صحیح بخاری جلد دؤم : کتاب فضل الصلوۃ فی مکۃ والمدینۃ ( مکہ اور مدینہ کی مساجد میں نماز کی فضیلت کا بیان) : حدیث:-1189

كتاب فضل الصلاة فى مسجد مكة والمدينة
کتاب: مکہ و مدینہ میں نماز کی فضیلت

Chapter No: 1

باب فَضْلِ الصَّلاَةِ فِي مَسْجِدِ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ

The superiority of offering As-Salat in the Masajid of Makkah (Al-Masjid Al-Haram), and Al-Medina (Al-Haram)

باب: مکہ اور مدینہ کی مسجد میں نماز پڑھنے کی فضیلت۔


[quote arrow=”yes” "]

1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]

2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:

3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:

4: حدیث کا اردو ترجمہ:

5: حدیث کی اردو تشریح:

English Translation :6 

[/quote]

حدیث اعراب کے ساتھ:  [sta_anchor id=”artash”]

حدیث نمبر:1189         

حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏”‏ لاَ تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلاَّ إِلَى ثَلاَثَةِ مَسَاجِدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَمَسْجِدِ الرَّسُولِ صلى الله عليه وسلم وَمَسْجِدِ الأَقْصَى ‏”‏‏.

.حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ:    [sta_anchor id=”arnotash”]

1189 ـ حدثنا علي، حدثنا سفيان، عن الزهري، عن سعيد، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏”‏ لا تشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد المسجد الحرام، ومسجد الرسول صلى الله عليه وسلم ومسجد الأقصى ‏”‏‏.‏
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:   [sta_anchor id=”urnotash”]
1189 ـ حدثنا علی، حدثنا سفیان، عن الزہری، عن سعید، عن ابی ہریرۃ ـ رضى اللہ عنہ ـ عن النبی صلى اللہ علیہ وسلم قال ‏”‏ لا تشد الرحال الا الى ثلاثۃ مساجد المسجد الحرام، ومسجد الرسول صلى اللہ علیہ وسلم ومسجد الاقصى ‏”‏‏.‏
‏‏‏‏‏‏اردو ترجمہ:   [sta_anchor id=”urdtrjuma”]

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: کجاوے نہ باندھے جائیں (یعنی سفر نہ کیا جائے)مگر تین مسجدوں کی طرف، ایک مسجد حرام، دوسرے مدینہ کی مسجد نبوی، تیسری مسجد اقصیٰ یعنی بیت المقدس۔


حدیث کی اردو تشریح:   [sta_anchor id=”urdtashree”]

 تشریح : مسجد اقصیٰ کی وجہ تسمیہ علامہ قسطلانی کے لفظوں میں یہ ہے۔ وسمی بہ لبعدہ عن مسجد مکۃ فی المسافۃ یعنی اس لیے اس کا نام مسجد اقصیٰ رکھا گیا کہ مسجد مکہ سے مسافت میں یہ دور واقع ہے۔لفظ رحال رحل کی جمع ہے یہ لفظ اونٹ کے کجاوہ پر بولاجا تا ہے۔ اس زمانہ میں سفر کے لیے اونٹ کا استعمال ہی عام تھا۔ اس لیے یہی لفظ استعمال کیا گیا۔
مطلب یہ ہوا کہ صرف یہ تین مساجد ہی ایسا منصب رکھتی ہیں کہ ان میں نماز پڑھنے کے لیے، ان کی زیارت کے لیے سفرکیا جائے ان تین کے علاوہ کوئی بھی جگہ مسلمانوں کے لیے یہ درجہ نہیں رکھتی کہ ان کی زیارت کے لیے سفر کیا جاسکے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہی حدیث بخاری شریف میں دوسری جگہ موجود ہے۔ مسلم شریف میں یہ ان لفظوں میں ہے: عن قزعۃ عن ابی سعید قال سمعت منہ حدیثا فاعجبنی فقلت لہ انت سمعت ھذا من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال فاقول علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مالم اسمع قال سمعتہ یقول قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا تشدوا الرحال الا الی ثلاثۃ مساجد مسجدی ھذا والمسجد الحرام والمسجد الاقصیٰ الحدیث۔
یعنی قزعہ نامی ایک بزرگ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے حدیث سنی جو مجھ کو بے حد پسند آئی۔ میں نے ان سے کہا کہ کیا فی الواقع آپ نے اس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے؟ وہ بولے کیا یہ ممکن ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی حدیث بیان کروں جو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ سنی ہو۔ ہرگز نہیں بے شک میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپ نے فرمایا کہ کجاوے نہ باندھومگر صرف ان ہی تین مساجد کے لیے۔ یعنی یہ میری مسجد اور مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ۔ ترمذی میں بھی یہ حدیث موجود ہے اور امام ترمذی کہتے ہیں ھذا حدیث حسن صحیح یعنی یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ معجم طبرانی صغیر میں یہ حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی ان ہی لفظوں میں موجود ہے اور ابن ماجہ میں عبد اللہ بن عمرو بن عاص کی روایت سے یہ حدیث ان ہی لفظوں میں ذکر ہوئی ہے اور حضرت امام مالک نے مؤطا میں اسے بصرہ بن ابی بصرہ غفاری سے روایت کیا ہے۔ وہاں والی مسجد ایلیااوبیت المقدس کے لفظ ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ حدیث سند کے لحاظ سے بالکل صحیح قابل اعتماد ہے اور اسی دلیل کی بنا پر بغرض حصول تقرب الی اللہ سامان سفر تیار کرنا اور زیارت کے لیے گھر سے نکلنا یہ صرف ان ہی تین مقامات کے ساتھ مخصوص ہے دیگر مساجد میں نماز ادا کرنے جانا یا قبرستان میں اموات مسلمین کی دعائے مغفرت کے لیے جانا یہ امور ممنوعہ نہیں۔ اس لیے کہ ان کے بارے میں دیگر احادیث صحیحہ موجود ہیں۔ نماز باجماعت کے لیے کسی بھی مسجد میں جانا اس درجہ کا ثواب ہے کہ ہر ہر قدم کے بدلے دس دس نیکیوں کا وعدہ دیا گیا ہے۔ اسی طرح قبرستان میں دعائے مغفرت کے لیے جانا خود حدیث نبوی کے تحت ہے۔جس میں ذکر ہے فانھا تذکر الاخرۃ یعنی وہاں جانے سے آخرت کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ باقی بزرگوں کے مزارات پر اس نیت سے جانا کہ وہاں جانے سے وہ بزرگ خوش ہو کر ہماری حاجت روائی کے لیے وسیلہ بن جائیں گے بلکہ وہ خود ایسی طاقت کے مالک ہیں کہ ہماری ہر مصیبت کو دور کر دیں گے یہ جملہ اوہام باطلہ اور اس حدیث کے تحت قطعا ناجائز امور ہیں۔
ا س سلسلہ میں علامہ شوکانی فرماتے ہیں:
واول من وضع الاحادیث فی السفر لزیارۃ المشاھد التی علی القبور اھل البدع الرافضۃ ونحوھم الذین یعطلون المساجد ویعظمون المشاھد یدعون بیوت اللہ التی امر ان یذکر فیھا اسمہ ویعبد وحدہ لا شریک لہ ویعظمون المشاھد التی یشرک فیھا ویکذب فیھا ویبتدع فیھا دین لم ینزل اللہ بہ سلطانا فان الکتاب والسنۃ انما فیھا ذکر المساجد دون المشاھد وھذا کلہ فی شدالرحال واما الزیارۃ فمشروعۃ بدونہ۔ ( نیل الاوطار ) 
یعنی اہل بدعت اور روافض ہی اولین وہ ہیں جنہوں نے مشاہد اور مقابر کی زیارت کے لیے احادیث وضع کیں، یہ وہ لوگ ہیں جو مساجد کو معطل کر تے اور مقابر ومشاہد ومزارات کی حد درجہ تعظیم بجالاتے ہیں۔ مساجد جن میں اللہ تعالی کے ذکر کرنے کا حکم ہے اور خالص اللہ کی عبادت جہاں مقصود ہے ان کو چھوڑ کر یہ فرضی مزارات پر جاتے ہیں اور ان کی اس درجہ تعظیم کرتے ہیں کہ وہ درجہ شرک تک پہنچ جاتی ہے اور وہاں جھوٹ بولتے اور ایسا نیا دین ایجاد کرتے ہیں جس پر اللہ نے کوئی دلیل نہیں اتاری۔ کتاب وسنت میں کہیں بھی ایسے مشاہد اور مزارات ومقابر کا ذکر نہیں ہے جن کے لیے بایں طور پر شد رحال کیا جاسکے۔ ہاں مساجد کی حاضری کے لیے کتاب وسنت میں بہت سی تاکیدات موجود ہیں۔ ان منکرات کے علاوہ شرعی طریق پر قبرستان جانا اور زیارت کرنا مشروع ہے۔
رہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرشریف پرحاضر ہونا اور وہاں جا کر آپ پر صلوۃ وسلام پڑھنا یہ ہر مسلمان کے لیے عین سعادت ہے۔مگر“گر فرق مراتب نہ کنی زندیقی”کے تحت وہاں بھی فرق مراتب کی ضرورت ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ زیارت سے قبل مسجد نبوی کا حق ہے۔ وہ مسجد نبوی جس میں ایک رکعت ایک ہزار رکعتوں کے برابر درجہ رکھتی ہے اور خاص طورپر روضۃ من ریاض الجنۃ کا درجہ اور بھی بڑھ کر ہے۔اس مسجد نبوی کی زیارت اور وہاں ادائے نماز کی نیت سے مدینہ منورہ کا سفر کرنا اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف پر بھی حاضر ہونا اور آپ پر صلوۃ وسلام پڑھنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت صدیق اکبروحضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما کے اوپر سلام پڑھنا پھر بقیع الغرقد قبرستان میں جاکر وہاں جملہ اموات کے لیے دعائے مغفرت کرنا۔ اسی طرح مسجد قبا میں جانا اور وہاں دو رکعت ادا کرنا، یہ جملہ امور مسنون ہیں جو سنت صحیحہ سے ثابت ہیں۔
اس تفصیل کے بعدکچھ اہل بدعت قسم کے لوگ ایسے بھی ہیں جو اہلحدیث پر ان کے اسلاف پر اورخاص کر حضرت علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف پر صلوۃ وسلام سے منع کرتے ہیں۔ یہ صریح کذب اور بہتا ن ہے۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس سلسلہ میں جو فرمایا ہے وہ یہی ہے جو اوپر بیان ہوا۔ باقی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر حاضر ہو کردرود وسلام بھیجنا، یہ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے مسلک میں مدینہ شریف جانے والوں اور مسجد نبوی میں حاضری دینے والوں کے لیے ضروری ہے۔
چنانچہ صاحب صیانۃ الانسان عن وسوسۃ الشیخ الدحلان علامہ محمد بشیر صاحب سہسوانی مرحوم تحریرفرماتے ہیں:
لانزاع لنا فی نفس مشروعیۃ زیارۃ قبر نبینا صلی اللہ علیہ وسلم واما ما نسب الی شیخ الاسلام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ من القول بعدم مشروعیۃ زیارۃ قبر نبینا صلی اللہ علیہ وسلم فافتراءبحت قال الامام العلامۃ ابو عبد اللہ محمدبن احمد بن عبد الھادی المقدسی الحنبلی فی الصارم المنکی ان شیخ الاسلام لم یحرم زیارۃ القبور علی الوجہ المشروع فی شئی من کتبہ ولم ینہ عنھا ولم یکرھھا بل استحبھا وحض علیھا ومصنفاتہ ومناسکہ طافحۃ بذکر استحباب زیارۃ قبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم سائر القبور قال رحمہ اللہ فی بعض مناسکہ باب زیارۃ قبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذا شرف علی مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم قبل الحج او بعدہ فلیقل ما تقدم فاذا دخل استحب لہ ان یغتسل نص علیہ الامام احمد فاذا دخل المسجد بدءبرجلہ الیمنیٰ وقال بسم اللہ والصلوۃ علی رسول اللہ اللھم اغفرلی ذنوبی وافتح لی ابواب رحمتک ثم یاتی الروضۃ بین القبر والمنبر فیصلی بھا ویدعو بما شاءثم یاتی قبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم فیستقبل جدار القبر لا یمسہ ولا یقبلہ ویجعل القندیل الذی فی القبلۃ عند القبر علی راسہ لیکون قائما وجاہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ویقف متباعد کما یقف اوظھر فی حیاتہ بخشوع وسکون ومنکسر الراس خاض الطرف مستحضرا بقلبہ جلالۃ موقفہ ثم یقول السلام علیک یا رسول اللہ ورحمۃ اللہ وبرکاتہ السلام علیک یا نبی اللہ وخیرتہ من خلقہ السلام علیک یا سید المرسلین ویاخاتم النبیین وقائد الغر المحجلین اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد انک رسول اللہ واشھد انک قد بلغت رسٰلٰت ربک ونصحت لامتک ودعوت الی سبیل ربک بالحکمۃ الموعظۃ الحسنۃ وعبدت اللہ حتی اتاک الیقین فجزاک اللہ افضل ما جزی نبیا ورسولا عن امتہ اللھم آتہ الوسیلۃ والفضیلۃ وابعثہ مقاما محمود الذی وعدتہ لیغبطہ بہ الاولون والاخرون اللھم صلی علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراھیم وعلی آل ابراھیم انک حمیدمجید اللھم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی ابراھیم وعلی آل ابراھیم انک حمید مجید اللھم احشرنا فی ذمرتہ وتوف علی سنۃ واوردنا حوضہ واسقنا بکاسہ شربا رویا لانظما بعدہ ابداً ثم یاتی ابا بکر وعمر فیقول السلام علیک یا ابا بکر الصدیق السلام علیک یا عمر الفاروق السلام علیکما یا صاحبی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وضجیعیہ ورحمۃ اللہ وبرکاتہ جزا کما اللہ عن صحبۃ نبیکما وعن الاسلام خیر السلام علیکم بما صبر تم فنعم عقبی الدار قال ویزور قبور اھل البقیع وقبورالشھداءان امکن ھذا کلام الشیخ رحمہ اللہ بحروفہ انتہی مافی الصارم۔ ( صیانۃ الانسان عن وسوسۃ الدحلان، ص:3 ) 
یعنی شرعی طریقہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کی زیارت کرنے میں قطعا کوئی نزاع نہیں ہے اور اس بارے میں علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر یہ محض جھوٹا بہتان ہے کہ قبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کو ناجائز کہتے تھے، یہ محض الزام ہے۔ علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد نے اپنی مشہور کتاب الصارم المنکی میں لکھا ہے کہ شرعی طریقہ پر زیارت قبور سے علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ہرگز منع نہیں کیا نہ اسے مکروہ سمجھا۔ بلکہ وہ اسے مستحب قرار دیتے ہیں اور اس کے لیے رغبت دلاتے ہیں۔انہوں نے اس بارے میں اپنی کتاب بابت ذکر مناسک حج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کی زیارت کے سلسلہ میں باب منعقد فرمایا ہے اور اس میں لکھا ہے کہ جب کوئی مسلمان حج سے پہلے یا بعد میں مدینہ شریف جائے تو پہلے وہ دعا مسنون پڑھے جو شہروں میں داخلہ کے وقت پڑھی جاتی ہے۔ پھر غسل کر ے اور بعد میں مسجد نبوی میں پہلے دایاں پاؤں رکھ کر داخل ہو اور یہ دعا پڑھے بسم اللہ والصلوۃ علی رسول اللہ اللھم اغفرلی ذنوبی وافتح لی ابواب رحمتک پھر اس جگہ آئے جو جنت کی کیاری ہے اوروہاں نماز پڑھے اور جو چاہے دعا مانگے۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر آئے اور دیوار کی طرف منہ کرے نہ اسے بوسہ دے نہ ہاتھ لگائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو اورپھر وہاں سلام اور درود پڑھے ( جن کے الفاظ پیچھے نقل کئے گئے ہیں ) پھر حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے سامنے آئے اور وہاں بھی سلام پڑھے جیسا کہ مذکور ہوا اورپھر ممکن ہو تو بقیع غرقد نامی قبرستان میں جاکر وہاں بھی قبور مسلمین اور شہداءکی زیارت مسنونہ کرے۔
سابق امتوں میں کچھ لوگ کوہ طور اور تربت بابرکت حضرت یحیٰ علیہ السلام وغیرہ کی زیارت کے لیے دور دراز سے سفر کر کے جایا کرتے تھے۔ اللہ کے سچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے تمام سفروں سے منع فرما کر اپنی امت کے لیے صرف یہ تین زیارت گاہیں مقرر فرمائیں۔ اب جو عوام اجمیر اورپاک پٹن وغیرہ وغیرہ مزارات کے لیے سفر باندھتے ہیں یہ ارشاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنے کی وجہ سے عاصی نافرمان اور آپ کے باغی ٹھہرتے ہیں۔ ہاں قبور المسلمین اپنے شہر یا قریہ میں ہوںوہ اپنوں کی ہوں یا بیگانوں کی وہاں مسنون طریقہ پر زیارت کرنا مشروع ہے کہ گورستان والوں کے لیے دعا ئے مغفرت کریں اور اپنی موت کو یاد کر کے دنیا سے بے رغبتی اختیار کریں۔ سنت طریقہ صرف یہی ہے۔
علامہ ابن حجر اس حدیث کی بحث کے آخر میں فرماتے ہیں فمعنی الحدیث لاتشد الرحال الی مسجد من المساجد او الی مکان من الامکنۃ لاجل ذلک المکان الا الی الثلاثۃ المذکورۃ وشد الرحال الی زیارۃ او طلب علم لیس الی المکان بل الی من فی ذلک المکان واللہ اعلم ( فتح الباری ) یعنی حدیث کا مطلب اسی قدر ہے کہ کسی بھی مسجد یا مکان کے لیے سفر نہ کیا جائے اس غرض سے کہ ان مساجد یا مکانات کی محض زیارت ہی موجب رضائے الٰہی ہے ہاں یہ تین مساجد یہ درجہ رکھتی ہیں جن کی طرف شد رحال کیا جانا چاہیے اور کسی کی ملاقات یا تحصیل علم کے لیے شد رحال کرنا اس ممانعت میں داخل نہیں اس لیے کہ یہ سفر کسی مکان یا مدرسہ کی عمارت کے لیے نہیں کیا جاتا بلکہ مکان کے مکین کی ملاقات اور مدرسہ میں تحصیل علم کے لیے کیا جاتا ہے۔
English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] 
Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "Do not set out on a journey except for three Mosques i.e. Al-Masjid-AI-Haram, the Mosque of Allah’s Apostle , and the Mosque of Al-Aqsa, (Mosque of Jerusalem).”

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں