"فأتوا حرثکم انی شتئم” کی تفسیر

اعتراض 7:

"فأتوا حرثکم انی شتئم” کی تفسیر

(جلد دوم صفحہ نمبر ٣١ روایت نمبر ١٦٤١)

 دوسری سند عبد الصمد- عبد الوارث۔ ایوب – نافع سے وہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ "فأتواحر ثکم أنی شئتم” سے مطلب یہ ہے کہ مرد عورت سے جماع کرے. بعض لوگ اغلام کرتے تھے چنانچہ اس آیت سے اس فعل سے روکا گیا ہے. 

لمبی حدیث ہے یحییٰ  قطان – عبد الله – نافع-  ابن عمر سے روایت کرتے ہیں۔

تبصره: اغلام کرنے والے کون تھے صحابہ یا کوئی اور مدنی دور تک یہ فعل چلتا رہا… انی شئتم سے مراد جس وقت جب دل چاہے بھی  ہوسکتا ہے نہ کہ جس طرف سے جہاں سے”

 الجواب: 

صحیح بخاری میں لکھا ہوا ہے

حدثني إسحاق : أخبرنا النضر بن شميل : أخبرنا ابن عون عن نافع قال: كان ابن عمر رضي الله عنهما إذا قرأ القرآن لم يتكلم حتى يفرغ منه، فأخذت عليه يوما فقرا سورة البقرة حتى انتهى إلى مكان قال:تدري فيما أنزلت؟ قلت : لا ، قال : أنزلت في كذا و كذا ثم مضی۔

وعن عبدالصمد: حدثني أبي : حدثني أيوب عن نافع عن ابن عمر فأتو حرثکم أنّىٰ شئتم 

قال :يأتيها في.رواه محمد بن يحيى بن سعيد عن أبيه عن عبيد الله عن  نافع عن ابن عمر ‘‘

ہمیں اسحاق( بن راہویہ) نے حدیث بیان کی : ہمیں نضر بن شمیل نے خبر دی : ہمیں عبداللہ بن عون نے خبر دی وہ نافع سے بیان کرتے ہیں، کہا: ابن عمر میں جب قرآن کی تلاوت کرتے تو فارغ ہونے تک کوئی کلام نہ کرتے۔ ایک دن میں نے ان کے

سامنے (قرآن مجید لیا تو آپ نے سورۃ البقرہ پڑھی ، جب آپ ایک مقام پر پہنچے تو فرمایا:

تجھے پتہ ہے یہ کس کے بارے میں نازل ہوئی ہے؟ میں نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: یہ 

اس کے بارے میں نازل ہوئی ہے، پھر آپ نے ( تلاوت شروع کردی۔

عبدالصمد بن عبد الوارث ) سے روایت ہے: مجھے میرے ابا ( عبد الوارث) نے حدیث

بیان کی أنھوں نے کہا: مجھے ایوب سختیانی)نے حدیث بیان کی وہ نافع ہے اور وہ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں ۔ انھوں نے( فأتو حرثکم أنّىٰ شئتم) اپنی کھیتی کو آؤ جس طرح چاہو (البقرة:۲۲۳) کی تشریح میں فرمایا: میں آئے… 

اسے محمد بن یحییٰ بن سعید القطان ) نے اپنے والد سے، انھوں نے عبیداللہ بن عمر)سے

انھوں نے نافع سے اور انھوں نے ابن عمر سے روایت کیا ہے۔“ (صحیح بخاری :۴۵٢٦، ۴۵٢٧) 

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس روایت میں "بعض لوگ اغلام کرتے تھے” کے الفاظ سرے سے موجود نہیں ہیں لہذا منکر حدیث نے صحیح بخاری پر جھوٹ بولا ہے۔

سیدنا ابن عمر کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ اپنی بیوی سے بچہ پیدا ہونے والی جگہ

میں جماع کرنا چاہئے دیکھئے صحیح بخاری مترجم (ترجمہ وتشریح محمد داودر از ٦/ ١٠٠ مطبوعہ مکتبہ قدوسیہ لاہور ) والسنن الکبری للنسائی (۸۹۷۸ وسنده حسن، دوسرانسخہ:۸۹۲۹) لہذا اس قول سے لواطت کا جواز ثابت کرنا بہت بڑا جھوٹ اور بھتان ہے. 

 حوالہ صحیح بخاری پر اعتراضات کاعلمی جائزہ (ص:41-42)

مصنف حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

 

 

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں