باب علم

تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری حفظ اللہ

سیدنا علی رضی اللہ عنہ داماد رسول، حلیفہ چہارم اور شیر خدا ہیں۔ زبان نبوت سے انہیں بہت سے فضائل و مناقب نصیب ہوئے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو بات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے باسند صحیح ہم تک پہنچ گئی ہے، ان کی حقیقی فضیلت و منقبت وہی ہے۔ من گھڑت، ’’ منکر“ اور ’’ ضعیف“ روایات پر مبنی پلندے کسی بھی طرح فضائل و مناقب کا درجہ نہیں پا سکتے۔ ایک ایسی ہی بات کا تذکرہ ہم یہاں پر کر رہے ہیں ؛
أنا مدينة العلم، وعلي بابها
’’ میں علم کا شہر ہوں اور علی (رضی اللہ عنہ) اس کا دروازہ ہیں۔“
عوام الناس میں مشہور ہے کہ یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے، مگر حقیقت میں ایسا نہیں، کیونکہ اصول محدثین کے مطابق یہ روایت پایہ صحت کو نہیں پہنچتی۔ اس کی استنادی حیثیت جاننے کے لیے اس سلسلے میں مروی تمام روایات پر تفصیلی تحقیق ملاحظہ فرمائیں ؛
روایت نمبر : 

سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أنا دار الحكمة، وعلي بابها
’’ میں حکمت کا گھر ہوں اور علی ( رضی اللہ عنہ ) اس کا دروازہ ہیں۔“ [سنن الترمذي : 3723، تهذيب الآثار للطبري، مسند علي، ص : 104]

تبصرہ :
اس روایت کی سند ”ضعیف“ ہے، کیونکہ :
➊ اس میں محمد بن عمر بن عبداللہ رومی راوی جمہور محدثین کے نزدیک ”ضعیف“ ہے، جیسا کہ :
◈ امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فيه ضعف. ”اس میں کمزوری پائی جاتی ہے۔“ [الجرح والتعديل لابن أبى حاتم : 8؍22]
◈ امام ابوزرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
شيخ لين . ”یہ کمزور راوی ہے“۔ [الجرح و التعديل لا بن ابي حاتم 22/8]
◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
يقلب الـأخبار، ويأتي من الثقات بما ليس من أحاديثهم، لا يجوز الاحتجاج به بحال
”یہ حدیثوں کو الٹ پلٹ کرتا ہے اور ثقہ راویوں سے منسوب کر کے وہ روایت کو کسی بھی صورت دلیل بنانا جائز نہیں۔ “ [المجروحين : 94/2]
یاد رہے کہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے وہم کی بنا پر یہ جرح محمد بن عمر کے والد کے حالات میں ذکر کر دی ہے اور محمد بن عمر کو الثقات [71/9] میں ذکر کر دیا ہے۔
◈ اس سلسلے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
غلط ابن حبان فلينه، وانما اللين ابنه محمد بن عمر
”امام ابن حبان رحمہ اللہ نے غلطی کی بنا پر عمر بن عبداللہ کو کمزور قرار دے دیا ہے، دراصل اس کا بیٹا محمد بن عمر کمزور راوی ہے۔ ‘‘ [ميزان الاعتدال : 698/4]
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اس کی حدیث کو کمزور قرار دیا ہے۔ [تقريب التهذيب : 6169]
➋ اس میں شریک بن عبداللہ روای بھی موجود ہے۔ جس کے بارے میں :
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
صدوق يخطئ كثيرا، تغير حفظه منذ ولي القضاء بالكوفة
”یہ سچے تھے، مگر بہت زیادہ غلطیاں کرتے تھے۔ جب سے یہ کوفہ کے قاضی بنے تھے، ان کے حافظے میں خرابی آ گئی تھی۔“ [تقريب التهذيب : 2787]
↰ کسی بھی دلیل سے یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ محمد بن عمر رومی نے شریک بن عبداللہ قاضی سے ان کا حافظہ خراب ہونے سے پہلے احادیث روایت کی ہوں۔
◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كان فى آخر أمره يخطئ فيما يروي، تغير عليه حفظه، فسماع المتقدمين عنه؛ الذين سمعوا منه بواسط، ليس فيه تخليط، مثل يزيد بن هارون، وإسحاق الـأزرق، وسماع المتأخرين عنه بالكوفة؛ فيه أوهام كثيرة
”عمر کے آخری حصے میں شریک بن عبداللہ کی بیان کردہ روایات میں غلطیاں پائی جاتی ہیں، کیونکہ اس کا حافظہ خراب ہو گیا تھا۔ ان کے اولین شاگردوں میں سے جنہوں نے واسط کے علاقہ میں سماع کیا، جیسا کہ یزید بن ہارون اور اسحاق ازرق ہیں، ان کی روایات میں حافظے کی خرابی کا کوئی دخل نہیں۔ لیکن جن متاخرین تلامذہ نے کوفہ میں ان سے سماع کیا، ان کی بیان کردہ روایات میں بے شمار اوہام پائے جاتے ہیں۔“ [الثقات : 444/6]

↰ شریک بن عبداللہ قاضی کی ولادت 95 ہجری اور وفات 177 ہجری میں ہوئی۔ وہ 150 ہجری میں واسط کے قاضی مقرر ہوئے۔ بعد میں ابوجعفر منصور کی وفات کے بعد کوفہ کے قاضی بنے۔ ابوجعفر منصور کی وفات 158 ہجری میں ہوئی اور محمد بن عمر رومی 220 ہجری کے قریب فوت ہوئے۔ یہ تقریباً 62 سال کا فاصلہ بنتا ہے۔ اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ محمد بن عمر رومی، جو کہ خود ”ضعیف“ راوی ہے، نے شریک قاضی سے ان کے حافظہ کی خرابی کے بعد روایات سنی ہیں۔

➌ اس میں شریک بن عبداللہ قاضی کی ’’ تدلیس“ بھی ہے۔
↰ یہی وجہ ہے کہ اہل علم نے اس روایت کو صریح انداز میں جھوٹی، باطل اور ”منکر“ قرار دیا ہے، جیسا کہ :
◈ امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ”منکر“ ہے۔ [الجرح و التعديل لا بن ابي حاتم : 22/8]
◈ امام ترمذی رحمہ اللہ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
هذا حديث غريب منكر ”یہ حدیث غریب ومنکر ہے۔“ [سنن الترمذي : 3723]
◈ امام بن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
هٰذا خبر لا أصل له عن النبى صلى اللہ عليه وسلم .
”یہ روایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔“ [المجروحين : 94/2]
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فما أدري من وضعه . ”میں نہیں جانتا کہ اسے کس نے گھڑا ہے۔“ [ميزان الاعتدال : 668/3]
——————
روایت نمبر : 

سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہی سے منسوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : أنا دار الحكمة، وعلي بابها، (زاد الـآجري 🙂 فمن أراد أتاها من بابها . ’’ میں حکمت کا گھر ہوں اور علی ( رضی اللہ عنہ ) اس کا دروازہ ہیں۔ امام آجری رحمہ اللہ نے اس روایت میں یہ الفاظ زیادہ کیے ہیں : جو اس گھرمیں آنا چاہے، وہ اس کے دروازے سے آئے۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے : إن بين أضلاعي لعلما كثيرا ’’ میری پسلیوں کے درمیان (میرے دل میں ) بہت زیادہ علم ہے۔“ [جزء الألف دينار للقطيعي : 216، زوائد فضائل الصحابة للقطيعي : 635,634/1، الشريعة للآجري : 233,232/3، معرفة الصحابة لأبي نعيم الأصبهاني : 308/1، الموضوعات لابن الجوزي : 349/1]

تحقیق :
اس روایت کی سند کا حال وہی ہے، جو مذکورہ سند کا تھا۔

——————
روایت نمبر : 

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أنا مدينة العلم، وعلي بابها، فمن أراد العلم؛ فليأت باب المدينة .
’’ میں علم کا شہر ہوں، علی (رضی اللہ عنہ) اس کا دروازہ ہیں، لہٰذا جو علم حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، وہ شہر کے دروازے سے آئے۔“ [مناقب على لابن المغازلي : 129، تاريخ دمشق لابن عساكر : 378/42]

تبصرہ :
یہ سند کئی وجوہ سے مخدوش ہے، کیونکہ اس میں ؛
➊ شریک بن عبداللہ قاضی کی ’’ تدلیس“ ہے۔
➋ سلمہ بن کہیل نے صنابحی سے نہیں سنا۔
سوید بن سعید حدثانی کے بارے میں :
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
موصوف بالتدليس؛ وصفه الدارقطني والإسماعيلي وغيرهما، وقد تغير فى آخر عمره بسبب العمي، فضعف بسبب ذٰلك .
’’ یہ تدلیس کے ساتھ موصوف ہے، امام دارقطنی اور امام اسماعیلی وغیرہما نے
اسے مدلس کہا ہے، نابینا ہونے کے سبب عمر کے آخری حصہ میں حافظہ میں بھی تغیر آ گیا تھا، اسی وجہ سے ضعیف قرار پایا۔“ [طبقات المدلسين : 120]

——————
روایت نمبر : 

سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أنا مدينة الفقه، وعلي بابها
’’ میں فقہ کا شہر ہوں، علی اس کا دروازہ ہے۔“ [الشريعة فى السنة للآجري : 232/3،حلية الأولياء وطبقات الأصفياء لأبي نعيم الأصبهاني : 64/1، الموضوعات لابن الجوزي : 349/1]

تبصرہ :
یہ جھوٹی سند ہے، اس میں کئی علتیں پائی جاتی ہیں :
➊ عبدالحمید بن بحر بصری راوی پر احادیث کے سرقہ کا الزام ہے۔
◈ اس کے بارے میں امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ولعبد الحميد هٰذا غير حديث منكر، رواه وسرقه من قوم ثقات
’’ اس عبدالحمید کی بیان کردہ کئی ایک حدیثیں منکر ہیں، جنہیں اس نے ثقہ راویوں سے سرقہ کر کے روایت کیا ہے۔“ [الكامل فى ضعفاء الرجال : 325/5]
◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
يروي عن مالك وشريك والكوفيين ما ليس من أحاديثهم، وكان يسرق الحديث، لا يحل الاحتجاج به بحال
’’ یہ مالک، شریک اور کوفیوں سے وہ حدیثیں بیان کرتا ہے، جو انہوں نے
بیان ہی نہیں کیں۔ یہ حدیث کاسرقہ کرتا تھا، کسی صورت میں بھی اس کی روایت سے دلیل لینا جائز نہیں۔“ [المجروحين : 142/2]
◈ امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
يروي عن مالك بن مغول وشريك أحاديث مقلوبة
’’ یہ مالک بن مغول اور شریک سے مقلوب حدیثیں بیان کرتاتھا۔“ [لسان الميزان لابن حجر : 395/3]
◈ امام ابونعیم اصبہانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
يروي عن مالك وشريك أحاديث منكرة
’’ یہ مالک اور شریک سے منکر احادیث بیان کرتا ہے۔“ [الضعفاء : 135]
➋ شریک بن عبداللہ قاضی کی ’’ تدلیس“ بھی ہے۔
◈ اس روایت کے بارے میں ذہبی دوراں، علامہ معلّمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وإن المروي عن شريك لا يثبت عنه، ولو ثبت لم يتحصل منه علٰي شيئ لتدليس شريك وخطئه، والاضطراب الذى لا يوثق منه علٰي شيئ
’’ بلاشبہ شریک سے یہ روایت ثابت نہیں، بالفرض اگر ثابت ہو بھی جائے، تو
بھی اس سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، کیونکہ اس میں شریک کی تدلیس، خطا اور
اضطراب بھی ہے، جس کی وجہ سے اس پر کسی چیز میں بھی اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔“ [حاشية الفوائد المجموعة للشوكاني، ص : 352]

——————
روایت نمبر : 

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أنا مدينة الجنة، وأنت بابها يا علي، كذب من زعم أنه يدخلها من غير بابها .
’’ میں جنت کا شہر ہوں اور اے علی ( رضی اللہ عنہ ) آپ اس کا دروازہ ہیں، جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اس شہر میں دروازے کے علاوہ کہیں اور سے داخل ہو جائے گا، وہ جھوٹ بولتاہے۔“ [تاريخ دمشق لابن عساكر : 378/42، اللآلي المصنوعة للسيوطي : 335/1]

تبصرہ :
اس کی سند جھوٹی ہے، کیونکہ :
➊ سعد بن طریف اسکانی راوی کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
متروك ورماه ابن حبان بالوضع، وكان رافضيا
’’ یہ متروک راوی ہے، امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے وضاع قرار دیا ہے۔ یہ رافضی تھا۔“ [تقريب التهذيب : 2241]
➋ اصبغ بن نباتہ تمیمی کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
متروك، رمي بالرفض
’’ یہ متروک راوی ہے، اسے محدثین کرام نے رافضی قرار دیا ہے۔“ [تقريب التهذيب : 537]

——————
روایت نمبر : 

سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
شجرة أنا أصلها، وعلي فرعها، والحسن والحسين من ثمرها، والشيعة ورقها، فهل يخرج من الطيب إلا الطيب؟ وأنا مدينة العلم، وعلي بابها، فمن أرادها؛ فليأت الباب
’’ میں درخت کا تناہوں، علی ( رضی اللہ عنہ ) اس کی شاخ ہیں، حسن اور حسین ( رضی اللہ عنہما ) اس کے پھل ہیں اور شیعہ اس کے پتے ہیں۔ پاکیزہ چیز سے صرف پاکیزہ چیز ہی پیدا ہوتی ہے۔ میں علم کا شہر ہوں، علی ( رضی اللہ عنہ ) اس کا دروازہ ہیں، لہٰذا جو شہر میں داخل ہونےکا ارادہ رکھتا ہے، وہ اس کے دروازے سے آئے۔“ [تلخيص المتشابة للخطيب : 308/1، تاريخ دمشق لابن عساكر : 383/42، 384]

تبصرہ :
اس کی سند بھی جھوٹی اور من گھڑت ہے، کیونکہ :
◈ امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
يحيي بن بشارنالكندي الكوفي حدث عن إسماعيل بن إبراهيم الهمداني، وجميعا مجهولان
’’ یحییٰ بن بشار کندی، کوفی نے اسماعیل بن ابراہیم ہمدانی سے یہ روایت بیان کی ہے اور یہ دونوں ہی مجہول ہیں۔“ [تلخيص المتشابه : 308/1]
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
يحيي بن بشارن الكندي لا يعرف عن مثله، وأتٰي بخبر مباطل
’’ یحییٰ بن بشار کندی غیر معروف راوی ہے۔ اس نے جھوٹی روایت بیان کی ہے۔“ [ميز ان الاعتدال : 366/4]

——————
روایت نمبر : 

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أنا مدينة الحكمة، وأنت ـ يا علي ـ بابها
’’ میں حکمت کا شہر ہوں، اے علی ( رضی اللہ عنہ ) ! آپ اس کا دروازہ ہیں۔“ [الأمالي لأبي جعفر الطوسي الرافضي : 490/1]

تبصرہ :
یہ انتہائی جھوٹی روایت ہے، کیونکہ :
➊ جابر بن یزید جعفی راوی کذاب اور ’’ متروک“ ہے۔
➋ احمد بن حماد ہمدانی کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لا أعرف ذا ’’ میں نہیں جانتا کہ یہ کون ہے ؟“ [ميزان الاعتدال فى نقد الرجال : 94/1]
➌ عمرو بن شمر راوی ’’ ضعیف“ اور ’’ متروک“ ہے۔
اس سند میں اور بھی خرابیاں موجود ہیں۔

——————
روایت نمبر : 

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أنا مدينة العلم، وعلي بابها، فمن أراد العلم؛ فليأت الباب
’’ میں علم کا شہر ہوں، علی (رضی اللہ عنہ) اس کا دروازہ ہیں، لہٰذا جو علم حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، وہ شہر کے دروازے سے آئے۔“ [الموضوعات لابن الجوزي : 350/1]

تبصرہ :
یہ بھی باطل روایت ہے، کیونکہ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے امام ابن مردویہ سے حسین بن على رضی اللہ عنہما تک سند ذکر نہیں کی، بلکہ اسے ذکر کرنے کے بعد خود فرماتے ہیں :
’’ اس کی سند میں کئی مجہول راوی ہیں۔ ‘‘ [الموضوعات لابن الجوزي : 353/1]

——————
روایت نمبر : 

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
يا علي، أنا مدينة العلم، وأنت الباب، كذب من زعم أنه يصل إلى المدينة، إلا من الباب
’’ اے علی! میں علم کا شہر ہوں اور آپ اس کا دروازہ ہیں۔ جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ شہر میں اس دروازے کے علاوہ کہیں اور سے داخل ہو جائے گا، وہ جھوٹ بکتا ہے۔ ‘‘ [مناقب على بن أبي طالب لابن المغازلي : 126]

تبصرہ :
اس روایت کی سند بھی جہوٹی ہے :
➊ محمد بن عبداللہ بن عمر بن مسلم لاحقی راوی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔
➋ محمد بن عبداللہ بن محمد ابومفضل کوفی راوی پرلے درجے کا جھوٹا، دجال اور جھوٹی احادیث گھڑنے والا ہے۔ [ديكهيں : تاريخ بغداد للخطيب : 466/5، لسان الميزان لابن حجر : 231/5، 232]

——————
روایت نمبر : 

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أنا مدينة العلم، وعلي بابها، فمن أراد العلم؛ فليأت الباب
’’ میں علم کا شہر ہوں اور على اس کا دروازہ ہیں، لہٰذا جو علم حاصل کرنے کا ارادہ رکہتا ہے، وہ شہر کے دروازے سے آئے۔ ‘‘ [اللآلي المصنوعة فى الأحاديث الموضوعة للسيوطي : 334/1]

تبصرہ :
اس کی سند بھی جھوٹی ہے، کیونکہ :
➊ داؤد بن سلیمان جرجانی غازی کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كذبه يحيي بن معين، ولم يعرفه أبو حاتم، وبكل حال؛ فهو شيخ كذاب، له نسخة موضوعة عن على بن موسي الرضٰي، رواها على بن محمد بن مهرويه القزويني الصدوق عنه

’’ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے اسے کذاب کہا ہے۔ امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ نے اسے مجہول قرار دیا ہے۔ بہرصورت یہ کذاب راوی ہے۔ اس کے پاس علی بن موسیٰ رضا کی سند سے من گھڑت روایتوں پر مشتمل ایک نسخہ تھا، جو علی بن محمد بن مہرویہ قزوینی صدوق راوی نے اس سے نقل کیا ہے۔“ [ميزان الاعتدال : 8/2، لسان الميزان لابن حجر : 417/2]
➋ علی بن حسین بن بندار بن مثنیٰ استراباذی کے بارے میں ؛
◈ حمزہ بن یوسف سہمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
تكلم فيه الناس ’’ اس پرمحدثین کرام نے جرح کی ہے۔“ [تاريخ جرجان : 571]
◈ ابن نجار رحمہ اللہ نے اسے ’’ ضعیف“ قرار دیا ہے۔ [لسان الميزان لابن حجر : 217/4]
◈ ابن طاہر نے اسے ’’ متہم“ قرار دیا ہے۔ [ميزان الاعتدال للذهبي : 121/3]

——————
روایت نمبر : 

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أنا مدينة العلم، وعلي بابها، فمن أراد العلم؛ فليأت الباب
’’ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں، لہٰذا جو بھی علم حاصل کرنا چاہتا ہے، وہ شہر کے دروازے سے آئے۔“ [الموضوعات لابن الجوزي : 350/1]

تبصرہ :
یہ بھی باطل روایت ہے، کیونکہ :
➊ حسن بن محمد بن جریر راوی کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چل سکا۔
➋ عبیداللہ بن ابورافع کا تعارف بھی درکار ہے۔

——————
روایت نمبر : 

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أنا مدينة العلم، وعلي بابها، ولا تؤتي البيوت إلا من أبوابها
’’ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔ گھروں میں دروازے ہی سے آیا جاتا ہے۔“ [مناقب على لابن المغازلي : 122]

تبصرہ :
یہ روایت بھی ثابت نہیں، کیونکہ :
➊ علی بن عمر بن علی بن حسین کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’ مستور“ کہا ہے۔ [تقريب التهذيب : 4775]
➋ حفص بن عمر صنعانی کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’ ضعیف“ قرار دیا ہے۔ [تقريب التهذيب : 1420]
➌ محمدبن مصفٰی بن بہلول قرشی ’’ تدلیس التسویہ“ کا مرتکب ہے۔ [المجروحين لابن حبان : 94/1]

——————
روایت نمبر : 

ایک روایت امام دارقطنی رحمہ اللہ کی کتاب [العلل : 247/3] میں بھی ہے۔

◈ اس کے راوی یحییٰ بن سلمہ بن کہیل کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
متروك، وكان شيعيا ”یہ متروک اور شیعہ راوی ہے۔“ [تقريب التهذيب : 7561]
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’ متروک“ کہا ہے۔ [تلخيص المستدرك : 126/3، 246/2]

——————
روایت نمبر : 

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے موقع پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا بازو پکڑ کر فرمایا :
هٰذا أمير البررة، وقاتل الفجرة، منصور من نصره، مخذول من خذله‘، مد بها صوته، ثم قال : ’أنا مدينة العلم، وعلي بابها، فمن أراد الحكم؛ فليأت الباب
’’ یہ نیکوں کے قائد اور برے لوگوں کے قاتل ہیں۔ جو ان کی مدد کرے گا، منصور ہو گا اور جو ان کو رسوا کرنے کی کوشش کرے گا، خود ذلیل ہو گا۔ ان الفاظ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز کے ساتھ ارشاد فرمایا۔ پھر فرمایا : میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں، لہٰذا جو حکمتوں کو حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہو، وہ شہر کے دروازے سے آئے۔“ [المجروحين لابن حبان : 152/1، 153، الكامل فى ضعفاء الرجال لابن عدي : 192/1، المستدرك على الصحيحين للحاكم : 127/3، 129، تاريخ بغداد للخطيب : 219/4، 377/2]

تبصرہ :
یہ بھی جھوٹی روایت ہے، کیونکہ اس میں ؛
➊ احمد بن عبداللہ بن یزید ہشیمی راوی کذاب اور جھوٹی روایات گھڑنے والا ہے۔ اس کے بارے میں ؛
◈ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
يضع الحديث ’’ یہ خود گھڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتا ہے۔“ [الكامل فى ضعفاء الرجال : 192/1]
◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
يروي عن عبد الرزاق والثقات الـأوابد والطامات
’’ یہ امام عبدالرزاق اور دیگر ثقہ لوگوں سے منکر اور جھوٹی روایتیں بیان کرتا
ہے۔“ [المجروحين : 152/1]
◈ امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
يروي عن عبد الرزاق وغيره بالمناكير، يترك حديثه
’’ یہ امام عبدالرزاق رحمہ اللہ اور دوسرے راویوں سے منکر روایتیں بیان کرتا ہے، اس کی حدیث کو متروک قرار دیا گیا ہے۔“ [تاريخ بغداد للخطيب : 220/4، وسنده حسن]
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے کذاب کہا ہے۔ [المغني فى الضعفاء : 43/1]
◈ امام ابن عدی رحمہ اللہ ان الفاظ کو من گھڑت اور جھوٹے قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
هٰذا حديث منكر موضوع
’’ یہ حدیث منکر و من گھڑت ہے۔“ [الكامل فى ضعفاء الرجال : 192/1]
◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهٰذا شيئ مقلوب إسناده ومتنه معا
’’ اس روایت کی سند اور متن دونوں مقلوب ہیں۔“ [المجروحين : 153/1]
◈ امام سفیان ثوری کی ’’ تدلیس“ بھی موجود ہے۔
↰ جب امام حاکم رحمہ اللہ [المستدرك : 127/3] نے اس کی سند کو ’’ صحیح“ کہا تو ان کے ردّ و تعاقب میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ
نے فرمایا :
العجب من الحاكم وجرأته فى تصحي
حه هٰذا وأمثاله من البواطيل، أحمد هٰذا دجال كذاب

’’ امام حاکم پر تعجب ہے کہ انہوں نے اس روایت اور اس طرح کی دوسری
باطل روایات کو صحیح کہنے کی جرأت کیسے کی ؟ حالانکہ اس کی سند میں احمد بن عبداللہ دجال و کذاب ہے۔“ [تلخيص المستدرك : 127/3]
◈ ایک اور مقام پر حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
بل ـ واللہ ـ موضوع، وأحمد كذاب، فما أجهلك علٰي سعة معرفتك
’’ اللہ کی قسم ! یہ تو من گھڑت روایت ہے، اس میں احمد راوی کذاب ہے۔ اپنی وسعت ِ علم کے باوجود آپ اس بارے میں کتنے ناواقف رہے۔“ [تلخيص المستدرك : 129/3]
یاد رہے کہ احمد بن عبداللہ بن یزید راوی کی متابعت احمد بن طاہر بن حرمہ تجیبی مصری نے کر رکھی ہے، لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں، کیونکہ تجیبی
بھی کذاب راوی ہے۔
اسی لیے اس روایت کے بارے میں حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لا يصح من جميع الوجوه
’’ تمام سندوں کے ساتھ یہ روایت ضعیف ہے۔“ [الموضوعات : 353/1]

——————
روایت نمبر : 

سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے منسوب کیا گیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
علي بن أبي طالب عليه السلام سيد العرب، فقيل ألست أنت سيد العرب؟ فقال : أنا سيد ولد آدم، وعلي سيد العرب، من أحبه وتولاه؛ أحبه اللہ وهداه، ومن أبغضه وعاداه؛ أصمه اللہ وأعماه، علي؛ حقه كحقي، وطاعته كطاعتي، غير أنه لا نبي بعدي، من فارقه فارقني، ومن فارقني؛ فارقه اللہ، أنا مدينة الحكمة، وهى الجنة، وعلي بابها، فكيف يهتدي المهتدي إلى الجنة إلا من بابها، على عليه السلام خير البشر، من أبٰي فقد كفر
’’ علی بن ابوطالب عرب کے سردارہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا : کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدالعرب نہیں ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں اولادِ آدم کا سردار ہوں اور علی عرب کے سردار ہیں۔ جس نے ان کو دوست بنایا، اللہ رب العزت اس سے محبت کرے گا اور اس کو ہدایت دے گا۔ جو ان سے بغض رکھے گا، اللہ اس سے دشمنی رکھے گا اور ا سے اندھا اور بہرا کر دے گا۔ ان کا حق میرے حق کی طرح ہے اور ان کی اطاعت دراصل میری اطاعت ہے، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ جو ان سے جدا ہوا دراصل وہ مجھ سے جدا ہوا اور جس نے مجھ سے دُوری اختیار کی، اللہ اسے اپنی رحمت سے دُور کر دے گا۔ میں حکمت، یعنی جنت کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔ بھلا کوئی اس دروازے سے گزرے بغیر جنت میں کیسے پہنچے گا ؟ علی تمام انسانوں سے بہتر ہیں، جو شخص اس بات کا انکار کرتا ہے، یقیناً وہ کافر ہو جاتا ہے۔“ [المنقبة لابن شاذان : 94]

تبصرہ :
یہ جھوٹی روایت ہے، کیونکہ :
➊ عیسیٰ بن مہران ابوموسیٰ مستعطف راوی کذاب ہے۔
اس کے بارے میں :
◈ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حدث بأحاديث موضوعة مناكير، محترق فى الرفض
’’ یہ من گھڑت اور منکر روایتیں بیان کرتا ہے اور کٹر رافضی ہے۔“ [الكامل فى ضعفاء الرجال : 260/5]
◈ امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كان عيسي بن مهران المستعطف من شياطين الرافضة ومردتهم، ووقع إلى كتاب من تصنيفه فى الطعن على الصحابة وتضليلهم وإكفارهم وتفسيقهم، فواللہ لقد قف شعري عند نظري فيه، وعظم تعجبي مما أودع ذٰلك الكتاب من الـأحاديث الموضوعة، والـأقاصيص المختلقة، والـأنبائ المفتعلة، بالـأسانيد المظلمة، عن سقاط الكوفيين، من المعروفين بالكذب، ومن المجهولين، ودلني ذٰلك علٰي عمي بصيرة واضعه، وخبث سريرة جامعه، وخيبة سعي طالبه، واحتقاب وزر كاتبه، {فويل لهم مما كتبت ايديهم وويل لهم مما يكسبون}، {وسيعلم الذين ظلموا اي منقلب ينقلبون}
’’ عیسیٰ بن مہران مستعطف ایک شیطان اور سرکش رافضی ہے، اس نے ایک کتاب تصنیف کی ہے، جس میں صحابہ کرام پر طعن کیا ہے، ان کو (معاذاللہ ) گمراہ، کافر اور فاسق قرار دیا ہے۔ اللہ کی قسم ! جب میں نے اس کتاب کو دیکھا تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ مجھے اس کتاب میں موضوع روایات، من گھڑت قصے اور خود ساختہ حکایات دیکھ کر بڑا تعجب ہوا۔ ان روایات کی سندیں اندھیری ہیں اور مشہور و معروف جھوٹے کوفیوں اور مجہول راویوں سے بیان کی گئی ہیں۔ یہ چیزیں عیسیٰ بن مہران کی اندھی بصیرت، خبث ِ باطن، نامراد کاوش اور آخرت کی بربادی پر دلالت کرتی ہیں۔ اس پر یہ فرامین باری تعالیٰ صادق آتے ہیں : فويل لهم مما كتبت ايديهم وويل لهم مما يكسبون [البقرة 2 : 79] ، ”ہلاکت ہے اس کے لئے جو ان کے ہاتھوں نے لکھا، ہلاکت ہے اس کے لئے جو انہوں نے کمایا۔“ وسيعلم الذين ظلموا اي منقلب ينقلبون [الشعراء 26 : 227] ”جنہوں نے ظلم کیا، عنقریب وہ جان لیں گے کہ کس کروٹ الٹتے ہیں۔“ [تاريخ بغداد : 168/11]
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
رافضي، كذاب جبل ’’ یہ رافضی اور بڑا کذاب تھا۔“ [ميزان الاعتدال : 324/3]
➋ اس کا راوی محمد بن عبداللہ بن عبیداللہ بن محمد بن عبداللہ بن محمد بن عبیداللہ،
ابوفضل کوفی بھی پرلے درجے کا جھوٹا، دجال اور جھوٹی حدیثیں گھڑنے والا راوی ہے۔ دیکھیں : [ديكهيں : تاريخ بغداد للخطيب : 467,466/5، لسان الميزان لابن حجر : 321/5]
➌ اس کے راوی خالد بن طہمان ابوعلا خفاف کے بارے میں امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وخلط خالد الخفاف قبل موته بعشر سنين، وكان قبل ذٰلك ثقة، وكان فى تخليطه كل ما جائ وه به ورآه؛ قرأه
’’ خالد خفاف اپنی موت سے دس سال پہلے حافظے کے اختلاط کا شکار ہو گیا
تھا۔ اس سے پہلے وہ ثقہ تھا، لیکن اختلاط کے بعد وہ تلقین قبول کرنے لگا تھا۔“ [الكامل فى ضعفاء الرجال لابن عدي : 19/3، وسنده حسن]
➍ صاحب کتاب ابن شاذان بھی سخت جھوٹا شخص تھا، اس کے بارے میں آئندہ سطور میں تفصیلی بات ہونے والی ہے۔

——————
روایت نمبر : 

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منسوب کیا گیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
يا علي، أنا مدينة الحكمة، وأنت بابها، وما تؤتي المدينة إلا من قبل الباب، وكذب من زعم أنه يحبني ويبغضك؛ لأنك مني وأنا منك، لحمك من لحمي، ودمك من دمي، وروحك من روحي، وسريرتك من سريرتي، وعلانيتك من علانيتي، وأنت إمام أمتي، وخليفتي عليها بعدي، سعد من أطاعك، وشقي من عصاك، وربح من تولاك، وخسر من عاداك، وفاز من لزمك، وخسر من فارقك، فمثلك ومثل الـأئمة من ولدك بعدي؛ مثل سفينة نوح عليه السلام، من ركبها نجا، ومن تخلف عنها غرق، ومثلكم مثل النجوم؛ كلما غاب نجم طلع نجم، إلٰي يوم القيامة
’’ اے علی ! میں حکمت کا شہر ہوں اور آپ اس کا دروازہ ہیں، جو اس شہر میں آنا چاہے گا، وہ دروازے سے ہی آئے گا۔ وہ شخص میری محبت کا جھوٹا دعویدار ہے جو تجھ سے بغض رکھے، کیونکہ تو مجھ سے ہے اور میں تم سے ہوں، تیرا گوشت میرے گوشت سے ہے، تیرا خون میرے خون سے ہے، تیری روح میری روح سے ہے، تیرا باطن میرے باطن سے ہے اور تیرا ظاہر میرے ظاہر سے ہے۔ تو میری امت کا امام ہے اور میرے بعد امت محمدیہ کا خلیفہ ہے۔ خوش نصیب ہے وہ شخص جو تیری فرمانبرداری کرے گا اور بدبخت ہے وہ شخص جو تیری نافرمانی کرے گا۔ نفع مند ہو گا وہ جو تجھ سے دوستی کرے گا اور خسارہ اٹھائے گا وہ شخص جو تجھ سے دشمنی رکھے گا۔ تیری رفاقت میں کامیابی ہے اور تیری جدائی میں خسارہ ہے۔ میرے بعد تیری اور تیری اولاد کے اماموں کی مثال کشتی نوح کی مانند ہے کہ جو اس میں سوار ہو گیا وہ نجات پا گیا اور جو اس میں سوار ہونے سے رہ گیا وہ غرق ہو گیا۔ تیری مثال ستاروں کی مانند ہے، ایک ستارہ غروب ہوتا ہے تو دوسرا طلوع ہو جاتا ہے۔ قیامت تک ایسا ہی رہے گا۔“ [المنقبة لابن شاذان : 18]

تبصرہ :
یہ روایت جھوٹ کا پلندہ ہے، کیونکہ :
➊ سعد بن طریف اسکانی خفاف راوی کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا یہ فرمان پہلے بھی بیان ہو چکا ہے :
متروك، ورماه ابن حبان بالوضع، وكان رافضيا
’’ یہ متروک راوی ہے، امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اس کو جھوٹی حدیثیں گھڑنے والا قرار دیا ہے۔ یہ رافضی بھی تھا۔“ [تقريب التهذيب : 2241]
➋ صاحب ِ کتاب محمد بن احمد بن علی بن حسین بن شاذان دجال اور کذاب ہے۔ اس کے بارے میں :
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ولقد ساق أخطب خوارزم من طريق هٰذا الدجال؛ ابن شاذان أحاديث كثيرة باطلة سمجة ركيكة، فى مناقب السيد على رضي اللہ عنه
’’ اخطب خوارزم نے اس ابن شاذان دجال کی سند سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے مناقب میں بہت سی جھوٹی، باطل اور ناقابل یقین روایتیں بیان کی ہے۔“ [ميزان الاعتدال : 467/3]
نیز اس کی بیان کردہ ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں :
هٰذا كذب ’’ یہ جھوٹ ہے۔“ [ميزان الاعتدال : 467/3]

——————
روایت نمبر : 

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منسوب کیا گیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أنا مدينة العلم، وعلي بابها، فمن أراد العلم؛ فليأت الباب
’’ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ۔ جو علم حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، وہ دروازے ہی سے آئے۔“ [الكامل فى ضعفاء الرجال لابن عدي : 412/3، الموضوعات لابن الجوزي : 352/1]

تبصرہ :
یہ بھی من گھڑت روایت ہے، کیونکہ :
➊ احمد بن حفص سعدی کے بارے میں :
◈ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حدث بأحاديث منكرة لم يتابع عليه
’’ اس نے ایسی منکر روایات بیان کیں جن پر اس کی متابعت نہیں کی گئی۔“ [الكامل فى ضعفاء الرجال : 199/1]
◈ امام اسماعیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ممرور، يكون أحيانا أشبه
’’ اس کی عقل چلی گئی تھی۔ کبھی کبھی اس پراشتباہ واقع ہو جاتاتھا۔“ [معجم الإسماعيلي : 355/1]
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس قول کی وضاحت میں فرماتے ہیں :
فأشار إلٰي أنه أحيانا يغيب عقله، والممرور الذى يصيبه الخلط من المرة، فيخلط
’’ امام اسماعیلی رحمہ اللہ نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ کبھی کبھی اس کی عقل زائل ہو جاتی تھی۔ ممرور وہ شخص ہوتا ہے جسے کسی بیماری کی وجہ سے اختلاط واقع ہو جاتا ہو۔“ [لسان الميزان : 163/1]
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے ’’ صاحب المناکیر“ (منکر روایات بیان کرنے والا) قرار دیا ہے۔ [ميزان الاعتدال : 94/1]
◈ نیز فرماتے ہیں :
واه، ليس بشيئ ’’ یہ ضعیف راوی ہے، کسی بھی کام کا نہیں۔“ [ديوان الضعفاء : 28]
فائده :
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں :
لعله اختلقه السعدي
’’ شاید اس روایت کو (احمد بن حفص ) سعدی نے گھڑا ہو۔“ [ميزان الاعتدال فى نقد الرجال : 153/1]
لیکن اس راوی میں صرف اختلاط کا مسئلہ ہے۔ ورنہ یہ ’’ صدوق“ اور ’’ حسن الحدیث“ راوی ہے۔ یہ عمداً جھوٹ بولنے والوں میں سے نہیں۔
➋ سعید بن عقبہ کوفی کے بارے میں امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
مجهول، غير ثقة ’’ یہ مجہول اور غیرثقہ ہے۔“ [الكامل فى ضعفاء الرجال : 413/3]

——————
روایت نمبر : 

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منسوب کیا گیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أنا مدينة الحكمة، وعلي بابها
’’ میں حکمت کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔“ [الكامل فى ضعفاء الرجال لابن عدي : 177/5، الشريعة للآجري : 236/3]

تبصرہ :
یہ جھوٹی اور من گھڑت روایت ہے، کیونکہ :
➊ امام ابن عدی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
وهٰذا الحديث لا أعلم رواه أحد عن عيسي بن يونس غير عثمان بن عبد اللہ، وهٰذا الحديث فى الجملة معضل عن الـأعمش، ويروي عن أبي معاوية عن الـأعمش، ويرويه عن أبي معاوية أبو الصلت الهروي، وقد سرقه من أبي الصلت جماعة ضعفاء
’’ میں نہیں جانتا کہ اس حدیث کو عیسیٰ بن یونس سے عثمان بن عبداللہ کے علاوہ بھی کسی نے بیان کیا ہو۔ فی الجملہ یہ روایت اعمش سے معضل (جس کے کئی راوی گرے ہوئے ہوں ) ہے۔ اسے عثمان نے ابومعاویہ عن الاعمش کی سند سے بھی بیان کیا ہے۔ ابومعاویہ سے یہ روایت ابوصلت ہروی بیان کرتا ہے۔ یقیناً ابوصلت ہروی سے بہت سے ضعیف راویوں نے اس روایت کو چوری کر کے بیان کیا ہے۔“ [الكامل فى ضعفاء الرجال : 177/5]
➋ عثمان بن خالد کے بارے میں امام ابن حبان فرماتے ہیں :
كان ممن يروي المقلوب عن الثقات، ويروي عن الـأثبات أسانيد ليس من رواياتهم، كأنه كان يقلب الـأسانيد، لا يحل الاحتجاج بخبره
’’ یہ ثقہ راویوں سے مقلوب روایتیں بیان کرتا ہے اور ثقہ راویوں سے ایسی سندیں بیان کرتا ہے جو انہوں نے بیان ہی نہیں کی ہوتیں، یعنی وہ سندوں کو الٹ پلٹ کر دیتا ہے۔ اس کی بیان کردہ روایت کو دلیل بنانا جائز نہیں۔“ [المجروحين : 102/2]
لیکن امام دارقطنی فرماتے ہیں :
هٰذا وهم، لم يرو عثمان بن خالد عن عيسي بن يونس شيئا، وإنما روٰي هٰذا الحديث عن عيسي بن يونس عثمان بن عبد اللہ القرشي الشامي
’’ یہ وہم ہے، عثمان بن خالد نے عیسیٰ بن یونس سے کچھ بھی بیان نہیں کیا۔ عیسیٰ بن یونس سے تو اس حدیث کو عثمان بن عبداللہ قرشی شامی نے بیان کیا ہے۔“ [تعليقات الدارقطني على كتاب المجروحين لابن حبان، ص : 183]
عثمان بن عبداللہ نامی بھی دو راوی ہیں۔ ایک شامی اور دوسرا اموی۔ امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ اور حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے ان دونوں میں فرق کیا ہے، جبکہ صحیح بات یہی ہے کہ یہ دونوں نام ایک ہی انسان کے ہیں، جیساکہ حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فرق الخطيب وابن الجوزي بينه وبين عثمان بن عبد اللہ الـأموي، وكلاهما يروي عن مالك۔۔۔ وجمع الذهبي بينهما فى ترجمة واحدة
’’ خطیب بغدادی اور ابن الجوزی نے عثمان بن عبداللہ شامی اور عثمان بن عبداللہ اموی میں فرق کیا ہے۔ یہ دونوں امام مالک سے روایت کرتے ہیں، البتہ حافظ ذہبی نے ان دونوں کو ایک ہی قرار دیا ہے۔“ [ذيل الميزان : 571]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے اس فیصلے کو درست قرار دیا ہے۔ [لسان الميزان : 147/4]
یاد رہے کہ یہ عثمان کذاب اور حدیثیں گھڑنے والا راوی ہے۔ [ديكهيں : لسان الميزان لابن حجر : 143/4]
➌ اس میں اعمش کی ’’ تدلیس“ بھی ہے۔

——————
روایت نمبر : 

گزشتہ روایت کی ایک سند یوں ہے :
عن الحسن بن عثمان، عن محمود بن خداش، عن أبي معاوية [الموضوعات لابن الجوزي : 325/1]

تبصرہ :
یہ روایت بھی من گھڑت ہے، کیونکہ حسن بن عثمان تستری راوی جھوٹی حدیثوں کا کاریگر تھا، جیساکہ :
◈ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كان عندي يضع، ويسرق حديث الناس
’’ میرے نزدیک یہ حدیثیں گھڑتا تھا اور لوگوں سے احادیث کا سرقہ کرتا تھا۔“ [الكامل فى ضعفاء الرجال : 345/2]
◈ عبدان اہوازی رحمہ اللہ نے اسے کذاب قرار دیا ہے۔ [الكامل فى ضعفاء الرجال لابن عدي : 345/2]

——————
روایت نمبر : 21

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منسوب ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أنا مدينة الحكمة، وعلي بابها، فمن أراد العلم؛ فليأت الباب
’’ میں حکمت کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ، لہٰذا جو علم حاصل کرنا چاہتا ہو، وہ دروازے سے آئے۔“ [تاريخ بغداد للخطيب : 348/4، الموضوعات لابن الجوزي : 351,350/1]

تبصرہ :
یہ بھی باطل روایت ہے، کیونکہ :
➊ رجا بن سلمہ راوی کے بارے میں حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اتهم بسرقة الحديث ’’ اس پر حدیث کے سرقہ کا الزام ہے۔“ [الموضوعات لابن الجوزي : 351/1]
➋ ابومعاویہ محمد بن حازم ضریر ’’ مدلس“ راوی ہے۔
➌ اس میں اعمش راوی کی ’’ تدلیس“ بھی ہے۔
➍ احمد بن محمد بن یزید بن سلیم راوی کے حالات نہیں مل سکے۔

——————
روایت نمبر : 22

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أنا مدينة الحكمة، وعلي بابها، فمن أراد العلم؛ فليأت بابه
’’ میں حکمت کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔ جو علم حاصل کرنے کا خواہاں ہو، وہ دروازے سے آئے۔“ [الكامل فى ضعفاء الرجال لابن عدي : 67/5، المعجم الكبير للطبراني : 65/11، ح : 11061، المستدرك على الصحيحين للحاكم : 126/3، تهذيب الآثار للطبري، ص105، تاريخ بغداد للخطيب : 48/11، الموضوعات لابن الجوزي : 351/1، المناقب للخوارزمي : 69]

تبصره :
یہ جھوٹی اور من گھڑت روایت ہے، کیونکہ :
➊ اس کا راوی ابوصلت عبدالسلام بن صالح ’’ ضعیف“ اور ’’ متروک“ ہے۔
➋ اس میں اعمش راوی کی ’’ تدلیس“ ہے۔
➌ اعمش یہ روایت مجاہد سے بیان کرتے ہیں۔
◈ امام یحییٰ بن سعید قطان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كتبت عن الـأعمش أحاديث عن مجاهد، كلها ملزقة، لم يسمعها
’’ میں نے اعمش کی مجاہد سے بیان کردہ روایات لکھی ہیں۔ وہ تمام امام مجاہد کی
طرف منسوب ہیں۔ انہیں اعمش نے مجاہد سے سنا نہیں ہے۔“ [مقدمة الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ص : 241، وسنده صحيح]
◈ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
الـأعمش لم يسمع من مجاهد، وكل شيئ يرويه عنه؛ لم يسمع، إنما مرسلة مدلسة
’’ اعمش کا مجاہد سے سماع نہیں۔ اعمش نے جو بھی روایت مجاہد سے بیان کی ہے، وہ مرسل اور مدلس ہے۔“ [رواية ابن طهمان : 59]
◈ امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
الـأعمش قليل السماع من مجاهد، وعامة ما يرويه عن مجاهد مدلس
’’ اعمش کا مجاہد سے سماع نہ ہونے کے برابر ہے۔ اکثر یہ مجاہد سے مدلس روایات بیان کرتے ہیں۔“ [العلل لابن أبي حاتم : 210/2]
➍ ابومعاویہ بھی ’’ مدلس“ ہیں اور لفظ ِ عن سے بیان کر رہے ہیں۔
نوٹ : بعض راویوں نے اس روایت میں ابوصلت عبدالسلام بن صالح کی
متابعت کر رکھی ہے۔ ان کا حال بھی ملاحظہ فرماتے جائیں ؛

——————
روایت نمبر : 23

ابن محرز [معرفة الرجال : 242/2، مناقب على لابن المغازلي : 128] نے متابعت کی ہے اور سند یوں بیان کی ہے :
عن محمد بن جعفر العلاف، قال : حدثنا محمد بن الطفيل، قال : حدثنا أبو معاوية عن الـأعمش، عن مجاهد

تبصرہ :
یہ روایت بھی معلول ہے، کیونکہ :
➊ ابن محرزکی توثیق مطلوب ہے۔
➋ محمد بن طفیل بن مالک حنفی کو صرف امام ابن حبان رحمہ اللہ نے ثقات [63/9] میں ذکر کیا ہے۔ لہٰذا یہ ’’ مجہول الحال“ ہے۔

——————
روایت نمبر : 24

محمد بن جعفر فیدی نے متابعت کی ہے : [المستدرك على الصحيحين للحاكم : 127/3]

تبصرہ :
اس کی سند میں حسین بن فہم راوی غیر قوی ہے۔ اگرچہ امام حاکم رحمہ اللہ نے اسے ’’ ثقہ، مامون، حافظ“ کہا ہے، لیکن یہ امام صاحب کا تساہل ہے۔ انہوں نے خود امام دارقطنی رحمہ اللہ سے اسے ليس بالقوي کہنا نقل کیا ہے۔ [سؤالات الحاكم للدارقطني : 85]
نیز اس سند میں ابوحسین محمد بن احمد بن تمیم فطری کی توثیق کا مسئلہ بھی ہے۔

——————
روایت نمبر : 25

امام ابوعبید قاسم بن سلام نے [كتاب المجروحين لابن حبان : 130/1،131، الموضوعات لابن الجوزي : 352/1] میں متابعت کی ہے۔

تبصرہ :
یہ سند بھی مختلف وجوہات کی بنا پر باطل ہے ؛
➊ اسماعیل بن محمد بن یوسف الجبرینی ابوہارون کے بارے میں :
◈ امام ابن ابوحاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كتب إلى بجزئ، فنظرت فى حديثه، فلم أجد حديثه حديث أهل الصدق
’’ اس نے میری طرف کچھ احادیث لکھ کر بھیجیں۔ میں نے ان کو دیکھا، تو مجھے ان میں کوئی حدیث بھی ایسی نہیں ملی جو سچے راویوں کے بیان سے ملتی ہو۔“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم : 196/2]
◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
يقلب الـأسانيد، ويسرق الحديث، لا يجوز الاحتجاج به
’’ یہ سندوں کو الٹ پلٹ کرتا ہے اور احادیث کا سرقہ کرتا ہے۔ اس کی بیان کردہ روایات کو دلیل بنانا جائز نہیں۔“ [المجروحين : 130/1]
◈ امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
روٰي عن سنيد وأبي عببد وعمرو بن أبي سلمة أحاديث موضوعة
’’ یہ سنید، ابوعبید اور عمرو بن سلمہ سے منسوب کر کے من گھڑت روایات بیان کرتا ہے۔“ [لسان الميزان لابن حجر : 433/1]

——————
روایت نمبر : 26

عمر بن اسماعیل بن مجالد نے [الضعفاء الكبير للعقيلي : 150/3، تاريخ بغداد للخطيب : 204/11، 353] میں متابعت کی ہے۔

تبصرہ :
عمر بن اسماعیل کے بارے میں :
◈ امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعيف الحديث ’’ اس کی بیان کردہ روایت ضعیف ہوتی ہے۔“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم : 99/6]
◈ امام ابن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كذاب، يحدث أيضا بحديث أبي معاوية، عن الـأعمش، عن مجاهد، عن ابن عباس، عن النبى صلى اللہ عليه وسلم : ’أنا مدينة العلم، وعلي بابها‘، وهٰذا حديث كذب، ليس له أصل
’’ یہ جھوٹاراوی ہے۔ اس نے أبو معاوية، عن الـأعمش، عن مجاهد، عن ابن عباس، عن النبى صلى اللہ عليه وسلم کی سند سے یہ حدیث بیان کی ہے : میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔ یہ جھوٹی روایت ہے۔ اس کی کوئی اصل نہیں۔“ [سؤالات ابن الجنيد : 51، الضعفاء الكبير للعقيلي : 150/3، وسنده صحيح]
◈ حافظ ابن حجر اللہ نے اسے ’’ متروک“ کہا ہے۔ [تقريب التهذيب : 4866]

——————
روایت نمبر : 27

ابراہیم بن موسیٰ رازی نے [تهذيب الآثار [مسند علي] لأبي جعفر الطبري، ص : 105] میں متابعت کی ہے۔

تبصرہ :
اس ابراہیم کے بارے میں امام طبری رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں :
هٰذا الشيخ لا أعرفه، ولا سمعت منه غير هٰذا الحديث
’’ میں اس راوی کو نہیں جانتا، نہ ہی میں نے اس روایت کے علاوہ اس سے کوئی روایت سنی ہے۔“

——————
روایت نمبر : 28

احمد بن سلمہ، ابوعمرو جرجانی نے [الكامل فى ضعفاء الرجال لابن عدي : 190,189/1، تاريخ جرجان للسهمي، ص : 65، الموضوعات لابن الجوزي : 353,352/1] میں متابعت کی ہے۔

تبصرہ :
یہ بھی جھوٹی روایت ہے، کیونکہ احمد بن سلمہ کے بارے میں :
◈ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حدث عن الثقات بالبواطيل، ويسرق الحديث
’’ یہ ثقہ راویوں سے منسوب کر کے جھوٹی روایات بیان کرتا ہے اور احادیث کا سرقہ کرتا ہے۔“ [الكامل فى ضعفاء الرجا ل : 189/1]
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے کذاب قرار دیا ہے۔

——————
روایت نمبر : 29

حسن بن راشد نے [الكامل فى ضعفاء الرجال لابن عدي : 65/5] میں متابعت کی ہے۔

تبصرہ :
یہ سند سخت ’’ ضعیف“ ہے، کیونکہ اس کا راوی حسن بن علی عدوی کذاب ہے۔
◈ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهٰذا حديث أبي الصلت الهروي عن أبي معاوية، علٰي أنه قد حدث به غيره وسرق منه، من الضعفائ، وليس أحد ممن رواه عن أبي معاوية خير وأصدق من الحسن بن على ابن راشد
’’ یہ ابوصلت ہروی کی ابومعاویہ سے بیان کردہ حدیث ہے۔ اس حدیث کو ابوصلت سے سرقہ کر کے اور ضعیف راویوں نے بھی بیان کیا ہے۔ ابومعاویہ سے بیان کرنے والوں میں سے حسن بن علی بن راشد سے بڑھ کر اچھا اور سچا کوئی نہیں۔“ [الكامل فى ضعفاء الرجال : 341/2]

——————
روایت نمبر : 30

موسیٰ بن محمد انصاری نے [ميزان الاعتدال للذهبي : 444/3] میں متابعت کی ہے۔

تبصرہ :
یہ بھی جھوٹی سند ہے، کیونکہ اس کے راوی محفوظ بن بحرانطاکی کے بارے میں :
◈ امام ابوعروبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كان محفوظ يكذب
’’ محفوظ بن بحر جھوٹی روایتیں بیان کرتا تھا۔“ [الكامل فى ضعفاء الرجال لابن عدي : 441/6]
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس روایت کو محفوظ بن بحر کی جھوٹی روایات میں شمار کیا ہے۔
◈ ابن العمی فرماتے ہیں :
من وضعه وأكاذيبه
’’ یہ اس کی اپنی وضع کردہ روایت اور اس کا ایک جھوٹ ہے۔“ [الكشف الحثيث : 601]

——————
روایت نمبر : 31

رجل من اہل الشام (شام کے ایک مرد) نے [تعليقات الدارقطني على المجروحين لابن حبان، ص : 179] میں متابعت کر رکھی ہے۔

تبصره :
یہ بھی سفید جھوٹ ہے، کیونکہ :
◈ امام دارقطنی فرماتے ہیں :
إن أبا الصلت وضعه علٰي أبي معاوية، وسرقه منه جماعة، فحدثوا به عن أبي معاوية، منهم : عمر بن إسماعيل بن مجالد، ومحمد بن جعفر، ورجل كذاب من أهل الشام، حدث به عن هشام، عن أبي معاوية
’’ ابوصلت نے یہ روایت ابومعاویہ کی طرف جھوٹی منسوب کی۔ اس سے ضعیف راویوں کی ایک جماعت نے سرقہ کیا۔ ان میں عمر بن اسماعیل بن مجالد، محمد بن جعفر اور اہل شام میں سے ایک جھوٹا آدمی شامل ہے۔ شامی کذاب نے اسے عن هشام، عن أبي معاوية کی سند سے بیان کیا ہے۔“ [تعليقات الدارقطني على المجروحين لابن حبان، ص : 179]
امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اس کی مکمل سند ذکر نہیں کی۔ البتہ رجل مبہم کو کذاب ضرور قرار دیا ہے۔ اس کے باطل ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔

——————
روایت نمبر : 32

جعفر بن محمد بغدادی نے [تاريخ بغداد للخطيب : 172/7، الموضوعات لابن الجوزي : 350/1] میں متابعت کی ہے۔

تبصره :
یہ بھی جھوٹی روایت ہے،
کیونکہ اس کے راوی جعفر بن محمد بغدادی کے بارے میں :
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فيه جهالة
’’ یہ مجہول راوی ہے۔“ [ميزان الاعتدال : 415/1]
نیز اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں :
هٰذا موضوع ’’ یہ من گھڑت روایت ہے۔“ [ميزان الاعتدال : 415/1]
اس کے بارے میں ابوجعفرمطین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لم يرو هٰذا الحديث عن أبي معاوية من الثقات أحد، رواه أبو الصلت، فكذبوه
’’ اس روایت کو ابومعاویہ سے کسی ثقہ راوی نے بیان نہیں کیا۔ صرف ابوصلت
ہروی نے بیان کیا ہے، جس کو محدثین کرام نے جھوٹا قرار دیا ہے۔“ [تاريخ بغداد للخطيب : 172/7]
الحاصل :
ثابت ہوا کہ ابوصلت کا کوئی ثقہ متابع نہیں اور اس سند کا دارومدار ہی ابوصلت ’’ متروک“ پر ہے۔
◈ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهٰذا حديث أبي الصلت الهروي عن أبي معاوية، علٰي أنه قد حدث به غيره وسرق منه، من الضعفاء
’’ یہ ابوصلت ہروی کی ابومعاویہ سے بیان کردہ حدیث ہے۔ اس حدیث کو ابوصلت سے سرقہ کر کے کئی ضعیف راویوں نے بھی بیان کیا ہے۔“ [الكامل فى ضعفاء الرجال : 341/2]

——————
روایت نمبر : 33

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أنا مدينة العلم، وأبو بكر وعمر وعثمان سورها، وعلي بابها، فمن أراد العلم، فليأت الباب
’’ میں علم کا شہر ہوں، ابوبکر، عمر اور عثمان اس کی دیواریں ہیں، علی اس کا دروازہ ہیں۔ اب جو علم حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، وہ دروازے سے آئے۔“ [تاريخ دمشق لابن عساكر : 321/45، اللآلي المصنوعة للسيوطي : 308، 307/1]

تبصرہ :
یہ باطل (جھوٹی )روایت ہے، کیونکہ :
➊ اس کا راوی حسن بن تمیم بن تمام مجہول ہے، نیز اس کا سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے سماع بھی مطلوب ہے۔
➋ دوسرے راوی ابوالقاسم عمر بن محمد بن حسین کرخی کی بھی توثیق درکارہے۔
اس روایت کے بارے میں :
◈ حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
منكر جدا إسنادا ومتنا
’’ اس روایت کی سند اور متن دونوں سخت منکر ہیں۔“ [تاريخ دمشق لابن عساكر : 321/45]

——————
روایت نمبر : 34

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یہ روایت بھی منسوب ہے :
أنا مدينة العلم، وأبو بكر أساسها، وعمر حيطانها، وعثمان سقفها، وعلي بابها
’’ میں علم کا شہر ہوں، ابوبکر اس کی بنیاد، عمر اس کی چاردیواری، عثمان اس کی چھت اور علی اس کا دروازہ ہیں۔“ [تاريخ دمشق لابن عساكر : 20/9]

تبصرہ :
یہ سفیدجھوٹ ہے۔ اس کو گھڑنے والا اسماعیل بن علی بن مثنی استراباذی ہے۔

ائمہ دین کی رائے
اب اس روایت کے بارے میں ائمہ متقدمین کے اقوال ملاحظہ فرمائیں :
➊ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهو حديث ليس له أصل ’’ اس حدیث کی کوئی اصل نہیں۔“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم : 99/6، وسنده صحيح]
نوٹ :
امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ سے اس حدیث کو صحیح کہنا بھی ثابت ہے۔ [تاريخ بغداد للخطيب : 315/12، طبعة بشار، وسنده صحيح]
↰ ہو سکتا ہے کہ یہ فیصلہ پہلے کا ہو اور کسی راوی کی صحیح حالت ظاہر ہو جانے کے بعد یہ رائے بدل گئی ہو۔
➋ امام ابوزرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وحديث أبي معاوية عن الـأعمش، عن مجاهد، عن ابن عباس : ’أنا مدينة الحكمة، وعلي بابها‘، كم من خلق قد افتضحوا فيه
’’ ابومعاویہ سے بیان کی گئی عن الـأعمش، عن مجاهد، عن ابن عباس کی سند سے یہ حدیث کہ میں حکمت کا شہر ہوں، علی اس کا دروازہ ہے۔ کتنے ہی اہل علم ہیں، جو اس میں عیب لگاتے ہیں۔“ [سؤالات البرذعي : 753/2]
➌ امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ نے اسے ’’ منکر“ قرار دیا ہے۔ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم : 22/8]
➍ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
هٰذا حديث غريب منكر ’’ یہ حدیث غریب و منکر ہے۔“ [سنن الترمذي : 3723]
➎ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
هٰذا خبر لا أصل له عن النبى صلى اللہ عليه وسلم ’’ یہ روایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔“ [المجروحين : 94/2]
➑ امام دارقطنی فرماتے ہیں :
الحديث مضطرب، غير ثابت ’’ یہ حدیث مضطرب اور غیرثابت ہے۔“ [العلل : 247/3، ح : 386]
➐ امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ولا يصح فى هٰذا المتن حديث ’’ اس مفہوم کی کوئی حدیث ثابت نہیں ہے۔“ [الضعفاء الكبير : 150/3]
➑ امام ابوجعفرمطین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لم يرو هٰذا الحديث عن أبي معاوية من الثقات أحد، رواه أبو الصلت، فكذبوه ’’ اس روایت کو ابومعاویہ سے کسی ایک ثقہ راوی نے بھی بیان نہیں کیا۔ صرف ابوصلت ہروی نے بیان کیا ہے اور اسے محدثین کرام نے جھوٹا قرار دیا ہے۔“ [تاريخ بغداد للخطيب : 172/7]
➒ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
هٰذا حديث منكر موضوع ’’ یہ حدیث منکر و من گھڑت ہے۔“ [الكامل فى ضعفاء الرجال : 192/1]
➓ حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وكل هٰذه الروايات غير محفوظة ’’ اس مفہوم کی تمام روایات منکر ہیں۔“ [تاريخ دمشق : 380/42]
⓫ حافظ ابن الجوزی نے اسے من گھڑت قرار دیا ہے۔ [الموضوعات : 533/1]
⓬ حافظ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فحديث باطل ’’ یہ جھوٹی حدیث ہے۔“ [تهذيب الأسماء واللغات : 490/1]
⓭ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
والحديث موضوع، رواه الـأعمش ’’ یہ حدیث من گھڑت ہے، اسے اعمش نے بیان کیاہے۔“ [تاريخ الإسلام للذهبي : 1191/5، بتحقيق بشار عواد معروف]
⓮ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اسے خود ساختہ قرار دیا ہے۔ [منهاج السنة : 515/7، أحاديث القصاص، ص :62، مجموع الفتاوٰي : 123/18]
⓯ علامہ ابن طاہر رحمہ اللہ نے بھی اسے من گھڑت قرار دیا ہے۔ [تخريج أحاديث الإحياء للعراقي : 1830]
⓰ علامہ عبدالرحمٰن معلّمی رحمہ اللہ نے بھی موضوع کہا ہے۔ [حاشية الفوائد المجموعة للشوكاني، ص : 349]
صرف امام حاکم رحمہ اللہ نے اسے ’’ صحیح الاسناد“ کہا ہے۔ ان جمہور ائمہ متقدمین و متأخرین کی ”تضعیف“ کے مقابلے میں امام حاکم رحمہ اللہ کی تصحیح ناقابل التفات ہے، کیونکہ وہ متساہل تھے۔ یہ بات اہل علم پر بخوبی عیاں
ہے۔
بعض متأخرین اہل علم، مثلاً؛ حافظ علائی [النقد الصحيح بما اعترض من أحاديث المصابيح، ص : 55] حافظ ابن حجر [اللآلي المصنوعة للسيوطي : 334/1] ، حافظ سخاوی، [المقاصد الحسنة : 189] اور علامہ شوکانی [الفوائد المجموعة، ص : 349] کا اسے ’’ حسن“ قرار دینا صحیح نہیں ہے۔
الحاصل :
یہ حدیث اپنی تمام سندوں کے ساتھ ’’ ضعیف ومنکر“ ہے۔ حدیث ابن عباس کے تمام طرق أبو معاوية عن الـأعمش، عن مجاهد سے مروی ہیں، لہٰذا یہ بھی ’’ ضعیف ومدلس“ ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت و منقبت ہمارے سر آنکھوں پر، لیکن جھوٹی، ” منکر“ اور، ’’ ضعیف“ سندوں سے مروی روایات کو فضیلت قرار دینا
قطعاً صحیح نہیں۔
صحیح و ثابت فضائل و مناقب کی روشنی میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شخصیت اتنی واضح ہے کہ اسے ایسی روایات کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی، جن کو محدثین کرام نے قبول نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمين

باب علم

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں