Search

صحیح بخاری جلد اول : كتاب الإيمان (ایمان کا بیان) : حدیث 31

كتاب الإيمان
کتاب: ایمان کے بیان میں
.(THE BOOK OF BELIEF (FAITH
 
22 م- بَابُ: {وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا} فَسَمَّاهُمُ الْمُؤْمِنِينَ:
باب: ”اور اگر ایمان والوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان دونوں کے درمیان صلح کرا دو“ ان کا نام مومن رکھا ہے۔
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ وَاصِلٍ الْأَحْدَبِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْمَعْرُورِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَقِيتُ أَبَا ذَرٍّ بِالرَّبَذَةِ وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ وَعَلَى غُلَامِهِ حُلَّةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي سَابَبْتُ رَجُلًا فَعَيَّرْتُهُ بِأُمِّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ يَا أَبَا ذَرٍّ،  ‏‏‏‏‏‏”أَعَيَّرْتَهُ بِأُمِّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّكَ امْرُؤٌ فِيكَ جَاهِلِيَّةٌ إِخْوَانُكُمْ خَوَلُكُمْ جَعَلَهُمُ اللَّهُ تَحْتَ أَيْدِيكُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ كَانَ أَخُوهُ تَحْتَ يَدِهِ فَلْيُطْعِمْهُ مِمَّا يَأْكُلُ وَلْيُلْبِسْهُ مِمَّا يَلْبَسُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تُكَلِّفُوهُمْ مَا يَغْلِبُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ كَلَّفْتُمُوهُمْ فَأَعِينُوهُمْ”.

حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:        [sta_anchor id=”arnotash”] 

31 ـ حدثنا عبد الرحمن بن المبارک، حدثنا حماد بن زید، حدثنا ایوب، ویونس، عن الحسن، عن الاحنف بن قیس، قال ذہبت لانصر ہذا الرجل، فلقینی ابو بکرۃ فقال این ترید قلت انصر ہذا الرجل‏.‏ قال ارجع فانی سمعت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم یقول ‏”‏ اذا التقى المسلمان بسیفیہما فالقاتل والمقتول فی النار ‏”‏‏.‏ فقلت یا رسول اللہ ہذا القاتل فما بال المقتول قال ‏”‏ انہ کان حریصا على قتل صاحبہ ‏”‏‏.‏
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:   [sta_anchor id=”urnotash”]
31 ـ حدثنا عبد الرحمن بن المبارك، حدثنا حماد بن زيد، حدثنا أيوب، ويونس، عن الحسن، عن الأحنف بن قيس، قال ذهبت لأنصر هذا الرجل، فلقيني أبو بكرة فقال أين تريد قلت أنصر هذا الرجل‏.‏ قال ارجع فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏”‏ إذا التقى المسلمان بسيفيهما فالقاتل والمقتول في النار ‏”‏‏.‏ فقلت يا رسول الله هذا القاتل فما بال المقتول قال ‏”‏ إنه كان حريصا على قتل صاحبه ‏”‏‏.‏
 

حدیث کا اردو ترجمہ:   [sta_anchor id=”urdtrjuma”]

ہم سے بیان کیا عبدالرحمٰن بن مبارک نے، کہا ہم سے بیان کیا حماد بن زید نے، کہا ہم سے بیان کیا ایوب اور یونس نے، انہوں نے حسن

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے اسے واصل احدب سے، انہوں نے معرور سے، کہا میں ابوذر سے ربذہ میں ملا وہ ایک جوڑا پہنے ہوئے تھے اور ان کا غلام بھی جوڑا پہنے ہوئے تھا۔ میں نے اس کا سبب دریافت کیا تو کہنے لگے کہ میں نے ایک شخص یعنی غلام کو برا بھلا کہا تھا اور اس کی ماں کی غیرت دلائی (یعنی گالی دی) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ معلوم کر کے مجھ سے فرمایا اے ابوذر! تو نے اسے ماں کے نام سے غیرت دلائی، بیشک تجھ میں ابھی کچھ زمانہ جاہلیت کا اثر باقی ہے۔ (یاد رکھو)ماتحت لوگ تمہارے بھائی ہیں۔ اللہ نے (اپنی کسی مصلحت کی بنا پر) انہیں تمہارے قبضے میں دے رکھا ہے تو جس کے ماتحت اس کا کوئی بھائی ہو تو اس کو بھی وہی کھلائے جو آپ کھاتا ہے اور وہی کپڑا اسے پہنائے جو آپ پہنتا ہے اور ان کو اتنے کام کی تکلیف نہ دو کہ ان کے لیے مشکل ہو جائے اور اگر کوئی سخت کام ڈالو تو تم خود بھی ان کی مدد کرو۔

 

حدیث کی اردو تشریح:   [sta_anchor id=”urdtashree”]

تشریح : حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ قدیم الاسلام ہیں بہت ہی بڑے زاہد عابد تھے۔ ربذہ مدینہ سے تین منازل کے فاصلہ پر ایک مقام ہے، وہاں ان کا قیام تھا۔ بخاری شریف میں ان سے چودہ احادیث مروی ہیں۔ جس شخص کو انھوں نے عاردلائی تھی وہ حضرت بلال  رضی اللہ عنہ تھے اور ان کو انھوں نے ان کی والدہ کے سیاہ فام ہونے کا طعنہ دیا تھا۔ جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوذر ابھی تم میں جاہلیت کا فخر باقی رہ گیا۔ یہ سن کر حضرت ابوذر اپنے رخسار کے بل خاک پر لیٹ گئے۔ اور کہنے لگے کہ جب تک بلال میرے رخسار پر اپنا قدم نہ رکھیں گے۔ مٹی سے نہ اٹھوں گا۔
حلہ دوچادروں کو کہتے ہیں۔ جو ایک تہمد کی جگہ اور دوسری بالائی حصہ جسم پر استعمال ہو۔
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو آپ نے تنبیہ فرمائی لیکن ایمان سے خارج نہیں بتلایا۔ ثابت ہوا کہ معصیت بڑی ہو یا چھوٹی محض اس کے ارتکاب سے مسلمان کافر نہیں ہوتا۔ پس معتزلہ وخوارج کا مذہب باطل ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص معصیت کا ارتکاب کرے اور اسے حلال جان کرکرے تواس کے کفر میں کوئی شک بھی نہیں ہے کیونکہ حدودِالٰہی کا توڑنا ہے، جس کے لیے ارشادِ باری ہے ومن یتعد حدوداللہ فاولئک ہم الظلمون ( البقرۃ: 229 ) جو شخص حدودِ الٰہی کو توڑے وہ لوگ یقینا ظالم ہیں۔ شیطان کو اس ذیل میں مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ جس نے خدا کی نافرمانی کی اور اس پر ضد اور ہٹ دھرمی کرنے لگا خدا نے اسی کی وجہ سے اسے مردود و مطرودقرار دیا۔
پس گنہگاروں کے بارے میں اس فرق کا ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔

English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] 

Narrated Al-Ahnaf bin Qais: While I was going to help this man (‘Ali Ibn Abi Talib), Abu Bakra met me and asked, "Where are you going?” I replied, "I am going to help that person.” He said, "Go back for I have heard Allah’s Apostle saying, ‘When two Muslims fight (meet) each other with their swords, both the murderer as well as the murdered will go to the Hell-fire.’ I said, ‘O Allah’s Apostle! It is all right for the murderer but what about the murdered one?’ Allah’s Apostle replied, "He surely had the intention to kill his companion.”

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں