Search

شرب بول کی روایات کا علمی وتحقیقی جائزه

شرب بول کی روایات کا علمی وتحقیقی جائزہ

ام ایمن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گہر میں ایک جانب پڑے برتن میں پیشاب کیا. میں رات کو اپہی مجھے پیاس لگی تہی میں نے پیشاب کو لاشعوری طور پر پی لیا.

"فشربت ما فیہا وانا لا اشعر.”

جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ام ایمن جاو اس برتن میں موجود پیشاب کو بہا دو. میں نے عرض کیا اللہ کی قسم میں نے تو وہ پی لیا ہے. آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوب ہنسے یہاں تک کر آپ کی داڑہیں مبارک ظاہر ہوگئیں. پہر آپ نے فرمایا تمہارا پیٹ کبہی درد نہیں کرے گا. (مستدرک الحاکم ج ۳ ص ۶۳, ۶۴. دلائل النبوۂ لابی نعیم ج ۲, الحلیہ ج ۲ ص ۶۷ البدایہ والنہایہ ج ۵, اور متعدد کتب میں موجود ہے.)

تخریج: اسکی سند ضعیف جدا ہے.

پہلی بات یہ ہے کے اسکی سند کا ایک راوی جناب ابومالک عبدالملک بن حسین النخعی متروک ہے. جیسا کے حافظ نے تقریب ۸۳۳۷. میں صراحت کی ہے.

نوٹ:ابویعلی میں بہی یہ روایت موجود ہے مگر ابویعلی کی سند میں ابومالک عبدالملک بن حسین النخعی کا واسطہ گر گیا ہے.اس پر قرینہ یہ ہے کے یعلی بن عطاء کے شاگردوں میں ابومالک کا تذکرہ تو ملتا ہے مگر حسن بن حرب کا تذکرہ نہیں ملتا. اور ابومالک کے استادوں میں یعلی بن عطاء کا ذکر بہی ملتا ہے. اور یہ ہی وجہ ہے کہ ابویعلی کی سند جس کو ابن حجر نے المطالب العالیہ ۳۸۲۳. میں موجود ہے اور اس میں اسکی سند کپھ یوں ہے

"قال ابو یعلی الموصلی ثنا محمد بن ابی بکر ثنا سلم بن قتیبہ عن الحسن بن حرب عن یعلی بن عطاء عن الولید بن عبدالرحمن عن ام ایمن…الحدیث.”موجود ہے.

اور اس کی سند میں حسن بن حرب اور سلم بن قتیبہ دونوں کا تعین درکار ہے.حسن کے حالات مجھ کو نہیں مل سکہے اگر کس کو مل جائے تو اطلاع دیے شکریہ.(نوٹ: بعض لوگ سلم بن قتیبہ اور حسن بن حرب کو مسلم بن قتیبہ اور حسین بن حرب کہتے ہیں. واللہ اعلم.)

اب اگلی بات یہ ہے کے اب یہ ہی سند جو کے ابویعلی سے ابن حجر نے نقل کی ہے. اس ہی سند کو علامہ بوصیری نے اپنے زوائد میں بہی نقل کیا ہے. اور اسکی سند کو یوں نقل کیا ہے.

"قال ابویعلی الموصلی ثنا محمد بن ابی بکر ثنا سلم بن قتیبہ عن الحسین بن حریث عن یعلی بن عطاء عن الولید بن عبدالرحمن عن ام ایمن رضی اللہ عنہ…”(اتخاف الخیرۃ باب الشفاء ببولہ صلی اللہ علیہ وسلم, ۶۴۵۵, باب ۳۹.)

یہاں قابل خور بات یہ ہے کہ اسکی سند میں سلم بن قتیبہ جو ہے وہ روایت کر رہا ہے حسین بن حریث سے. اور جب کے ابن حجر نے اس کو سلم بن قتیبہ عن حسن بن حرب سے نقل کیا ہے.اور پہر مزہ کی بات یہ ہے کے مطالب العالیہ کے حواشی جو کے طبع دوم ہے انہوں نے بہی اس غلطی کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مطالب العالیہ کے بعض نسخوں میں حسین بن حریث ہے. اور بعض میں حسن بن حرب ہے.اور یہ تو پکا معلوم ہے کے یعلی بن عطا کے شاگردوں میں حسن بن حرب موجود نہیں ہے. اور نہ ہی حسن بن حرب کے استادوں میں یعلی بن عطا ہے.اور یہ بہی یاد رہے کے تاریخ دمشق ابن عساکر میں بہی حسین بن حریث ہی ہے.

اور اب رہی بات حسین بن حریث اگر تسلیم کیا جائے تو پہر, مگر یہاں بہی وہ ہی معاملہ ہے استاد شاگروں کا معاصرہ معلوم نہیں ہو سکا مجھ کو کوئی اطلاع دے تو تسلیم کرنے کو تیار ہیں.اگر ابویعلی الموصلی کی کتاب موجود ہوتی تو حقیقت معلوم کی جاسکتی تہی مگر پتہ نہیں وہ ہے بہی یا نہیں سننے میں تو یہ ہی آیا ہے کے یہ کتاب دستیاب نہیں.واللہ اعلم.

مگر راجح بات جو مجھ کو معلوم ہوئی ہے وہ یہ ہے کے صحیح حسن بن حرب ہی ہے.اس پر دلیل یہ ہے کے اس روایت کو دارقطنی نے بہی اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے جیسا کے علامہ سیوطی نے ذکر کیا ہے اور یہ باوار کروایا ہے کے ابویعلی والی روایت اور دارقطنی کی ایک ہی ہے. کہتے ہیں

"واخرج ابویعلی والحاکم والدارقطنی وابونعیم عن ام ایمن.”(الخصائص الکبری ج ۲ ص ۲۵۲.)

تو معلوم ہوا کے ابو یعلی اور حاکم کی روایت جس میں ابو مالک عبد الملک بن حسین متروک راوی موجود ہے وہ اور دارقطنی کی روایت ایک ہی ہے.اور یہ بیان کردیا گیا ہے کے ابویعلی کی سند میں ابو مالک عبدالملک بن حسین النخعی متروک کا واسطہ گر گیا ہے. اور جب دونوں روایات ایک ہے ابویعلی اور دارقطنی تو, دارقطنی کی سند میں میں جو یہ راوی موجود ہے حسن بن حرب تو یہ سلم بن قتیبہ معلوم نہیں.اور پہر امام دارقطنی نے اس ہی روایت کو العلل میں بہی نقل کیا ہے. امام دارقطنی نے العلل میں اس کہا کہ:

"سلم بن قتیبہ حسن عن یعلی بن عطاء عن الولید بن عبدالرحمن عن ام ایمن کی سند سے روایت کرتا ہے اور سلم بن قتیبہ اور قرۃ بن عبدالرحمن اسے ابومالک عن یعلی عن عطاء عن الولید سے روایت کرتے ہیں.

گویا سلم کبہی حسن بن حرب سے اور کبہی ابومالک سے روایت کرتے ہیں اسلئے یہ روایت اس اضطراب کی وجہ سے بہی ضعیف ہے.”(العلل دارقطنی ج ۱۵ ص ۵۸۱.)

تو معلوم ہوا کے راجح بات جو میرے نزدیک ہے وہ یہ ہے کہ” سلم بن قتیبہ نے حسن بن حرب نے یعلی بن عطا عن الولید بن عبدالرحمن عن ام ایمن روایت کی ہے اور یہ ہی صحیح ہے.

اور یاد رہے ابویعلی کی کتاب معلوم نہیں ہے لہذا صحیح بات دارقطنی کی ہی تسلیم کی جائے گی. کیونکہ انہوں نے ذکر کیا ہے کے کبہی حسن بن حرب کا نام آتا اور کبہی دوسرے راوی فرویاہ کا, اور سیوطی نے دارقطنی کی سند کو اور ابویعلی کی سند کو ایک ہی باوار کیا ہے.

خلاصہ یہ ہے کے ابویعلی کی سند اور دارقطنی کی سند ایک ہے جیسا کے بیان ہوچکا ہے سیوطی کے حوالہ سے, اور اس کی سند کا مدار ابومالک عبدالملک بن حسین النخعی پر ہے جو کے متروک ہے. اور سلم بن قتیبہ اور حسن بن حرب کا تعین اور توثیق درکار ہے. اور ابویعلی کی سند میں یہ واسطہ گر گیا ہے.

اور اگر حسن کی جگہ حسین ہی تسلیم کر لیا جائے تب بہی انکا تعین درکار ہے. اور یہ روایت تب بہی ضعیف ہے.دارقطنی کے الفاظ بہی دیکہے لیں

"فقال یرویہ ابومالک النخعی واسمہ عبدالملک بن حسین واختلف عنہ فرواہ شہاب عن ابی مالک عن الاسود بن قیس عن نبیح العنزی عن ام ایمن.

وخالفہ سلم بن قتیبہ وقرۃ بن سلیمان فرویاہ عن ابی مالک عن یعلی بن عطاء عن الولید بن عبدالرحمن عن ام ایمن.وابو مالک ضعیف والاضطراب فیہ من جہتہ.”(العلل للدارقطنی ج ۱۵ ص ۴۱۵, ح ۴۱۰۶.)

اس روایت میں دوسری علت یہ ہے کے اس میں نبیح بن عبداللہ العنزی کی ام ایمن سے ملاقات کا ثبوت محل نظر ہے.ابن حجر لکہتے ہیں

"لم یلق ام ایمن.”(التلخیص الحبیر ج ۱ ص ۳۱.)

مگر الاصابہ میں انہوں نے ملاقات کو راجح قرار دیا ہے.مگر اسکے ساتھ ہی ابن السکن سے یہ بہی نقل کر دیا کہ ام ایمن مولاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ہیں. اور انکی وفات حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے حپھ ماہ بعد ہوگی تہی.جبکہ ایک ام ایمن مولاۃ ام حبیبہ ہیں, جن کی وفات بعد میں ہوئی تہی.

جب یہ احتمال موجود ہے تو نبیح کا ام ایمن سے سماع مشکوک ہے.

یاد رہے دارقطنی اس روایت کو مضطرب قرار دیے چکے ہیں.اور یہ بہی یاد رہے کے ام ایمن سے سماع بہی ثابت نہیں اور جو روایت حلیہ ج ۲ میں ہے وہ بہی منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے.

اگر اس روایت کو صحیح تسلیم بہی کر لیا جائے تو یہ ثابت نہیں کے ام ایمن نے پاک سمجھ کر پیا تہا جیسا کہ اس روایت میں الفاظ ہیں

"فشربت ما فیہا وانا لا اشعر”

اور دوسری جگہ فغلطت "فشربتہا” کے الفاظ ہیں جو کے صریح دلیل ہے کے ام ایمن نے لاشعوری کے طور پر پی لیا تہا نہ کے پاک سمجھ کر اور یہ غلطی سے پیا گیا تہا اور کوئی غلطی سے کوئی کام کر لے تو اسکے جائز ہونے کی دلیل نہیں ہوسکتی. اور اس ہی وجہ سے اسکو غلطی پر محمول کیا جائے گا اسلئے غلط عمل طہارت کی دلیل نہیں.

رہی بات یہ کے "تیرے پیٹ میں درد نہیں ہوگا.” تو یہ اسلئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے صلہ میں اللہ تعالی نے اسے شفاء بنادیا. کبہی نجس چیز بہی شفاء بن جاتی ہے مگر یہ اسکے پاک ہونے کی دلیل نہیں بن سکتی.دوسری روایت جو کے حضرت امیمہ بنت رقیقہ رضی اللہ عنہ سے ہے جو کہ ابوداود ح ۲۴. نسائی حاکم بیہقی, وغیرہ اور متعدد کتب میں موجود ہے یہ روایت بہی صحیح نہیں ہے اس میں پہلی علت یہ ہے کے:حکیمہ بنت امیمہ مجہول ہے جیسا کے ابن حجر نے تقریب میں "لا تعرف” کہا ہے.

مگر ابن حبان نے اس کو ثقات میں ذکر کیا اور دارقطنی نے اسکی ایک روایت کو الالزامات والتتبع میں ذکر کیا ہے, اور اس ہی بنا پر بعض علماء نے اس کی سند کو حسن جید کہا جیسا کہ البانی صاحب نے سنن ابی داود ج ۱ ص ۵۳ پر حسن الاسناد! کہا ہے.اور ساتھ ہی کہتے ہیں کے حکیمہ کو ابن حبان نے ثقات میں نقل کیا اور ذہبی نے کہا کے میں نے کسی خواتون کو "متہم ومتروک” نہیں پایا اور حاکم نے اسے صحیح الاسناد کہا اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے.مگر عرض ہے کہ صرف اتنی سی بات سے روایت صحیح یا حسن نہیں دی جاسکتی البانی صاحب نے خود کئ جگہ تنہا ابن حبان کی توثیق کو رد کردیا ہے.

اور رہی بات علامہ ذہبی کی تو ذہبی نے خود حکیمہ کے مجہول ہونے کی طرف اشارہ کیا کے ابن جریح تنہا اس سے روایت کرتا ہے. اور یہ ہی بات ابن حجر نے کہی ہے. (میزان ج ۴ ص ۶۰۶, الاصابہ ج ۱۳ ص ۱۶۶.) یعنی کے مجہول العین ہیں.

اور اس ہی وجہ سے ابن حجر نے تقریب میں "لا تعرف” کہا ہے.

اور رہی بات حاکم کی اور موافقت ذہبی کی تو حاکم متساہل ہیں انہوں نے کئ جگہ مجہول اور سخت ضعیف روایت کی روایت کی تصحیح کی ہے اور علامہ ذہبی نے موافقت کی ہے جبکہ وہ خود دوسری جگہ اس پر جرح کرتے ہیں اور یہ المستدرک کی تلخیص سے معلوم تو یوں ہوتا ہے کے علامہ ذہبی نے عموما تصحیح سند کا اہتمام صحیحن کے رواۃ تک ہی رکہا ہے. اسکی ایک مثال دیکہے.

امام حاکم نے ج ۳ ص ۱۶۴ پر ایک روایت نقل کی ہے جو کہ ابوبکر بن ابی دارم سے ہے اور صحیح الاسناد کہا ہے.جبکہ امام ذہبی نے موافقت کی جبکہ اس روایت میں موجود دو روایوں پر جرح کی مگر ابوبکر بن ای دارم پر کوئی جرح نہیں کی جبکہ اس روایت کے متعلق تذکرۃ الحفاظ میں لسان میں سخت جرح کی حتی کہ یہاں تک کہا

"کان یترفض وقد اتہم فی الحدیث.”

اور اس ہی طرف ج ۳ ص ۱۱۴, اور ۱۱۲ پر اس روایت کی روایت پر خاموش ہے.!نیز دیکہے حضرت جابر کی حدیث "اذا اذنت فترسل” المستدرک ج ۱ ص ۲۰۴.

اور پہر البانی صاحب بہی ان سے متفق نہیں ہیں خواتین ایک روایت کے متعلق جو کے "ام بکر” کے بارے میں سلسلہ الصحیحہ ح ۱۹۹۵ میں اور ام حبیبہ کے بارے میں ح ۱۶۷۳.میں کہا حاکم نے ان کی سند کو صحیح اور ذہبی نے موافقت کی ہے,حالانکہ خود علامہ ذہبی نے انکی طرف مجہول ہونے کا اشارہ کیا ہے.

اور ہم بہی یہ ہی عرض کر آئے ہیں کہ ذہبی نے خود مجہول ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے تو یہ روایت حسن یا صحیح کیسے.!محدث ڈیانوی نے ذہبی اور ابن حجر کا کلام نقل کیا اور کہا:

"مفاد کلامہما انہا مجہولہ.”

(غایہ المقصود ج ۱ ص ۱۵۰.)

اور ابن قطان نے بہی کہا امام دارقطنی کیطرف اسکی تصحیح کی نسبت صحیح نہیں کیونکہ انہوں نے حکیمہ کی تعدیل یا جرح کوئی نہیں کی.

"فالحدیث متوقف الصحہ علی العلم بحال حکیمہ فان ثبت ثقتہا ثبتت روایتہا وہی لم تثبت.”(البدر المنیر لابن ملقن ج ۱ ص ۴۸۶, بیان الوہم والایہام ج ۵ ص ۵۱۴ ح ۲۷۵۶.)

اور علامہ مناوی نے بہی اقتفاء السنن سے نقل کیا ہے کہ:

"اسکی تضعیف نہیں کی گئ حالانکہ یہ ضعیف ہے کیونکہ حکیمہ مجہول ہے.”(فیض القدیر ج ۵ ص ۱۸۷.)

علامہ مناوی نے روایت کو ضعیف کہا ہے. لہذا بعض کا اس روایت کی تصحیح وغیرہ کرنا صحیح نہیں جبکہ اصول حدیث کی روح سے بہی یہ روایت ضعیف ہے. اور علامہ ذہبی کا یہ کہنا کہ میں نے خواتین میں سے کس کو متہم ومتروک نہیں پایا.

عرض ہے اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ ضعیف بہی نہ ہوا. کیونکہ ذہبی نے یہ نہیں کہا کے انہوں نے کسی کو ضعیف بہی نہیں پایا.ایسے بہت سے راوی ہیں جو کے متروک یا متہم نہیں ہیں بلکہ سی الحفظ وغیرہ ہیں.لہذا علامہ ذہبی کے قول سے بہی یا ثابت نہیں ہوتا کہ راوی ثقہ صدوق ہے. جبکہ وہ خود اسکے مجہول ہونےکی طرف اشارہ کر گئے.

خلاصہ:

یہ ہے کے یہ روایت حکیمہ کے مجہول ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے جیسا کے علامہ مناوی نے بہی صراحت کی ہے.

دوسری علت:

حکیمہ کے بارے میں ابن حجر نے کہا ہے کہ یہ حپہٹے طبقہ کی راویہ ہے.

اور مقدمہ تقریب میں ابن حجر نے اس طبقہ کے رایوں کا صحابہ سے سماع ثابت نہیں ہونا ذکر کیا ہے. اس لئے ان کا اپنی والدہ امیمہ بنت رقیقہ سے سماع بہی مشکوک اور محل نظر ہے لہذا یہ روایت منقطع بہی ہوئی.

تیسری بات یہ ہے اس روایت میں بہی ہے کہ میں نہیں جانتی تہی کہ یہ پیشا ہے اور یہ غلطی کی وجہ سے ہوا.

تیسری روایت:

علامہ سیوطی الخصائص الکبری میں ایک روایت ام حبیبہ سے بحوالہ عبدالرزاق عن ابن جریج نقل کی ہے. یہ روایت بہی ضعیف ہے.کیونکہ عبدالرزاق مدلس ہے. جو کہ بعض بریلویوں کو بہی مقبول ہے.اور دوسری بات یہ ہے کہ ابن جریج میں مدلس ہے لہذا یہ روایت بہی ضعیف ہے. ابن جریج ابوداود میں حکیمہ سے یہ روایت نقل کرتا ہے اور حکیمہ اپنی والدہ سے.یہ ہوسکتا ہے ابن جریج کبہی اسے بالاسناد اور کبہی ارسالا روایت کرتے ہوں.مسند روایت تو ضعیف ہے جیسا کے گزر چکا ہے. لہذا یہ روایت بہی ضعیف ہے.

چوتہی روایت:

ابو رافع کی بیوی سلمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل کیئے ہوئے پانی کو پی لیا کا واقعہ ملتا ہے جو مجمع الزاوئد ج ۸ ص ۴۸۳ پر موجود ہے.

یہ روایت بہی سخت ضعیف ہے. علامہ ہیثمی کہتے ہیں اسکی سند میں ایک راوی معمر بن محمد راوی ہے جو کہ کذاب ہے. (مجمع ج ۸ ص ۲۷۰.)

اور ابن حجر نے التلخیص میں بہی اس کو ضعیف کہا دیکہے. (تلخیص ج ۱ ص ۳۲.)

جناب اشرف علی تہانوی صاحب ایک صاحب کا رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: طہارت کے (پاک) ہونے کے دلائل بادلیل ہے. (بوادر النوادر ص ۲۹۳ طبع ادارہ الاسلامیات لاہور.)

یہاں ایک بات فائدہ سے خالی نہیں سمجھتا کے خون کے متعلق جو روایات آئی ہے اگرچہ اس میں ضعیف موجود ہے اگر تسلیم بہی ہو جیسا کہ ایک راوی کے مجہول ہونے پر, سیوطی نے بوصیری نے ابن حبان نے حاکم نے الختارہ وغیرہ میں اسکی تصحیح کی گی ہے., مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ خون پینا جائز ہو گیا بہرحال سیوطی بوصیری ابن حبان حاکم وغیرہ متساہل ہیں اور ہیثمی کا حوالہ مردود ہے. صالحی بہت بعد کے ہیں اس ہی لئے تو ابن حجر نے کہا تہا کے یہ مشہور بالعلم نہیں ہے.

بہرحال اگر یہ ثابت بہی ہو تو یہ ثابت نہیں ہوتا کہ خون نجس نہیں.

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں