صحیح بخاری جلد اول :كتاب الأذان (اذان کا بیان) : حدیث:-665

كتاب الأذان
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
The Book of Adhan

39- بَابُ حَدِّ الْمَرِيضِ أَنْ يَشْهَدَ الْجَمَاعَةَ:
باب: بیمار کو کس حد تک جماعت میں آنا چاہیے۔
(39) Chapter. The limit set for a patient to attend the congregational Salat (prayer)?
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى ، قَالَ : أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ : أَخْبَرَنِيعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : قَالَتْ عَائِشَةُ ” لَمَّا ثَقُلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاشْتَدَّ وَجَعُهُ اسْتَأْذَنَ أَزْوَاجَهُ أَنْ يُمَرَّضَ فِي بَيْتِي ، فَأَذِنَّ لَهُ فَخَرَجَ بَيْنَ رَجُلَيْنِ تَخُطُّ رِجْلَاهُ الْأَرْضَ ، وَكَانَ بَيْنَ الْعَبَّاسِ وَرَجُلٍ آخَرَ ” ، قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ : فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِابْنِ عَبَّاسٍ مَا قَالَتْ عَائِشَةُ ، فَقَالَ لِي : وَهَلْ تَدْرِي مَنِ الرَّجُلُ الَّذِي لَمْ تُسَمِّ عَائِشَةُ ؟ قُلْتُ : لَا ، قَالَ : هُوَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ” .
حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ:        [sta_anchor id=”arnotash”] 
665 ـ حدثنا إبراهيم بن موسى، قال أخبرنا هشام بن يوسف، عن معمر، عن الزهري، قال أخبرني عبيد الله بن عبد الله، قال قالت عائشة لما ثقل النبي صلى الله عليه وسلم واشتد وجعه استأذن أزواجه أن يمرض في بيتي فأذن له، فخرج بين رجلين تخط رجلاه الأرض، وكان بين العباس ورجل آخر‏.‏ قال عبيد الله فذكرت ذلك لابن عباس ما قالت عائشة فقال لي وهل تدري من الرجل الذي لم تسم عائشة قلت لا‏.‏ قال هو علي بن أبي طالب‏.‏
الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:   [sta_anchor id=”urnotash”]
665 ـ حدثنا ابراہیم بن موسى، قال اخبرنا ہشام بن یوسف، عن معمر، عن الزہری، قال اخبرنی عبید اللہ بن عبد اللہ، قال قالت عایشۃ لما ثقل النبی صلى اللہ علیہ وسلم واشتد وجعہ استاذن ازواجہ ان یمرض فی بیتی فاذن لہ، فخرج بین رجلین تخط رجلاہ الارض، وکان بین العباس ورجل اخر‏.‏ قال عبید اللہ فذکرت ذلک لابن عباس ما قالت عایشۃ فقال لی وہل تدری من الرجل الذی لم تسم عایشۃ قلت لا‏.‏ قال ہو علی بن ابی طالب‏.‏
‏‏اردو ترجمہ:   [sta_anchor id=”urdtrjuma”]

´ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں ہشام بن یوسف نے خبر دی معمر سے، انہوں نے زہری سے، کہا کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے خبر دی کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ` جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہو گئے اور تکلیف زیادہ بڑھ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں سے اس کی اجازت لی کہ بیماری کے دن میرے گھر میں گزاریں۔ انہوں نے اس کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اجازت دے دی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم زمین پر لکیر کر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت عباس رضی اللہ عنہ اور ایک اور شخص کے بیچ میں تھے (یعنی دونوں حضرات کا سہارا لیے ہوئے تھے)عبیداللہ راوی نے بیان کیا کہ میں نے یہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کی، تو آپ نے فرمایا اس شخص کو بھی جانتے ہو، جن کا نام عائشہ رضی اللہ عنہا نے نہیں لیا۔ میں نے کہا کہ نہیں! آپ نے فرمایا کہ وہ دوسرے آدمی علی رضی اللہ عنہ تھے۔
حدیث کی اردو تشریح:   [sta_anchor id=”urdtashree”]

تشریح : حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد باب منعقد کرنے اور یہ حدیث لانے سے ظاہر ہے کہ جب تک مریض کسی نہ کسی طرح سے مسجد میں پہنچ سکے حتی کہ کسی دوسرے آدمی کے سہارے سے جاسکے تو جانا ہی چاہئے۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کے سہارے مسجد میں تشریف لے گئے۔
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: و مناسبۃ ذلک من الحدیث خروجہ صلی اللہ علیہ وسلم متوکنا علی غیرہ من شدۃ الضعف فکانہ یشیر الی انہ من بلغ الی تلک الحال لا یستحب لہ تکلف الخروج للجماعۃ الا اذا وجد من یتوکاءعلیہ ( فتح الباری ) یعنی حدیث سے اس کی مناسبت بایں طور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر سے نکل کر مسجد میں تشریف لانا شدت ضعف کے باوجود دوسرے کے سہارے ممکن ہوا۔ گویا یہ ا س طرف اشارہ ہے کہ جس مریض کا حال یہاں تک پہنچ جائے اس کے لیے جماعت میں حاضری کا تکلف مناسب نہیں۔ ہاں اگر وہ کوئی ایسا آدمی پالے جو اسے سہارا دے کر پہنچا سکے تو مناسب ہے۔
حدیث سے روز روشن کی طرح واضح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری وقت میں دیکھ لیا تھا کہ امت کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے زیادہ موزوں کوئی دوسرا شخص اس وقت نہیں ہے۔ اس لیے آپ نے بار بار تاکید فرما کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی کو مصلے پر بڑھایا۔ خلافت صدیقی کی حقانیت پر اس سے زیادہ واضح اور دلیل نہیں ہو سکتی بلکہ جب ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس سلسلے میں کچھ معذرت پیش کی اور اشارہ کیا کہ محترم والد ماجد بے حد رقیق القلب ہیں۔ وہ مصلے پر جا کر رونا شروع کردیں گے لہٰذا آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو امامت کا حکم فرمائیے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا ایسا خیال بھی نقل کیا گیا ہے کہ اگر والد ماجد مصلے پر تشریف لائے اور بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا تو عوام حضرت والد ماجد کے متعلق قسم قسم کی بدگمانیاں پیدا کریں گے۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر کہ تم یوسف علیہ السلام کی ساتھ والیوں جیسی ہو سب کو خاموش کردیا۔ جیسا کہ زلیخا کی سہیلیوں کا حال تھا کہ ظاہر میں کچھ کہتی تھیں اور دل میں کچھ اور ہی تھا۔ یہی حال تمہارا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس واقعہ سے بہت سے مسائل ثابت ہوتے ہیں۔ مثلاً( 1 ) ایسے شخص کی اس کے سامنے تعریف کرنا جس کی طرف سے امن ہو کہ وہ خود پسندی میں مبتلا نہ ہوگا۔

  • ( 2 ) اپنی بیویوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرنا۔
  • ( 3 ) چھوٹے آدمی کو حق حاصل ہے کہ کسی اہم امر میں اپنے بڑوں کی طرف مراجعت کرے۔
  • ( 4 ) کسی عمومی مسئلہ پر باہمی مشورہ کرنا۔
  • ( 5 ) بڑوں کا ادب بہرحال بجا لانا جیسا کہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کو دیکھ کر پیچھے ہٹنے لگے۔
  • ( 6 ) نماز میں بکثرت رونا۔
  • ( 7 ) بعض اوقات محض اشارے کا بولنے کے قائم مقام ہو جانا۔
  • ( 8 ) نماز باجماعت کی تاکید شدید وغیرہ وغیرہ۔ ( فتح الباری )


English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] 

Narrated `Aisha: "When the Prophet became seriously ill and his disease became aggravated he asked for permission from his wives to be nursed in my house and he was allowed. He came out with the help of two men and his legs were dragging on the ground. He was between Al-`Abbas and another man.” ‘Ubaidullah said, "I told Ibn `Abbas what `Aisha had narrated and he said, ‘Do you know who was the (second) man whose name `Aisha did not mention'” I said, ‘No.’ Ibn `Abbas said, ‘He was `Ali Ibn Abi Talib.’ "

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں