مردوں سے وسیلہ پکڑنے والی حدیث "اے اللہ کے بندو میری مدد کرو” ضعیف ہے ۔
مقبول احمد سلفی
مردے زندوں کی کچھ بھی مدد نہیں کرسکتے ہیں بلکہ وہ خود زندوں کے محتاج ہیں تاکہ انہیں دعاواستغفار اورصدقہ وخیرات کے ذریعہ فائدہ پہنچائے۔ اس قسم کے گھڑے ہوئے واقعات صوفی حضرات پیش بھی کرتے ہیں کہ جب کوئی زندہ، مردوں کی قبر پر جاتا ہے تو مردے زندوں کو ایسے دیکھتے ہیں جیسے جنموں کا پیاسا پانی کی طرف دیکھتا ہے تاکہ کچھ ایصال ثواب کردے اور مردوں کو راحت نصیب ہو ۔اس بات پر کہ مردوں کو ہم نہیں سنا سکتے، وہ ہمارے کچھ بھی مدد نہیں کرسکتے، وہ کسی کے نفع ونقصان کا ذرہ برابر اختیار نہیں رکھتے قرآن کے بے شمار دلائل ہیں اور اسی طرح احادیث سے بھی ثابت ہے مگر قبر کے پجاری جنہیں قبر کی کمائی کھانی ہے اور اسی سے پشتوں کی پرورش بھی کرنی ہے وہ کب مانیں گے ۔اس لئے قرآن وحدیث کے نصوص کو توڑ مروڑ کرپیش کرتے ہیں اور زبردستی مردوں سے وسیلہ پکڑنا بلکہ مردوں سے استغاثہ کرنا ثابت کرنے کی ناروا کوشش کرتے ہیں اور خود تو بھٹکے ہوئے ہیں ہی سیدھی سادی عوام کو بھی صحیح راہ سے بھٹکاتے ہیں ۔ اگر عوام کو نہ بھٹکائیں تو ان کی کمائی کہاں سے ہوگی ؟ معاذ اللہ
مردوں سے مدد طلب کرنے سے متعلق صوفی اور قبوری حضرات بہت سارے دلائل پیش کرتے ہیں ،ان میں بعض تو گھڑی ہوئی ہیں ، بعض ضعیف احادیث ہیں جن سے استدلال نہیں کیاجاسکتا اور بعض دلائل کو ان کے اصل معنی ومفہوم سے ہٹاکر غلط سلط حجت پکڑی جاتی ہے ۔ یہاں میرا مقصود ایک دلیل کی وضاحت ہے جس کا قبوری بڑے زور وشور سے ڈنکا بجاتے ہیں اور مردوں سے امداد طلب کرنے پر بطور برہان وحجت پیش کرتے ہیں ۔
وہ روایت سند کے ساتھ اس طرح ہے جسے طبرانی نے ذکر کیا ہے ۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَائِلَةَ الْأَصْبَهَانِيُّ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ عُمَرَ بْنِ شَقِيقٍ، ثنا مَعْرُوفُ بْنُ حَسَّانَ السَّمَرْقَنْدِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِذَا انْفَلَتَتْ دَابَّةُ أَحَدِكُمْ بِأَرْضِ فَلَاةٍ فَلْيُنَادِ: يَا عِبَادَ اللهِ، احْبِسُوا عَلَيَّ، يَا عِبَادَ اللهِ احْبِسُوا عَلَيَّ؛ فَإِنَّ لِلَّهِ فِي الْأَرْضِ حَاضِرًا سَيَحْبِسُهُ عَلَيْكُمْ "(رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ في المعجم الكبير)
ترجمہ: حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کی سواری بیاباں میں چھوٹ جائے تو اس (شخص) کو (یہ) پکارنا چاہیے , اے اﷲ کے بندو! میری سواری پکڑا دو، اے اﷲ کے بندو! میری سواری پکڑا دو کیونکہ اﷲ تعالیٰ کے بہت سے (ایسے) بندے اس زمین میں ہوتے ہیں، وہ تمہیں (تمہاری سواری) پکڑا دیں گے۔
روایت کا حکم : یہ روایت طبرانی کے علاوہ دیگر اور کتب میں مذکور ہے جو سب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ کے طریق سے ہے ،ہیثمی نے اس روایت پر کلام کرتے ہوئے کہا کہ اس کی سند میں معروف بن حسان ضعیف ہے ۔(مجمع الزوائد:10/1355)۔ایک دوسری علت یہ ہے کہ قتادہ مدلس راوی ہیں جو عن سے روایت کرتے ہیں ۔ تیسری علت حافظ ابن حجر ؒ نے بیان کی وہ ابن بریدہ اور ابن مسعود کے درمیان انقطاع کا ذکر کرتے ہیں ،اس وجہ سے ان کے نزدیک یہ روایت ضعیف ہے ۔(شرح الاذکار:5/1500)۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث پر ضعف کا حکم لگا یا ہے ۔( دیکھیں :السلسلۃ الضعیفہ:655، ضعیف الجامع:404، الکلم الطیب :178)
اس حدیث کی ایک شاہد حدیث بھی ہے جسے دلیل کے طور پر صوفی پیش کرتے ہیں ، آئیے اس حدیث کو بھی دیکھتے ہیں ۔ اس حدیث کو بھی امام طبرانی نے معجم کبیر میں ذکر کیا ہے جسے مع سند پیش کرتا ہوں ۔
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْحَاقَ التُّسْتَرِيُّ، ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى الصُّوفِيُّ، ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عِيسَى، عَنْ زَيْدِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ عُتْبَةَ بْنِ غَزْوَانَ، عَنْ نَبِيِّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” إِذَا أَضَلَّ أَحَدُكُمْ شَيْئًا أَوْ أَرَادَ أَحَدُكُمْ عَوْنًا وَهُوَ بِأَرْضٍ لَيْسَ بِهَا أَنِيسٌ، فَلْيَقُلْ: يَا عِبَادَ اللهِ أَغِيثُونِي، يَا عِبَادَ اللهِ أَغِيثُونِي، فَإِنَّ لِلَّهِ عِبَادًا لَا نَرَاهُمْ ” وَقَدْ جُرِّبَ ذَلِكَ(رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ في المعجم الكبير)
ترجمہ: حضرت عتبہ بن عزوان رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کی کوئی چیز گم ہو جائے اور وہ کوئی مدد چاہے اور وہ ایسی جگہ ہو کہ جہاں اس کا کوئی مدد گار بھی نہ ہو تو اسے چاہیے کہ کہے : اے اﷲ کے بندو! میری مدد کرو، اے اﷲ کے بندو! میری مدد کرو، یقینًا اﷲ تعالیٰ کے ایسے بھی بندے ہیں جنہیں ہم دیکھ تو نہیں سکتے (لیکن وہ لوگوں کی مدد کرنے پر مامور ہیں) اور یہ تجربہ شدہ بات ہے۔
روایت کا حکم : اس روایت میں بھی کئی علتیں ہیں جس کے سبب یہ بھی ضعیف ہے ۔
پہلی علت : عبدالرحمن بن سہل ضعیف راوی ہے۔
دوسری علت : عبدالرحمن بن سہل کے باپ شریک بن عبداللہ نخعی کے حفظ وضبط پر کلام ہے ۔
تیسری علت : زید بن علی اور عتبہ بن غزوان کے درمیان انقطاع پایا جاتا ہے جیساکہ حافظ ابن حجر ؒ نے ذکر کیا ہے ۔
اس لئے یہ روایت ضعیف ہے ، اسے شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی ضعیف کہا ہے ۔ ( دیکھیں : السلسلۃ الضعیفہ : 656، ضعیف الجامع :383)
ان دونوں روایتوں کی حقیقت سامنے آگئی اب اس کو مدنظر رکھتے ہوئے نیچے چند باتیں ملاحظہ فرمائیں ۔
اولا: یہ دونوں روایتیں ضعیف ہیں ،ان روایتوں سے قطعی دلیل نہیں پکڑی جائے گی اس لئے مردوں پہ فٹ کرنا اور ان سے وسیلہ کے لئے حجت بنانا بالکل صحیح نہیں ہے ۔
ثانیا: دوسری روایت کے آخری الفاظ ہیں "وَقَدْ جُرِّبَ ذَلِكَ” یعنی یہ تجربہ شدہ بات ہے جیساکہ تجربے والی بات امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی طرف بھی منسوب ہے تو یہاں یہ بات واضح رہے کہ اسلام میں کوئی بات تجربے کی وجہ سے ثابت نہیں ہوتی اور محض کسی کا تجربہ دین میں دلیل نہیں ہوگی ، دلیل وہی ہے جو شارع علیہ السلام کی طرف سے آئی ہے ۔
ثالثا: اگر تھوڑی دیر کے لئے بحث کے طور پر نہ کہ استناد وحجت کے طور پر ان کو صحیح مان بھی لیا جائے تو یہاں جن کا پکارنا ہے وہ فرشتے ہیں نہ کہ جن، انسان یا ولی جیساکہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے بڑی جامع بات کہی ہے کہ حدیث میں عباد اللہ سےمراد بشر کے علاوہ مخلوق ہے جس پہ پہلی حدیث کے الفاظ ” فَإِنَّ لِلَّهِ فِي الْأَرْضِ حَاضِرًا سَيَحْبِسُهُ عَلَيْكُمْ” اوردوسری حدیث کے الفاظ " فَإِنَّ لِلَّهِ عِبَادًا لَا نَرَاهُمْ” دلالت کرتے ہیں ۔ یہ وصف فرشتے یا جن پر منطبق ہوتے ہیں اور چونکہ جن سے استعانت ممنوع ہےجس پہ واضح دلیل ہے ، بچ گیا فرشتے تو یہاں صرف فرشتے مراد ہیں( شیخ البانی ؒ کے کلام کا مفہوم ختم ہوا)
یہاں عباد اللہ سے فرشتوں کے علاوہ کسی اورکو مراد لے ہی نہیں سکتے ہیں ، یہ ماننا ہوگا کہ اللہ تعالی نے فرشتوں کواس کام پر مامور کررکھا ہے ، جب بیابان میں سامان گم ہونے والا مدد کے لئے اللہ کے بندے کو پکارتا ہے تو یہی فرشتے اللہ کے حکم سے مدد کرتے ہیں۔
جس قسم کی ضعیف حدیث سے بیابان میں غیراللہ سے امداد کی دلیل پکڑتے ہیں اس قسم کی ایک ضعیف روایت جو کہ مسند بزار میں ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ جنہیں پکارا جاتا ہے وہ فرشتے ہیں ۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ لِلَّهِ مَلائِكَةً فِي الأَرْضِ سِوَى الْحَفَظَةِ ، يَكْتُبُونَ مَا سَقَطَ مِنْ وَرَقِ الشَّجَرِ ، فَإِذَا أَصَابَ أَحَدَكُمْ عَرْجَةٌ بِأَرْضٍ فَلاةٍ فَلْيُنَادِ : أَعِينُوا عِبَادَ اللَّهِ(مسند البزار:4922)
ترجمہ: اللہ کے کچھ ملائکہ زمین میں محافظوں کے علاوہ ہیں جن کا کام درختوں سے گرنے والے پتوں کو لکھنا ہے چنانچہ جب تم میں سے کسی کو دورانِ سفر بیابان میں کوئی مصیبت آپڑے تو اسے چاہیئے کہ ندا کرے: اے اللہ کے بندو! میری مدد کرو۔
گوکہ یہ روایت بھی ضعیف ہونے کی وجہ سے قابل حجت نہیں ہے لیکن اس سے ایک بات توبالکل واضح ہوگئی اور اس میں اب کسی قسم کا اشکال نہ رہا کہ عباداللہ سے مراد فرشتے نہیں ہیں ۔
بیابانوں میں فرشتے کی تعیناتی تو ایک الگ مسئلہ ہے ، اس کے لئے تو کوئی حدیث ہی صحیح نہیں ہے یہاں تو صرف بطور بحث ضعیف احادیث کو مان کر بات سمجھانے کی کوشش کررہاہوں لیکن یہ بات تو صحیح ہے کہ اللہ تعالی نے بندوں کی نگہبانی اور ان کی حفاظت کے لئے فرشتوں کو متعین کررکھا ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ (الرعد: 11)
ترجمہ: اس کے پہریدار(فرشتے) انسان کے آگے پیچھے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم سے ان کی نگہبانی کرتے ہیں ۔
رابعا: بیابانوں کے ان فرشتوں کو ان چیزوں میں پکارا جائےگا جن چیزوں میں ایک زندہ بشر دوسرے زندہ بشر سے مدد مانگتا ہے مثلا مجھے بطور قرض چند روپئے دو، میرا سامان فلاں جگہ پہنچادو، میری فلاں چیز گم ہوگئی ہے اس کو تلاشنے میں میری مدد کرو۔وغیرہ تو فرشتوں کو بھی ایسے ہی کام پہ مدد کے لئے پکاریں گے اور حدیث میں بھی صراحت ہے کہ سامان گم ہونے پر ہمیں عباداللہ (فرشتے) کو مخاطب کرکے مدد کی پکار لگانی ہے ۔ اس کی مثال یوں سمجھ لیں کہ اپنے گھر میں میرا چشمہ گھو جائے تو میں اپنے بچوں ، بیوی اور گھروالوں کو چشمے کی تلاشی پر مدد کے لئے پکاروں گا ٹھیک یہی معاملہ حدیث میں بھی بیان کیا گیا ہے ۔
خامسا: کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ بیابانوں میں عام طورپر جنات رہاکرتے ہیں اس لئے یہاں عباد اللہ سے جنات مراد ہے۔ سلف کے نزدیک یہ مسئلہ بھی تقریبا متفقہ ہے کہ مدد کے لئے جنات کو پکارنا شرک ہے ۔ سعودی عرب کی علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی نے فتوی نمبر 433 میں کہا ہے :
جنوں سے مدد مانگنا اور ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے یا کسی کو نقصان یا فائدہ پہنچانے کی غرض سے ان کی پناہ ڈھونڈھنا عبادت میں شرک کرنا ہے، کیونکہ یہ جن سے فائدہ حاصل کرنے کے زمرے میں آتا ہے جیسے جن کا اس کے سوال کا جواب دینا اور اس کی ضرورت پوری کرنا اسی طرح انسان کی جانب سے جن کی تعظیم کرنے اور اس کا سہارا لینے نیز اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے اس کی مدد طلب کرنے سے جن کا مستفید ہونا لازم آتا ہے۔
ان باتوں کے استدلال کے لئے مندرجہ ذیل دلائل پیش کئے ہیں ۔ اللہ کا فرمان ہے :
وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُمْ مِنَ الْإِنْسِ ۖ وَقَالَ أَوْلِيَاؤُهُمْ مِنَ الْإِنْسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَبَلَغْنَا أَجَلَنَا الَّذِي أَجَّلْتَ لَنَا ۚ قَالَ النَّارُ مَثْوَاكُمْ خَالِدِينَ فِيهَا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۗ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ ، وَكَذَٰلِكَ نُوَلِّي بَعْضَ الظَّالِمِينَ بَعْضًا بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ( الانعام : 128-129)
ترجمہ: اور جس روزا للہ تعالی تمام خلائق کو جمع کرے گا ،(کہے گا) اے جماعت جنات کی ! تم نے انسانوں میں سے بہت سے اپنا لئے جو انسان ان کے ساتھ تعلق رکھنے والے تھے وہ کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! ہم میں ایک نے دوسرے سے فائدہ حاصل کیا تھا اور ہم اپنی اس معین میعاد تک آپہنچے جو تونے ہمارے لئے معین فرمائی ، اللہ فرمائے گا کہ تم سب کا ٹھکانہ دوزخ ہے جس میں ہمیشہ رہوگے ، ہاں اگر اللہ ہی کو منظور ہوتو دوسری بات ہے۔ بے شک آپ کا رب بڑی حکمت والا بڑا علم والا ہے اور اسی طرح ہم بعض کفار کو بعض کے قریب رکھیں گے ان کے اعمال کے سبب۔
اللہ کا فرمان ہے :
وَأَنَّهُ كَانَ رِجَالٌ مِنَ الإِنْسِ يَعُوذُونَ بِرِجَالٍ مِنَ الْجِنِّ فَزَادُوهُمْ رَهَقًا (الجن :6)
ترجمہ:بات یہ ہے کہ چند انسان بعض جنات سے پناہ طلب کیا کرتے تھے جس سے جنات اپنی سرگشی میں اور بڑھ گئے ۔
اس فتوی سے بات واضح ہوگئی کہ یہاں عباداللہ سے جنات مراد نہیں کیونکہ جنات سے مدد طلب کرنے کی صریح ممانعت ہے ۔
سادسا: ان ضعیف احادیث کو بنیاد بناکر قبوری حضرات وفات یافتہ ولیوں اور مردوں لوگوں کو پکارتے ہیں جبکہ حدیث ہی سرے سے قابل حجت نہیں ہے ۔ میں نے کہا کہ اگر بفرض محال مان بھی لیا جائے تو اس سے غیراللہ (جن وانس)کو پکارنے پر حجت پکڑنا کسی بھی طرح صحیح نہیں ہے کیونکہ قرآن وحدیث میں غیراللہ کو پکارنے سے منع کیا گیا اور یہ سراسر شرک ہے ، صرف اور صرف اللہ تعالی کوہی پکارا جائے گا۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَلَا تَدْعُ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ فَإِنْ فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِنَ الظَّالِمِينَ (یونس:106)
ترجمہ: اور تم اللہ کو چھوڑ کر کسی کو مت پکارو جو تمھارا بھلا کرسکے نہ نقصان، اگر تم نے ایسا کیا تو تم ظالموں (یعنی مشرکوں)میں سے ہو جاؤ گے۔
اللہ کا فرمان ہے:
وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ مَنْ لَا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ (الاحقاف:5)
ترجمہ: اور اس سے زیادہ گمراہ کون ہوگا جو اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکارے جو قیامت تک (اس کی پکار سن کر)اسے جواب نہیں دے سکتے اور وہ ان کی پکار سے غافل اور بے خبر ہیں۔
اللہ کا فرمان ہے :
وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ (فاطر:22)
ترجمہ: اور تم ان کو جو قبروں میں مدفون ہیں نہیں سنا سکتے ۔
اللہ کا فرمان ہے :
فَإِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَىٰ وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ (روم : 52)
ترجمہ: بیشک آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں کو (اپنی) آواز سنا سکتے ہیںجب کہ وہ پیٹھ پھیر کر مڑ گئے ہوں۔
یہ ساری آیات بین ثبوت ہیں کہ مردے نہ تو ہماری بات سنتے ہیں اور نہ ہی ہم انہیں سناسکتے ہیں بلکہ قیامت تک ہماری پکار سے غافل ہیں ،اگر سن بھی لیں تو وہ نفع ونقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے لہذا معلوم یہ ہواکہ صرف اللہ کو ہی پکارا جائے گا۔
آخر میں ایک بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں کہ کیرالہ اور کرناٹک وغیرہ میں مذکورہ بالا حدیث کو لیکر سلفیوں کے درمیان بھی یہ مسئلہ نزاع کا باعث بناہواہے جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا ۔ جب حدیث ہی سرے سے قابل استناد نہیں تو بات ہی ختم اور اگر اسلاف میں سے کسی نے اس حدیث پر عمل بھی کیا ہوتو انہوں نے نہ تو جن سے مدد طلب کی اور نہ ہی ولیوں اور قبر والوں کو پکارا بلکہ انہوں نے ویسے ہی پکارا جیسے پکارنے کا حدیث میں حکم ملا ہے اور وہ ہے فرشتوں کو پکارنا جیساکہ میں نے وہ حدیث بھی پیش کردی جس میں فرشتوں کی جماعت کا ذکر ہے ۔