[quote arrow=”yes”]
1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]
2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
[/quote]
حدیث اعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”artash”]
حدیث نمبر141:
الخط میں بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”arnotash”]
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”urnotash”]
141 ـ حدثنا علی بن عبد اللہ، قال حدثنا جریر، عن منصور، عن سالم بن ابی الجعد، عن کریب، عن ابن عباس، یبلغ بہ النبی صلى اللہ علیہ وسلم قال ” لو ان احدکم اذا اتى اہلہ قال بسم اللہ اللہم جنبنا الشیطان وجنب الشیطان ما رزقتنا. فقضی بینہما ولد، لم یضرہ ”.
ا اردو ترجمہ: ⇪ [sta_anchor id=”urdtrjuma”]
حدیث کی اردو تشریح: ⇪ [sta_anchor id=”urdtashree”]
تشریح : وضو کے شروع میں بسم اللہ کہنا اہل حدیث کے نزدیک ضروری ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب میں ذکر کردہ حدیث میں یہی ثابت فرمایا کہ جب جماع کے شروع میں بسم اللہ کہنا مشروع ہے تووضو میں کیوں کر مشروع نہ ہوگا وہ توایک عبادت ہے۔ ایک روایت میں ہے لاوضوءلمن لم یذکراسم اللہ علیہ جو بسم اللہ نہ پڑھے اس کا وضو نہیں۔ یہ روایت حضرت امام بخاری کی شرائط کے موافق نہ تھی اس لیے آپ نے اسے چھوڑکر اس حدیث سے استدلال فرماکر ثابت کیا کہ وضو کے شروع میں بسم اللہ ضروری ہے۔ ابن جریر نے جامع الآثار میں مجاہد سے روایت کیا ہے کہ جب کوئی مرداپنی بیوی سے جماع کرے اور بسم اللہ نہ پڑھے تو شیطان بھی اس کی عورت سے جماع کرتا ہے۔ آیت قرآنی لم یطمثھن انس قبلہم ولاجان ( الرحمن: 56 ) میں اسی کی نفی ہے۔ ( قسطلانی رحمہ اللہ )
استاد العلماءشیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ صاحب مبارک پوری حدیث لاوضوءلمن لم یذکراسم اللہ علیہ کے ذیل میں فرماتے ہیں: ای لایصح الوضوءولا یوجد شرعا الا بالتسمیۃ اذا لا صل فی التفی الحقیقۃ والنفی الصحۃ اقرب الی الذات واکثر لزوماً للحقیقۃ فیستلزم عدمہا عدم الذات ومالیس بصحیح لایجزی ولایعتد بہ فالحدیث نص علی افتراض التسمیۃ عندابتداءالوضوءوالیہ ذہب احمد فی روایۃ وہو قول اہل الظاہر وذہبت الشافعیۃ والحنفیۃ ومن وافقہم الی ان التسمیۃ سنۃ فقط واختار ابن الہمام من الحنفیۃ وجوبہا۔ ( مرعاۃ )
اس بیان کا خلاصہ یہی ہے کہ وضو سے پہلے بسم اللہ پڑھنا فرض ہے۔ امام احمد اور اصحاب ظواہر کا یہی مذہب ہے۔ حنفی وشافعی وغیرہ اسے سنت مانتے ہیں۔ مگرحنفیہ میں سے ایک بڑے عالم امام دین ہمام اس کے واجب ہونے کے قائل ہیں۔ علامہ ابن قیم نے اعلام میں بسم اللہ کے واجب ہونے پر پچاس سے بھی زائد دلائل پیش کئے ہیں۔
صاحب انوارالباری کا تبصرہ: اس میں کوئی شک نہیں کہ صاحب انوارالباری نے ہر اختلافی مقام پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی تنقیص کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ مگرامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی جلالت علمی ایسی حقیقت ہے کہ کبھی نہ کبھی آپ کے کٹرمخالفوں کو بھی اس کا اعتراف کرنا ہی پڑتا ہے۔ بحث مذکورہ میں صاحب انوارالباری کا تبصرہ اسکا ایک روشن ثبوت ہے۔ چنانچہ آپ استاد محترم حضرت مولانا انورشاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد نقل کرتے ہیں۔ کہ آپ نے فرمایا۔
امام بخاری کا مقام رفیع: یہاں یہ چیز قابل لحاظ ہے کہ امام بخاری نے باوجود اپنے رجحان مذکور کے بھی ترجمۃ الباب میں وضو کے لیے تسمیہ کا ذکر نہیں کیاتاکہ اشارہ ان احادیث کی تحسین کی طرف نہ ہوجائے۔ جو وضو کے بارے میں مروی ہیں حتیٰ کہ انھوں نے حدیث ترمذی کو بھی ترجمۃ الباب میں ذکرکرنا موزوں نہیں سمجھا۔ اس سے امام بخاری کی “ جلالت قدر ورفعت مکانی ” معلوم ہوتی ہے کہ جن احادیث کو دوسرے محدثین تحت الابواب ذکر کرتے ہیں۔ ان کو امام اپنے تراجم اور عنوانات ابواب میں بھی ذکر نہیں کرتے۔ پھر یہاں چونکہ ان کے رجحان کے مطابق کوئی معتبر حدیث ان کے نزدیک نہیں تھی توانھوں نے عمومات سے تمسک کیا اور وضو کو ان کے نیچے داخل کیا اور جماع کا بھی ساتھ ذکرکیا۔ تاکہ معلوم ہوکہ خدا کا اسم معظم ذکرکرنا جماع سے قبل مشروع ہوا تو بدرجہ اولیٰ وضو سے پہلے بھی مشروع ہونا چاہئیے۔ گویایہ استدلال نظائر سے ہوا۔ ( انوار الباری، ج4، ص: 161 )
مخلصانہ مشورہ: صاحب انوارالباری نے جگہ جگہ حضرت امام قدس سرہ کی شان میں لب کشائی کرتے ہوئے آپ کو غیرفقیہ، زودرنج وغیرہ وغیرہ طنزیات سے یادکیا۔ کیااچھا ہوکہ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بیان بالا کے مطابق آپ حضرت امام قدس سرہ کی شان میں تنقیص سے پہلے ذرا سوچ لیاکریں کہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کی جلالت قدر ورفعت مکانی ایک اظہرمن الشمس حقیقت ہے۔ جس سے انکارکرنے والے خوداپنی ہی تنقیص کا سامان مہیا کرتے ہیں۔ ہمارے محترم ناظرین میں سے شاید کوئی صاحب ہمارے بیان کو مبالغہ سمجھیں، اس لیے ہم ایک دو مثالیں پیش کردیتے ہیں۔ جن سے اندازہ ہوسکے گا کہ صاحب انوارالباری کے قلب میں حضرت امام المحدثین قدس سرہ کی طرف سے کس قدر تنگی ہے۔
بخاری ومسلم میں مبتدعین واصحاب اہواءکی روایات: آج تک دنیائے اسلام یہی سمجھتی چلی آرہی ہے کہ صحیح بخاری اور پھر صحیح مسلم نہایت ہی معتبر کتابیں ہیں۔ خصوصاً قرآن مجید کے بعد اصح الکتب بخاری شریف ہے۔ مگرصاحب انوارالباری کی رائے میں بخاری ومسلم میں بعض جگہ مبتدعین واہل اہواءجیسے بدترین قسم کے لوگوں کی روایات بھی موجود ہیں۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
“ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ کسی بدعتی سے خواہ وہ کیسا ہی پاک باز وراست باز ہو حدیث کی روایت کے روادار نہیں برخلاف اس کے بخاری ومسلم میں مبتدعین اور بعض اصحاب اہواءکی روایات بھی لی گئی ہیں۔ اگرچہ ان میں ثقہ اور صادق اللہجہ ہونے کی شرط ورعایت ملحوظ رکھی گئی ہے۔ ” ( انوارالباری،ج4،ص: 53 )
مقام غورہے کہ سادہ لوح حضرات صاحب انورالباری کے اس بیان کے نتیجہ میں بخاری ومسلم کے بارے میں کیا رائے قائم کریں گے۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ آپ نے محض غلط بیانی کی ہے، آگے اگر آپ بخاری ومسلم کے مبتدعین اور اہل اہواءکی کوئی فہرست پیش کریں گے تواس بارے میں تفصیل سے لکھا جائے گا اور آپ کے افتراء پر وضاحت سے روشنی ڈالی جائے گی۔
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اور آپ کی جامع کامقام گرانے کی ایک اور مذموم کوشش: حبک الشئی یعمی ویصم کسی چیز کی حد سے زیادہ محبت انسان کواندھا اور بہرا بنادیتی ہے۔ صدافسوس کہ صاحب انوارالباری نے اس حدیث نبوی کی بالکل تصدیق فرمادی ہے۔ بخاری شریف کا مقام گرانے اور حضرت امیرالمحدثین کی نیت پر حملہ کرنے کے لیے آپ بڑے ہی محققانہ انداز میں فرماتے ہیں:
“ ہم نے ابھی بتلایاکہ امام اعظم کی کتاب الآثار مذکورمیں صرف احادیث کی تعداد چار ہزار تک پہنچتی ہے، اس کے مقابلہ میں جامع صحیح بخاری کے تمام ابواب غیرمکرر موصول احادیث مرویہ کی تعداد 2353 سب تصریح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ہے۔ اور مسلم شریف کی کل ابواب کی احادیث مرویہ چارہزارہیں۔ ابوداؤد کی4800 اور ترمذی شریف کی پانچ ہزار۔ اس سے معلوم ہوا کہ احادیث احکام کا سب سے بڑا ذخیرہ کتاب الآثار امام اعظم پھر ترمذی وابوداؤد میں ہے۔ مسلم میں ان سے کم، بخاری میں ان سب سے کم ہے۔ جس کی وجہ یہ کہ امام بخاری رحمہ اللہ صرف اپنے اجتہاد کے موافق احادیث ذکر کرتے ہیں۔ ” ( انوارالباری،ج4،ص: 53 )
حضرت امام بخاری کا مقام رفیع اور ان کی جلالت قدرورفعت مکانی کا ذکر بھی آپ صاحب انوار الباری کی قلم سے ابھی پڑھ چکے ہیں اور جامع الصحیح اور خود حضرت امام بخاری کے متعلق آپ کا یہ بیان بھی ناظرین کے سامنے ہے۔ جس میں آپ نے کھلے لفظوں میں بتلایا کہ امام بخاری نے صرف اپنے اجتہاد کو صحیح ثابت کرنے کے لیے اپنی حسب منشاءاحادیث نبوی جمع کی ہیں۔ صاحب انوار الباری کا یہ حملہ اس قدر سنگین ہے کہ اس کی جس قدر بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ تاہم متانت وسنجیدگی سے کام لیتے ہوئے ہم کوئی منتقمانہ انکشاف نہیں کریں گے۔ ورنہ حقیقت یہی ہے کہ الاناءیترشح بمافیہ برتن میں جو کچھ ہوتا ہے وہی اس سے ٹپکتا ہے۔ حضرت والا خود ذخائر احادیث نبوی کو اپنے مفروضات مسلکی کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے کمربستہ ہوئے ہیں۔ سوآپ کو حضرت امام بخاری قدس سرہ بھی ایسے ہی نظر آتے ہیں۔ سچ ہے المرءیقیس علی نفسہ۔
English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] ⇪