یا محمد صل اللہ علیہ وسلم کا نعرہ

تحریر: مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : میں نے سنا ہے ایک روایت سے ’’ یا محمد“ کا نعرہ لگانا ثابت ہے۔ کیا ایسے ہی ہے اور روایت کی استنادی حیثیت کیا ہے ؟
جواب : اس روایت کو امام بخاری رحمه الله نے بطریق سفيان عن ابي اسحاق عن عبدالرحمن بن سعد بیان کیا ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا پاؤں سن ہو گیا تو انہیں ایک آدمی نے کہا: ’’ جو آپ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے، اسے یاد کریں۔ ’’ تو انہوں نے کہا: ’’ یا محمد۔“ [ الادب المفرد : 964]
یہ روایت بھی ضعیف ہے۔
اس میں مرکزی راوی ابواسحاق السبیعی ہے جو مدلس ہے اور روایت معنعن ہے۔ پھر ابواسحاق السبیعی کو اختلاط بھی ہو گیا تھا۔ وہ اس کے بیان کرنے میں اضطراب کا شکار ہے۔ کبھی اس روایت کو الہیثم بن حنش جیسے مجہول راوی سے [ابن السني : 170] ، كبهي ابوشعبه سے [ابن السني : 168] اور کبھی عبدالرحمن بن سعد سے [الادب المفرد : 964] بیان کرتا لہٰذا یہ روایت ابواسحاق کی تدلیس اور اضطراب کی وجہ سے ضعیف ہے۔
مجاہد کہتے ہیں : ’’ ایک آدمی کی ٹانگ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس سن ہو گئی تو اسے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: ’’ اپنے سب سے محبوب شخص کو یاد کرو۔“ تو اس نے کہا: ’’ محمد“ تو اس کی ٹانگ کی بے حسی ختم ہو گئی۔“ [ابن السني : 129]
یہ روایت موضوع ہے،
اس کی سند میں غیاث بن ابرہیم کذاب و خبیث اور وضاع راوی ہے۔ [المغني : 2/ 36، ميزان الاعتدال : 3/ 337، الكامل : 6/ 2036، احوال الرجال : 370]

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں