معاملہ ہوا جسکے بعد یہ آیت نازل ہوئی۔۔۔

اور حال ہی میں ٹی وی پر کسی مولانا صاحب نے روایت بیان کی تو ایک مخصوص فرقے کو آگ لگ گئی اور انھوں نے اس روایت پر غیر علمی اور جاہلانہ اعتراضات اٹھانا شروع کر دیے۔۔ مولوی صاحب کی تو خیر ہے۔۔۔

اعتراضات یہ ہے کہ یہ روایت علی رضی اللہ عنہ کی شان کے خلاف ہے۔۔ وہ ایسا گناہ کا کام نہیں کرسکتے ۔۔۔ اُن سے نماز میں غلطی ہوئی ، ایسا نہیں ہوسکتا ۔۔۔

جواب: پہلی بات یہ کہ یہ روایت صحیح ہے ،اسکی صحت کی بنا پر اس پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا جا سکتا ۔۔۔

دوسری بات یہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے زمانے میں قران نازل ہو رہا تھا۔۔۔آج ہم جو بھی احکامات پڑھتے ہیں قرآن میں وہ بس ایسے ہی نازل نہیں ہو گئے، بلکہ صحابہ رضی اللہ عنھم کی زندگی میں وہ واقعات پیش آرہے تھے جنکے حوالے سے قرآن میں احکامات نازل ہوئے۔۔۔

اس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ ہمارے پاس آیت قرآنی کی صحیح تشریح موجود ہو، شان نزول کی وجہ سے ہمارے لیے آیات سمجھنا آسان ہوگیا ورنہ غامدی صاحب کی طرح ہواؤں میں تیر جھاڑ رہے ہوتے۔۔

تیسری بات یہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا شراب پینا شراب کی حرمت کے حکم سے پہلے تھا۔۔جب شراب کے مکمل طور پر حرام ہونے کا حکم آیا تب بھی صحابہ کرام شراب پی رہے تھے اور حکم سنتے ہی شراب پھینک دی۔۔۔تو یہ اعتراض درست نہیں کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ فلاں صحابی نے زندگی میں شراب پی ہو۔۔

ویسے پتا نہیں کس علم کی بنیاد پر اعتراض کیا جاتا ہے، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایسا تصور بن چکا ہے یا بنایا جارہا ہے کہ اُن سے کوئی گناہ کا کام نہیں ہوسکتا ۔۔۔ لیکن یہ بلکل غلط تصور ہے ، قرآن و سنت کے ہٹ کر ہے ۔۔۔ ( یہاں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا شراب پینا تو ویسے کوئی گناہ کا کام نہیں ) …

الحمد للہ اہل السنہ کے یہاں ان واقعات کی تحقیق کا باقاعدہ نظام ہے، یوں ہی ہر کوئی اپنی طرف سے گھڑ کے باتیں کرنا شروع نہیں کر دیتا،اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اسکا باقاعدہ رد کیا جاتا ہے۔۔۔اور اہل السنہ کی کتب میں یہ بات صحیح سند کے ساتھ موجود ہے جس پر اعتراض نہیں اٹھایا جا سکتا ۔۔

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں