Search

ماں کے نافرمان ”علقمہ“ کو موت کے وقت کلمہ پڑھنا نصیب نہیں ہوا : من گھڑت حدیث

” حضرت عبد اللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ”علقمہ “ نامی ایک شخص جو نماز روزہ کا بہت پابند تھا جب اس کے انتقال کا وقت قریب آیا، تو اس کے منہ سے باوجود تلقین کے کلمہ شہادت جاری نہ ہوتا تھا۔ علقمہ کی بیوی نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک آدمی بھیج کر اس واقعہ کی اطلاع کرائی۔ آپ نے دریافت کیا: علقمہ کےوالدین زندہ ہیں یا نہیں؟ معلوم ہوا کہ صرف والدہ زندہ ہے اور وہ علقمہ سے ناراض ہے۔ آپ ﷺ نے علقمہ کی ماں کو اطلاع کرائی کہ میں تم سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں، تم میرے پاس آتی ہو یا میں تمہارے پاس آؤں۔ علقمہ کی والدہ نے عرض کی، میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں میں آپ کو تکلیف دینا نہیں چاہتی، بلکہ خود ہی حاضر ہوتی ہوں۔ چناچہ بڑھیا حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ آپ نے علقمہ کے متعلق کچھ دریافت فرمایا، تو اس نے کہا علقمہ نہایت نیک آدمی ہے، لیکن وہ اپنی بیوی کے مقابلے میں ہمیشہ میری نافرمانی کرتا ہے۔ اس لیے میں اس سے ناراض ہوں۔ آپ نے فرمایا: اگر تو اس کی خطا معاف کردے، تو یہ اس کے لیے بہتر ہے، لیکن اس نے انکار کیا۔ تب آپ نے حضرت بلال کو حکم دیا کہ لکڑیا جمع کرو اور علقمہ کو جلادو۔ بڑھیا یہ سن کر گبھرائی  اور اس نے دریافت کیا کہ کیا میرے بچے کو آگ میں جلایا جائے گا؟ آپ نے فرمایا: ہاں ! اللہ کے عذاب کے مقابلے میں یہ ہمارا عذاب ہلکا ہے۔ خدا کی قسم جب تک تو اس سے ناراض ہے، نہ اس کی نماز قبول ہے نہ کوئی صدقہ قبول ہے۔ بڑھیا نے کہا: میں آپ کو اور لوگوں کو گواہ کرتی ہوں کہ میں نے علقمہ کے قصور معاف کردیا۔ آپ نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: دیکھو، علقمہ کی زبان پر کلمہ شہادت جاری ہوا یا نہیں؟  لوگوں نے بیان کیا یا رسول اللہ ﷺ علقمہ کی زبان پر کلمۂ شہادت جاری ہوگیا  اورکلمۂ شہادت کے ساتھ اس نے انتقال کیا۔ آپ نے علقمہ کے غسل و کفن کا حکم دیا اور خود جنازے کے ساتھ تشریف لے گئے۔ علقمہ کو دفن کرنے کے بعد فرمایا:

”مہاجرین و انصار میں سے جس شخص نے اپنی ماں کی نافرمانی کی یا اس کو تکلیف پہنچائی، تو اس پر اللہ کی لعنت، فرشتوں کی لعنت، اور سب لوگوں کی لعنت ہوتی ہے۔ خدا تعالیٰ نہ اس کا فرض قبول کرتا ہے نہ نفل یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے توبہ کرے اور اپنی ماں کے ساتھ نیکی کرے اور جس طرح ممکن ہو اس کو راضی کرے، اس کی رضا ماں کی رضا مندی پر موقوف ہے اور خدا تعالیٰ کا غصہ اس کے غصہ میں پوشیدہ ہے۔ (طبرانی)“

موضوع (من گھڑت حدیث): یہ واقعہ طبرانی (جامع المسانید و السنن لابن کثیر: ۳۰۷/۷، ۳۰۸ ح ۵۱۶۹) بزار (کشف الأستار: ۳۸۵/۲، ۳۸۶ح۱۹۱۱) عقیلی (الضعفاء الکبیر: ۴۶۱/۳) خرائطی (مساوی الأخلاق:ح ۲۵۱) بیھقي (شعب الایمان ۱۹۸/۶ح۷۸۹۲، دلائل النبوة: ۲۰۶/۶، ۲۰۷) رافعي (تاریخ قزوین: ۳۶۹/۲، ۳۷۰) میں ”ابو الورقاء فائد بن عبد الرحمٰن عن عبد اللہ بن ابی اوفیٰ“ کی سند سے موجود ہے۔

یہ روات بلحاظ سند موضوع ہے۔ اس کا راوی ابو الورقاء فائد بن العطار سخت مجروح ہے۔ اس راوی کے علاوہ کسی دوسرے شخص سے یہ روایت مروی نہیں ہے۔

٭امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فائد کی اس حدیث کو اپنی کتاب سے کاٹ دیا تھا، کیونکہ فائد العطار ان کے نزدیک متروک الحدیث تھا۔ (مسند أحمد ج۴ص۳۸۲)

٭اس راوی کے بارے میں امام ابن معین رحمہ اللہ نے کہا: ضعیف (تاریخ الدوري: ۱۶۳/۳ت۷۰۴)

٭ امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ نے کہا: اور اس کی ابن ابی اوفیٰ سے حدیثیں باطل ہیں۔ تُو ان کی اصل نہیں پائے گا گویا کہ یہ روایتیں ابن ابی اوفیٰ کی حدیثوں سے مشابہ نہیں ہیں اور اگر کوئی آدمی قسم کھائے کہ اس کی عام حدیثیں جھوٹی ہیں تو اس کی قسم نہیں ٹوٹے گی۔ (الجرح و التعدیل: ج ۷ ص ۸۴)

٭ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا: ”منکر الحدیث“ یعنی وہ منکر حدیثیں بیان کرتا تھا۔ (کتاب الضعفاء: ۲۹۹)

امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں جسے منکر الحدیث کہہ دوں اس سے (میرے نزدیک) روایت کرنا حلال نہیں ہے۔ (میزان الاعتدال ج ۱ ص ۶ و لسان المیزان ج ۱ ص ۵ ترجمة ابان بن جبله)

٭حافظ نسائی رحمہ اللہ نے کہا: ”متروک الحدیث“ اس کی حدیث متروک ہے۔ (کتاب الضعفاء: ۴۸۷)

اصول حدیث میں یہ مقرر ہے کہ متروک کی روایت متابعات میں بھی جائز نہیں ہے۔ دیکھئے اختصار علوم الحدیث لابن کثیر( ص ۳۸، النوع الثاني: الحسن) تیسر مصطلح الحدیث (ص ۱۵۴، وغیرھما)

٭ حاکم نیسابوری رحمہ اللہ نے اس راوی کے بارے میں کہا: یہ ابن ابی اوفیٰ سے موضوع حدیثیں بیان کرتا ہے۔ (المدخل الی الصحیح: ص ۱۸۴ ت ۱۵۵)

٭ حافظ ابن حبان رحمہ اللہ نے کہا: وہ مشہور لوگوں سے منکر روایتیں بیان کرتا تھا۔ (المجروحین: ج ۲ ص ۲۰۳)

٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب التہذیب (۵۳۹۳) میں لکھا ہے: ”متروک، اتھموه“ متروک ہے، انھوں (محدثین) نے اس کو متہم (کذاب) کہا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ یہ روایت اس متروک و متہم اور صاحب احادیث موضوعہ کی وجہ سے موضوع و من گھڑت ہے، لہٰذا ایسی روایت کا بغیر تنبیہ اور انکار کے بیان کرنا حلال نہیں ہے۔ وما علینا إلاالبلاغ

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں