کیا مرسل حدیث حجت ہے؟

تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری حفظ اللہ
اکثر محدثین کرام  رحمۃ اللہ علیھمکے نزدیک ”مرسل” حدیث حجت نہیں ۔ اس کا وہی حکم ہے ، جو ”ضعیف” حدیث کا ہوتا ہے ۔ اس موقف پر دلائل ملاحظہ فرمائیں :
1    امام یزید بن ہارون  رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے امام حماد بن زید  رحمہ اللہ سے کہا ، اے ابواسماعیل! کیا اللہ تعالیٰ نے اہل حدیث کا ذکر قرآنِ مجید میں کیا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا :
بلی ! ألم تسمع إلی قولہ : ( لِیَتَفَقَّہُوْا فِی الدِّیْنِ وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَہُمْ إِذَا رَجَعُوْا إِلَیْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُوْنَ ) (التوبۃ : ١٢٢) ، فھذا فی کلّ رحل فی طلب العلم والفقہ ، ویرجع بہ إلی من وراء ہ یعلّمھم إیّاہ ۔
”کیوں نہیں ؟ کیا آپ نے یہ فرمانِ باری تعالیٰ نہیں سنا کہ : ( لِیَتَفَقَّہُوْا فِی الدِّیْنِ وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَہُمْ إِذَا رَجَعُوْا إِلَیْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُوْنَ ) (التوبۃ : ١٢٢) (تاکہ وہ دین میں سمجھ حاصل کریں اور اپنی قوم کو ڈرائیں ،جب وہ ان کی طرف لوٹیں تاکہ وہ ڈریں) ، یہ ہر اس شخص کے بارے میں ہے ، جو طلب ِ علم وفقہ میںسفر کرے اور اسے حاصل کرکے اپنے پیچھے والے لوگوں کو سکھائے ۔”(معرفۃ علوم الحدیث للحاکم : ٢٦، شرف اصحاب الحدیث للخطیب : ١١٥، الرحلۃ فی طلب الحدیث للخطیب : ١٠، وسندہ، صحیحٌ)
اس قول کے تحت امام حاکم  رحمہ اللہ (م ٤٠٥ھ) لکھتے ہیں :         ففی ھذا النّص دلیل علی أنّ العلم المحتجّ بہ ھو المسموع غیر المرسل ۔
”اس نص میں اس بات پر دلیل ہے کہ قابل حجت علم وہی ہے جو بلاواسطہ سنا گیا ہو ، نہ کہ جومرسل ہو۔”(معرفۃ علوم الحدیث للحاکم : ٢٧)
نوٹ :      ”مرسل ”وہ روایت ہوتی ہے ، جو تابعی ڈائریکٹ نبی ئ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرے ۔
2    عظیم تابعی مجاہد بن جبر  رحمہ اللہ  کہتے ہیں :      جاء بشیر العدویّ إلی ابن عبّاس فجعل یحدّث ویقول قال رسول اللّٰہ -صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ـ قال رسول اللّٰہ – صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم- فجعل ابن عبّاس لا یأذن لحدیثہ ولا ینظر إلیہ فقال یا ابن عبّاس ! ما لی لا أراک تسمع لحدیثی ، أحدثک عن رسول اللّٰہ – صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم- ولا تسمع ، فقال ابن عبّاس إنّا کنّا مرّۃ إذا سمعنا رجلا یقول قال رسول اللّٰہ – صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم- ابتدرتہ أبصارنا وأصغینا إلیہ بآذاننا ، فلمّا رکب النّاس الصّعب والذّلول لم نأخذ من النّاس إلّا ما نعرف ۔ ”بشیر بن کعب عدوی  رحمہ اللہ ، سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آئے اور حدیث بیان کرتے ہوئے کہنے لگے ، اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلمنے یوں فرمایا، لیکن سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہما ان کی طرف توجہ نہیں کررہے تھے اور نہ ان کی طرف دیکھ ہی رہے تھے ۔انہوں نے عرض کی ، اے ابنِ عباس! کیا وجہ ہے کہ میں آپ کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ میری حدیث کو نہیں سن رہے ، حالانکہ میں آپ کو رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلمکی حدیث سنا رہاہوں ، سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرمانے لگے ، پہلے ہم جب کسی آدمی کو یہ کہتے سنتے تھے کہ اللہ کے رسول   صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا ، ہماری آنکھیں جلدی سے اس کی طرف دیکھتی تھیں اور ہم اپنے کان اس کی طرف لگا دیتے تھے ، لیکن جب سے لوگوں نے ضعیف اورمجروح ہر قسم کی حدیثیں بیان کرنا شروع کردیں تو اس وقت سے ہم لوگوں سے صرف وہی حدیث سنتے ہیں ، جس کا ہمیں پہلے سے علم ہوتاہے ۔”
(مقدمۃ صحیح مسلم : ١/١٠، ح : ٢٢)
یہ روایت اس بات پر واضح دلیل ہے کہ صحابہ کرام ] ”مرسل” حدیث کو حجت نہیں سمجھتے تھے ۔
3    الامام ، الفقیہ ،ابوبکر احمد بن اسحاق بن ایوب بن یزید بن عبدالرحمن بن نوح رحمہ اللہ فرماتے ہیں :      لو أن المرسل من الأخبار والمتصل سیان لما تکلف العلماء طلب الحدیث بالسماع ولما ارتحلوا فی جمعہ مسموعا ولا التمسوا صحتہ ولکان أہل کل عصر إذا سمعوا حدیثا من عالمہم وہو یقال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کذا وکذا لم یسألوہ عن إسنادہ وقد روینا عن جماعۃ من التابعین وأتباع التابعین کانوا یسألون عن السنۃ ثم یقولون للتابعین ہل من أثر وإذا ذکر الأثر قالوا ہل من قدوۃ وإنما یعنون بذلک الإسناد المتصل ولم یقتصروا علی قول الزہری وإبراہیم قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فکیف یقتصروا من مالک والنعمان إذا قالا قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ۔ ”اگر مرسل اور متصل احادیث ایک جیسی (حجت)ہوتیں تو علمائے کرام طلب ِ حدیث میں سماع کرنے کی زحمت نہ اٹھاتے ، نہ ہی خود سنی ہوئی احادیث کوجمع کرنے کے لیے وہ سفرکرتے ، نہ ہی وہ احادیث کی صحت کے متلاشی ہوتے ، نیز ہر دور کے لوگ جب اپنے عالم کو یہ کہتے سنتے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلمنے یوں فرمایا ، تو اس سے سند کے بارے میں سوال نہ کرتے ، حالانکہ تابعین اور تبع تابعین کی ایک جماعت سے ہم نے روایت کیا ہے کہ وہ سنت ِ نبوی کے بارے میں پوچھتے تھے ، پھر تابعین سے کہتے کہ کیا کوئی اثر ہے؟ کیا کوئی قدوہ ہے ؟ اس سے مراد وہ متصل سند لیتے تھے ۔ وہ(محمد بن مسلم) زہری رحمہ اللہ  اور ابراہیم (نخعی رحمہ اللہ ) کے اس قول پر اکتفا نہیں کرتے تھے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلمنے یوں فرمایا ہے ، پھر امام مالک اور امام ابوحنیفہ اگر کہیں کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلمنے یوں فرمایا ہے تو ان کی بات پر کیسے اکتفا کیا جاسکتا ہے ؟ ”(الکفایۃ فی علم الروایۃ للخطیب : ١٢٤٥، وسندہ، صحیحٌ)
4    قاضی ابو بکر محمد بن الطیب  رحمہ اللہ ”مرسل” کے حجت نہ ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں :      ولا یقبل خبر من جہلت عینہ وصفتہ لأنہ حینئذ لا سبیل الی معرفۃ عدالتہ ہذا قول کل من شرط العدالۃ ولم یقبل المرسل فأما من قال ان العدالۃ ہی ظاہر الإسلام فإنہ یقبل خبر من جہلت عینہ لأنہ لا یکون الا مسلما ویجب علیہم ان لا یقبلوا خبرہ حتی یعلموا مع إسلامہ انہ بریء من الفسق المسقط للعدالۃ ومع الجہل بعینہ لا یؤمن ان یکون ممن أصاب فسقا إذا ذکر عرفوہ بہ ۔ ”جس شخص کی ذات اور صفت مجہول ہو ، اس کی حدیث قبول نہیں ہوتی ، کیونکہ ایسی صورت ِ حال میں اس شخص کی عدالت پہنچاننے کا کوئی طریقہ نہیں ہوتا۔ یہ ان تمام لوگوں کا موقف ہے ، جو عدالت کو(صحت ِ حدیث میں)شرط سمجھتے ہیں اور مرسل کو قبول نہیں کرتے ۔ جو لوگ ظاہری اسلام کو عدالت سمجھتے ہیں ، وہ اس کی حدیث بھی قبول کر لیتے ہیں ، جس کی ذات مجہول ہو ، کیونکہ وہ مسلمان ہی ہوتا ہے ، لیکن ان پر ضروری ہے کہ وہ اس کی حدیث کو اس وقت تک قبول نہ کریں ، جب تک اس کے مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ثابت نہ ہوجائے کہ وہ ایسے فسق سے بری ہے ، جو عدالت کو ختم کردیتا ہے ، جبکہ ذات مجہول ہونے کے ساتھ اس بات سے بے خوف نہیں ہوا جاسکتا کہ وہ شخص ان لوگوں میں سے ہو جو فسق کے مرتکب ہوں ۔ جب وہ اس (مجہول)کا ذکر کریں تو محدثین اس کو پہچان لیں۔”
(الکفایۃ للخطیب : ١١٨٠، وسندہ، صحیحٌ)
5    امام مسلم  رحمہ اللہ (٢٠٤۔٢٦١ھ)”مرسل ” کے بارے میںفرماتے ہیں :
والمرسل فی أصل قولنا وقول أھل العلم بالأخبار لیس بحجّۃ ۔
”ہمارے اور محدثین کے ہاں مرسل حجت نہیں ہے ۔”
(مقدمۃ صحیح مسلم : ١/٢٢، ص ٢٠ طبع دار السلام)
امام ابنِ خزیمہ رحمہ اللہ (م ٣١١ھ) فرماتے ہیں : لا نحتجّ بالمراسیل ، ولا بالأخبار الواہیۃ ۔     ”ہم مرسل اورضعیف روایات سے حجت نہیں لیتے۔”
(کتاب التوحید لابن خزیمۃ : ١/١٣٧)
7    امام طحاوی حنفی  رحمہ اللہ (٢٣٨۔٣٢١ھ)لکھتے ہیں :      وھم لا یحتجّون بالمراسیل ۔ ”وہ (محدثین) مرسل روایات سے دلیل نہیں لیتے ۔”
