Search

فتنہ وضع حدیث اور موضوع احادیث کی پہچان

بسم الله الرحمن الرحیم
تقریب

الحمد لله رب العالمين والصلوة والسلام على رسوله الامين وعلى آله واصحابه الطاهرين وبعد :

نبی اکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شخصیت کا قرآن کریم سے ناقابلِ انقطاع تعلق ہے۔ قرآن کریم کو مکمل طور سے سمجھنا یا اس پر عمل کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک شخصیت علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے بغیر ناممکن ہے۔ چنانچہ حدیث جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل اور تقریر سے عبارت ہے قرآن کریم کے پہلو بہ پہلو ہدایتِ انسانی کا دوسرا اہم ترین سرچشمہ رہی ہے۔ حدیث کی اہمیت صرف ا تنی ہی نہیں کہ وہ قرآن کریم کی مستند ترین علمی و عملی شرح و تفسیر ہے بلکہ قرآنی تعلیمات کی اساس پر جو بے مثال انقلاب دنیائے انسانیت میں برپا کیا گیا اس کی عملی تشکیل کی حقیقی اور صحیح ترین تصویر بھی پیش کرتی ہے۔ مزید برآں یہ راہنمائی بھی فراہم کرتی ہے کہ قرآنی تعلیمات کی بنیاد پر روحانی، اخلاقی، سیاسی، سماجی، معاشی غرضکہ ہر ایک ہمہ گیر انسانی انقلاب لانے کے ذرائع، وسائل، اصول اور طریقے کیا ہیں۔ حدیث کی اس سہ گانہ اہمیت کے پیش نظر ابتدا ہی سے اس بات کی بھرپور جدو جہد کی گئی کہ اس سرچشمہ ہدایت میں کسی قسم کی کوئی خارجی ملاوٹ شامل نہ ہونے پائے اور اس کے آبِ مصفا کو کوئی بیرونی شے مکدر نہ کرنے پائے۔ چنانچہ جن اصحابِ نظر اور صاحبانِ عزیمت کو پروردگارِ عالم کی طرف سے حدیث کو جمع کرنے کی توفیق دی گئی ان کویہ بصیرت بھی عطا کی گئی کہ وہ حدیث کے زرِ خالص کو جاہلیت کی کدورتوں سے متمیز کر سکیں اور اسے اپنی حقیقی اور اصلی تب و تاب کے ساتھ باقی رکھ سکیں۔ ان باہمت لوگوں نے جعلی اور وضعی رویات کے گردو غبار کے طوفان کو جو ظہورِ اسلام کے بعد کی جاہلیت نے حدیث کے آئینے کو مکدر کرنے کے لئے وقتاً فوقتاً اٹھایا، اپنی تحقیق کی بے پناہ بارشوں سے تہ نشین کر کے ہمیشہ کے لئے آئینہ حدیث کو مجلاد عصفا کر دیا۔ حدیث کے داخلی و خارجی نقد، سند و متن حدیث کی جانچ پڑتال، رواۃ حدیث کے احوال اور ان کی ثقاہت کی تحقیق و تفتیش، قرآن کریم کے تابہ ابد محفوظ الفاظ و معانی سے مطابقت و مناسبت عقل و فکر کے معیار پر رکھنا، غرضیکہ ہر مکن الحصول طریقے کا استعمال کیا گیا تاکہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جعلی اور وضعی روایتوں سے قطعی طور سے ممتاز ہو سکے۔

کتاب : فتنہ وضع حدیث اور موضوع احادیث کی پہچان صفحہ نمبر: 4

http://maktaba.pk/book/fitna-e-waz-e-hadith-or-mozo-hadith-ki-pehchan/4/

ان کوششوں کااجمالی سا جائزہ بھی ان سلف صالحین کی بے پناہ جدو جہد کا پتہ دے سکتا ہے۔ حدیث کے ناپید اکنار زخیرہ کو چھان پھٹک کر یہ طے کرنا کہ کونسی روایت واقعی حدیثِ رسول ہے اور اس کا انتساب رسالتِ مآب علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف درست ہے اور کونسی روایت وضع اور جعل کا نتیجہ ہے اور ختم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان، کوئی معمولی درجہ کا کام نہیں۔ یہ رتبہ ٔ بلند ملا جس کو مل گیا۔

عربی زبان میں کتنی ہی کتابیں ایسی ہیں جنہوں نے حدیثِ رسول کو جعلی و وضعی روایتوں سے ممیز کرنے کے نہ صرف اصول بتائے ہیں بلکہ عملاً ان اصول کوزخیرہ روایت پر منطبق کر کے جعلی اور وضعی روایات کی نشاندہی کر کے ان کے مجموعے بھی تیار کر دئیے ہیں تاکہ ہر شخص ان کا علم حاصل کر سکے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری اردو زبان اب تک اس فن اور اس کے جواہر پاروں سے تہی دامن تھی۔ الحمدللہ کہ ہماری مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے ناظم سنی دینیات مولانا مسعود عالم صاحب کو اللہ نے توفیق بخشی اور انہوں نے اس کمی کو پورا کرنے کی طرف توجہ دی۔ آپ کی کتاب ’’فتنہ ٔ وضع حدیث اور موضوع احادیث کی پہچان‘‘ اردو زبان میں میرے علم، اطلاع کی حد تک اس سلسلہ کی اوّلین کوشش ہے۔ زیرِ نظر مواد اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن ہے۔ مولانا مسعود عالم صاحب نے کوشش کی ہے کہ کسی روایت کو جعلی اور وضعی قرار دینے کے اصولوں کو پیش کرنے کے ساتھ ان وضعی روایات کاایک قابلِ لحاظ مجموعہ بھی قارئین کے سامنے آجائے۔ آپ نے اس فن کے ائمہ کی کوششوں سے استفادہ کیا ہے۔ چنانچہ توقع ہے کہ آپ کی اس کتاب سے بہت سی غلط فہمیاں دُور ہو جائیںگی۔ میں نے یہ کتاب بالاستیحاب پڑھی ہے واقعہ یہ ہے کہ اس طرح کی کتاب کی ضرورت ان لوگوں کو بہت زیادہ ہے جو براہِ راست عربی زبان سے استفادہ نہیں کر سکتے جس کی وجہ سے کتنی ہی جعلی اور گھڑی ہوئی روایات کو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سمجھ بیٹھنے کی غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں۔ اس کتاب سے بہت سا گرد و غ بار چھٹ جانے کی توقع ہے۔ اس دوسرے ایڈیشن میں متعدد اصلاحات کی گئی ہیں اور امید ہے کہ نقشِ ثانی اوّل سے بہتر ہو گا اگرچہ زیرِ نظر ایڈیشن کو بھی مزید بہتر بنانے کی گنجائش سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح وضعی اور جعلی روایات کا ایک مکمل اور مستند مجموعہ بھی اُردو زبان میں وجود میں آجائے تاکہ لوگ وضعی روایات کو نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام سے منسوب کرنے سے علیٰ وجہ البصیرت پرہیز کر سکیں وما ذالک علی اللہ بعزیز ۔

پروفیسر فضل الرحمن

سابق ڈین فیکلٹی دینیات ، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ

واستاذ التفسیر والحدیث بجامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ بالریاض

بسم الله الرحمن الرحیم

کتاب : فتنہ وضع حدیث اور موضوع احادیث کی پہچان صفحہ نمبر: 5

http://maktaba.pk/book/fitna-e-waz-e-hadith-or-mozo-hadith-ki-pehchan/5/

دیباچہ

اسلامی تعلیمات کے بنیادی ماخذوں میں قرآن کریم کے بعد احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے کوئی بھی مسلم بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ قرآن میں ہے۔

وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ(النحل :44)

’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! او رہم نے یہ ذکر (قرآن) تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اس چیز کی تشریح و توضیح کرجو ان کے لئے اتاری گئی ہے‘‘۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی دراصل قرآن کی شرح و تفسیر ہے۔ اس لئے ابتداء ہی سے علماء دین اور محدثین عظام احادیثِ رسول کی حفاظت کی طرف متوجہ ہوئے جس کے نتیجے میں آج ہم احادیث کا ایک عظیم اور قابلِ قدر ذخیرہ موجود پاتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں تو اس کاامکان بہت ہی کم تھا کہ کوئی جھوٹی باتیں گھڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتا اس لئے لئے کہ اس کی تردید کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہ نفسِ نفیس موجود تھے لیکن پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہہ فرما دی کہ ’’جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنا لے‘‘۔

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں جب فتنوں نے سر اٹھایا تو عبداللہ بن سبا جو ایک یہودی تھا اس کے پیروؤں کے ذریعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر افتراء درازی کا آغاز ہوا اور اس فتنہ کی

کتاب : فتنہ وضع حدیث اور موضوع احادیث کی پہچان صفحہ نمبر: 6

http://maktaba.pk/book/fitna-e-waz-e-hadith-or-mozo-hadith-ki-pehchan/6/

آگ کو بھڑکنے کا اس وقت مزید موقع ملا جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں جنگ صفین ہوئی اور لوگ تین گروہوں میں بٹ گئے۔ ایک گروہ شیعوں کا تھا اور دوسرا خوارج کا تیسرے گروہ کا تعلق عام مسلمانوں سے تھا۔

علمائے اسلام کی واضعین کے مقابلہ میں جو مساعی ہیں وہ قابلِ قدر ہیں۔ انہوں نے ایسے اصول و قواعد مرتب کئے اور موضوع احادیث کی ایسی علامتیں بتائیں جن سے موضوع احادیث کے پہچاننے میں بڑی آسانی ہوتی ہے انہوں نے اس کے لئے عملی و نظری دونوں طریقے اختیار کئے۔ اس کے علاوہ موضوع احادیث پر مشتمل کتابیں لکھی گئیں تاکہ لوگ ان احادیث سے باخبر ہو جائیں جن کی کوئی اصل نہیں اور جو دین کے مسلمہ اصولوں سے ٹکراتی ہیں۔

ان تمام قابلِ قدر مساعی کے باوجود آج مسلمانوں میں کتنی ہی ایسی چیزیں حدیث کے نام سے مشہور ہیں جو حقیقت میں موضوع ہیں، ان کی کوئی اصل نہیں۔ اس طرح کی بعض موضوع حدیثیں اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کی زبانوں پر آجاتی ہیں اور انہیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ جو چیز حدیث کے نام سے بیان کر رہے ہیں وہ فی الواقع حدیثِ رسول نہیں ہے۔ اس صورتِ حال کے پیشِ نظر ضرورت تھی کہ اردو زبان میں کوئی ایسی کتاب شائع ہو جس سے لوگوں کو تنبہ ہو اور وہ احادیث ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملہ میں بے احتیاطی سے بچ سکیں۔

مجھے توقع ہے کہ مولانا مسعود عالم قاسمی صاحب کی یہ کتاب جو اس وقت آپ کے ہاتھوں میں ہے اس سلسلہ میں نہایت مفید ثابت ہو کی۔ اس کتاب کے مطالعہ سے بالتفصیل معلوم ہو سکے گا کہ فتنہ وضع حدیث کے اصلاً خارجی اور داخلی اسباب کیاتھے؟ اس فتنہ کے سد باب کے سلسلہ میں علماء و محدثین کرام کی مساعی کیا کر رہی ہیں؟ اور موضوع احادیث اپنی کن علامتوں کے ذریعے سے بآسانی پہچانی جا سکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ موصوف کی اس سعی کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے اور لوگوں کو اس سے وہ فائدہ پہنچائے جس کی ہم توقع رکھتے ہیں۔

خاکسار محمد فاروق خاں

۲۴ نومبر ۱۹۸۶ء

کتاب : فتنہ وضع حدیث اور موضوع احادیث کی پہچان صفحہ نمبر: 7

http://maktaba.pk/book/fitna-e-waz-e-hadith-or-mozo-hadith-ki-pehchan/7/

كفىٰ بالمرأ كذبا ان يحدث بكل ماسمع
(مسلم)
آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی چیز کو بیان کرے
بسم الله الرحمن الرحیم

کتاب : فتنہ وضع حدیث اور موضوع احادیث کی پہچان صفحہ نمبر: 8

http://maktaba.pk/book/fitna-e-waz-e-hadith-or-mozo-hadith-ki-pehchan/8/

مقدمہ

موتیوں اور جواہر پاروں کے ڈھیر میں اگر کچھ خزف ریزے شامل ہو جائیں توجواہر پاروں کی عظمت اور حفاظت کا تقاضا یہ ہے کہ خزف ریزوں کو چھانٹ کر الگ کر دیا جائے۔ اگر ان کو جواہر پاروں سے الگ کرنے کے بجائے جواہر ثابت کرنے کی کوشش کی جائے گی تو خزف ریزے اپنی حیثیت بدل کر کبھی جواہر نہ بن سکیں گے لیکن جواہر پاروں کی عظمت اور قیمت ضرور گھٹ جائے گی۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذخیرہ احادیث میں آپ کے کچھ نادان دوستوں اور دانا دشمنوں نے مختلف وقتوں میں مختلف مقاصد کے پیش نظر اپنے خزف ریزے شامل کرنے کی ناپاک کوششیں کیں اور دینِ حنیف کی صاف و شفاف سرچشمہ کو گدلا کرنے کی جسارت کی۔ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور تقدس کا مطالبہ یہ تھا کہ ان خزف ریزوں کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جواہر پاروں سے چھانٹ کر پھینک دیا جائے، سنتِ مطہرہ کو محفوظ کیاجائے اور دینِ اسلام کو نقصان سے بچایا جائے۔ اللہ کروٹ کروٹ چین نصیب کرے ان علماء کرام اور محدثین عظام کو جنہوں نے اپنی زندگیوں کاقیمتی سرمایہ حدیث کی خدمت ا ور اس کی ترویج واشاعت میں صرف کیا۔ اس کام کے لئے لمبے لمبے سفر کئے، مشقتیں برداشت کیں اور کثیر رقم خرچ کی۔ ان حضرات نے نہ صرف صحیح حدیث کی ترویج و اشاعت کی بلکہ موضوع اور جعلی روایات کو چھانٹ کر الگ کیا۔ ایسے اصول و ضوابط مقرر کئے جن کی مدد سے ہم صحیح اور موضوع احادیث میں تمیز کر سکتے ہیں اور ایسے دجالوں کی نقاب کشائی کی جو بڑی چابک دستی سے صحیح احادیث میں موضوع احادیث ملا دیا کرتے تھے۔ اب یہ امتِ مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ محدثین کی گراں قدر خدمات سے فائدہ اٹھائے۔ صحیح اور موضوع احادیث میں فرق و امتیاز کرے اور ان دونوں کے ساتھ قبول و اجتناب کا مناسب

کتاب : فتنہ وضع حدیث اور موضوع احادیث کی پہچان صفحہ نمبر: 9

http://maktaba.pk/book/fitna-e-waz-e-hadith-or-mozo-hadith-ki-pehchan/9/

رویہ اختیار کرے ۔

صحیح اور غلط کی پہچان سے محروم رہ کر اگر ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت، عقیدت اور طلبِ ہدایت کے لئے ہی سہی جھوٹی سچی احادیث کو سننا اور ان پر عمل کرنا شروع کر دیا تو صراطِ مستقیم سے دُور جا پڑیں گے۔ سنتِ رسول کا دامن ہاتھوں سے جاتا رہے گا اور بدستور اس غلط فہمی میں مبتلا رہیں گے کہ ہم پیروِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سچے مسلمان ہیں۔ جس طرح اندھیری رات میں جنگل میں لکڑیاں چننے والا لکڑی اورسانپ میں تمیز نہ کر سکنے کی بناء پر سانپ کو اٹھا لیتا ہے اور وہ اس کی ہلاکت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اسی طرح صحیح اور غلط روایات میں فرق نہ کرنے والا فتنہ اور گمراہی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس لئے ایک مسلمان کے لئے جہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ حدیث کیا ہے وہاں اس بات کاعلم بھی ناگزیر ہے کہ حدیث کیا نہیں ہے۔

ہمارے زمانے میں جہالت اور جاہلیت کا جو دور دورہ ہے اس میں بہت سی ایسی روایات نے قبولِ عام حاصل کر لیا ہے جو قطعی بے بنیاد اور نبی کریم المعصوم صلی اللہ علیہ وسلم پر صریح بہتان ہیں۔ مثلاً آپ ذرا اس روایت کو ملاحظہ کیجئے جو مسجدوں میں آویزاں نظر آتی ہے، مجالس وعظ اور بعض کتابوں میں دیکھنے کو ملتی ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اے علی! روزانہ پانچ کام کر کے سویا کرو۔ (۱)۔ چار ہزار دینار صدقہ کر کے۔ (۲)۔ جنت کی قیمت ادا کرکے ۔ (۳) ۔ ایک قرآن ختم کر کے۔ (۴) ۔ دو لڑنے والوں میں صلح کرا کے۔ (۵)۔ ایک حج ادا کر کے۔ اس پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ یہ تو میرے لئے محال ہے۔ تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چار مرتبہ سورۃ فاتحہ پڑھنے سے چار ہزار دینار صدقہ کرنے کا ثواب ملتا ہے۔ تین مرتبہ درود پڑھنے سے جنت کی قیمت ادا کرنے کا ثواب ملتا ہے۔ تین مرتبہ قل ہو اللہ پڑھنے سے ایک قرآن ختم کرنے کا ثواب ملتا ہے۔ دس مرتبہ استغفار کرنے سے دو لڑنے والوں میں صلح کرانے کا ثواب ملتا ہے۔ چار مرتبہ تیسرا کلمہ پڑھنے سے ایک حج کا ثواب ملتا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ بعض اہلِ خیر نے ثواب کی نیت سے اس روایت کو چھپوا کر بڑی تعداد میں مدارس و

کتاب : فتنہ وضع حدیث اور موضوع احادیث کی پہچان صفحہ نمبر: 10

http://maktaba.pk/book/fitna-e-waz-e-hadith-or-mozo-hadith-ki-pehchan/10/

مساجد اور دیگر مذہبی مقامات پر آویزاں کرایا ہے جب کہ یہ روایت سراسر من گھڑت ہے۔

متصوفین، میلاد خواں، واعظین، مبلغین اور دینی جذبہ رکھنے والے بعض مسلمان فضائل و رذائل کے نام سے ایسی حدیثیں خوب سناتے ہیں اور عوام کی دلچسپی بھی اس میں بہت ہوتی ہے اور اگر ان کو اس سے روکا جائے تو ان میں تسلیم و انقیاد اور اصلاح کے بجائے ردِ عمل کا جذبہ ابھرتا ہے اور بعض حالات میں خیر خواہی کرنے والا ان کے تیرِ غضب کا شکار ہو جاتا ہی۔ ایک مرتبہ میرے ایک عزیزکسی نوجوان کو نماز کی فضیلت اور ترکِ نماز کی وعید پر فضائل کی ایک معروف کتاب پڑھ کر سنا رہے تھے، میں بھی وہاں آ پہنچا اس وقت وہ یہ روایت بیان کر رہے تھے:

’’ایک حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص نماز کا اہتمام کرتا ہے حق تعالیٰ شانہ پانچ طرح سے اس کا اکرام و اعزاز فرماتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس بر سے رزق کی تنگی ہٹا دی جاتی ہے، دوسرے یہ کہ اس سے عذابِ قبر ہٹا دیا جاتا ہے، تیسرے یہ کہ قیامت کو اس کے اعمال نامے دائیں ہاتھ میں دئیے جائیںگے۔ چوتھے یہ کہ پل صراط سے بجلی کی طرح گزر جائے گا، پانچویں یہ کہ حساب سے محفوظ رہیں گے۔ اور جو شخص نماز میں سستی کرتا ہے اس کو پندرہ طریقہ سے عذاب ہوتا ہے۔ پانچ طرح سے دنیا میں اور تین طرح سے موت کے وقت اور تین طرح قبر میں اور تین طرح قبر سے نکلنے کے بعد ……‘‘ ۔

یہ لمبی روایت سن کر میں ضبط نہ کر سکا اور میں نے کہا کہ یہ روایت موضوع ہے اسے حدیثِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ کر بیان کرنا درست نہیں۔ اس پر ہمارے بزرگ سخت برہم ہوئے اور بولے

اگر کسی کو اس سے نماز کی توفیق مل جاتی ہے تو تمہارا کیا بگڑتا ہے؟ میں نے کہاکہ فضائل نماز کے سلسلے میں دوسری صحیح احادیث بھی ہیں ان کے ہوتے ہوئے جعلی روایات بیان کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ جھوٹی احادیث بیان کرنا ایسا جرم ہے جس کی سزا جہنم ہے۔ اس پر وہ خاموش تو ہو کئے مگر ان کی خفگی دُور نہ ہوئی۔ کسی زمانہ میں امام شعبی رحمہ اللہ جیسے محدث کبیر کو بھی اس قسم کے ایک عبرتناک اور افسوسناک واقعہ سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں ایک مسجد میں نمازپڑھنے کے لئے داخل ہوا، میرے پاس لمبی داڑھی والا ایک شیخ، جس کے چاروں طرف لوگوں کاہجوم تھا، حدیث بیان کر رہا تھا، اس نے کہا کہ مجھ سے حدیث بیان کی فلاں نے فلاں سے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’اللہ نے دو صُور پیدا کئے ہیں اور ہر صور میں دو نفخ (پھونک) ہو گی‘‘۔ امام شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مجھ سے برداشت نہ ہو سکامیں نے اپنی نماز میں تخفیف کر دی پھر اس کی طرف متوجہ ہوا اور عرض کیا کہ اے شیخ! اللہ سے ڈرو اور غلط حدیث بیان نہ کرو۔ اللہ نے صرف ایک ہی صور پیدا کیا ہے اور اس میں دو نفخ ہوں گی۔ ایک نفخة الصعق اور دوسری نفخة القيامة ـ اس پر وہ بولا اے بدوین! فلاں نے تو مجھ سے روایت کی ہے اور تو اس کی تردید کرتا ہے؟ پھر اس نے اپنا جوتا اٹھایا اور مجھے دے مارا۔ اب کیا تھا سب لوگ اس کے ساتھ مجھے مارنے لگے اور اس وقت تک مارتے رہے جب تک میں نے ان کے سامنے قسم نہ کھا لی کہ اللہ نے تین صور پیدا کئے اور ہر صور میں ایک نفخ ہو گی۔

سچی بات تویہ ہے کہ یہ ہمارے سادہ لوح، مسکین صورت، نیک صفت، عابد و زاہد، سلوک و تصوف اور ترغیب و ترہیب کے حاملین حدیث کے معاملے میں کچھ زیادہ ہی غیر محتاط واقع ہوئے ہیں، اسی لئے مشہور محدث یحییٰ بن سعید قطان فرمایا کرتے تھے کہ : ما رأيت الصالحين في شيئٍ اشد فتنة منهم في الحديث . 

کتاب : فتنہ وضع حدیث اور موضوع احادیث کی پہچان صفحہ نمبر: 11

http://maktaba.pk/book/fitna-e-waz-e-hadith-or-mozo-hadith-ki-pehchan/11/

میں نے صالحین کو حدیث کے معاملہ میں سخت فتنہ پایا۔

کتاب : فتنہ وضع حدیث اور موضوع احادیث کی پہچان صفحہ نمبر: 12

http://maktaba.pk/book/fitna-e-waz-e-hadith-or-mozo-hadith-ki-pehchan/12/

یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئیے کہ حدیث کا معاملہ بہت ہی نازک اور اہم ہے جیساکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:

"ان كذب على ليس ككذب على احد من كذب على متعمدا فليتبوأ مقعده من النار "

’’میرے اوپر جھوٹ بیان کرنادوسروں پر جھوٹ بیان کرنے سے مختلف ہے جس نے جھوٹی بات میری طرف منسوب کی وہ اپنا ٹھکانہ جہنم کو بنا لے‘‘۔

ایسے لوگوں کی تنبیہ نہایت ضروری ہے جو صحیح اور غلط کی تمیز کے بغیر حدیث بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں بلکہ محدثین کے اصول کے مطابق ہرکس و ناکس کو یہ حق نہیں دینا چاہئیے کہ وہ حدیث بیان کرے۔ حدیث کے نام پر ایسی کتابوں کے لکھنے پڑھنے سے گریز کرنا چاہئیے جو مرفوع، ضعیف اور موضوع روایات کے فرق کااحساس مٹا دیتی ہیں۔ حدیث بیان کرنے والے بغیر حوالہ کے حدیث اپنی زبان و قلم سے بیان نہ کریں یہی علم و ایمان کا تقاضہ ہے اور یہی سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا مطلب ہے۔ انس بن سیرین رحمہ اللہ نے بڑی مناسب بات کہی ہے:

"اتقوا الله يا معشر الشباب وانظروا عمن تاخذون هذه الاحاديث فانها دينكم "

’’اے نوجوانوں کی جماعت! اللہ سے ڈرو اور یہ دیکھ لو کہ یہ حدیثیں کس سے لیتے ہو کیونکہ یہ تمہارا دین ہیں‘‘۔

یہی قول سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی نقل کیا گیا ہے۔

موضوع احادیث پر اردو زبان میں بہت کم لکھا گیا ہے شاید اس سلسلہ میں کوئی ایک جامع کتاب بھی نہ مل سکے۔ نہ جانے کیوں علماء کرام نے اس طرف توجہ نہیں دی، اگر وہ اس معاملہ میں اپنی ذمہ دارانہ حیثیت کا احساس کرتے تو یقینا آج کی فضا کچھ زیادہ بہتر ہوتی۔

کتاب : فتنہ وضع حدیث اور موضوع احادیث کی پہچان صفحہ نمبر: 13

http://maktaba.pk/book/fitna-e-waz-e-hadith-or-mozo-hadith-ki-pehchan/13/

عربی میں بلاشبہ بڑاذخیرہ ہے اس میں سے کچھ مشہور کتابیں حسبِ ذیل ہیں :

1 کتاب الموضوعات محمد بن عمرو العقلی ، م ۳۲۲؁ھ

2 تذکرۃ الموضوعات محمد بن طاہر مقدسی م ۵۰۷؁ھ

3 الاباطیل والمناکیر حسین بن ابرہیم الجوزقانی ، م ۵۴۳؁ھ

4 کتاب الموضوعات عبدالرحمن بن الجوزی ، م ۵۹۷؁ھ

5 المغنی عن الحفظ والکتاب عمر بن بد موصلی ، م ۶۲۳؁ھ

6 الدر الملتقط فی تبیین الغلط حسن بن محمد صاعانی ، م ۶۵۰؁ھ

7 اللألی المنشورۃ فی الاحادیث المشہورۃ حافظ ابن حجر عسقلانی ، م ۸۵۲؁ھ

8 الکشف الخبیث عمن رمی بوضع الحدیث حافظ ابراہیم الحلبی ، م ۸۴۱؁ھ

9 المقاصد الحسنۃ عبدالرحمن سخاوی ، م ۹۰۲؁ھ

10 اللألی المضوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ جلال الدین السیوطی ، م ۹۱۱ ؁ھ

11 الذیل علی الموضوعات جلال الدین السیوطی ………

12 تحذیر الخواص من اکاذیب القصاص جلال الدین السیوطی………

13 الغماز علی اللماز نور الدین ابو الحسن سمہودی ، م ۹۱۱ ؁ھ

14 الدرۃ اللامعۃ فی بیان کثیر من الاحادیث الشائۃ شہاب الدین احمد، م ۹۳۱؁ھ

15 تنزیہ الشریعۃ عن الاحادیث الموضوعۃ ابوا لحسن علی بن محمد عراق ، م ۹۶۳؁ھ

16 تذکرۃ الموضوعات محمد طاہر بن علی پٹنی ، م ۹۸۶؁ھ

17 قانون الموضوعات محد طاہر بن علی پٹنی …………

18 موضوعات کبیر علی بن سلطان القاری ، م ۱۰۱۴؁ھ

19 المصنوع فی احادیث الموضوع علی بن سلطان ……………

20 الفوائد الموضوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ مرعی بن یوسف الکرمی ، م ۱۰۳۳؁ھ

21 کشف الالتباس فیما خفی علی کثیر من الناس غرس الدین خلیلی ، م ۱۰۵۷؁ھ

22 الاتقان ما یحسن من الاحادیث الدائۃ علی اللسن نجم الدین محمد بن الغزی ، م ۱۰۶۱؁ھ

23 کشف الخفا و مزیل الالباس اسماعیل بن محمد عجلونی ، م ۱۱۶۲؁ھ

24 کشف الالہی عن شدید الضعف والموضوع الواہی محمد حسینی سندروسی ، م ۱۱۷۷؁ھ

25 الفوائد المجموعۃ فی ا لاحادیث الموضوعۃ محمد بن علی شوکانی ، م ۱۲۵۰؁ھ

26 الاثار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ عبدالحئ لکھنوی ، م ۱۳۰۴؁ھ

کتاب : فتنہ وضع حدیث اور موضوع احادیث کی پہچان صفحہ نمبر: 14

http://maktaba.pk/book/fitna-e-waz-e-hadith-or-mozo-hadith-ki-pehchan/14/

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں