1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]
2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
[/quote]
حدیث اعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”artash”]
حدیث نمبر:783
حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”arnotash”]
783 ـ حدثنا موسى بن إسماعيل، قال حدثنا همام، عن الأعلم ـ وهو زياد ـ عن الحسن، عن أبي بكرة، أنه انتهى إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو راكع، فركع قبل أن يصل إلى الصف، فذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم فقال ” زادك الله حرصا ولا تعد ”.
783 ـ حدثنا موسى بن اسماعیل، قال حدثنا ہمام، عن الاعلم ـ وہو زیاد ـ عن الحسن، عن ابی بکرۃ،انہ انتہى الى النبی صلى اللہ علیہ وسلم وہو راکع، فرکع قبل ان یصلالى الصف، فذکر ذلک للنبی صلى اللہ علیہ وسلم فقال ” زادک اللہ حرصا ولا تعد ”.
اردو ترجمہ: ⇪ [sta_anchor id=”urdtrjuma”]
تشریح : طبرانی کی روایت میں یوں ہے کہ ابوبکرہ اس وقت مسجد میں پہنچے کہ نماز کی تکبیر ہو چکی تھی، یہ دوڑے اور طحاوی کی روایت میں ہے کہ دوڑتے ہوئے ہانپنے لگے، انہوں نے مارے جلدی کے صف میں شریک ہونے سے پہلے ہی رکو ع کر دیا۔ نماز کے بعد جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حال معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ آئندہ ایسا نہ کرنا۔
بعض اہل علم نے اس سے رکوع میں آنے والوں کے لیے رکعت کے ہو جانے پر دلیل پکڑی ہے۔ عون المعبود شرح ابوداؤد میں، ص332، میں ہے۔ قال الشوکانی فی النیل لیس فیہ ما یدل علی ما ذہبوا الیہ لانہ کما لم بامرہ بالاعادۃ لم ینقل ایضا انہ اعتد بہا و الدعاءلہ بالجرض لا یستلزم الاعتداد بہا لان الکون مع الامام مامور بہ سواءکان الشئی الذی یدرکہ الموتم معتدا بہ ام لا کما فی الحدیث اذا جئتم الی الصلوۃ و نحن سجود فاسجدوا ولا تعدوہا شئیا علی ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قد نہی ابابکر عن العود الی مثل ذلک و الاحتجاج بشئی قد نہی عنہ لا یصح و قد اجاب ابن حزم فی المحلی عن حدیث ابی بکرۃ فقال انہ لا حجۃ فیہ لانہ لیس فیہ اجتراءبتلک الرکعۃ الخ۔
خلاصہ یہ ہے کہ بقول علامہ شوکانی اس حدیث سے یہ استدلال صحیح نہیں ہے کیوں کہ اگر حدیث میں یہ صراحت نہیں ہے کہ آپ نے اسے رکعت کے لوٹانے کا حکم نہیں فرمایا تو ساتھ ہی منقول یہ بھی نہیں ہے کہ اس رکعت کو کافی سمجھا۔ آپ نے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کو اس کی حرص پر دعائے خیر ضرور دی مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس رکعت کو بھی کافی سمجھا اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کو اس فعل سے مطلقاً منع فرما دیا تو ایسی ممنوعہ چیز سے استدلال پکڑنا صحیح نہیں۔ علامہ ابن حزم نے بھی محلی میں ایسا ہی لکھا ہے۔
حضرت صاحب عون المعبود رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
فہذا محمد بن اسماعیل البخاری احد المجتہدین و واحد من ارکان الدین قد ذہب الی ان مدرکا للرکوع لا یکون مدرکا للرکعۃ حتی یقرا فاتحۃ الکتاب فمن دخل مع الامام فی الرکوع فلہ ان یقضی تلک الرکعۃ بعد سلام الامام بل حکی البخاری ہذا المذہب عن کل من ذہب الی وجوب القراۃ خلف الامام الخ ( عون المعبود، ص: 334 ) یعنی حضرت امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ جو مجتہدین میں سے ایک زبردست مجتہد بلکہ ملت اسلام کے اہم ترین رکن ہیں، انہوں نے رکوع پانے والے کی رکعت کو تسلیم نہیں کیا۔ بلکہ ان کا فتوی یہ ہے کہ ایسے شخص کو امام کے سلام کے بعد یہ رکعت پڑھنی چاہئے بلکہ حضر ت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ ہر اس شخص کا مذہب نقل فرمایا ہے جس کے نزدیک امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنی واجب ہے اور ہمارے شیخ العرب و العجم حضرت مولانا سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی فتوی ہے۔ ( حوالہ مذکور )
اس تفصیل کے بعد یہ امر بھی ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ جو حضرات بلا تعصب محض اپنی تحقیق کی بنا پر رکوع کی رکعت کے قائل ہیں وہ اپنے فعل کے خود ذمہ دار ہیں۔ ان کو بھی چاہئے کہ رکوع کی رکعت نہ ماننے والوں کے خلاف زبان کو تعریض سے روکیں اور ایسے مختلف فیہ فروعی مسائل میں وسعت سے کام لے کر اتفاق باہمی کو ضرب نہ لگائیں کہ سلف صالحین کا یہی طریقہ یہی طرز عمل رہا ہے۔ ایسے امور میں قائلین و منکرین میں سے حدیث الاعمال بالنیات کے تحت ہر شخص اپنی نیت کے مطابق بدلہ پائے گا، اسی لیے المجتہد قد یخطی و یصیب کا اصول وضع کیا گیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب و الیہ المرجع و المآب دلائل کی رو سے صحیح یہی ہے کہ رکوع میں ملنے سے اس رکعت کا لوٹانا ضروری ہے۔
English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] ⇪