(نصب الرایۃ للزیلعی الحنفی : ١/٥٨)
8    امام احمد بن حنبل  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :      مرسلات سعید بن المسیّب أصحّ المرسلات ، ومرسلات إبراہیم النّخعیّ لا بأس بھا ، ولیس فی المرسلات أضعف شیء من مرسلات الحسن وعطاء ابن أبی رباح ، فإنّھما یأخذان عن کلّّ أحد ۔     ”سعید بن مسیب  رحمہ اللہ کی مرسل روایات سب مرسلات سے زیادہ صحیح ہیں ، ابراہیم نخعی  رحمہ اللہ کی مرسل روایات میں کوئی حرج نہیں ، مرسلات میں حسن بصری  رحمہ اللہ اور عطاء بن ابی رباح  رحمہ اللہ کی مرسلات سے بڑھ کر ضعیف اور کوئی نہیں ، کیونکہ وہ دونوں ہر ایک سے روایات لیتے تھے ۔”
(المعرفۃ والتاریخ للفسوی : ٣/٢٣٩، الکفایۃ للخطیب : ٣٨٦، وسندہ، صحیحٌ)
9    یونس بن عبدالاعلیٰ الصدفی کہتے ہیں کہ مجھے امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا :      نقول : الأصل قرآن أو سنّۃ ، فإن لم یکن فقیاس علیھما ، وإذا اتّصل الحدیث عن رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، وصحّ الإسناد بہ ، فھو سنّۃ ، ولیس المنقطع بشیء ، ما عدا منقطع سعید بن المسیّب ۔
”ہم کہتے ہیں کہ اصل قرآن وسنت ہیں ، اگر کوئی نص نہ ہو تو ان دونوں پر قیا س ہوگا ۔ جب رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلمسے کوئی حدیث باسند ِ متصل ہو اور سند صحیح بھی ہو تو وہ سنت ہے ۔ منقطع روایات کچھ بھی نہیں ، سوائے سعید بن مسیب کی منقطع روایات کے ۔”
(کتاب المراسیل لابن ابی حاتم : ٦ ، وسندہ، صحیحٌ)
سعید بن مسیب رحمہ اللہ کی منقطع روایات کو صحیح قرار دینا امام شافعی رحمہ اللہ کی خطا ہے ، کیونکہ ان کے خیال میں سعید بن مسیب  رحمہ اللہ صرف ثقہ سے روایت کرتے تھے ، لہٰذا محذوف راوی بھی ثقہ ہی ہوگا ، لیکن عین ممکن ہے کہ جسے سعید بن مسیب رحمہ اللہ ثقہ سمجھتے ہوں ،دوسرے ائمہ کے نزدیک وہ ”ضعیف” ہو ، لہٰذا دوسرے راویوں کی مراسیل کی طرح امام سعید بن مسیب رحمہ اللہ کی مراسیل بھی ناقابل حجت ہوتی ہیں ۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :      ولسنا ولا إیّاک نثبت المرسل ۔
”نہ ہم مرسل کو صحیح سمجھتے ہیں ، نہ آپ۔”(اختلاف الحدیث للشافعی : ٥٦٠)
0    امام ابن ابی حاتم الرازی رحمہ اللہ  (م ٣٢٧ھ) فرماتے ہیں :
سمعت أبی وأبا زرعۃ یقولان : لا یحتجّ بالمراسیل ، ولا تقوم الحجّۃ إلّا بالأسانید الصّحاح المتّصلۃ ، وکذا أقول أنا ۔ ”میں نے اپنے والد (امام ابوحاتم  رحمہ اللہ )اور امام ابوزرعہ  رحمہ اللہ (م ٢٦٤ھ)سے سنا ، وہ دونوں فرما رہے تھے کہ مرسل روایات سے حجت نہیں لی جائے گی ، حجت صرف صحیح اورمتصل سندوں کے ساتھ قائم ہوسکتی ہے ۔ میں بھی ایسا ہی کہتا ہوں ۔”(کتاب المراسیل لابن ابی حاتم : ٧)
!    امام دارقطنی  رحمہ اللہ (م ٣٨٥ھ) فرماتے ہیں : والحدیث مرسل ، لا تقوم بہ الحجّۃ ۔ ”یہ حدیث مرسل ہے اور اس کے ساتھ حجت قائم نہیں ہوسکتی ۔”(سنن الدارقطنی : ١/٣٩٨)
@    امام ابن المنذر  رحمہ اللہ  (م٣١٠ھ) فرماتے ہیں : والمرسل من الحدیث ، لا تقوم بہ الحجّۃ ۔ ”مرسل حدیث سے حجت قائم نہیں ہوتی۔”
(الاوسط لابن المنذر : ١/٢٢٨، ١/٢٧١)
#    امام ابن عبدالبر  رحمہ اللہ  (م ٤٦٣ھ) لکھتے ہیں : وحجّتھم فی ردّ المراسیل ما أجمع علیہ العلماء من الحاجۃ إلی عدالۃ المخبر عنہ ، وأنّہ لا بدّ من علم ذلک ۔     ”مرسل روایات کو رد کرنے پر ان کی دلیل حدیث بیان کرنے والے کی عدالت کو معلوم کرنے کی ضرورت ہے ، جس پرعلمائے کرام کا اجماع ہے ۔ عدالت کا علم ہونا (صحت ِ حدیث کے لیے )ضروری ہے ۔”(التمہید لابن عبد البر : ١/٥۔٦)
$    امام ابنِ حبان  رحمہ اللہ (م ٣٥٤ھ)”مرسل” حدیث کے ”ضعیف” ہونے کی وجوہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :      والمرسل من الخبر وما لم یرو سیان فی الحکم عندنا لأنا لو قبلنا إرسال تابعی وإن کان ثقۃ فاضلا علی حسن الظن لزمنا قبول مثلہ عن أتباع التابعین ومتی قبلنا ذلک لزمنا قبول مثل ذلک عن تباع التبع ومتی قبلنا ذلک لزمنا أن نقبل من کل إنسان إذا قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ، وفی ہذا نقض الشریعۃ ۔
”مرسل روایت ہمارے نزدیک نہ ہونے کے برابر ہے ، کیونکہ اگر ہم ثقہ فاضل تابعی کے ارسال کوحسنِ ظن کرتے ہوئے قبول کرلیں تو ہمیں تبع تابعین کا ارسال بھی اسی طرح قبول کرنا پڑے گا اور جب ہم یہ بھی کرلیں گے تو تبع تابعین کے بعد والوں کا بھی ارسال قبول کرنا پڑے گا ، جب یہ بھی کرلیں گے تو پھر ان کے بعد والوں کا ارسال بھی قبول کرنا پڑے گا ، جب ایسا بھی کرلیں گے تو پھر ہمیں ہرانسان کا یہ کہنا قبول کرنا پڑے گا کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا ، حالانکہ اس کام میں شریعت کی مخالفت ہے ۔۔۔”(صحیح ابن حبان ، تحت حدیث : ٢١١٠)
امام ابنِ حبان  رحمہ اللہ کے اس قول کا ردّ کرتے ہوئے علامہ عینی حنفی(٧٦٢۔٨٥٥ھ) لکھتے ہیں : وأما قولہ : والمرسل عندنا وما لم یُرْو سیان ، إلی آخرہ ، فغیر مُسلّم أیضا لأنّ إرسال العدل من الأئمۃ تعدیل لہ ، إذ لو کان غیر عدل لوجب علیہ التنبیہ علی جرْحہ ، والإخبار عن حالہ ، فالسکوت بعد الروایۃ عنہ یکون تلبیسا أو تحمیلاً للناس علی العمل بما لیس بحجۃ ، والعدل لا یتّہم بمثل ذلک ، فیکون إرسالہ توثیقا لہ ۔۔۔ ”رہا امام ابنِ حبان رحمہ اللہ کا یہ کہنا کہ ہمارے نزدیک مرسل روایت نہ ہونے کے برابر ہے تو یہ ایسی بات ہے ،جسے تسلیم نہیں کیا جائے گا ، کیونکہ کسی عادل امام کا ارسال کرنا محذوف راوی کی توثیق شمار ہوگا ، کیونکہ اگر وہ محذوف راوی عادل نہ ہو تو ارسال کرنے والے امام پر واجب تھا کہ وہ اس پر تنبیہ کرتا اور اس کے حالات پر آگاہی دیتا ۔ روایت بیان کرنے کے بعد اس سے خاموشی اختیار کرنا تو ایک قسم کی تلبیس ہے اور لوگوں کو ایک ایسے راوی کی حدیث پر آمادہ کرنے کی کوشش ہے ، جو کہ قابل حجت نہیں اور کسی عادل امام کے بارے میں ایسا گمان نہیں رکھا جاسکتا ، لہٰذا عادل راوی کا ارسال محذوف راوی کی توثیق شمار ہوگی۔۔۔” (شرح ابی داو،د للعینی الحنفی : ٣/١٢٢)
لیکن علامہ عینی حنفی کی یہ بات درست نہیں ، کیونکہ بہت سے ثقہ وعادل اماموں کاغیرثقہ راویوں سے روایت لینا ثابت ہے اوربسااوقات وہ عادل امام اس ”ضعیف” راوی کو ثقہ سمجھتے تھے ، جبکہ دوسرے محدثین کے ہاں وہ ”ضعیف” تھے ، جیسا کہ امام شعبہ  رحمہ اللہ بہت بڑے ثقہ وعادل امام ہیں ،لیکن انہوں نے بہت بڑے ”ضعیف ورافضی” راوی جابر جعفی سے روایات لی ہیں اورباقی تمام محدثین سے ہٹ کر امام شعبہ  رحمہ اللہ جابر جعفی کو ثقہ بھی سمجھتے تھے ، جیسا کہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : وثّقہ شعبۃ وشذّ ، وترکہ الحفّاظ ۔۔۔
”امام شعبہ  رحمہ اللہ نے جابر جعفی کو ثقہ کہا ہے اور اس بات میںانہوں نے باقی محدثین کی مخالفت کی ہے ، جبکہ دوسرے محدثین نے اسے متروک قرار دیا ہے ۔”
(الکاشف للذہبی : ت ٧٣٩)
اب دیکھ لیں کہ امام شعبہ  رحمہ اللہ جابر جعفی کو ثقہ سمجھ کر روایت کرتے ہیں ، اسی طرح ممکن ہے کہ جس راوی کو ارسال کرنے والا امام ثقہ سمجھ رہا ہے ، وہ فی الحقیقت سخت ”ضعیف” ہو اور اس طرح ”مرسل” کو حجت سمجھنا ایک ”ضعیف ومتروک” راوی کی جھوٹی روایت کو حجت سمجھنے کے مترادف ہوجائے گا ، جوکہ بہت بڑی خرابی ہے ۔
امام بیہقی  رحمہ اللہ (٣٨٤۔٤٥٨ھ)فرماتے ہیں :
ومن زعم أنّ المرسل أقوی من المتّصل ، فہو کمن زعم أنّ اللیل أضوء من النہار والأعمی أبصر من البصیر ، فإنّ المرسل مغیب المعنی ، لا یدری عمّن أخذہ من أرسلہ ، ومن ادّعی أنّہ لا یأخذہ إلّا عن ثقۃ ، فقد ادّعی ما ہو بخلافہ عند کافّۃ أہل العلم بالحدیث ، فإنّا نجدہم یروون عن الثقات ویروون عن غیرہم ، وربّما یسکتون عن ذکر من سمعوہ منہ حتی یسألوا ، فإذا سئلوا ربّما ذکروا من یرغب عنہ فی الروایۃ أو فی الدیانۃ أو فیہما ، وأہل العلم مختلفون فیما یجرّح بہ الراوی ، فلا بدّ من تسمیتہ لیوقف علی حالہ فتستبین عدالتہ أو جرحہ عند من بلغہ خبرہ من أہل العلم ۔
”اور جس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ مرسل روایت متصل سے بھی قوی ہوتی ہے ، وہ اس بے وقوف کی طرح ہے ، جو کہے کہ رات ، دن سے زیادہ روشن ہے اور نابینا ، بینا سے زیادہ دیکھنے والا ہے ، کیونکہ مرسل کا معاملہ غیبی ہوتا ہے ، اس کے بارے میں یہ علم نہیں ہوتا کہ جس نے ارسال کیا ہے ، اس نے کس سے اسے اخذ کیا ہے ؟ اور جس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ارسال کرنے والا صرف ثقہ سے ہی روایت لیتا تھا تو اس نے ایسا دعویٰ کیا ہے ، جو سارے محدثین کے خلاف ہے ، کیونکہ ہم محدثین کو دیکھتے ہیں کہ وہ ثقہ راویوں سے بھی روایات لیتے ہیں اور غیرثقہ راویوں سے بھی بیان کرتے ہیں اور بسااوقات وہ اس وقت تک اس شخص کا نام نہیں لیتے ، جس سے انہوں نے سنا ہوتا ہے، جب تک ان سے پوچھ نہ لیا جائے ،پھر بسااوقات وہ ایسے شخص کا نام لیتے ہیں ، جو روایت و دیانت میں سے کسی ایک چیز میں یا دونوں چیزوں میں ناقابل التفات ہوتاہے ۔ نیز اہل علم راوی پرجرح کرنے کے اسباب میں مختلف ہیں ، لہٰذا محذوف راوی کا نام بیان کیا جانا ضروری ہے تاکہ اس کے حالات پر واقفیت حاصل کی جاسکے اور یوں اس کی عدالت یا جرح ان اہل علم پر واضح ہوجائے ، جن کے پاس اس کی حدیث پہنچے ۔”
(کتاب القراء ۃ خلف الامام للامام البیہقی : ص ١٥٤)
اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو قبول کرنے کی ہمت عطا فرمائے ! آمین!
%    امام ترمذی رحمہ اللہ (م ٢٧٩ھ) فرماتے ہیں :
ومن ضعف المرسل فإنہ ضعف من قبل أن ہؤلاء الأئمۃ حدثوا عن الثقات وغیر الثقات فإذا روی أحدہم حدیثا وأرسلہ لعلہ أخذہ عن غیر ثقۃ ۔
”جن محدثین نے مرسل کو ضعیف قرار دیا ہے ، انہوں نے اس وجہ سے اسے ضعیف کہا ہے کہ ان ائمہ کرام نے ثقہ راویوں سے بھی احادیث بیان کی ہیں اور غیر ثقہ راویوں سے بھی ۔ جب کوئی مرسل حدیث بیان کرتا ہے تو (یہ شبہ ہو جاتا ہے کہ)شاید اس نے غیرثقہ سے لی ہو ۔”
(العلل للترمذی : ٨٩٧)
^    امام خطیب بغدادی  رحمہ اللہ (م ٤٦٣ھ) لکھتے ہیں :
والذی نختارہ من ہذہ الجملۃ سقوط فرض العمل بالمراسیل وان المرسل غیر مقبول والذی یدل علی ذلک ان إرسال الحدیث یؤدی الی الجہل بعین راویہ ویستحیل العلم بعدالتہ مع الجہل بعینہ وقد بینا من قبل انہ لا یجوز قبول الخبر الا ممن عرفت عدالتہ فوجب لذلک کونہ غیر مقبول وأیضا فان العدل لو سئل عمن أرسل عنہ فلم یعد لہ لم یجب العمل بخبرہ إذا لم یکن معروف العدالۃ من جہۃ غیرہ وکذلک حالہ إذا ابتدأ الإمساک عن ذکرہ وتعدیلہ لأنہ مع الإمساک عن ذکرہ غیر معدل لہ فوجب ان لا یقبل الخبر عنہ ۔ ”خلاصہ یہ کہ ہمارے نزدیک مرسل حدیث کے ساتھ عمل واجب نہیں ہوتا ، نیز مرسل غیرمقبول ہے ، اس کی دلیل یہ ہے کہ حدیث کا ارسال اس کے راوی کی ذات کو مجہول بنا دیتا ہے ، جبکہ اس کی جہالت کے ہوتے ہوئے اس کی عدالت ثابت ہونا محال ہے اور ہم پہلے یہ بیان کرچکے ہیں کہ حدیث صرف اس شخص کی قبول کی جائے گی ، جس کی عدالت معلوم ہو ، اس طرح غیرمقبول چیز لازم ہوجائے گی ، اسی طرح اگر ارسال کرنے والے سے پوچھا جائے کہ اس نے کس سے ارسال کیا ہے ؟ وہ اس کی عدالت بیان نہ کرے تو اس کی حدیث پر عمل واجب نہیں ہوگا ،جب وہ کسی اور طریقے سے معروف ثابت نہ ہوجائے ، اسی طرح وہ صورت ِ حال ہے ، جب ارسال کرنے والا اس راوی کا ذکر کرنے اور اس کی تعدیل سے رک جائے ، کیونکہ اس کو ذکر نہ کرنا اس کی عدالت کو مسلتزم نہیں ، لہٰذا اس کی حدیث کو قبول نہیں کیا جائے گا۔”
(الکفایۃ فی علم الروایۃ : ٣٨٨)
&    حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ ”مرسل” کو حدیث کی مردود وضعیف اقسام میں شمار کرتے ہوئے لکھتے ہیں : وإنما ذکر فی قسم المردود للجہل بحال المحذوف؛ لأنہ یحتمل أن یکون صحابیا، ویحتمل أن یکون تابعیا ، وعلی الثانی یحتمل أن یکون ضعیفا، ویحتمل أن یکون ثقۃ، وعلی الثانی یحتمل أن یکون حمل عن صحابی، ویحتمل أن یکون حمل عن تابعی آخر، وعلی الثانی فیعود الاحتمال السابق، ویتعدد ، أما بالتجویز العقلی فإلی ما لا نہایۃ لہ، وأما بالاستقراء فإلی ستۃ أو سبعۃ، وہو أکثر ما وجد من روایۃ بعض التابعین عن بعض ۔ ”بلاشبہ مرسل کو مردود کی قسم میں اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ محذوف راوی کی حالت معلوم نہیں ہوتی ، اس وقت احتمال ہوتا ہے کہ وہ صحابی ہو اور یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ وہ تابعی ہو ، تابعی ہونے کی صورت میں اس کے ثقہ ہونے کا بھی احتمال ہوتا ہے اور ضعیف ہونے کا بھی ، نیز یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ اس محذوف تابعی نے یہ حدیث کسی صحابی سے لی ہو یا کسی اورتابعی سے ، اگر کسی تابعی سے لیا ہو تو پھر وہی دوسرا (تابعی کے ضعیف ہونے کا )احتمال دوبارہ آجاتا ہے اور یہ احتمال کئی بار ہوتا ہے ، عقلی اعتبار سے یہ سلسلہ لامتناہی حدتک چلا جاتا ہے ، لیکن تتبع کے اعتبار سے چھ سے سات تک یہ سلسلہ چلتا ہے ۔کیونکہ تابعین کی تابعین سے روایت کا یہ سلسلہ چھ یا سات تک ہی چلتا ہے ۔”(نزہۃ النظر : ٧٩)
&    حافظ ابن الصلاح  رحمہ اللہ (م٦٤٣ھ)”مرسل” کے عدم ِ حجت اور ضعف کو یوں بیان کرتے ہیں :      وما ذکرنا من سقوط الاحتجاج بالمرسل ، والحکم بضعفہ ، ھو الّذی استقرّ علیہ آراء جماعۃ حفاظ الحدیث ، ونقّاد الأثر ، وتداولوہ فی تصانیفھم ۔ ”ہم نے جو یہ کہا ہے کہ مرسل سے حجت نہیں لی جاسکتی اور اس پر ضعف کا حکم لگے گا ، یہ قول وہ ہے ، جس پر حفاظ ِ حدیث اور نقاد ِ آثار کی ایک جماعت کا عمل رہا ہے اور انہوں نے اپنی تصانیف میں اسے جابجا ذکر کیا ہے ۔”
(مقدمۃ ابن الصلاح :ص ٣١)
الحاصل :      ”مرسل” حدیث جمہور نقاد محدثین کے نزدیک ناقابل حجت اور ”ضعیف” ہوتی ہے ۔

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں