مجھے دنیا کی تین چیزیں پسند ہے ‘ والی حدیث کی تحقیق

تحریر: حافظ زبیر علی زئی

            سوال:      میرے علم کے مطابق ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک دفعہ ایک مجلس میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ((حبّب إليّ من دنیا کم ثلاث : الطیب و النساء و جعلت قرۃ عیني فی الصلوٰۃ)) مجھے تمہار ی دنیا میں سے تین چیزیں پسند ہیں: (۱) خوشبو (۲) بیویاں (۳) اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے۔ آ پ کے ساتھ صحابۂ کرام بھی بیٹھے ہوئے تھے تو ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: یا رسول اللہ ! آپ نے سچ فرمایا اور مجھے دنیا میں سے تین چیزیں پسند ہیں: (۱) رسو ل اللہ (ﷺ) کے چہرے کو دیکھنا (۲) رسول اللہ کے لئے اپنا مال خرچ کرنا (۳) اور یہ چاہنا کہ میری بیٹی، رسول اللہ (ﷺ) کی بیوی بنے۔
پھر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا : اے ابوبکر ! آپ نے سچ فرمایا  اور مجھے دنیا میں سے تین چیزیں پسند ہیں : (۱) نیکی کا حکم دینا (۲) برائی سے منع کرنا (۳) اور پرانا (استعمال شدہ پوسیدہ ) کپڑا۔ پھر عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا : اے عمر ! آپ نے سچ فرمایا اور مجھے دنیا میں تین چیزیں پسند ہیں : (۱) بھوکوں کو پیٹ بھر کر کھلانا (۲) ننگوں کو کپڑے پہنانا (۳)ا ور تلاوتِ قرآن۔ پھر علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اے عثمان ! آپ نے سچ فرمایا اور مجھے دنیا میں سے تین چیزیں پسند ہیں: (۱) مہمان کی خدمت کرنا ۔ (۲) گرمی روزے رکھنا (۳) اور (میدانِ جہاد میں) تلوار چلانا ۔نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ اسی حال میں تھے کہ جبریل (علیہ السلام) تشریف لائے اور فرمایا : جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمہار ی گفتگو سنی تو مجھے بھیجا اور آپ کو حکم دیا کہ مجھ سے پوچھیں کہ اگر میں دنیا والوں میں سے ہوتا تو میں کیا پسند کرتا؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا : تم دنیا میں سے کیا پسند کرتے؟ جبریل (علیہ السلام) نے فرمایا : (۱) راستہ بھولے ہوئے لوگوں کو راستہ دکھانا (۲) غریب عبادت گزاروں کی دل جوئی (۳) اور مفلس عیال داروں کی مدد ۔جبریل (علیہ السلام) نے فرمایا : رب العزت اللہ جلّ جلالہ اپنے بندوں سے تین خصلتیں پسند کرتا ہے : (۱) حسبِ استطاعت (اللہ کے راستے میں مال و جان) خرچ کرنا (۲) ندامت کے وقت رونا (۳) اور فاقے کے وقت صبر کرنا۔  (بحوالہ منبہات لابن حجر)گزارش ہے کہ اس حدیث کی مکمل تحقیق و تخریج عنایت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں، نیز رسالہ (الحدیث) میں بھی شائع فرما دیں۔ اللہ آپ کو جزائے خیر  دے۔ (قاری عظیم حاصلپوری ، گوجرانوالہ)

الجواب: میرے علم کے مطابق یہ روایت حدیث کی کسی کتاب میں باسند و باحوالہ موجود نہیں ہے ۔ حافظ ابن حجر (العسقلانی؟) کی طرف منسوب کتاب “المنبہات” میں یہ روایت بے حوالہ اور بے سند مذکور ہے ۔ (ص ۲۱، ۲۲ طبع ۱۲۸۲؁ھ)
۱:             “المنبہات” کا حافظ ابن حجر العسقلانی کی کتاب ہوا ثابت نہیں ہے ۔ جن لوگوں نے حافظ ابن حجر کے حالات لکھے ہیں اور ان کی کتابوں کے نام لکھے ہیں مثلاً سخاوی (الضوء اللامع) شوکانی (البدر الطالع) اسماعیل پاشا بغدادی (ہدیۃ العارفین) اور زرکلی (الاعلام) وغیرہ، ان میں سے کسی نے بھی اس کتاب کو حافظ ابن حجر کی طرف منسوب نہیں کیا۔
۲:            مشہور عربی محقق شیخ ابو عبیدہ مشہور بن حسن آل سلمان نے اسے حافظ ابن حجر العسقلانی کی طرف ظلم ، جھوٹ اور بہتان کے ساتھ منسوب کتاب قرار دیا ہے ۔ دیکھئے کتب حذّر منہا العلماء (ج۲ ص ۳۲۶)
۳:            شیخ جاسم الدوسری اور شیخ عبدالرحمٰن فاخوری نے بھی حافظ ابن حجر کی طرف اس کتاب کے انتساب کو باطل قرار دیا ہے ۔ (ایضاً ص ۳۲۷)
۴:            المنبہات کے شروع میں اس کا نام “منبھات…علی الإستعداد لیوم المعاد” لکھا ہوا ہے ۔ (ص۴) اور یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ اس میں دو دو اور تین تین سے لے کر دس دس تک کا بیان لکھا ہوا ہے ۔ (ایضاً ص ۴)
                حاجی خلیفہ کاتب چلپی حنفی نے اپنی مشہور کتاب “کشف الظنون” میں لکھا ہے کہ “المنبھات علی الإستعداد لیوم المیعاد للنصح والوداد، مختصر لزین القضاۃ أحمد بن محمد الحجي (الحجري) المتوفی سنۃ…. جمع فیہ أحادیث و نصائح من الواحد إلی العشرۃ مثنٰی و ثلاث ورباع، أولہ الحمد للہ رب العالمین إلخ قال: ھٰذہ منبھات علی الإستعداد لیوم المیعاد”          (کشف الظنون عن اسامی الکتب و الفنون ج ۲ ص ۱۸۴۸)
                اس طویل بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ کتاب احمد بن محمد الحجی یا الحجری کی لکھی ہوئی ہے ، یہ حجی یا حجری مجہول ہے ، اس کے حالات کسی کتاب میں نہیں ملے۔
۵:            حافظ ابن حجر العسقلانی نے ایک صوفی ابراہیم بن محمد بن المؤید بن حمویہ الجوینی (متوفی ۷۲۲؁ھ) کے حالات میں لکھا ہے کہ حافظ ذہبی نے فرمایا : “کان  حاطب لیل، جمع أحادیث ثنائیات و ثلاثیات و رباعیات من الأباطیل المکذوبۃ” و ہ حاطب لیل (رات کو لکڑیاں اکٹھی کرنے والا) تھا۔ اس نے دو دو ،تین تین اور چار چار والی حدیثیں جمع کی ہیں جو باطل اور جھوٹی ہیں۔ (الدررالکامنہ فی اعیان المائۃ الثامنہ ۶۸/۱ ت ۱۸۱)
                معلوم یہی ہوتا ہے کہ ابن حمویہ الجوینی الصوفی (متوفی ۷۲۲؁ھ) کی کتاب سے اختصار کرکے ابن حجی یا ابن حجری نامی کسی مجہول شخص نے منبہات نامی کتاب لکھ دی ہے جو ناشرین یا ناسخین کی غلطیوں کی وجہ سے حافظ ابن حجر کی طرف منسوب ہوگئی ہے ۔
حافظ ابن حجر  کی “ثلاث” کی زیادت والی روایت کے بے سند ہونے کی صراحت کی ہے ۔ دیکھئے التلخیص الحبیر (۱۱۶/۳ ح ۱۴۳۵) لہٰذا وہ اس روایت اور مذکور ہ کتاب سے بری ہیں۔
                اگر کوئی شخص دلائل سے یہ ثابت کردے کہ یہ کتاب ضرور حافظ ابن حجر العسقلانی ہی کی لکھی ہوئی ہے تو بھی یہ روایت باطل اور موضوع ہے کیونکہ اس کی کوئی سند یا حوالہ معلوم نہیں ہے ۔ ہر وہ روایت جو بےسند و بے حوالہ ہو تو وہ موضوع، باطل اور مردود ہی رہتی ہے اِلا یہ کہ صحیح سند یا صحیح حوالہ پیش کردیا جائے۔
                اسماعیل بن محمد العجلونی الجراحی (متوفی ۱۱۶۲؁ھ) نے اسے کتاب “المواھب” سے نقل کرکے لکھا ہے  : “قال الطبري: خرجہ الجندي و العھدۃ علیہ
طبری نے کہا : اسے الجندی نے روایت کیا ہے اور اس روایت کی ذمہ داری اسی پر ہے ۔ (کشف الخفاء و مزیل الالباس عما اشتہرمن الاحادیث علیٰ اَلسنۃ الناس ج ۱ ص ۳۴۰ ح ۱۰۸۹)
عجلونی کی بیان کردہ یہ روایت احمد بن محمد القسطلانی (متوفی ۹۲۳؁ھ) کی کتاب المواہب اللدنیہ بالمنح المحمدیہ میں اسی طرح بے سند و بے حوالہ “الجندی” سے بطورِ لطیفہ مذکور ہے۔ (ج ۲ص ۱۸۰،۱۸۱)
الجندی نام کے کئی آدمی تھے مثلاً مفضل بن محمد بن ابراہیم الجندی (متوفی ۳۱۰؁ھ)

                اللہ ہی جانتا ہے کہ اس الجندی سے مراد کون ہے ؟ اور اگر کوئی الجندی متعین بھی ہوجائے تو اس سے لے کر رسول اللہ ﷺ تک سند معلوم نہیں ہے ۔

شبر املسی (متوفی ۱۰۸۷؁ھ) اور خفاجی وغیرہما مولویوں نے اس روایت میں مزید بے سند اور بے حوالہ اضافہ  بھی ذکر کر رکھا ہے جو کہ سرے سے موضوع اور باطل ہے ۔
تنبیہ بلیغ: حاجی خلیفہ حنفی نے بغیر کسی سند اور بغیر حوالے کے جلال الدین سیوطی سے نقل کر رکھا ہے کہ قسطلانی میری کتابوں سے چوری کرتا ہے۔ الخ (کشف الظنون ۱۸۹۷/۲)
                ظاہر ہے کہ یہ بے سند و بے حوالہ بات مردود و باطل ہے لیکن بے سند و بے حوالہ روایتیں پھیلانے والے اس حکایت کی وجہ سے المواہب کے مصنف قسطلانی کو چور نہیں سمجھتے !
خلاصۃ التحقیق:       یہ روایت بے اصل، جھوٹی اور من گھڑت ہے جسے منظم یا غیر منظم منصوبے سے جاہل اور عام مسلمانوں میں پھیلا دیا گیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ بولنا بالکل حرام ہے ۔ ارشادِ نبوی ﷺ ہے :
((مِنْ یَّقُلْ عَلَيَّ مَالَمْ أَقُلْ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہ٘ مِنَ النَّارِ.)) جس شخص نے مجھ پر ایسی بات کہی جو میں نے نہیں کہی تو وہ اپنا ٹھکانہ (جہنم کی ) آگ میں بنالے۔ (صحیح بخاری: ۱۰۹
                اس ارشادِ نبوی ﷺ کے باوجود بہت سے لوگ دن رات اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ جھوٹی روایات بنائیں یا پہلے سے موجود جھوٹی اور ضعیف روایات مسلمانوں میں پھیلا دیں۔ کیا ہمارے لئے صحیح احادیث و روایات کافی نہیں ؟
تنبیہ:     سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ((حبّب إليّ من الدنیا: النساء و الطیب و جعل قرۃ عیني فی الصلوٰۃ.)) مجھے دنیا میں سے عورتیں (بیویاں)اور خوشبو پسند ہے اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے ۔ (سنن النسائی ۶۱/۷ ح ۳۳۹۱ و سندہ حسن، مسند احمد ۲۸۵/۳ و سندہ حسن و حسنہ الحافظ ابن حجر فی التلخیص الحبیر ۱۱۶/۳ ح ۱۴۳۵ واوردہ الضیاء فی المختارۃ ۱۱۶/۵ ح ۱۷۳۶)
دوسری روایت میں ہے : ((حبب إلي النساء و الطیب و جعلت قرۃ عیني فی الصلوٰۃ.)) مجھے عورتیں (بیویاں) اور خوشبو پسند ہے اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے ۔ (سنن النسائی ۶۲/۷ ح ۳۳۹۲ و سندہ حسن و صححہ الحاکم علیٰ شرط مسلم ۱۶۰/۲ ، ووافقہ الذہبی)
اس صحیح حدیث کا منبہات والی موضوع روایت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ نماز دنیا کی کوئی چیز ہے ۔

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں