إِنَّهٗ لَا يُسْتَغَاتُ بِيْ وَ إِنَّمَا يُسْتَغَاتُ بِاللّٰهِ کی تحقیق

تحریر : حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

سوال : ایک دفعہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیم اجمعین نے عبداللہ بن اُبی سے تنگ آ کر ایک دوسرے کو کہا کہ آؤ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فریاد رسی کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی یہ بات سن کر فرمایا :
إِنَّهٗ لَا يُسْتَغَاتُ بِيْ وَ إِنَّمَا يُسْتَغَاتُ بِاللّٰهِ [ طبراني و مسند احمد ]
محترم شیخ زبیر علی زئی صاحب اس حدیث کی تحقیق مطلوب ہے۔ (عبداللہ طاہر، اسلام آباد)
الجواب : یہ روایت إِنَّه لَا يُسْتَغَاتُ بِيْ وَ إِنَّمَا يُسْتَغَاتُ بِاللّٰهِ ”بے شک مجھ سے مدد نہ مانگی جاتی بلکہ مدد تو صرف اللہ سے مانگی جاتی ہے۔ “ طبرانی نے درج ذیل سند و متن سے بیان کی ہے :
حدثنا أحمد بن حماد بن زغبة المصري : حدثنا سعيد بن عفير : حدثنا ابن لهيعة عن الحارث ابن يزيد عن على بن رباح عن عبادة قال قال أبوبكر : قوموا نستغيث برسول الله صلى الله عليه وسلم من هٰذا المنافق فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : أنا لا يستغاث بي، إنما يستغاث بالله عزوجل
عبادہ (بن الصامت رضی اللہ عنہ ) سے روایت ہے کہ ابوبکر (الصدیق رضی اللہ عنہ ) نے کہا: اُٹھو اس منافق کے مقابلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد مانگیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”مجھ سے مدد نہیں مانگی جاتی، مدد صرف اللہ تعالیٰ سے مانگی جاتی ہے۔“ [ جامع المسانيد و السنن لابن كثير 140/7 ح 4904 ]
اس روایت کے بارے میں حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
رواہ الطبرانی و رجالہ رجال الصحیح غیر ابن لھیعۃ وھو حسن الحدیث
” اسے طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے راوی صحیح کے راوی ہیں سوائے ابن لھیعہ کے وہ حسن الحدیث ہیں۔“ [مجمع الزوائد 159/10 ]
میری تحقیق میں یہ روایت تین وجہ سے ضعیف ہے :
اول : ابن لہیعہ مدلس ہیں۔ [ديكهئے طبقات المدلسين 5/140، الفتح المبين ص 77]
اور یہ روایت عن سے ہے۔ یہ بات عام طالب علموں کو بھی معلوم ہے کہ مدلس کی عن والی روایت ضعیف ہوتی ہے۔
دوم : ابن لہیعہ آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہو گئے تھے۔
وہ صرف اس وقت حسن الحدیث ہیں جن سماع کی تصریح کریں اور ان کی بیان کردہ روایت ان کے اختلاط سے پہلے کی ہو۔
درج ذیل راویوں نے ان کے اختلاط سے پہلے سنا تھا :
① عبداللہ بن المبارک
② عبداللہ بن وہب
③ عبداللہ بن یزید المقریٔ [تهذيب التهذيب 330/5 ]
④ عبداللہ بن مسلمہ القعنبی [ميزان الاعتدال 282/2]
⑤ یحییٰ بن اسحاق السیلحینی [تهذيب التهذيب 420/2 ]
⑥ ولید بن مَزْیَدْ [المعجم الصغير للبطراني 231/1]
⑦ عبدالرحمٰن بن مہدی [ لسان الميزان 11، 10/1 ]
⑧ اسحاق بن عیسیٰ [ميزان الاعتدال 477/2]
⑨ سفیان ثوری
⑩ شعبہ
⑪ اوزاعی
⑫ عمرو بن الحارث المصری [ذيل الكواكب النيرات ص 483]
⑬ لیث بن سعد [فتح الباري 345/4 تحت 2127]
⑭ بشر بن بکر [الضعفاء للعقيلي 294/2 ]
ہمارے علم کے مطابق ان چودہ راویوں کے علاوہ کسی اور راوی کا ابن لہیعہ سے قبل از اختلاط سماع ثابت نہیں ہے جن میں سعید بن کثیر بن عفیر بھی ہیں لہٰذا یہ روایت ابن لہیعہ کے اختلاط کی وجہ سے ضعیف ہے۔
سوم : علی بن رباح اور سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ کے درمیان اس حدیث کا ایک راوی رجل (مرد) ہے۔ دیکھئے : [مسند الامام احمد 317/5 ح 22706] [طبقات ابن سعد 387/1] اور [جامع المسانيد لابن كثير 140/7 ]
یہ رجل مجہول ہے۔ نیز دیکھئے [مجمع الزوائد40/8 قال : رواه احمد وفيه راولم يسم و ابن لهيعة ]
خلاصۃ التحقیق : یہ بات بالکل صحیح ہے کہ اللہ ہی سے مدد مانگنی چاہئے جیسا کہ قرآن مجید [سوره الانفال : 10، 9]
سے ثابت ہے لیکن إنه لا يستغات بي إلخ والی روایت بلحاظِ سند ضعیف ہے۔
تیسرا العزیز الحمید کی تخریج ”النہج السدید“ میں جاسم الدوسری نے بھی اس روایت کو”ضعیف“ قرار دیا ہے [ص88 ح 161]
وما علينا إلا البلاغ
(24 ربیع الثانی 1427؁ھ)

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں