Search

صحیح بخاری – حدیث نمبر 6982

صحیح بخاری – حدیث نمبر 6982

خواب کی تعبیر کا بیان، اور یہ کہ رسول اللہ ﷺ پر سب سے پہلے وحی کی ابتداء رؤیائے صالحہ (اچھے اچھے خواب) کے ذریعے ہوئی

حدیث نمبر: 6982
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ. وَحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ قَالَ الزُّهْرِيُّ فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّادِقَةُ فِي النَّوْمِ، فَكَانَ لاَ يَرَى رُؤْيَا إِلاَّ جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ، فَكَانَ يَأْتِي حِرَاءً فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ- وَهْوَ التَّعَبُّدُ- اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ، وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِكَ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى خَدِيجَةَ فَتُزَوِّدُهُ لِمِثْلِهَا، حَتَّى فَجِئَهُ الْحَقُّ وَهْوَ فِي غَارِ حِرَاءٍ فَجَاءَهُ الْمَلَكُ فِيهِ فَقَالَ اقْرَأْ. فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي. فَقَالَ اقْرَأْ. فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ. فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ. فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ. فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدُ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ. حَتَّى بَلَغَ: ‏‏‏‏مَا لَمْ يَعْلَمْ‏‏‏‏ فَرَجَعَ بِهَا تَرْجُفُ بَوَادِرُهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ فَقَالَ: زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي. فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ فَقَالَ: يَا خَدِيجَةُ مَا لِي. وَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ وَقَالَ: قَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي. فَقَالَتْ لَهُ كَلاَّ أَبْشِرْ، فَوَاللَّهِ لاَ يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَصْدُقُ الْحَدِيثَ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ. ثُمَّ انْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّى أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قُصَيٍّ- وَهْوَ ابْنُ عَمِّ خَدِيجَةَ أَخُو أَبِيهَا، وَكَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ يَكْتُبُ الْكِتَابَ الْعَرَبِيَّ فَيَكْتُبُ بِالْعَرَبِيَّةِ مِنَ الإِنْجِيلِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكْتُبَ، وَكَانَ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ عَمِيَ- فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ أَيِ ابْنَ عَمِّ اسْمَعْ مِنِ ابْنِ أَخِيكَ. فَقَالَ وَرَقَةُ ابْنَ أَخِي مَاذَا تَرَى فَأَخْبَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا رَأَى فَقَالَ وَرَقَةُ هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَى مُوسَى، يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا أَكُونُ حَيًّا، حِينَ يُخْرِجُكَ قَوْمُكَ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوَمُخْرِجِيَّ هُمْ. فَقَالَ وَرَقَةُ نَعَمْ، لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمَا جِئْتَ بِهِ إِلاَّ عُودِيَ، وَإِنْ يُدْرِكْنِي يَوْمُكَ أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا. ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّيَ، وَفَتَرَ الْوَحْيُ فَتْرَةً حَتَّى حَزِنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا بَلَغَنَا حُزْنًا غَدَا مِنْهُ مِرَارًا كَيْ يَتَرَدَّى مِنْ رُءُوسِ شَوَاهِقِ الْجِبَالِ، فَكُلَّمَا أَوْفَى بِذِرْوَةِ جَبَلٍ لِكَيْ يُلْقِيَ مِنْهُ نَفْسَهُ، تَبَدَّى لَهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ حَقًّا. فَيَسْكُنُ لِذَلِكَ جَأْشُهُ وَتَقِرُّ نَفْسُهُ فَيَرْجِعُ، فَإِذَا طَالَتْ عَلَيْهِ فَتْرَةُ الْوَحْيِ غَدَا لِمِثْلِ ذَلِكَ، فَإِذَا أَوْفَى بِذِرْوَةِ جَبَلٍ تَبَدَّى لَهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ. قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: ‏‏‏‏فَالِقُ الإِصْبَاحِ‏‏‏‏ ضَوْءُ الشَّمْسِ بِالنَّهَارِ، وَضَوْءُ الْقَمَرِ بِاللَّيْلِ.

حدیث کی عربی عبارت (بغیر اعراب)

حدیث نمبر: 6982
حدثنا يحيى بن بكير حدثنا الليث عن عقيل عن ابن شهاب. وحدثني عبد الله بن محمد حدثنا عبد الرزاق حدثنا معمر قال الزهري فأخبرني عروة عن عائشة رضي الله عنها أنها قالت أول ما بدئ به رسول الله صلى الله عليه وسلم من الوحي الرؤيا الصادقة في النوم، فكان لا يرى رؤيا إلا جاءت مثل فلق الصبح، فكان يأتي حراء فيتحنث فيه- وهو التعبد- الليالي ذوات العدد، ويتزود لذلك ثم يرجع إلى خديجة فتزوده لمثلها، حتى فجئه الحق وهو في غار حراء فجاءه الملك فيه فقال اقرأ. فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: فقلت ما أنا بقارئ فأخذني فغطني حتى بلغ مني الجهد ثم أرسلني. فقال اقرأ. فقلت ما أنا بقارئ. فأخذني فغطني الثانية حتى بلغ مني الجهد، ثم أرسلني فقال اقرأ. فقلت ما أنا بقارئ. فغطني الثالثة حتى بلغ مني الجهد، ثم أرسلني فقال اقرأ باسم ربك الذي خلق. حتى بلغ: ‏‏‏‏ما لم يعلم‏‏‏‏ فرجع بها ترجف بوادره حتى دخل على خديجة فقال: زملوني زملوني. فزملوه حتى ذهب عنه الروع فقال: يا خديجة ما لي. وأخبرها الخبر وقال: قد خشيت على نفسي. فقالت له كلا أبشر، فوالله لا يخزيك الله أبدا، إنك لتصل الرحم، وتصدق الحديث، وتحمل الكل، وتقري الضيف، وتعين على نوائب الحق. ثم انطلقت به خديجة حتى أتت به ورقة بن نوفل بن أسد بن عبد العزى بن قصي- وهو ابن عم خديجة أخو أبيها، وكان امرأ تنصر في الجاهلية، وكان يكتب الكتاب العربي فيكتب بالعربية من الإنجيل ما شاء الله أن يكتب، وكان شيخا كبيرا قد عمي- فقالت له خديجة أي ابن عم اسمع من ابن أخيك. فقال ورقة ابن أخي ماذا ترى فأخبره النبي صلى الله عليه وسلم ما رأى فقال ورقة هذا الناموس الذي أنزل على موسى، يا ليتني فيها جذعا أكون حيا، حين يخرجك قومك. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أومخرجي هم. فقال ورقة نعم، لم يأت رجل قط بما جئت به إلا عودي، وإن يدركني يومك أنصرك نصرا مؤزرا. ثم لم ينشب ورقة أن توفي، وفتر الوحي فترة حتى حزن النبي صلى الله عليه وسلم فيما بلغنا حزنا غدا منه مرارا كي يتردى من رءوس شواهق الجبال، فكلما أوفى بذروة جبل لكي يلقي منه نفسه، تبدى له جبريل فقال يا محمد إنك رسول الله حقا. فيسكن لذلك جأشه وتقر نفسه فيرجع، فإذا طالت عليه فترة الوحي غدا لمثل ذلك، فإذا أوفى بذروة جبل تبدى له جبريل فقال له مثل ذلك. قال ابن عباس: ‏‏‏‏فالق الإصباح‏‏‏‏ ضوء الشمس بالنهار، وضوء القمر بالليل.

حدیث کی عربی عبارت (مکمل اردو حروف تہجی میں)

حدیث نمبر: 6982
حدثنا یحیى بن بکیر حدثنا اللیث عن عقیل عن ابن شہاب. وحدثنی عبد اللہ بن محمد حدثنا عبد الرزاق حدثنا معمر قال الزہری فاخبرنی عروۃ عن عائشۃ رضی اللہ عنہا انہا قالت اول ما بدئ بہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم من الوحی الرویا الصادقۃ فی النوم، فکان لا یرى رویا الا جاءت مثل فلق الصبح، فکان یاتی حراء فیتحنث فیہ- وہو التعبد- اللیالی ذوات العدد، ویتزود لذلک ثم یرجع الى خدیجۃ فتزودہ لمثلہا، حتى فجئہ الحق وہو فی غار حراء فجاءہ الملک فیہ فقال اقرا. فقال لہ النبی صلى اللہ علیہ وسلم: فقلت ما انا بقارئ فاخذنی فغطنی حتى بلغ منی الجہد ثم ارسلنی. فقال اقرا. فقلت ما انا بقارئ. فاخذنی فغطنی الثانیۃ حتى بلغ منی الجہد، ثم ارسلنی فقال اقرا. فقلت ما انا بقارئ. فغطنی الثالثۃ حتى بلغ منی الجہد، ثم ارسلنی فقال اقرا باسم ربک الذی خلق. حتى بلغ: ‏‏‏‏ما لم یعلم‏‏‏‏ فرجع بہا ترجف بوادرہ حتى دخل على خدیجۃ فقال: زملونی زملونی. فزملوہ حتى ذہب عنہ الروع فقال: یا خدیجۃ ما لی. واخبرہا الخبر وقال: قد خشیت على نفسی. فقالت لہ کلا ابشر، فواللہ لا یخزیک اللہ ابدا، انک لتصل الرحم، وتصدق الحدیث، وتحمل الکل، وتقری الضیف، وتعین على نوائب الحق. ثم انطلقت بہ خدیجۃ حتى اتت بہ ورقۃ بن نوفل بن اسد بن عبد العزى بن قصی- وہو ابن عم خدیجۃ اخو ابیہا، وکان امرا تنصر فی الجاہلیۃ، وکان یکتب الکتاب العربی فیکتب بالعربیۃ من الانجیل ما شاء اللہ ان یکتب، وکان شیخا کبیرا قد عمی- فقالت لہ خدیجۃ ای ابن عم اسمع من ابن اخیک. فقال ورقۃ ابن اخی ماذا ترى فاخبرہ النبی صلى اللہ علیہ وسلم ما راى فقال ورقۃ ہذا الناموس الذی انزل على موسى، یا لیتنی فیہا جذعا اکون حیا، حین یخرجک قومک. فقال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم: اومخرجی ہم. فقال ورقۃ نعم، لم یات رجل قط بما جئت بہ الا عودی، وان یدرکنی یومک انصرک نصرا موزرا. ثم لم ینشب ورقۃ ان توفی، وفتر الوحی فترۃ حتى حزن النبی صلى اللہ علیہ وسلم فیما بلغنا حزنا غدا منہ مرارا کی یتردى من رءوس شواہق الجبال، فکلما اوفى بذروۃ جبل لکی یلقی منہ نفسہ، تبدى لہ جبریل فقال یا محمد انک رسول اللہ حقا. فیسکن لذلک جاشہ وتقر نفسہ فیرجع، فاذا طالت علیہ فترۃ الوحی غدا لمثل ذلک، فاذا اوفى بذروۃ جبل تبدى لہ جبریل فقال لہ مثل ذلک. قال ابن عباس: ‏‏‏‏فالق الاصباح‏‏‏‏ ضوء الشمس بالنہار، وضوء القمر باللیل.

حدیث کا اردو ترجمہ

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ‘ ان سے عقیل بن خالد نے بیان کیا ‘ اور ان سے ابن شہاب نے بیان کیا (دوسری سند امام بخاری (رح) نے کہا) کہ مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا مجھ سے عبدالرزاق نے بیان کیا ‘ ان سے معمر نے بیان کیا ‘ ان سے زہری نے کہا کہ مجھے عروہ نے خبر دی اور ان سے عائشہ (رض) عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ پر وحی کی ابتداء سونے کی حالت میں سچے خواب کے ذریعہ ہوئی۔ چناچہ نبی کریم جو خواب بھی دیکھتے تو وہ صبح کی روشنی کی طرح سامنے آجاتا اور نبی کریم غار حرا میں چلے جاتے اور اس میں تنہا اللہ کی یاد کرتے تھے چند مقررہ دنوں کے لیے (یہاں آتے) اور ان دنوں کا توشہ بھی ساتھ لاتے۔ پھر خدیجہ (رض) کے پاس واپس تشریف لے جاتے اور وہ پھر اتنا ہی توشہ آپ کے ساتھ کر دیتیں یہاں تک کہ حق آپ کے پاس اچانک آگیا اور آپ غار حرا ہی میں تھے۔ چناچہ اس میں فرشتہ آپ کے پاس آیا اور کہا کہ پڑھیے۔ نبی کریم نے اس سے فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ آخر اس نے مجھے پکڑ لیا اور زور سے دابا اور خوب دابا جس کی وجہ سے مجھ کو بہت تکلیف ہوئی۔ پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھیے آپ نے پھر وہی جواب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس نے مجھے ایسا دابا کہ میں بےقابو ہوگیا یا انہوں نے اپنا زور ختم کردیا اور پھر چھوڑ کر اس نے مجھ سے کہا کہ پڑھیے اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ہے۔ الفاظ ما لم يعلم‏ تک۔ پھر جب آپ خدیجہ (رض) کے پاس آئے تو آپ کے مونڈھوں کے گوشت (ڈر کے مارے) پھڑک رہے تھے۔ جب گھر میں آپ داخل ہوئے تو فرمایا کہ مجھے چادر اڑھا دو ‘ مجھے چادر اڑھا دو ، چناچہ آپ کو چادر اڑھا دی گئی اور جب آپ کا خوف دور ہوگیا تو فرمایا کہ خدیجہ میرا حال کیا ہوگیا ہے ؟ پھر آپ نے اپنا سارا حال بیان کیا اور فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔ لیکن خدیجہ (رض) نے کہا اللہ کی قسم ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا، آپ خوش رہئیے اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں، بات سچی بولتے ہیں، ناداروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی وجہ سے پیش آنے والی مصیبتوں پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ پھر آپ کو خدیجہ (رض) ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی کے پاس لائیں جو خدیجہ (رض) کے والد خویلد کے بھائی کے بیٹے تھے۔ جو زمانہ جاہلیت میں عیسائی ہوگئے تھے اور عربی لکھ لیتے تھے اور وہ جتنا اللہ تعالیٰ چاہتا عربی میں انجیل کا ترجمہ لکھا کرتے تھے، وہ اس وقت بہت بوڑھے ہوگئے تھے اور بینائی بھی جاتی رہی تھی۔ ان سے خدیجہ (رض) نے کہا : بھائی ! اپنے بھتیجے کی بات سنو۔ ورقہ نے پوچھا : بھتیجے تم کیا دیکھتے ہو ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دیکھا تھا وہ سنایا تو ورقہ نے کہا کہ یہ تو وہی فرشتہ (جبرائیل علیہ السلام) ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) پر آیا تھا۔ کاش میں اس وقت جوان ہوتا جب تمہیں تمہاری قوم نکال دے گی اور زندہ رہتا نبی کریم نے پوچھا : کیا یہ مجھے نکالیں گے ؟ ورقہ نے کہا کہ ہاں۔ جب بھی کوئی نبی و رسول وہ پیغام لے کر آیا جسے لے کر آپ آئے ہیں تو اس کے ساتھ دشمنی کی گئی اور اگر میں نے تمہارے وہ دن پا لیے تو میں تمہاری بھرپور مدد کروں گا لیکن کچھ ہی دنوں بعد ورقہ کا انتقال ہوگیا اور وحی کا سلسلہ کٹ گیا اور نبی کریم کو اس کی وجہ سے اتنا غم تھا کہ آپ نے کئی مرتبہ پہاڑ کی بلند چوٹی سے اپنے آپ کو گرا دینا چاہا لیکن جب بھی آپ کسی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھے تاکہ اس پر سے اپنے آپ کو گرا دیں تو جبرائیل (علیہ السلام) آپ کے سامنے آگئے اور کہا کہ یا محمد ! آپ یقیناً اللہ کے رسول ہیں۔ اس سے نبی کریم کو سکون ہوتا اور آپ واپس آجاتے لیکن جب وحی زیادہ دنوں تک رکی رہی تو آپ نے ایک مرتبہ اور ایسا ارادہ کیا لیکن جب پہاڑ کی چوٹی پر چڑھے تو جبرائیل (علیہ السلام) سامنے آئے اور اسی طرح کی بات پھر کہی۔ ابن عباس (رض) نے کہا (سورۃ الانعام) میں لفظ ‏‏‏‏فالق الإصباح‏ سے مراد دن میں سورج کی روشنی اور رات میں چاند کی روشنی ہے۔

حدیث کا انگریزی ترجمہ (English Translation)

Narrated Aisha (RA) :
The commencement of the Divine Inspiration to Allahs Apostle ﷺ was in the form of good righteous (true) dreams in his sleep. He never had a dream but that it came true like bright day light. He used to go in seclusion (the cave of) Hira where he used to worship(Allah Alone) continuously for many (days) nights. He used to take with him the journey food for that (stay) and then come back to (his wife) Khadija (RA) to take his food like-wise again for another period to stay, till suddenly the Truth descended upon him while he was in the cave of Hira. The angel came to him in it and asked him to read. The Prophet ﷺ replied, "I do not know how to read.” (The Prophet ﷺ added), "The angel caught me (forcefully) and pressed me so hard that I could not bear it anymore. He then released me and again asked me to read, and I replied, "I do not know how to read,” whereupon he caught me again and pressed me a second time till I could not bear it anymore. He then released me and asked me again to read, but again I replied, "I do not know how to read (or, what shall I read?).” Thereupon he caught me for the third time and pressed me and then released me and said, "Read: In the Name of your Lord, Who has created (all that exists). Has created man from a clot. Read and Your Lord is Most Generous…up to….. ..that which he knew not.” (96.15)
Then Allahs Apostle ﷺ returned with the Inspiration, his neck muscles twitching with terror till he entered upon Khadija (RA) and said, "Cover me! Cover me!” They covered him till his fear was over and then he said, "O Khadija, what is wrong with me?” Then he told her everything that had happened and said, I fear that something may happen to me.” Khadija (RA) said, Never! But have the glad tidings, for by Allah, Allah will never disgrace you as you keep good reactions with your kith and kin, speak the truth, help the poor and the destitute, serve your guest generously and assist the deserving, calamity-afflicted ones.” Khadija (RA) then accompanied him to (her cousin) Waraqa bin Naufal bin Asad bin Abdul Uzza bin Qusai. Waraqa was the son of her paternal uncle, i.e., her fathers brother, who during the Pre-Islamic Period became a Christian and used to write the Arabic writing and used to write of the Gospels in Arabic as much as Allah wished him to write. He was an old man and had lost his eyesight. Khadija (RA) said to him, "O my cousin! Listen to the story of your nephew.” Waraqa asked, "O my nephew! What have you seen?” The Prophet ﷺ described whatever he had seen.
Waraqa said, "This is the same Namus (i.e., Gabriel (علیہ السلام), the Angel who keeps the secrets) whom Allah had sent to Moses (علیہ السلام). I wish I were young and could live up to the time when your people would turn you out.” Allahs Apostle ﷺ asked, "Will they turn me out?” Waraqa replied in the affirmative and said: "Never did a man come with something similar to what you have brought but was treated with hostility. If I should remain alive till the day when you will be turned out then I would support you strongly.” But after a few days Waraqa died and the Divine Inspiration was also paused for a while and the Prophet ﷺ became so sad as we have heard that he intended several times to throw himself from the tops of high mountains and every time he went up the top of a mountain in order to throw himself down, Gabriel (علیہ السلام) would appear before him and say, ” O Muhammad ﷺ ! You are indeed Allahs Apostle ﷺ in truth” whereupon his heart would become quiet and he would calm down and would return home. And whenever the period of the coming of the inspiration used to become long, he would do as before, but when he used to reach the top of a mountain, Gabriel (علیہ السلام) would appear before him and say to him what he had said before. (Ibn Abbas (RA) said regarding the meaning of: He it is that Cleaves the daybreak (from the darkness) (6.96) that Al-Asbah. means the light of the sun during the day and the light of the moon at night).

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں