[quote arrow=”yes”]
1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]
2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
[/quote]
حدیث اعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”artash”]
حدیث نمبر325:
الخط میں بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”arnotash”]
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”urnotash”]
325 ـ حدثنا احمد بن ابی رجاء، قال حدثنا ابو اسامۃ، قال سمعت ہشام بن عروۃ، قال اخبرنی ابی، عن عایشۃ،. ان فاطمۃ بنت ابی حبیش، سالت النبی صلى اللہ علیہ وسلم قالت انی استحاض فلا اطہر، افادع الصلاۃ فقال ” لا، ان ذلک عرق، ولکن دعی الصلاۃ قدر الایام التی کنت تحیضین فیہا، ثم اغتسلی وصلی ”.
ا اردو ترجمہ: ⇪ [sta_anchor id=”urdtrjuma”]
حدیث کی اردو تشریح: ⇪ [sta_anchor id=”urdtashree”]
تشریح : آیت کریمہ ولایحل لہن ان یکتمن ماخلق اللہ فی ارحامہن ( البقرۃ: 228 ) کی تفسیر میں زہری اور مجاہد نے کہا کہ عورتوں کواپنا حیض یاحمل چھپانا درست نہیں، ان کو چاہئیے کہ حقیقت حال کو صحیح صحیح بیان کردیں۔ اب اگران کا بیان ماننے کے لائق نہ ہو تو بیان سے کیا فائدہ۔ اس طرح حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت سے باب کا مطلب نکالا ہے۔ ہوا یہ تھا کہ قاضی شریح کے سامنے ایک مقدمہ آیا۔ جس میں طلاق پر ایک ماہ کی مدت گزر چکی تھی۔ خاوند رجوع کرنا چاہتا تھا۔ لیکن عورت کہتی تھی کہ میری عدت گزر گئی اور ایک ہی ماہ میں تین حیض آگئے ہیں۔ تب قاضی شریح نے یہ فیصلہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے سنایا، اس کو دارمی نے سند صحیح کے ساتھ موصولاً روایت کیا ہے۔ قاضی شریح کے فیصلہ کو سن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ تم نے اچھا فیصلہ کیا ہے۔
اس واقعہ کو اسی حوالہ سے امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی کتاب جلد1،ص: 295 پر ذکر فرمایا ہے۔ قاضی شریح بن حرث کوفی ہیں۔ جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا مگر آپ سے ان کو ملاقات نصیب نہ ہوسکی۔ قضاۃ میں ان کا مقام بہت بلند ہے۔
حیض کی مدت کم سے کم ایک دن زیادہ سے زیادہ پندرہ دن تک ہے۔ حنفیہ کے نزدیک حیض کی مدت کم سے کم تین دن اور زیادہ سے زیادہ دس دن ہیں۔ مگر اس بارے میں ان کے دلائق قوی نہیں ہیں۔صحیح مذہب اہل حدیث کا ہے کہ حیض کی کوئی مدت معین نہیں۔ ہر عورت کی عادت پر اس کا انحصارہے اگرمعین بھی کریں توچھ یا سات روز اکثر مدت معین ہوگی جیسا کہ صحیح حدیث میں مذکور ہے۔
ایک مہینہ میں عورت کو تین بارحیض نہیں آیا کرتا، تندرست عورت کو ہر ماہ صرف چندایام کے لیے ایک ہی بار حیض آتا ہے، لیکن اگر کبھی شاذ و نادر ایسا ہوجائے اور عورت خود اقرار کرے کہ اس کو تین بار ایک ہی مہینہ میں حیض آیا ہے تواس کا بیان تسلیم کیا جائے گا۔ جس طرح استحاضہ کے متعلق عورت ہی کے بیان پر فتویٰ دیا جائے گا کہ کتنے دن وہ حالت حیض میں رہتی ہے اور کتنے دن اس کو استحاضہ کی حالت رہتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش ہی کے بیان پر ان کو مسائل متعلقہ تعلیم فرمائے۔
علامہ قسطلانی فرماتے ہیں: ومناسبۃ الحدیث للترجمۃ فی قولہ قدرالایام التی کنت تحیضین فیہا فیوکل ذلک الی امانتہا وردہا الی عادتہا یعنی حدیث اور باب میں مناسبت حدیث کے اس جملہ میں ہے کہ نماز چھوڑدو ان دنوں کے اندازہ پر جن میں تم کو حیض آتا رہا ہے۔ پس اس معاملہ کو اس کی امانت داری پر چھوڑدیا جائے گا۔
English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] ⇪