کیا حدیث محفوظ نہیں ہے ؟؟

تحریر: ابو بکر قدوسی

ہمام بن منبہ یمنی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کے مشہور ترین شاگرد تھے ، انہوں نے اپنے استاد محترم سے سنی کچھ روایات کا انتخاب کتابی شکل میں تیار کیا ۔جس کو آپ صحیفہ ہمام بن منبہ کے نام سے جانتے ہیں ، ان احادیث کو کتابی شکل میں مدون کرنے کے بعد سیدنا ابوھریرہ کے سامنے پیش کیا گیا اور انہوں نے اس کی توثیق کی ۔

سیدنا ابوھریرہ کی وفات سن 58 ہجری کی ہے لازمی بات ہے کہ نسخہ اس سے پہلے لکھا جاچکا تھا ۔

یہ نسخہ مرور زمانہ سے ناپید ہو گیا ، البتہ ہمام رحمہ اللہ کی سند سے یہ تمام احادیث مسند احمد میں اور دیگر کتب احادیث میں موجود تھیں ۔۔۔۔۔اب امام احمد بن حنبل کا سن وفات 240 ہجری ہے ۔۔یوں یہ فاصلہ تقریباً دو سو برس بنتا ہے۔ ۔۔اور ان دو سو برسوں میں اس کتاب میں موجود احادیث زبانی ہی آگے سے اگے منتقل ہوتی رہیں ۔حتی کہ مسنداحمد میں ان کو جمع کر دیا گیا ۔

1933میں ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم کو اس کتاب کا ایک ناقص نسخہ برلن کی ایک لائبریری سے ملا ، اس کے بعد ان کی تلاش تھی کہ اس کا کوئی مکمل نسخہ مل جائے ، آخر مراد بر آئی اور دمشق کی ایک لائبریری مکتبہ الظاہریہ سے اس کا مکمل نسخہ 1953 میں مل گیا ، پھر دونوں کا آپس میں تقابل کر کے 1953 میں شائع کیا گیا ۔

اسی کی دہائی میں ڈاکٹر رفعت فوزی نے صحیفہ ہمام پر تحقیق شروع کی تو ان کو دالکتب مصر سے صحیفہ ہمام کا ایک مزید مخطوطہ ملا جو چھٹی صدی ہجری کا کتابت کردہ تھا یعنی آج سے نو سو برس پہلے کا، اب موجود دنیا میں اس کے تین نسخے دریافت ہو چکے تھے ۔۔جن کا آپسی تقابل کر کے 1985 میں شائع کیا گیا ۔۔۔

اب ان شائع شدہ نسخوں کا مسند احمد اور دیگر کتب احادیث میں موجود ہمام کی سند سے مروی احادیث سے تقابل کیا گیا ۔۔۔۔۔

ماسوائے چند معمولی لفظی اختلاف کے تمام احادیث من و عن ویسے ہی تھیں جیسے زبانی اور شاگرد سے شاگرد تک دو سو سال میں امام احمد تک پہنچی تھیں ۔۔۔۔۔

ڈاکٹر حمید اللہ کا ایک تبصرہ خاصے کی چیز ہے ، لکھتے ہیں:

’”جہاں مسند احمد بن حنبلؒ سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے بعد کی صدیوں کے محدثوں نے صحیفۂ ہمام کے دیانت دارانہ تحفظ میں کوئی کوتاہی نہ کی تو ساتھ ہی صحیفۂ ہمام کے نو دست یاب شدہ مخطوطوں سے خود اس کا بھی یقین ہوجاتا ہے کہ امام ابن حنبلؒ نے پوری دیانت داری سے صحیفۂ ہمام کے متعلق اپنی معلومات محفوظ کی ہیں ۔ انہیں کیا خبر تھی کہ ان کی وفات کے ساڑھے گیارہ سو سال بعد ان کی علمی دیانت داری کی جانچ ہوگی۔ اگر انھوں نے صحیفۂ ہمام کی حد تک جعل سازی نہیں کی تو اپنی مسند کے باقی اجزا میں بھی عمداً کوئی ایسی بد دیانتی نہیں کی ہوگی۔ "

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں