[quote arrow=”yes” "]
1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]
2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
[/quote]
حدیث اعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”artash”]
حدیث نمبر:821
.حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”arnotash”]
821 ـ حدثنا سليمان بن حرب، قال حدثنا حماد بن زيد، عن ثابت، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ قال إني لا آلو أن أصلي بكم كما رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يصلي بنا. قال ثابت كان أنس يصنع شيئا لم أركم تصنعونه، كان إذا رفع رأسه من الركوع قام حتى يقول القائل قد نسي. وبين السجدتين حتى يقول القائل قد نسي.
821 ـ حدثنا سلیمان بن حرب، قال حدثنا حماد بن زید، عن ثابت، عن انس ـ رضى اللہ عنہ ـ قال انی لاالو ان اصلی بکم کما رایتالنبی صلى اللہ علیہ وسلم یصلی بنا. قال ثابت کان انس یصنع شیئا لم ارکم تصنعونہ، کان اذا رفع راسہ من الرکوع قام حتى یقولالقائل قد نسی. وبینالسجدتین حتى یقولالقائل قد نسی.
اردو ترجمہ: ⇪ [sta_anchor id=”urdtrjuma”]
تشریح : حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم فرماتے ہیں کہ ہمارے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اسی پر عمل کیا ہے اور دونوں سجدوں کے بیچ میں باربار رَبِّ اغفِرلِی کہنا مستحب جانا ہے جیسے حذیفہ کی حدیث میں وارد ہے حافظ رحمہ اللہ نے کہا اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں سے ثابت نے یہ گفتگو کی وہ دونوں سجدوں کے درمیان نہ بیٹھتے ہوں گے لیکن حدیث پر چلنے والا جب حدیث صحیح ہو جائے تو کسی کی مخالفت کی پرواہ نہیں کرتا۔ حضرت علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں وقدترک الناس ھذہ السنۃ الثابتۃ بالاحادیث الصحیحۃمحدثھم وفقیھھم ومجتھدھم ومقلدھم فلیت شعری ما الذی عواوا علیہ ذالک واللہ المستعان یعنی صد افسوس کہ لوگوں نے اس سنت کو جو احادیث صحیحہ سے ثابت ہے چھوڑ رکھا ہے حتیٰ کہ ان کے محدث اور فقیہ اور مجتہد اور مقلد سب ہی اس سنت کے تارک نظر آتے ہیں مجھے نہیں معلوم کہ اس کے لیے ان لوگوں نے کون سا بہانہ تلاش کیا ہے اور اللہ ہی مددگار ہے۔
دونوں سجدوں کے درمیان یہ دعا بھی مسنون ہے اَللّٰھُمَّ اغفِرلِی وَارحَمنِی وَاجبرنِی وَاھدِنِی وَارزُقنِی۔
English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] ⇪