صحیح بخاری جلد دؤم : کتاب الجنائز( جنازے کے احکام و مسائل) : حدیث:-1295

کتاب الجنائز
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل

Chapter No: 36

باب رِثَاءِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم سَعْدَ ابْنَ خَوْلَةَ

The sorrow of the Prophet (s.a.w) for Sa’d bin Khaula.

باب: سعد بن خولہ پر نبیﷺ کا افسوس کرنا۔


[quote arrow=”yes” "]

1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]

2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:

3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:

4: حدیث کا اردو ترجمہ:

5: حدیث کی اردو تشریح:

English Translation :6 

[/quote]

حدیث اعراب کے ساتھ:  [sta_anchor id=”artash”]

حدیث نمبر:1295         

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَعُودُنِي عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ مِنْ وَجَعٍ اشْتَدَّ بِي فَقُلْتُ إِنِّي قَدْ بَلَغَ بِي مِنَ الْوَجَعِ وَأَنَا ذُو مَالٍ، وَلاَ يَرِثُنِي إِلاَّ ابْنَةٌ، أَفَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثَىْ مَالِي قَالَ ‏”‏ لاَ ‏”‏‏.‏ فَقُلْتُ بِالشَّطْرِ فَقَالَ ‏”‏ لاَ ‏”‏ ثُمَّ قَالَ ‏”‏ الثُّلُثُ وَالثُّلْثُ كَبِيرٌ ـ أَوْ كَثِيرٌ ـ إِنَّكَ أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ، وَإِنَّكَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَةً تَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللَّهِ إِلاَّ أُجِرْتَ بِهَا، حَتَّى مَا تَجْعَلُ فِي فِي امْرَأَتِكَ ‏”‏‏.‏ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُخَلَّفُ بَعْدَ أَصْحَابِي قَالَ ‏”‏ إِنَّكَ لَنْ تُخَلَّفَ فَتَعْمَلَ عَمَلاً صَالِحًا إِلاَّ ازْدَدْتَ بِهِ دَرَجَةً وَرِفْعَةً، ثُمَّ لَعَلَّكَ أَنْ تُخَلَّفَ حَتَّى يَنْتَفِعَ بِكَ أَقْوَامٌ وَيُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ، اللَّهُمَّ أَمْضِ لأَصْحَابِي هِجْرَتَهُمْ، وَلاَ تَرُدَّهُمْ عَلَى أَعْقَابِهِمْ، لَكِنِ الْبَائِسُ سَعْدُ ابْنُ خَوْلَةَ، يَرْثِي لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنْ مَاتَ بِمَكَّةَ ‏”‏‏.‏

.حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ:    [sta_anchor id=”arnotash”]

1295 ـ حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن عامر بن سعد بن أبي وقاص، عن أبيه ـ رضى الله عنه ـ قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعودني عام حجة الوداع من وجع اشتد بي فقلت إني قد بلغ بي من الوجع وأنا ذو مال، ولا يرثني إلا ابنة، أفأتصدق بثلثى مالي قال ‏”‏ لا ‏”‏‏.‏ فقلت بالشطر فقال ‏”‏ لا ‏”‏ ثم قال ‏”‏ الثلث والثلث كبير ـ أو كثير ـ إنك أن تذر ورثتك أغنياء خير من أن تذرهم عالة يتكففون الناس، وإنك لن تنفق نفقة تبتغي بها وجه الله إلا أجرت بها، حتى ما تجعل في في امرأتك ‏”‏‏.‏ فقلت يا رسول الله، أخلف بعد أصحابي قال ‏”‏ إنك لن تخلف فتعمل عملا صالحا إلا ازددت به درجة ورفعة، ثم لعلك أن تخلف حتى ينتفع بك أقوام ويضر بك آخرون، اللهم أمض لأصحابي هجرتهم، ولا تردهم على أعقابهم، لكن البائس سعد ابن خولة، يرثي له رسول الله صلى الله عليه وسلم أن مات بمكة ‏”‏‏.‏
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:   [sta_anchor id=”urnotash”]
1295 ـ حدثنا عبد اللہ بن یوسف، اخبرنا مالک، عن ابن شہاب، عن عامر بن سعد بن ابی وقاص، عن ابیہ ـ رضى اللہ عنہ ـ قال کان رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم یعودنی عام حجۃ الوداع من وجع اشتد بی فقلت انی قد بلغ بی من الوجع وانا ذو مال، ولا یرثنی الا ابنۃ، افاتصدق بثلثى مالی قال ‏”‏ لا ‏”‏‏.‏ فقلت بالشطر فقال ‏”‏ لا ‏”‏ ثم قال ‏”‏ الثلث والثلث کبیر ـ او کثیر ـ انک ان تذر ورثتک اغنیاء خیر من ان تذرہم عالۃ یتکففون الناس، وانک لن تنفق نفقۃ تبتغی بہا وجہ اللہ الا اجرت بہا، حتى ما تجعل فی فی امراتک ‏”‏‏.‏ فقلت یا رسول اللہ، اخلف بعد اصحابی قال ‏”‏ انک لن تخلف فتعمل عملا صالحا الا ازددت بہ درجۃ ورفعۃ، ثم لعلک ان تخلف حتى ینتفع بک اقوام ویضر بک آخرون، اللہم امض لاصحابی ہجرتہم، ولا تردہم على اعقابہم، لکن البائس سعد ابن خولۃ، یرثی لہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ان مات بمکۃ ‏”‏‏.‏
‏‏‏‏‏‏‏اردو ترجمہ:   [sta_anchor id=”urdtrjuma”]

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: رسول اللہﷺحجۃ الوداع کے سال میری عیادت کےلیے تشریف لائے۔ میں سخت بیمار تھا میں نے کہا: میرا مرض شدت اختیار کرچکا ہے،اور میرے پاس مال و اسباب بہت زیادہ ہے اور میری صرف ایک بیٹی ہے۔کیا میں اپنا دوتہائی مال خیرات کردوں؟ آپﷺنے فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا: آدھا۔آپﷺنے فرمایا: نہیں۔ پھر آپﷺنے فرمایا: تہائی مال خرچ کرنا کافی ہے۔یہ بھی بڑی خیرات ہے یا بہت خیرات ہے۔اگر تم اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑ جائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں محتاج چھوڑے، لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔اللہ کی رضا مندی کےلیے جو خرچ کرے گا اس پر ثواب پائے گا یہاں تک کہ تم جو اپنی بیوی کے منہ میں ڈالے گا اس پر بھی۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میرے ساتھی تو مدینہ چلے جائیں گے اور میں ان سے پیچھے مکّہ میں رہ جاؤں گا۔آپﷺنے فرمایا: تم کبھی پیچھے نہیں رہوگے یہاں پر اگر تم کوئی نیک عمل کروگے تو اس سے تمہارے درجے بلند ہوں گے، اور شاید تم ابھی زندہ رہوگے، تم سے کچھ لوگ فائدہ اُٹھائیں گے اور کچھ لوگ نقصان۔ یا اللہ! میرے اصحاب کی ہجرت پوری کردے اور ان کو ایڑیوں کے بل مت لوٹانا (کہ مکّہ سے ہجرت کرکے پھر مکّہ میں آکر مریں) مگر سعد ابن خولہ بیچارہ ہے اس پر رسول اللہ ﷺ افسوس کیا کرتے تھے کہ وہ مکّہ ہی میں فوت ہوا تھا۔


حدیث کی اردو تشریح:   [sta_anchor id=”urdtashree”]

 تشریح : اس موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کا وہ زریں اصول بیان کیا ہے جو اجتماعی زندگی کی جان ہے۔ احادیث کے ذخیرہ میں اس طرح کی احادیث کی کمی نہیں اور اس سے ہماری شریعت کے مزاج کا پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنی اتباع کرنے والوں سے کس طرح کی زندگی کا مطالبہ کرتی ہے۔ خداوند تعالیٰ خود شارع ہیں اور اس نے اپنی تمام دوسری مخلوقات کے ساتھ انسانوں کو بھی پیدا کیا ہے۔ اس لیے انسان کی طبیعت میں فطری طور پر جو رجحانات اور صلاحیتیں موجود ہیں خداوند تعالیٰ اپنے احکام و اوامر میں انہیں نظرانداز نہیں کرتے۔ شریعت میں معاد ومعاش سے متعلق جن احکام پر عمل کرنے کا ہم سے مطالبہ کیا گیا ہے‘ ان کا مقصد یہ ہے کہ خدا کی عبادت اس کی رضا کے مطابق ہوسکے اور زمین میں شرو فساد نہ پھیلے۔ اہل وعیال پر خرچ کرنے کی اہمیت اور اس پر اجروثواب کا استحقاق صلہ رحمی اور خاندانی نظام کی اہمیت کے پیش نظر ہے کہ جن پر معاشرہ کی صلاح وبقا کا مدار ہے۔ حدیث کا یہ حصہ کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ دے تو اس پر بھی اجروثواب ملے گا اسی بنیاد پر ہے۔ کون نہیں جانتا کہ اس میں حظ نفس بھی ہے۔ لیکن اگر ازدواجی زندگی کے ذریعہ مسلمان اس خاندانی نظام کو پروان چڑھاتا ہے جس کی ترتیب اسلام نے دی اور اس کے مقتضیات پر عمل کی کوشش کرتا ہے تو قضاءشہوت بھی اجروثواب کا باعث ہے۔ شیخ نووی رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ حظ نفس اگر حق کے مطابق ہوتو اجروثواب میں اس کی وجہ سے کوئی کمی نہیں ہوتی۔ مسلم میں اس سلسلے کی ایک حدیث بہت زیادہ واضح ہے‘ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری شرمگاہ میں صدقہ ہے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا ہم اپنی شہوت بھی پوری کریں اور اجر بھی پائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں! کیا تم اس پر غور نہیں کرتے کہ اگر حرام میں مبتلا ہوگئے تو پھر کیا ہوگا؟ اس سے سمجھا جاسکتا ہے کہ شریعت ہمیں کن حدود میں رکھنا چاہتی ہے اور اس کے لیے اس نے کیا کیا جتن کئے ہیں اور ہمارے بعض فطری رجحانات کی وجہ سے جو بڑی خرابیاں پیدا ہوسکتی تھیں‘ ان کے سد باب کی کس طرح کوشش کی ہے۔
حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس کے باوجود کہ بیوی کے منہ میں لقمہ دینے اور دوسرے طریقوں سے خرچ کرنے کا داعیہ نفعانی اور شہوانی بھی ہے۔ خود یہ لقمہ جس جسم کا جزو بنے گا شوہر اسی سے منتفع ( فائدہ ) اٹھاتا ہے لیکن شریعت کی طرف سے پھر بھی اجروثواب کا وعدہ ہے۔ اس لیے اگر دوسروں پر خرچ کیا جائے جن سے کوئی نسبت وقرابت نہیں اور جہاں خرچ کرنے کے لیے کچھ زیادہ مجاہدہ کی بھی ضرورت ہوگی تو اس پر اجروثواب کس قدر مل سکتا ہے۔ تاہم یہ یاد رہے کہ ہر طرح کے خرچ اخراجات میں مقدم اعزا واقرباءہیں۔ اور پھر دوسرے لوگ کہ اعزاپر خرچ کرکے آدمی شریعت کے کئی مطالبوں کو ایک ساتھ پورا کرتا ہے۔
سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ مہاجرین میں سے تھے۔ لیکن آپ کی وفات مکہ میں ہوگئی تھی۔ یہ بات پسند نہیں کی جاتی تھی کہ جن لوگوں نے اللہ اور رسول سے تعلق کی وجہ سے اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہجرت کی تھی وہ بلا کسی سخت ضرورت کے مکہ میں قیام کریں۔ چنانچہ سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ مکہ میں بیمار ہوئے تو وہاں سے جلد نکل جانا چاہا کہ کہیں وفات نہ ہوجائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ پر اس لیے اظہار غم کیا تھا کہ مہاجر ہونے کے باوجود ان کی وفات مکہ میں ہوگئی۔ اسی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بھی دعا کی کہ اللہ تعالیٰ صحابہ کو ہجرت پر استقلال عطا فرمائے تاہم یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ نقصان کس طرح کا ہوگا۔ کیونکہ یہ تکوینیات سے متعلق ہے۔ ( تفہیم البخاری ) 
ترجمہ باب رثاءسے وہی اظہار افسوس اور رنج وغم مراد ہے نہ مرثیہ پڑھنا۔ مرثیہ اس کو کہتے ہیں کہ میت کے فضائل اور مناقب بیان کئے جائیں اور لوگوں کو بیان کرکے رلایا جائے۔ خواہ وہ نظم ہو یا نثر یہ تو ہماری شریعت میں منع ہے خصوصاً لوگوں کو جمع کرکے سنانا اور رُلانا اس کی ممانعت میں تو کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ صحیح حدیث میں وارد ہے جس کو احمد اور ابن ماجہ نے نکالا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مرثیوں سے منع فرمایا۔
سعد رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ اور صحابہ تو آپ کے ساتھ مدینہ طیبہ روانہ ہوجائیں گے اور میں مکہ ہی میں پڑے پڑے مرجاؤں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے گول مول فرمایا جس سے سعد رضی اللہ عنہ نے معلوم کرلیا کہ میں اس بیماری سے مروں گا نہیں۔ پھر آگے صاف فرمایا کہ شاید تو زندہ رہے گا اور تیرے ہاتھ سے مسلمانوں کو فائدہ اور کافروں کا نقصان ہوگا۔ اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بڑا معجزہ ہے جیسے آپ کی پیش گوئی تھی ویسا ہی ہوا۔ سعد رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مدت تک زندہ رہے عراق اور ایران انہوں نے فتح کیا۔ رضی اللہ عنہ ( وحیدی
 English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] 
Narrated By ‘Amir bin Sad bin Abi Waqqas : That his father said, "In the year of the last Hajj of the Prophet I became seriously ill and the Prophet used to visit me inquiring about my health. I told him, ‘I am reduced to this state because of illness and I am wealthy and have no inheritors except a daughter, (In this narration the name of ‘Amir bin Sad is mentioned and in fact it is a mistake; the narrator is ‘Aisha bint Sad bin Abi Waqqas). Should I give two-thirds of my property in charity?’ He said, ‘No.’ I asked, ‘Half?’ He said, ‘No.’ then he added, ‘One-third, and even one-third is much. You’d better leave your inheritors wealthy rather than leaving them poor, begging others. You will get a reward for whatever you spend for Allah’s sake, even for what you put in your wife’s mouth.’ I said, ‘O Allah’s Apostle! Will I be left alone after my companions have gone?’ He said, ‘If you are left behind, whatever good deeds you will do will up-grade you and raise you high. And perhaps you will have a long life so that some people will be benefited by you while others will be harmed by you. O Allah! Complete the emigration of my companions and do not turn them renegades.’ But Allah’s Apostle felt sorry for poor Sad bin Khaula as he died in Mecca.” (but Sad bin Abi Waqqas lived long after the Prophet (p.b.u.h).)

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں