ہم حدیث کو صحیح یا ضعیف کیوں نہیں کہہ سکتے؟منکرین حدیث کا اعتراض

ہم حدیث کو صحیح یا ضعیف کیوں نہیں کہہ سکتے ؟

از قلم: ابو احمد کلیم الدین یوسف

جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ

اعتراض:جب_امام_بخاری_اور_امام_مسلم_کو_یہ_حق_حاصل_ہو_سکتا_ہے_کہ_وہ اپنے سے قبل ائمہ کے تصحیح وتضعیف کی مخالفت کر سکتے ہیں تو آج کے زمانے میں ہمیں یہ حق کیوں نہیں مل سکتا؟؟

 محترم قارئین: احادیث نبویہ کے خلاف دشنام طرازیوں کا سلسلہ بہت قدیم ہے، روافض، خوارج اور معتزلہ ہمیشہ سے اس بات کی فراق میں رہے ہیں کہ کس طرح امت کا رشتہ سنت نبوی سے کاٹا جائے تاکہ باطل افکار ونظریات کی نشر واشاعت میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں ہو.

چنانچہ زمانہ جس قدر عہد نبوت سے دور ہوتا گیا اسی قدر باطل افکار ونظریات کو ہوا ملتی گئی اور نتیجہ یہاں تک آ پہنچا کہ کچھ لوگ کہنے لگے ہمارے لئے تو بس قرآن ہی کافی ہے سنت کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں، بلکہ آج کل بعض الحاد پسند لبرلز کو تو قرآن کی بعض تعلیمات بھی پسند نہیں آتی.

ایک صاحب ہیں راشد شاز، جو آئے دن احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نشانہ بناتے رہتے ہیں، یہ کوئی نئی بات نہیں کرتے بلکہ معتزلہ وروافض اور خوارج کے شبہات کو نئے پیرائے میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں.

مذکورہ اعتراض انہی کی ذہنی اپج ہے.

اعتراض کا علمی جواب دینے سے قبل چند مثالیں آپ قارئین کی نذر کرنا چاہتا ہوں.

راشد شاز ہندوستان میں رہتے ہیں، اگر وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اسٹیج سے کھڑے ہوکر کہیں کہ ہندوستان کے آئین میں بہت سی کمزوریاں اور کمیاں ہیں، اس لئے اس کی ترمیم کی ضرورت ہے، اور یہ حق مجھے دیا جائے کہ میں ہندوستان کا آئین تیار کروں، سب ان پر ہنسیں گے کہ اسلامیات کا پروفیسر آئین ہند بنانے کی مانگ کر رہا ہے، بلکہ کوئی انہیں پوچھے گا نہیں چہ جائیکہ کہ ان کی بات سنی جائے.

قارئین کرام: آپ خود سوچیں کہ جس آئین کے مطابق وہ ہندوستان میں زندگی بسر کر رہے ہیں اسی آئین میں تبدیلی یا ترمیم کا حق انہیں نہیں مل سکتا تو پھر جسے علم حدیث اور جرح وتعدیل کی شد بد نہ ہو اسے یہ حق کیسے مل سکتا ہے کہ وہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی احادیث کو ضعیف قرار دے.

ایک دوسری مثال لے لیں: میں محمد کلیم الدین یوسف راشد شاز صاحب یہ مطالبہ کروں کہ مجھے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا چانسلر بنا دیا جائے، میں تمام لوگوں سے بہتر انداز میں اس یونیورسٹی کو چلاؤں گا اور ترقی کی راہ پر لے جاؤں گا، کیا مجھے یہ حق ملے گا؟ میری آواز سنی جائے گی؟ یا لوگ مجھ پر ہنسیں گے؟

یقینا لوگ مجھ پر ہنسیں گے کیونکہ کہ جس کا اس یونیورسٹی سے کچھ بھی لینا دینا نہیں، جس کے پاس عصری علوم کی ڈگریاں نہیں، جو نامعلوم اور غیر مانوس ہے اسے کیسے اتنے بڑے ادارے کی ذمہ داری سونپ دی جائے؟ اور کس حق سے سونپا جائے؟

اگر میں کہوں کہ جب فلان شخص انسان ہو کر اس یونیورسٹی کا چانسلر بن سکتا ہے تو یہ حق مجھ جیسے انسان کو کیوں نہیں مل سکتا؟

اس بات کو سن کر لوگ ہنسیں گے ہی نہیں بلکہ قہقہہ لگائیں گے، کیوں کہ ہر ایرے غیرے کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ذمہ داری نہیں دی جاتی، اس یونیورسٹی کا چانسلر بننے کے ضوابط ہیں، جو ان ضوابط پر فٹ آئے گا اسی کو اس منصب پر بٹھایا جائے گا.

 ٹھیک اسی طرح ہر ایرے غیرے نتھو خیرے، نا معلوم، غیر مانوس، علم حدیث سے کورے شخص کو احادیث کی تصحیح وتضعیف کا حق نہیں ملتا، اس کے بھی ضوابط ہیں، جس کی پاسداری ضروری ہے.

جناب راشد صاحب! آپ جس یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں اس میں مجھے چانسلر بننے کا حق نہیں دلوا سکتے تو نبی کے زبان مبارک سے نکلی ہوئی احادیث مبارکہ پر بلا علم زبان چلانے کی اجازت کس حق سے مانگ رہے ہیں؟

یعنی قاعدہ قانون صرف آپ کی یونیورسٹی اور ملک ہندوستان میں چلے گا، اسلام بغیر کسی قاعدہ قانون کے ہے؟؟

ایک بات اور بتائیں کہ آپ جس یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں کیا اس یونیورسٹی کے چپراسی کو بھی وہی حق حاصل ہے جو آپ کو ہے؟

کیا وہ چپراسی بھی آپ کی طرح کلاس میں جاکر طالب علموں کو پڑھا سکتا ہے؟

آپ کہیں گے کہ نہیں نہیں وہ چپراسی کیسے پڑھا سکتا ہے، اس کے پاس اتنا علم کہاں کہ وہ طالب علموں کو سمجھا سکے!!!

جناب جب ایک چپراسی جو سالوں سے آپ جیسے تعلیم یافتہ افراد اور طالب علموں کے درمیان رہتا ہے اس کے باوجود اسے پڑھانے کا حق حاصل نہیں ہو سکتا تو پھر جو علم حدیث کی یونیورسٹی میں ایک چپراسی کا بھی درجہ نہیں رکھتا ہو، بلکہ اس نے اس یونیورسٹی کا منہ بھی نہیں دیکھا ہو، اسے محدثین کو پڑھانے اور ان کی صحیح کردہ احادیث کو ضعیف اور صحیح کہنے کا حق کیسے دیا جا سکتا ہے؟

اگر آپ کا مطالبہ عدل پر مبنی ہے تو پھر آپ علی گڑھ یونیورسٹی میں چپراسیوں کو پروفیسر بنانے کے لئے مطالبہ کرنا بھی شروع کر دیں، اور کہیں کہ جب یہاں پڑھنے کی وجہ سے ہمیں پروفیسر بننے کا حق مل سکتا ہے تو انہیں یہاں کام کرنے اور پڑھے لکھے لوگوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے انہیں پروفیسر بننے کا حق کیوں نہیں مل سکتا؟

معزز قارئین: مذکورہ مثالوں سے آپ اتنی بات تو سمجھ گئے ہوں گے کہ ہر پڑھا لکھا آدمی محدث نہیں بن سکتا، اور یہ بھی سمجھ گئے ہوں گے پڑھے لکھے کے ساتھ رہنے سے بھی کوئی پڑھا لکھا نہیں بنتا، تو آپ کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ جو فرق راشد صاحب کی یونیورسٹی میں ان کے اور ان کے چپراسی کے درمیان ہے وہی فرق بلکہ اس سے بڑا فرق راشد شاز صاحب اور محدثین کے درمیان ہے، یعنی جب چپراسی کو پروفیسر نہیں بنایا جا سکتا تو پھر علوم حدیث سے نا بلد راشد صاحب کو تصحیح وتضعیف کا حق کیسے دیا جا سکتا ہے؟

قارئین کرام: کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ کی تصحیح وتضعیف پر اس امت کے علماء نے آنکھ بند کر کے یقین کرلیا ہے، بلکہ محدثین احادیث کی تصحیح وتضعیف کے معاملے میں اس قدر محتاط اور سخت تھے کہ اپنے والد تک کو نہیں چھوڑتے، اگر ان کے والد ضعیف راوی ہوتے اور حدیث بیان کرتے تو فورا وہ محدث کہتے کہ میرے والد کی روایت قابل قبول نہیں کیوں کہ وہ ضعیف راوی ہیں، پھر سوچیں کہ جن محدثین کی یہ حالت ہو وہ امام بخاری اور امام مسلم کی باتوں پر آنکھ بند کرکے کیسے یقین کرلیتے؟ اور ان کی ہر بات کو کیسے من وعن سچ مان لیتے؟

 اس لئے ہر دور میں علماء کرام امام بخاری اور امام مسلم کی تصحیح شدہ احادیث کو تحقیق کی بھٹی میں ڈالتے رہے، ایک ایک حدیث، بلکہ حدیث کے ایک ایک جملے اور ایک ایک حرف کی تحقیق کرتے رہے، نیز سند کے ہر راوی کے حالات کو کھنگال ڈالتے رہے، اور ہر دور کے علماء اپنی تحقیق کے بعد اسی نتیجے پر پہنچے کے صحیحین کی احادیث بالکل صحیح ہیں، اس لئے پوری امت کے علماء کا اس بات پر اجماع ہوا کہ صحیحین کتاب اللہ کے بعد سب سے اصح ترین کتاب ہے، اور یہ اجماع تقلید کی بنیاد پر نہیں ہوا، بلکہ تحقیق، تفتیش، تمحیص، تدقیق اور تنقید کے بعد ہوا ہے.

خود امام بخاری رحمہ اللہ نے جب پورے احتیاط کے ساتھ، اور ہر حدیث سے قبل استخارہ کے بعد پوری کتاب مکمل کرلی تو اس وقت کے تین ایسے اماموں پر اپنی کتاب کو پیش کیا جو علم حدیث کے جملہ فنون کے ماہر تھے، ان میں سے ایک امام احمد ہیں جو دس لاکھ احادیث کے حافظ، نیز جرح وتعدیل اور علل کے ماہر تھے، دوسرے ابن معین ہیں جو جرح وتعدیل کے امام تھے، تیسرے ابن المدینی ہیں جو علل حدیث کے امام تھے رحمہم اللہ جمیعا.

ان تینوں ائمہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کی کتاب صحیح بخاری کو کلین چٹ دیا، اور اس کتاب میں موجود تمام احادیث کی صحت سے اتفاق کیا سوائے چار احادیث کے.

اور ایسا نہیں کہ امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ کے بعد ان کی تصحیح شدہ احادیث کو میزان جرح وتعدیل میں رکھنے کا حق کسی کو نہیں ملا، بلکہ خود امام بخاری نے اسے میزان جرح وتعدیل پر پیش کیا جیسا کہ مندرجہ بالا سطور میں بات گذری، اور امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ کے بعد بھی بعض محدثین ان کی بعض تصحیح شدہ احادیث سے اختلاف کرتے رہے، لیکن دوسرے محدثین نے علوم حدیث کے قواعد کی روشنی میں امام بخاری کے قول کو ہی راجح قرار دیا.

اس لئے اس بات کا نعرہ لگانا کہ امام بخاری اور امام مسلم کی تصحیح شدہ احادیث پر کسی کو اعتراض کرنے کا حق نہیں یہ امت مسلمہ کے کو مغالطے میں ڈالنا ہے.

اس لئے پہلے اس لائق بنیں کہ آپ کو تصحیح وتضعیف کا حق ملے، ورنہ چپراسی اور پروفیسر والا فرق برقرار رہے گا.

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں