1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]
2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
[/quote]
حدیث اعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”artash”]
حدیث نمبر:606
حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”arnotash”]
الخط میں بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”urnotash”]
606 ـ حدثنا محمد، قال اخبرنا عبد الوہاب، قال اخبرنا خالد الحذاء، عن ابی قلابۃ، عن انس بن مالک، قال لما کثر الناس قال ـ ذکروا ـ ان یعلموا وقت الصلاۃ بشىء یعرفونہ، فذکروا ان یوروا نارا او یضربوا ناقوسا، فامر بلال ان یشفع الاذان وان یوتر الاقامۃ.
اردو ترجمہ: ⇪ [sta_anchor id=”urdtrjuma”]
حدیث کی اردو تشریح: ⇪ [sta_anchor id=”urdtashree”]
تشریح : اذان کے بارے میں بعض روایات میں پندرہ کلمات وارد ہوئے ہیں جیسا کہ عوام میں اذان کا مروجہ طریقہ ہے۔ بعض روایات میں انیس کلمات آئے ہیں اوریہ اس بناپر کہ اذان ترجیع کے ساتھ دی جائے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ شہادت کے ہردو کلموں کو پہلے دو مرتبہ آہستہ آہستہ کہا جائے پھر ان ہی کو دو دو مرتبہ بلند آواز سے کہا جائے۔
حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے ان لفظوں میں باب منعقد کیاہے۔ باب ماجاءفی الترجیع فی الاذان۔ یعنی ترجیع کے ساتھ اذان کہنے کے بیان میں۔ پھر آپ یہاں حدیث ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کو لائے ہیں۔ جس سے اذان میں ترجیع ثابت ہے۔
چنانچہ خود امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: قال ابوعیسیٰ حدیث ابی محذورۃ فی الاذان حدیث صحیح وقد روی عنہ من غیروجہ وعلیہ العمل بمکۃ وہوقول الشافعی۔ یعنی اذان کے بارے میں ابومحذورہ کی حدیث صحیح ہے۔ جو مختلف طرق سے مروی ہے۔ مکہ شریف میں اسی پر عمل ہے اورامام شافعی کا بھی یہی قول ہے۔ امام نووی حدیث ابومحذورہ کے ذیل میں فرماتے ہیں: فی ہذاالحدیث حجۃ بینۃ ودلالۃ واضحۃ لمذہب مالک والشافعی وجمہور العلماءان الترجیع فی الاذان ثابت مشروع وہوالعود الی الشہادتین مرتین برفع الصوت بعد قولہما مرتین بخفض الصوت۔ ( نووی، شرح مسلم ) یعنی حدیث ابی محذورہ روشن واضح دلیل ہے کہ اذان میں ترجیع مشروع ہے اوروہ یہ ہے کہ پہلے کلمات شہادتین کو آہستہ آواز سے دودو مرتبہ ادا کرکے بعد میں بلند آواز سے پھر دو دومرتبہ دہرایا جائے۔ امام مالک اورامام شافعی اورجمہور علماءکا یہی مذہب ہے۔ حضرت ابومحذورہ کی روایت ترمذی کے علاوہ مسلم اور ابوداؤد میں بھی تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ فقہائے احناف رحمہم اللہ اجمعین ترجیع کے قائل نہیں ہیں اورانھوں نے روایات ابومحذورہ کی مختلف توجیہات کی ہیں۔
ترجیع کے ساتھ اذان کہنے کا بیان:
المحدث الکبیر حضرت مولانا عبدالرحمن مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: واجاب عن ہذہ الروایات من لم یقل بالترجیع باجوبۃ کلہا مخدوشۃ واہیۃ۔ ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی جوحضرات ترجیع کے قائل نہیں ہیں انھوں نے روایات ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کے مختلف جوابات دیئے ہیں۔ جوسب مخدوش اورواہیات ہیں۔ کوئی ان میں قابل توجہ نہیں۔ ان کی بڑی دلیل عبداللہ بن زید کی حدیث ہے۔ جس میں ترجیع کا ذکر نہیں ہے۔
علامہ مبارک پوری مرحوم اس بارے میں فرماتے ہیں کہ حدیث عبداللہ بن زید میں فجر کی اذان میں کلمات “ الصلوٰۃ خیرمن النوم کا بھی ذکر نہیں ہے۔ اوریہ زیادتی بھی حدیث ابومحذورہ ہی سے ثابت ہے۔ جسے محترم فقہائے احناف نے قبول فرمالیاہے۔ پھر کوئی وجہ نہیں کہ ترجیع کے بارے میں بھی حدیث ابومحذورہ کی زیادتی کو قبول نہ کیا جائے۔
قلت فلذلک یقال ان الترجیع وان لم یکن فی حدیث عبداللہ بن زید فقد علمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذلک ابامحذورۃ بعد ذلک فلما علمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابامحذورۃ کان زیادۃ علی ما فی حدیث عبداللہ بن زید فوجب استعمالہ۔ ( تحفۃ الاحوذی )
یعنی اگرچہ ترجیع کی زیادتی حدیث عبداللہ بن زید میں مذکور نہیں ہے مگرجس طرح فجر میں آپ نے ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کو الصلوٰۃ خیرمن النوم کے الفاظ کی زیادتی تعلیم فرمائی ایسے ہی آپ نے ترجیع کی بھی زیادتی تعلیم فرمائی۔ پس اس کا استعمال ضروری ہوا، لہٰذا ایک ہی حدیث کے نصف حصہ کو لینا اورنصف کا انکار کردینا قرین انصاف نہیں ہے۔
حضرت علامہ انورشاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ:صاحب تفہیم البخاری ( دیوبندی ) ترجیع کی اذان کے بارے میں حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک ان لفظوں میں بیان فرماتے ہیں:
“ حضرت ابومحذورہ رضی اللہ عنہ جنھیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد مسجدالحرام کا مؤذن مقرر کیاتھا وہ اسی طرح ( ترجیع کے ساتھ ) اذان دیتے تھے جس طرح امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک ہے۔ اوران کا یہ بھی بیان تھاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اسی طرح سکھایاتھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں برابر آپ اسی طرح ( ترجیع سے ) اذان دیتے رہے اورپھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طویل دورمیں بھی آپ کا یہی عمل رہا کسی نے انھیں اس سے نہیں روکا۔ اس کے بعد بھی مکہ میں اسی طرح اذان دی جاتی رہی۔ لہٰذا اذان کا یہ طریقہ مکروہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔ صاحب بحرالرائق نے یہی فیصلہ کیاہے اوراس آخری دورمیں حنفیت اورحدیث کے امام حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس فیصلہ کو درست کہاہے۔ ” ( تفہیم البخاری، کتاب الاذان، پ3، ص:50 )
یہ مختصر تفصیل اس لیے دی گئی کہ ہمارے معزز/حنفی بھائیوں کی اکثریت اوّل تو ترجیع کی اذان سے واقف ہی نہیں اور اگر اتفاقاً کہیں کسی اہل حدیث مسجد میں اسے سن پاتے ہیں تو حیرت سے سنتے ہیں۔ بلکہ بعض لوگ انکار کرتے ہوئے ناک بھوں بھی چڑھانے لگ جاتے ہیں۔ ان پر واضح ہونا چاہئیے کہ وہ اپنی ناواقفیت کی بناپر ایسا کررہے ہیں۔
رہی یہ بحث کہ ترجیع کے ساتھ اذان دینا افضل ہے یابغیرترجیع کے جیسا کہ عام طور پر مروج ہے اس لفظی بحث میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر دوطریقے جائز درست ہیں۔ باہمی اتفاق اوررواداری کے لیے اتناہی سمجھ لینا کافی وافی ہے۔
حضرت مولانا عبیداللہ شیخ الحدیث مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: قلت ہذا ہوالحق ان الوجہین جائزان ثابتان مشروعان سنتان من سنن النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔ ( مرعاۃ المفاتیح، ج1، ص:422 ) یعنی حق یہ ہے کہ ہر دو طریقے جائز اورثابت اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں میں سے ہیں۔
پس اس بارے میں باہمی طور پر لڑنے جھگڑنے کی کوئی بات ہی نہیں۔ اللہ پاک مسلمانوں کو نیک سمجھ عطا کرے کہ وہ ان فروعی مسائل پر لڑنا چھوڑکر باہمی اتفاق پیدا کریں۔ آمین۔
English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] ⇪