دو باتیں بہت اہم ہیں
پہلی یہ کہ اگر آپ پانی کی ٹونٹی کو پتھر پر یوں کھولیں کی ایک ایک قطرہ گرتا رہے تو کچھ عرصے بعد ادھر گڑھا بننا شروع ہو جائے گا ۔۔۔انسانی دل تو بہت نازک ہے۔
دوسری بات ، مسلسل کسی شخص یا گروہ بارے منفی باتیں سن سن کر ایک وقت آتا ہے کہ مثبت بات جھوٹ لگتی ہے بھلے ہزار دلائل دیے جائیں ۔اور جھوٹ سچ بن جاتا ہے بھلے پاؤں کے نیچے زمیں بھی نہ ہو ۔
سیدہ ہند رضی اللہ تعالی عنہا اور بنی امیہ کا بالکل یہی معاملہ ہے ، ان کے حوالے سے اتنا جھوٹ بولا اور گھڑا گیا ہے کہ درست بات پر بھی لوگوں کی آنکھیں اس اندھے کی مانند چندھیا جاتی ہیں کہ جو مستقل اندھیرے میں رہا اور آنکھیں مل گئیں ۔ اب روشنی ملی تو آنکھیں ہی نہیں کھل رہیں ، سو اس نے روشنی کا ہی انکار کر دیا ۔
کم از کم پڑھے لکھے افراد کا رویہ جہالت آمیز نہیں ہونا چاہیے کہ معاشرے میں رائج باتیں سن سن کر تحقیق و دلیل سے منہ ہی موڑ لیا جائے ۔
سیدہ ہند بلاشبہ زمانہ قبل اسلام میں رسول اللہ کی مخالف تھیں ، ناقد تھیں ، لیکن جب اسلام قبول کیا تو دل و جان سے قبول کیا ۔ جس کی دلیل آپ کا وہ عمل ہے کہ جب جہاد میں سیدنا ابوسفیان کو کچھ کمزور دیکھا تو ان کو تنبیہ کی ۔۔۔
اس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ کیا وجہ ہے اسلام سے پہلے کے سب کے گناہ معاف ہو گئے لیکن آل ابو سفیان کے نہیں ۔۔۔۔۔۔
بطور مثال غزوہ احد میں مسلمانوں کی ہزیمت کی بڑی وجہ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کا پلٹ کر حملہ کرنا تھا ، گو اس میں گھاٹی پر کھڑے مجاہدین کی ایک مجتہدانہ غلطی تھی ، لیکن اس سے فائدہ اٹھاتے آپ واپس آئے اور مسلمانوں کی جیت کو کسی حد تک ناکامی میں بدل دیا اور نقصان کا یہ عالم تھا کہ خود رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دندان مبارک شہید ہوئے ، بہت سے صحابہ کرام بھی شہید ہوئے اور آپ کے چچا سیدنا حمزہ بھی شہادت سے سرفراز ہوئے ۔۔۔
لیکن !
اس شدید ترین نقصان پہنچانے اور شدید ترین ہی دشمنی کے مظاہرے کے باوجود جب جب سیدنا خالد بن ولید کے حالت ک، ف،ر کے دنوں کا ذکر آتا ہے تو ان کا اسی طور احترام کیا جاتا ہے جیسے بعد از قبول اسلام ان کا حق ہے ، اور جو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ جو رسول اللہ کو قتل کرنا چاہتے تھے آج ان کے ذکر کے بغیر تاریخ اسلام مکمل ہی نہیں ہوتی ۔
سیدنا عکرمہ بن ابی جہل کی جراتوں کے تذکرے زبان زبان پر ہیں ، وہ بھی اسلام دشمنی میں خاصے بڑھے ہوئے تھے
اس طرح کی بیسیوں مثالیں دی جا سکتی ہیں کہ وہ اصحاب رسول جو کبھی اسلام دشمنی میں حد سے بڑھے ہوئے تھے بعد از قبول اسلام خدمت اسلام میں بھی یونہی آگے آگے رہے ۔۔۔۔۔۔
لیکن
کیا وجہ ہے کہ سب کے گناہ اسلام قبول کر کے معاف ہو گئے اور اس خاندان کو آج بھی نوک خنجر اور زبان پر رکھا جاتا ہے ؟
اور مزید توجہ دیجیے ، کبھی کبھار اور بہ تکرار ایسے افراد کی طرف سے بھی یہ سب کچھ سامنے آتا ہے کہ جو حقیقتاً اس خاندان سے دلی محبت رکھتے ہیں ۔۔۔۔ بہت برس گزرے اس موضوع پر مضمون لکھا تھا کہ جس کا عنوان ہی یہی تھا کہ
” ابوسفیان آیا اور ابو سفیان گیا ”
موضوع تھا کہ جب ہم قبل از اسلام سیدنا ابوسفیان کا کوئی واقعہ بیان کرتے ہیں تو صیغہ واحد لکھتے ہیں جب کہ سیدنا خالد بن ولید کا جنگ احد میں پلٹ کر حملہ کرنے کا ذکر بھی اسی احترام سے کرتے ہیں کہ جو کسی بھی صحابی رسول کا حق ہے ؟
احباب !
یہ وہ پانی کا قطرہ قطرہ گرنا ہے کہ جس نے قلب و اذہان پر گڑھے کھود دیے ہیں ۔۔۔۔
اب آتے ہیں سیدہ ہند رضی اللہ تعالی عنہا کا جگر چبانا ، تو آپ پڑھے لکھے لوگ ہیں اور پڑھا لکھا انسان دلیل کا بندہ ہوتا ہے ۔۔۔۔۔بھلے کوئی بات صدیوں سے سنی اور سنائی جا رہی ہو لیکن اگر دلیل و برہان سے اسے غلط ثابت کر دیا جائے تو وہ ضد نہیں کرتا بلکہ سرتسلیم خم کرتا ہے ۔۔۔
سو احباب !
سیدہ ہند کا سیدنا حمزہ کا کلیجہ چبانا ہرگز کسی درست روایت سے ثابت نہیں ہے ، جو روایات سامنے آتی ہیں وہ ان میں کسی نہ کسی درجے کمزوری پائی جاتی ہے ۔
اسی طرح سیدنا ابوسفیان رضی اللہ تعالی عنہ کا جنگ احد کے روز مکے کو پلٹتے ہوئے بآواز بلند یہ اعلان کرنا کہ
” ہمارے کچھ لوگوں نے مثلہ کیا ہے‘ میں نے نہ اس کا حکم دیا ہے ،نہ ہی میں اسے برا سمجھتا ہوں“۔ (صحیح بخاری ‘ ج:۲)
یہی واضح کرتا ہے کہ یہ کام حالت جنگ کی اخلاقیات کی اس عرب جاہلانہ معاشرے کی رو سے بھی ایک ناقابلِ قبول اور مکروہ فعل تھا کہ جو مروج تو تھا اور لوگ کرتے بھی تھے لیکن اس حالت میں بھی سیدنا ابو سفیان رض کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ کہیں یہ مکروہ فعل ان کے نام یا حکم سے منسوب نہ ہو جائے ۔۔۔۔دراصل یہ اپنی ذاتی اخلاقی اقدار کی حفاظت کا سامان تھا جس کی آپ کو فکر تھی ۔۔۔۔
اب یہاں سؤال پیدا ہوتا ہے کہ سیدنا حمزہ کا مثلہ تو کیا گیا تو یہ کس نے کیا ؟
ظاہر ہے جس نے بھی کیا اس کو بنا ثبوت کے کیسے نامزد کیا جا سکتا ہے ، ایسی کسی بھی نامزدگی کے لیے مکمل ثبوت چاہئے ہوتا ہے ۔
اور آپ یہ بھی اپنے اذہان میں بٹھا لیجیے کہ سیدنا حمزہ کے قتل کا واقعہ جہاں جہاں بھی صحیح روایت کے ساتھ آتا ہے اس میں سیدہ ہند رضی اللہ تعالی عنہا کا کوئی تذکرہ نہیں ہے اور یہ بھی مکمل جھوٹ ہے کہ انہوں نے وحشی رض کو آپ کے قتل کا ٹاسک دیا تھا ۔
صحیح البخاری کی صحیح ترین روایت میں جناب وحشی خود بیان کرتے ہیں:
” بدر کی لڑائی میں حمزہ رضی اللہ عنہ نے طعیمہ بن عدی بن خیار کو قتل کیا تھا۔ میرے آقا جبیر بن مطعم نے مجھ سے کہا کہ اگر تم نے حمزہ رضی اللہ عنہ کو میرے چچا (طعیمہ) کے بدلے میں قتل کر دیا تو تم آزاد ہو جاؤ گے "
جب کہ ہمارے مشہور کیا گیا ہے کہ وحشی سیدہ ہند کے غلام تھے ۔۔۔۔جب کہ وہ سیدنا جبیر بن مطعم کے غلام تھے اور خود یہ جبیر واقعہ حدیبیہ کے بعد مسلمان ہو کر صحابی رسول ہوئے۔
دوسری طرف سیدہ ہند رضی اللہ تعالی عنہا کی اخلاقی بلندی کا یہ عالم تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے بیعت لی تو عہد نامہ میں جب ذکر آیا کہ توحید کے اقرار اور شرک سے انکار کے ساتھ زنا نہ کرنے کی شرط کا تو باقاعدہ حیرت سے سیدہ ہند نے پوچھا کہ بھلا کوئی آزاد عورت بھی زنا کرتی ہے ۔۔۔
بیعت کرنے کے بعد فرمایا:
”یا رسول اللہ! آج سے پہلے روئے زمین پر آپ سے زیادہ مجھے مبغوض کوئی نہ تھا اور آج آپ سے زیادہ محبوب کوئی نہیں“
جواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”وایضاً والذی نفسی بیدہ“
اس ذات کی قسم جن کے قبضہ میں میری جان ہے، میرا بھی یہی حال ہے ۔۔۔۔
اندازہ کیجیے کہ جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسی محبت سے جواب دیا کہ اللہ کی قسم اٹھا کر اپنی محبت کا اقرار کیا ۔۔۔
کیونکہ رشتے میں آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساس یعنی ماں تھیں ، ۔۔۔۔۔افسوس افسوس افسوس کہ رسول نے جن سے قسم کھا کر محبت کا اقرار کیا ان کے بارے میں جو بدلگام اٹھتا بدزبانی کرتا ہے اور ان شاءاللہ اپنے لیے جہنم کا سامان کرتا ہے ۔۔۔۔۔
اور ان سے سوال ہے کہ اگر بوقت بیعت وحشی رض کو کہا جا سکتا تھا کہ سامنے نہ آیا کرو کہ چچا یاد آ جاتے ہیں تو ” جگر چبانے والی خاتون سے قسم اٹھا کر محبت کا اظہار کیوں کیا گیا ؟
وحشی کا سیدنا حمزہ کو قتل کرنا جنگ کا حصہ تھا ، اس کے باوجود ان سے کہا گیا سامنے نہ آیا کرو کہ چچا یاد آ جاتا ہے ۔۔۔۔۔اور خالی چچا نہیں تھے بلکہ جگری یار تھے ، کسی حد تک ہم عمر کہ مکے کی گلیوں میں کھیلتے ہوئے بڑے ہوئے ، ابوجہل نے رسول سے بےہودگی کی تو جاکر کمان اس کے منہ پر ماری اور لہولہان کر دیا ۔۔۔۔
رسول اللہ کو آ کر بتایا کہ بھتیجے بدلہ لے آیا ہوں تو کہا میں تو تب راضی ہوں گا کہ اسلام قبول ہو ۔۔۔کلمہ پڑھا اور رسول کے دست و بازو ہو گئے۔ ۔۔۔
سب محبتیں ایسے زندہ تھیں کہ برسوں گزرے احد کی جنگ کی آگ ٹھنڈے ہوئے لیکن اس محبت کا الاؤ جل ہی رہا تھا اور فتح مکہ کے موقع پر بھی وحشی کو کہا سامنے نہ آنا کہ پرانی محبتیں یاد آ جاتی ہیں اور جب یاد آتی ہیں تو بے قرار کرتی ہیں ۔۔۔۔۔
اور کیا طرفہ تماشا کہ یار لوگ قصے گھڑتے ہیں کہ ہند نے جگر خواری کی اور رسول کہہ رہے ہیں۔۔۔۔
“وایضاً والذی نفسی بیدہ“
اس ذات کی قسم جن کے قبضہ میں میری جان ہے، میرا بھی یہی حال ہے ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ابوبکر قدوسی