صحیح بخاری جلد دؤم :کتاب التہجد ( رات میں تہجد پڑھنا) : حدیث:-1186

کتاب التہجد
کتاب: رات میں تہجد پڑھنا

Chapter No: 36

باب صَلاَةِ النَّوَافِلِ جَمَاعَةً

To offer Nawafil in congregation.

باب: نفل نمازیں جماعت سے پڑھنا


[quote arrow=”yes” "]

1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]

2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:

3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:

4: حدیث کا اردو ترجمہ:

5: حدیث کی اردو تشریح:

English Translation :6 

[/quote]

حدیث اعراب کے ساتھ:  [sta_anchor id=”artash”]

حدیث نمبر:1186         

فَزَعَمَ مَحْمُودٌ أَنَّهُ سَمِعَ عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ الأَنْصَارِيّ َ ـ رضى الله عنه ـ وَكَانَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ كُنْتُ أُصَلِّي لِقَوْمِي بِبَنِي سَالِمٍ، وَكَانَ يَحُولُ بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ وَادٍ إِذَا جَاءَتِ الأَمْطَارُ فَيَشُقُّ عَلَىَّ اجْتِيَازُهُ قِبَلَ مَسْجِدِهِمْ، فَجِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقُلْتُ لَهُ إِنِّي أَنْكَرْتُ بَصَرِي، وَإِنَّ الْوَادِيَ الَّذِي بَيْنِي وَبَيْنَ قَوْمِي يَسِيلُ إِذَا جَاءَتِ الأَمْطَارُ فَيَشُقُّ عَلَىَّ اجْتِيَازُهُ، فَوَدِدْتُ أَنَّكَ تَأْتِي فَتُصَلِّي مِنْ بَيْتِي مَكَانًا أَتَّخِذُهُ مُصَلًّى‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ سَأَفْعَلُ ‏”‏‏.‏ فَغَدَا عَلَىَّ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَبُو بَكْرٍ ـ رضى الله عنه ـ بَعْدَ مَا اشْتَدَّ النَّهَارُ فَاسْتَأْذَنَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَذِنْتُ لَهُ فَلَمْ يَجْلِسْ حَتَّى قَالَ ‏”‏ أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ مِنْ بَيْتِكَ ‏”‏‏.‏ فَأَشَرْتُ لَهُ إِلَى الْمَكَانِ الَّذِي أُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ فِيهِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَكَبَّرَ وَصَفَفْنَا وَرَاءَهُ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ وَسَلَّمْنَا حِينَ سَلَّمَ، فَحَبَسْتُهُ عَلَى خَزِيرٍ يُصْنَعُ لَهُ فَسَمِعَ أَهْلُ الدَّارِ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي بَيْتِي فَثَابَ رِجَالٌ مِنْهُمْ حَتَّى كَثُرَ الرِّجَالُ فِي الْبَيْتِ‏.‏ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ مَا فَعَلَ مَالِكٌ لاَ أَرَاهُ‏.‏ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ ذَاكَ مُنَافِقٌ لاَ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ لاَ تَقُلْ ذَاكَ أَلاَ تَرَاهُ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ‏.‏ يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ ‏”‏‏.‏ فَقَالَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ‏.‏ أَمَّا نَحْنُ فَوَاللَّهِ لاَ نَرَى وُدَّهُ وَلاَ حَدِيثَهُ إِلاَّ إِلَى الْمُنَافِقِينَ‏.‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَى النَّارِ مَنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ‏.‏ يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ ‏”‏‏.‏ قَالَ مَحْمُودٌ فَحَدَّثْتُهَا قَوْمًا فِيهِمْ أَبُو أَيُّوبَ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي غَزْوَتِهِ الَّتِي تُوُفِّيَ فِيهَا وَيَزِيدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ عَلَيْهِمْ بِأَرْضِ الرُّومِ، فَأَنْكَرَهَا عَلَىَّ أَبُو أَيُّوبَ قَالَ وَاللَّهِ مَا أَظُنُّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ مَا قُلْتَ قَطُّ‏.‏ فَكَبُرَ ذَلِكَ عَلَىَّ فَجَعَلْتُ لِلَّهِ عَلَىَّ إِنْ سَلَّمَنِي حَتَّى أَقْفُلَ مِنْ غَزْوَتِي أَنْ أَسْأَلَ عَنْهَا عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه ـ إِنْ وَجَدْتُهُ حَيًّا فِي مَسْجِدِ قَوْمِهِ، فَقَفَلْتُ فَأَهْلَلْتُ بِحَجَّةٍ أَوْ بِعُمْرَةٍ، ثُمَّ سِرْتُ حَتَّى قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَأَتَيْتُ بَنِي سَالِمٍ، فَإِذَا عِتْبَانُ شَيْخٌ أَعْمَى يُصَلِّي لِقَوْمِهِ فَلَمَّا سَلَّمَ مِنَ الصَّلاَةِ سَلَّمْتُ عَلَيْهِ وَأَخْبَرْتُهُ مَنْ أَنَا، ثُمَّ سَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ الْحَدِيثِ فَحَدَّثَنِيهِ كَمَا حَدَّثَنِيهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ‏.

.حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ:    [sta_anchor id=”arnotash”]

1186 ـ فزعم محمود أنه سمع عتبان بن مالك الأنصاري  ـ رضى الله عنه ـ وكان ممن شهد بدرا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول كنت أصلي لقومي ببني سالم، وكان يحول بيني وبينهم واد إذا جاءت الأمطار فيشق على اجتيازه قبل مسجدهم، فجئت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت له إني أنكرت بصري، وإن الوادي الذي بيني وبين قومي يسيل إذا جاءت الأمطار فيشق على اجتيازه، فوددت أنك تأتي فتصلي من بيتي مكانا أتخذه مصلى‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏”‏ سأفعل ‏”‏‏.‏ فغدا على رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر ـ رضى الله عنه ـ بعد ما اشتد النهار فاستأذن رسول الله صلى الله عليه وسلم فأذنت له فلم يجلس حتى قال ‏”‏ أين تحب أن أصلي من بيتك ‏”‏‏.‏ فأشرت له إلى المكان الذي أحب أن أصلي فيه، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فكبر وصففنا وراءه، فصلى ركعتين، ثم سلم وسلمنا حين سلم، فحبسته على خزير يصنع له فسمع أهل الدار رسول الله صلى الله عليه وسلم في بيتي فثاب رجال منهم حتى كثر الرجال في البيت‏.‏ فقال رجل منهم ما فعل مالك لا أراه‏.‏ فقال رجل منهم ذاك منافق لا يحب الله ورسوله‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏”‏ لا تقل ذاك ألا تراه قال لا إله إلا الله‏.‏ يبتغي بذلك وجه الله ‏”‏‏.‏ فقال الله ورسوله أعلم‏.‏ أما نحن فوالله لا نرى وده ولا حديثه إلا إلى المنافقين‏.‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏”‏ فإن الله قد حرم على النار من قال لا إله إلا الله‏.‏ يبتغي بذلك وجه الله ‏”‏‏.‏ قال محمود فحدثتها قوما فيهم أبو أيوب صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوته التي توفي فيها ويزيد بن معاوية عليهم بأرض الروم، فأنكرها على أبو أيوب قال والله ما أظن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ما قلت قط‏.‏ فكبر ذلك على فجعلت لله على إن سلمني حتى أقفل من غزوتي أن أسأل عنها عتبان بن مالك ـ رضى الله عنه ـ إن وجدته حيا في مسجد قومه، فقفلت فأهللت بحجة أو بعمرة، ثم سرت حتى قدمت المدينة فأتيت بني سالم، فإذا عتبان شيخ أعمى يصلي لقومه فلما سلم من الصلاة سلمت عليه وأخبرته من أنا، ثم سألته عن ذلك الحديث فحدثنيه كما حدثنيه أول مرة‏.‏
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:   [sta_anchor id=”urnotash”]
1186 ـ فزعم محمود انہ سمع عتبان بن مالک الانصاری  ـ رضى اللہ عنہ ـ وکان ممن شہد بدرا مع رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم یقول کنت اصلی لقومی ببنی سالم، وکان یحول بینی وبینہم واد اذا جاءت الامطار فیشق على اجتیازہ قبل مسجدہم، فجئت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم فقلت لہ انی انکرت بصری، وان الوادی الذی بینی وبین قومی یسیل اذا جاءت الامطار فیشق على اجتیازہ، فوددت انک تاتی فتصلی من بیتی مکانا اتخذہ مصلى‏.‏ فقال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ‏”‏ سافعل ‏”‏‏.‏ فغدا على رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم وابو بکر ـ رضى اللہ عنہ ـ بعد ما اشتد النہار فاستاذن رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم فاذنت لہ فلم یجلس حتى قال ‏”‏ این تحب ان اصلی من بیتک ‏”‏‏.‏ فاشرت لہ الى المکان الذی احب ان اصلی فیہ، فقام رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم فکبر وصففنا وراءہ، فصلى رکعتین، ثم سلم وسلمنا حین سلم، فحبستہ على خزیر یصنع لہ فسمع اہل الدار رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم فی بیتی فثاب رجال منہم حتى کثر الرجال فی البیت‏.‏ فقال رجل منہم ما فعل مالک لا اراہ‏.‏ فقال رجل منہم ذاک منافق لا یحب اللہ ورسولہ‏.‏ فقال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ‏”‏ لا تقل ذاک الا تراہ قال لا الہ الا اللہ‏.‏ یبتغی بذلک وجہ اللہ ‏”‏‏.‏ فقال اللہ ورسولہ اعلم‏.‏ اما نحن فواللہ لا نرى ودہ ولا حدیثہ الا الى المنافقین‏.‏ قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ‏”‏ فان اللہ قد حرم على النار من قال لا الہ الا اللہ‏.‏ یبتغی بذلک وجہ اللہ ‏”‏‏.‏ قال محمود فحدثتہا قوما فیہم ابو ایوب صاحب رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم فی غزوتہ التی توفی فیہا ویزید بن معاویۃ علیہم بارض الروم، فانکرہا على ابو ایوب قال واللہ ما اظن رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم قال ما قلت قط‏.‏ فکبر ذلک على فجعلت للہ على ان سلمنی حتى اقفل من غزوتی ان اسال عنہا عتبان بن مالک ـ رضى اللہ عنہ ـ ان وجدتہ حیا فی مسجد قومہ، فقفلت فاہللت بحجۃ او بعمرۃ، ثم سرت حتى قدمت المدینۃ فاتیت بنی سالم، فاذا عتبان شیخ اعمى یصلی لقومہ فلما سلم من الصلاۃ سلمت علیہ واخبرتہ من انا، ثم سالتہ عن ذلک الحدیث فحدثنیہ کما حدثنیہ اول مرۃ‏.‏
‏‏‏‏‏‏اردو ترجمہ:   [sta_anchor id=”urdtrjuma”]

محمود سے روایت ہے انہوں نے عتبان بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ سے سنا وہ جنگ بدر میں رسول اللہﷺکے ساتھ شریک تھے کہتے تھے میں اپنی قوم بنو سالم کی امامت کیا کرتا تھا۔ میرے اور ان کے درمیان میں ایک نالہ تھا جب بارش ہوتی تو اس نالے سے پار ہونا اور ان کی مسجد کی طرف جانا مجھ کو مشکل ہوجاتا۔ آخر میں رسول اللہﷺکے پاس آیا اور میں نے عرض کیا کہ میں اپنی بینائی میں فطور پاتا ہوں اور جب بارش ہوتی ہے تو جو نالہ میرے اور میری قوم کے بیچ میں ہے بہنے لگتا ہے اس سے پار ہونا مجھ کو مشکل ہوجاتا ہےمیں چاہتا ہوں آپﷺ تشریف لائیں اور میرے گھر میں ایک جگہ نماز پڑھ دیجیئے میں اس کو نماز کی جگہ مقرر کرلوں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا میں ضرور آؤں گا (ان شاءاللہ) پھر صبح کو آپﷺ ابوبکر رضی اللہ عنہ سمیت میرے پاس اس وقت آئےجب دن چڑھ گیا تھا آپﷺ نے اندر آنے کی اجازت مانگی میں نے اجازت دی۔آپﷺ بیٹھے بھی نہیں اور فرمانے لگے: تم کس جگہ اپنے گھر میں چاہتے ہو کہ میں نماز پڑھوں۔ میں نے ایک جگہ بتلادی جو مجھ کو پسندتھی کہ آپﷺ وہاں نماز پڑھیں آپﷺ کھڑے ہوئے اور اللہ اکبر کہا اور ہم لوگوں نے آپﷺکے پیچھے صف باندھی، آپﷺ نے دو رکعتیں پڑھیں پھر سلام پھیر دیا۔ ہم نے بھی آپﷺﷺ کے سلام کے ساتھ ہی سلام پھیردیا۔ میں نے آپﷺ کو حلیم کھانے کیلئے روک لیا جو تیار ہورہا تھا۔ محًلہ والوں نے جب سنا کہ رسول اللہﷺ میرے گھر میں ہیں تو کئی آدمی ان میں سے آگئے اور گھر میں بہت سے آدمی اکھٹے ہو گئے۔ ان میں سے ایک بولا مالک بن دخشن کہاں ہے وہ دکھائی نہیں دیتا۔دوسرا بولا: چھوڑو! وہ تو منافق ہے، اس کو اللہ اور رسولﷺ سے محبت کہاں ہے۔ آپﷺنے فرمایا: ایسی بات مت کہو کیا تم نے اس کو لاالہ الا اللہ کہتے نہیں دیکھا آخر وہ اللہ ہی کیلئے یہ کہتا ہے۔تب وہ کہنے لگا: اللہ اور اس کا رسولﷺ خوب جانتے ہیں۔ہم تو (ظاہر میں) اللہ کی قسم کھاکر کہتے ہیں کہ اس کی دوستی اور بات چیت منافقوں ہی سے رہتی ہے۔آپﷺنے فرمایا: جو کوئی خالص اللہ کی رضامندی کیلئےلا الہ الااللہ کہے اس کو اللہ نے دوزخ پر حرام کردیا ہے۔محمود بن ربیع نے کہا: میں نے یہ حدیث کچھ لوگوں سے بیان کی جن میں ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ کے صحابی بھی تھے اس لڑائی میں جس میں انہوں نے انتقال فرمایا ملک روم میں اور یزید بن معاویہ کا بیٹا ان کا سردار تھا ابو ایوب نے اس کا انکار کیا (کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے) اور کہنے لگے: اللہ کی قسم! میں نہیں سمجھتا کہ رسول اللہﷺ نے کبھی یہ فرمایا ہوگا جو تم نے بیان کیا۔ مجھ کو ان کی یہ بات بہت ناگوار گزری۔ میں نے اللہ کی منت مانی اگر وہ مجھ کو اس جہاد سے سلامتی کے ساتھ گھر لوٹائے گا اور عتبان بن مالک کو ان کی قوم کی مسجد میں زندہ پاؤں گا تو (دوبارہ) ان سے یہ حدیث پوچھوں گا۔ آخر میں جہاد سے لوٹا اور میں نے حج یا عمرے کا احرام باندھا۔ پھر (فارغ ہوکر) چلا اور مدینہ میں آیا، بنو سالم کے محلہ میں دیکھا تو عتبان بوڑھے نابینا ہوگئے ہیں اور اپنی قوم کی امامت کرتے ہیں۔ میں نے ان کو سلام کیا اور بیان کیا میں فلاں شخص ہوں۔ پھر میں نے ان سے یہ حدیث پوچھی پھر انہوں نے اسی طرح بیان کی جس طرح پہلی بار مجھ سے بیان کی تھی۔


حدیث کی اردو تشریح:   [sta_anchor id=”urdtashree”]

 تشریح : یہ50ھ یا اس کے بعد کا واقعہ ہے۔ جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے قسطنطنیہ پر فوج بھیجی تھی اور اس کا محاصرہ کر لیا تھا۔ اس لشکر کے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بیٹے یزید تھے۔ جو بعد میں حادثہ کربلا کی وجہ سے تاریخ اسلام میں مطعون ہوئے۔ اس فوج میں ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ میں تشریف آوری پر اولین میزبان ہیں۔ ان کی موت اسی موقع پر ہوئی اور قسطنطنیہ کے قلعہ کی دیوار کے نیچے دفن ہوئے۔ ترجمہ باب اس حدیث سے یوں نکلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور حاضرین خانہ نے آپ کے پیچھے صف باندھی اور یہ نفل نماز جماعت سے ادا کی گئی۔ کیونکہ دوسری حدیث میں موجود ہے کہ آدمی کی نفل نماز گھر ہی میں بہتر ہے اور فرض نماز کا مسجد میں با جماعت ادا کرنا ضروری ہے۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو اس حدیث پر شبہ اس لیے ہوا کہ اس میں اعمال کے بغیر صرف کلمہ پڑھ لینے پر جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ مگر یہ حدیث اس بارے میں مجمل ہے دیگر احادیث میں تفصیل موجود ہے کہ کلمہ طیبہ بے شک جنت کی کنجی ہے۔ مگر ہر کنجی کے لیے دندانے ضروری ہیں۔ اسی طرح کلمہ طیبہ کے دندانے فرائض اور واجبات کو ادا کرنا ہے۔محض کلمہ پڑھ لینا اور اس کے مطابق عمل نہ کرنا بے نتیجہ ہے۔
حضرت امیر المحدثین امام بخاری رحمہ اللہ اگر چہ اس طویل حدیث کو یہاں اپنے مقصد باب کے تحت لائے ہیں کہ نفل نماز ایسی حالت میں باجماعت پڑھی جا سکتی ہے۔ مگر اس کے علاوہ بھی اور بہت سے مسائل اور اس سے ثابت ہوتے ہیں مثلاًمعذور لوگ اگر جماعت میں آنے کی سکت نہ رکھتے ہوں تو وہ اپنے گھر ہی میں ایک جگہ مقرر کر کے وہاں نماز پڑھ سکتے ہیںاور یہ بھی ثابت ہوا کہ مہمانان خصوصی کو عمدہ سے عمدہ کھانا کھلانا مناسب ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ بغیر سوچے سمجھے کسی پر نفاق یا کفر کا فتویٰ لگا دینا جائز نہیں۔ لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس شخص مالک نامی کا ذکر برے لفظوں میں کیا جو آپ کو ناگوار گزرا اورآپ نے فرمایا کہ وہ کلمہ پڑھنے والا ہے اسے تم لوگ منافق کیسے کہہ سکتے ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی معلوم تھا کہ وہ محض رسمی رواجی کلمہ گو نہیں ہے بلکہ کلمہ پڑھنے سے اللہ کی خوشنودی اس کے مد نظر ہے۔ پھر اسے کیسے منافق کہا جا سکتا ہے۔اس سے یہ بھی نکلا کہ جو لوگ اہلحدیث حضرات پر طعن کرتے ہیں اور ان کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں وہ سخت خطاکار ہیں۔ جبکہ اہلحدیث حضرات نہ صرف کلمہ توحید پڑھتے ہیں بلکہ اسلام کے سچے عامل اورقرآن وحدیث کے صحیح تابعدار ہیں۔
اس پر حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم فرماتے ہیں کہ مجھے اس وقت وہ حکایت یاد آئی کہ شیخ محی الدین ابن عربی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں خفگی ہوئی تھی۔ ہوا یہ تھا کہ ان کے پیر شیخ ابو مدین مغربی کو ایک شخص بر ابھلا کہاکرتا تھا۔ شیخ ابن عربی اس سے دشمنی رکھتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم خواب میں ان پر اپنی خفگی ظاہر کی۔ انہوں نے وجہ پوچھی۔ ارشاد ہوا تو فلاں شخص سے کیوں دشمنی رکھتا ہے۔ شیخ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! وہ میرے پیر کوبرا کہتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تو نے اپنے پیر کو برا کہنے کی وجہ سے تواس سے دشمنی رکھی اور اللہ اور اس کے رسول سے جو وہ محبت رکھتا ہے اس کا خیال کر کے تونے اس سے محبت کیوں نہ رکھی۔ شیخ نے توبہ کی اور صبح کو معذرت کے لیے اس کے پاس گئے۔ مومنین کو لازم ہے کہ اہلحدیث سے محبت رکھیں کیونکہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتے ہیں اور گو مجتہدوں کی رائے اور قیاس کو نہیں مانتے مگر وہ بھی اللہ اور اس کے رسول کی محبت کی وجہ سے پیغمبر صاحب صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف وہ کسی کی رائے اور قیاس کو کیوں مانیں سچ ہے 

ماعاشقیم بے دل دلدار ما محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
مابلبلیم نالاں گلزار مامحمد صلی اللہ علیہ وسلم 

حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کے انکار کی وجہ یہ بھی تھی کہ محض کلمہ پڑھ لینا اور عمل اس کے مطابق نہ ہونا نجات کے لیے کافی نہیں ہے۔ اسی خیال کی بنا پر انہوں نے اپنا خیال ظاہر کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کیونکر فرماسکتے ہیں۔ مگر واقعتا محمود بن الربیع سچے تھے اور انہوں نے اپنی مزید تقویت کے لیے دوبارہ عتبان بن مالک کے ہاں حاضری دی اور مکرر اس حدیث کی تصدیق کی۔ حدیث مذکور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجمل ایک ایسا لفظ بھی فرما دیا تھا جو اس چیز کا مظہر ہے کہ محض کلمہ پڑھ لینا کافی نہیں ہے۔ بلکہ اس کے ساتھ ابتغاءلوجہ اللہ ( اللہ کی رضا مندی کی طلب وتلاش ) بھی ضروری ہے اور ظاہر ہے کہ یہ چیز کلمہ پڑھنے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے ہی سے حاصل ہو سکتی ہے۔ اس لحاظ سے یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اجمالی ذکر فرمایا۔ آپ کا یہ مقصد نہ تھا کہ محض کلمہ پڑھنے سے وہ شخص جنتی ہو سکتا ہے۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد جامع تھا کہ کلمہ پڑھنا اور اس کے مطابق عمل درآمد کرنا اوریہ چیزیں آپ کو شخص متنازعہ کے بارے میں معلوم تھیں۔ اس لیے آپ نے اس کے ایمان کی توثیق فرمائی اور لوگوں کو اس کے بارے میں بد گمانی سے منع فرمایا۔ واللہ اعلم بالصواب۔
English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] 

Mahmud said that he had heard Itban bin Malik, who was present with Allah’s Apostle in the battle of Badr saying, "I used to lead my people at Bani Salim in the prayer and there was a valley between me and those people. Whenever it rained it used to be difficult for me to cross it to go to their mosque. So I went to Allah’s Apostle and said, ‘I have weak eye-sight and the valley between me and my people flows during the rainy season and it becomes difficult for me to cross it; I wish you would come to my house and pray at a place so that I could take that place as a praying place.’ Allah’s Apostle said, ‘I will do so.’ So Allah’s Apostle and Abu Bakr came to my house in the (next) morning after the sun had risen high. Allah’s Apostle asked my permission to let him in and I admitted him. He did not sit before saying, ‘Where do you want us to offer the prayer in your house?’ I pointed to the place where I wanted him to pray. So Allah’s Apostle stood up for the prayer and started the prayer with Takbir and we aligned in rows behind him; and he offered two Rakat, and finished them with Taslim, and we also performed Taslim with him. I detained him for a meal called "Khazir” which I had prepared for him. ("Khazir” is a special type of dish prepared from barley flour and meat soup). When the neighbours got the news that Allah’s Apostle was in my house, they poured it till there were a great number of men in the house. One of them said, ‘What is wrong with Malik, for I do not see him?’ One of them replied, ‘He is a hypocrite and does not love Allah and His Apostle.’ On that Allah’s Apostle said, ‘Don’t say this. Haven’t you seen that he said, ‘None has the right to be worshipped but Allah for Allah’s sake only.’ The man replied, ‘Allah and His Apostle know better; but by Allah, we never saw him but helping and talking with the hypocrites.’ Allah’s Apostle replied, ‘No doubt, whoever says. None has the right to be worshipped but Allah, and by that he wants the pleasures of Allah, then Allah will save him from Hell.” Mahmud added, "I told the above narration to some people, one of whom was Ab-u Aiyub, the companion of Allah’s Apostle in the battle in which he (Ab-u Aiyub) died and Yazid bin Mu’aw7ya was their leader in Roman Territory. Abu Aiyub denounced the narration and said, ‘I doubt that Allah’s Apostle ever said what you have said.’ I felt that too much, and I vowed to Allah that if I remained alive in that holy battle, I would (go to Medina and) ask Itban bin Malik if he was still living in the mosque of his people. So when he returned, I assumed Ihram for Hajj or ‘Umra and then I proceeded on till I reached Medina. I went to Bani Salim and Itban bin Malik, who was by then an old blind man, was leading his people in the prayer. When he finished the prayer, I greeted him and introduced myself to him and then asked him about that narration. He told that narration again in the same manner as he had narrated it the first time.”

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں