حدیث میں عریانیت

کیا احادیث میں عریانیت پائی جاتی ہے ؟
ابوبکر قدوسی
آپ احباب نے بہت سے ناقدین کی زبان اور تحریر میں یہ اعتراض ضرور سنا یا پڑھا ہو گا ۔۔۔لیکن اس اعتراض میں وہی بودا پن پایا جاتا ہے کہ جو ان "کرم فرماؤں ” کے باقی اعتراضات میں موجود ہے ۔۔۔
پہلی بات یہ ہے کہ احادیث میں  جنسی مسائل کو ایک خاص حد سے زیادہ کھلے انداز میں بیان ہی نہیں کیا گیا ۔۔یہ جو شور کیا جاتا ہے کہ عریانیت ہے ، محض مبالغہ ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ۔۔۔
دوسرا سوال ان احباب سے یہ ہے کہ جب جنسی مسائل ، سیکس کی حدود و قیود اور غسل جنابت کے فرض ہونے کی سورتیں صورتیں بیان کرنا ہوں گی تو کون سی زبان لکھی جائے گی ؟
اصل میں ہم سب کی نفسیات میں مقامی سوچ اتنی غالب ہے کہ شرم حقائق کو بھی چھپا لیتی ہے ۔۔جبکہ سیکس ایک ایسی حقیقت ہے کہ جو کھانے کی بھوک کی طرح ہماری زندگی کا لازمی حصہ ہے ۔۔لیکن جھوٹی شرم و حیا ہمیں مسلہ پوچھنے سے تو روک دیتی ہے اور تمام عمر غسل جنابت کا درست طریقہ بھی جان نہیں پاتے ۔۔۔
لیکن ایک عجیب بات ہے کہ یہ معترضین حضرات قران کی ان آیت پر خاموش رہتے ہیں ۔۔۔قران میں ہے :
سورہ واقعہ میں ہے :
فَرَاَيْتُـمْ مَّا تُمْنُـوْنَ (58)
بھلا دیکھو (تو) (منی) جو تم ٹپکاتے ہو
اَاَنْتُـمْ تَخْلُقُوْنَهٝٓ اَمْ نَحْنُ الْخَالِقُوْنَ (59)
کیا تم اسے پیدا کرتے ہو یا ہم ہی پیدا کرنے والے ہیں۔
سورہ الطارق میں ہے :
فَلْيَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ (5)
پس انسان کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔
خُلِقَ مِنْ مَّآءٍ دَافِقٍ (6)
ایک اچھلتے ہوئے پانی سے پیدا کیا گیا ہے۔
يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَآئِبِ (7)
جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے۔
اِنَّهٝ عَلٰى رَجْعِهٖ لَقَادِرٌ (8)
سورہ مریم میں ہے :
وَمَرْيَـمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِىٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيْهِ مِنْ رُّوْحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمَاتِ رَبِّهَا وَكُـتُبِهٖ وَكَانَتْ مِنَ الْقَانِتِيْنَ (12)
اور مریم عمران کی بیٹی (کی مثال بیان کرتا ہے) جس نے اپنی شرم گاہ کو محفوظ رکھا پھر ہم نے اس میں اپنی طرف سے روح پھونکی
سورہ القیامہ میں ہے
اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ يُّتْـرَكَ سُدًى (36)
کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ یونہی چھوڑ دیا جائے گا۔
اَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّنْ مَّنِيٍّ يُّمْنٰى (37)
کیا وہ ٹپکتی منی کی ایک بوند نہ تھا۔
دیکھئے کس بے تکلفانہ انداز میں تخلیق انسانی کے مراحل کا ذکر ہو رہا ہے اور انسان کو غور فکر کی دعوت دی جا رہی ہے ۔۔۔۔۔اور جب ان مراحل کے نتیجے میں ضروریات طہارت کا ذکر آتا ہے تو احباب کو برہنگی کا دکھ ستانے لگتا ہے ۔۔۔سوال شروع ہو جاتے ہیں کہ
” جی مولوی صاحب اپنی چھوٹی بیٹی کو یہ احادیث سنا سکتے ہیں ”
بھائی بچہ تو پھر یہ بھی پوچھ سکتا ہے کہ ما دافق کیا ہے ؟
یہ پانی کیوں کر اچھلتا ہے اور کہاں کے چشمے سے نکلتا ہے ؟
اور ہاں قران میں عورتوں کو کھیتی بھی تو کہا گیا ہے ۔۔۔اب بچوں کے سامنے ذرا اس آیت کی شرح کر دیجئے ۔ ۔
نِسَآؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَاْتُوْا حَرْثَكُمْ اَنّـٰى شِئْتُـمْ (223)
تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں پس تم اپنی کھیتیوں میں جیسے چاہو آؤ۔۔۔۔
کوئی صاحب اس آیت کی شرح نہیں صرف ترجمہ کریں اور پھر احادیث پر اعتراض کو انصاف کے میزان میں رکھ کر غور کریں تو یقینا درست فیصلے پر پہنچ جائیں گے ۔۔۔
احباب ! وہ درست راہ یہی ہے کہ بے مقصد اور بے جا قسم کی حساسیت غیر متوازن رویہ ہے ۔۔۔
عربوں کا معاشرہ ہماری نسبت کہیں زیادہ ان معاملات میں حقیقت پسند اور صاف گو ہے ۔۔۔۔اور انکی زبان کی فصاحت بھی انکو ایسے معاملات کو بیان کرنے کے لیے بہت آسانی مہیا کرتی ہے ۔۔
آب آپ صحیح مسلم کی اس حدیث کو دیکھ لیجئے کہ جس میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے وجوب غسل کی صورت پوچھی گئی ۔ کیسے خوبصورت کنائے اور اشارے میں جماع کی صورت بیان کی گئی اور مسلہ بھی بتا دیا گیا ۔۔حدیث کے الفاظ ہیں :
اذا جلس بین شعبھا الاربع و مس الختان الختان فقد وجب الغسل
یعنی جب مرد عورت کی چاروں شاخوں میں بیٹھ جائے ۔۔اور ختنے سے ختنہ مل جائے ۔ ۔ . تب غسل واجب ہو جائے گا ۔۔۔
کیا اس سے زیادہ اور حیا دار الفاظ سے اس منظر کا بیان ممکن تھا ؟
اس کے بعد کون سی عریانیت کا شور کیا جاتا ہے ؟
ایک اور اہم معامله یہ بھی ہے کہ ایسی احادیث بغرض تعلیم کتب میں بیان کی گئی ہیں نہ بطور افسانہ ۔۔۔۔
کبھی آپ میڈیکل کالج جائیں ۔۔یا بایو لوجی کے طلبا کی کتب اٹھائیں جن میں انسانی آلات تناسل کی باقاعدہ تصاویر بنی ہوتی ہیں ۔۔۔۔اور استاد دوران لیکچر بورڈ پر بھی کبھی ایسی تصاویر بنا چھوڑتا ہے ۔۔۔وہاں بچے اور بچیاں سب باہم مل بیٹھ پڑھتے ہیں ۔۔۔۔اس پر کیا کہیں گے ؟
چلتے ہوئے ایک سچا واقعہ سن لیجئے ۔۔حرم شریف کے صحن میں ایک حاملہ عورت اپنے چھے سات برس کے بچے کے ساتھ بیٹھی تھی ۔۔۔میری اہلیہ اس کے بچے کی طرف متوجہ ہوئی اور معصوم سے بچے سے پیار بھرے سوال جواب شروع کر دیے ساتھ اسکی ماں بھی شریک گفتگو رہی ۔۔. . بچے سے پوچھا گیا کہ کتنے بہن بھائی ہو ۔۔۔تو اس نے تعداد بتائی اور ماں کے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ ایک آنے والا ہے اور یہاں ہے ۔۔۔۔سمجھانا یہ مقصود ہے kکہ عربوں کا معاشرہ ہماری نسبت ان معاملات میں زیادہ حقیقت پسند اور فطری رجحانات کا حامل ہے ۔۔۔

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں