Search

صحیح بخاری جلد اول :كتاب الأذان (اذان کا بیان) : حدیث:-679

كتاب الأذان
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
The Book of Adhan

46- بَابُ أَهْلُ الْعِلْمِ وَالْفَضْلِ أَحَقُّ بِالإِمَامَةِ:
باب: امامت کرانے کا سب سے زیادہ حقدار وہ ہے جو علم اور (عملی طور پر بھی) فضیلت والا ہو۔
(46) Chapter. The religious learned men are entitled to precedence in leading the Salat (prayers).
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، أَنَّهَا قَالَتْ : ” إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي مَرَضِهِ : مُرُوا أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ ، قَالَتْ عَائِشَةُ : قُلْتُ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ إِذَا قَامَ فِي مَقَامِكَ لَمْ يُسْمِعِ النَّاسَ مِنَ الْبُكَاءِ ، فَمُرْ عُمَرَ فَلْيُصَلِّ لِلنَّاسِ ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ : فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ قُولِي لَهُ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ إِذَا قَامَ فِي مَقَامِكَ لَمْ يُسْمِعِ النَّاسَ مِنَ الْبُكَاءِ فَمُرْ عُمَرَ فَلْيُصَلِّ لِلنَّاسِ ، فَفَعَلَتْ حَفْصَةُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَهْ إِنَّكُنَّ لَأَنْتُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ ، مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ لِلنَّاسِ ، فَقَالَتْ حَفْصَةُ لِعَائِشَةَ : مَا كُنْتُ لِأُصِيبَ مِنْكِ خَيْرًا ” .
حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ:        [sta_anchor id=”arnotash”] 
679 ـ حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة أم المؤمنين ـ رضى الله عنها ـ أنها قالت إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال في مرضه ‏”‏ مروا أبا بكر يصلي بالناس ‏”‏‏.‏ قالت عائشة قلت إن أبا بكر إذا قام في مقامك لم يسمع الناس من البكاء، فمر عمر فليصل للناس‏.‏ فقالت عائشة فقلت لحفصة قولي له إن أبا بكر إذا قام في مقامك لم يسمع الناس من البكاء، فمر عمر فليصل للناس‏.‏ ففعلت حفصة‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏”‏ مه، إنكن لأنتن صواحب يوسف، مروا أبا بكر فليصل للناس ‏”‏‏.‏ فقالت حفصة لعائشة ما كنت لأصيب منك خيرا‏.‏
‏‏الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:   [sta_anchor id=”urnotash”]
679 ـ حدثنا عبد اللہ بن یوسف، قال اخبرنا مالک، عن ہشام بن عروۃ، عن ابیہ، عن عایشۃ ام المومنین ـ رضى اللہ عنہا ـ انہا قالت ان رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم قال فی مرضہ ‏”‏ مروا ابا بکر یصلی بالناس ‏”‏‏.‏ قالت عایشۃ قلت ان ابا بکر اذا قام فی مقامک لم یسمع الناس من البکاء، فمر عمر فلیصل للناس‏.‏ فقالت عایشۃ فقلت لحفصۃ قولی لہ ان ابا بکر اذا قام فی مقامک لم یسمع الناس من البکاء، فمر عمر فلیصل للناس‏.‏ ففعلت حفصۃ‏.‏ فقال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ‏”‏ مہ، انکن لانتن صواحب یوسف، مروا ابا بکر فلیصل للناس ‏”‏‏.‏ فقالت حفصۃ لعایشۃ ما کنت لاصیب منک خیرا‏.‏
‏‏اردو ترجمہ:   [sta_anchor id=”urdtrjuma”]

´ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ نے ہشام بن عروہ سے خبر دی، انہوں نے اپنے باپ عروہ بن زبیر سے، انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے، انہوں نے کہا کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری میں فرمایا کہ ابوبکر (رضی اللہ عنہ) سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ ابوبکر آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو روتے روتے وہ (قرآن مجید) سنا نہ سکیں گے، اس لیے آپ عمر رضی اللہ عنہ سے کہئے کہ وہ نماز پڑھائیں۔ آپ فرماتی تھیں کہ میں نے حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ وہ بھی کہیں کہ اگر ابوبکر آپ کی جگہ کھڑے ہوئے تو روتے روتے لوگوں کو (قرآن) نہ سنا سکیں گے۔ اس لیے عمر رضی اللہ عنہ سے کہئے کہ وہ نماز پڑھائیں۔ حفصہ رضی اللہ عنہا (ام المؤمنین اور عمر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی) نے بھی اسی طرح کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خاموش رہو۔ تم صواحب یوسف کی طرح ہو۔ ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ پس حفصہ رضی اللہ عنہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا۔ بھلا مجھ کو کہیں تم سے بھلائی پہنچ سکتی ہے؟

 
حدیث کی اردو تشریح:   [sta_anchor id=”urdtashree”]
تشریح : اس واقعہ سے متعلق احادیث میں “ صواحب یوسف ” کا لفظ آتا ہے۔ صواحب صاحبۃ کی جمع ہے، لیکن یہاں مراد صرف زلیخا سے ہے۔ اسی طرح حدیث میں “ انتم ” کی ضمیر جمع کے لیے استعمال ہوتی ہے، لیکن یہاں بھی صرف ایک ذات عائشہ رضی اللہ عنہا کی مراد ہے۔ یعنی زلیخا نے عورتوں کے اعتراض کے سلسلے کو بند کرنے کے لیے انہیں بظاہر دعوت دی اور اعزاز و اکرام کیا، لیکن مقصد صرف یوسف علیہ السلام کو دکھانا تھا کہ تم مجھے کیا ملامت کرتی ہو بات ہی کچھ ایسی ہے کہ میں مجبور ہوں۔ جس طرح اس موقع پر زلیخا نے اپنے دل کی بات چھپائے رکھی تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی جن کی دلی تمنا یہی تھی کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھائیں۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مزید توثیق کے لیے ایک دوسرے عنوان سے بار بار پچھواتی تھیں۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے ابتداءمیں غالباً بات نہیں سمجھی ہوگی۔ اور بعد میں جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زور دیا۔ تو وہ بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مقصد سمجھ گئیں اور فرمایا کہ میں بھلا تم سے کبھی بھلائی کیوں دیکھنے لگی۔ ( تفہیم البخاری، ص:82پ:3 )
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا مطلب یہ تھا کہ آخر تم سوکن ہو، تو کیسی ہی سہی تم نے ایسی صلاح دی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مجھ پر خفا کرادیا۔ اس حدیث سے اہل دانش سمجھ سکتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قطعی طور پر یہ منظور نہ تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سوا اور کوئی امامت کرے اور باوجودیکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جیسی پیاری بیوی نے تین بار معروضہ پیش کیا۔ مگر آپ نے ایک نہ سنی۔
پس اگر حدیث القرطاس میں بھی آپ کا منشاءیہی ہوتا کہ خواہ مخواہ کتاب لکھی جائے تو آپ ضرور لکھوا دیتے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جھگڑے کے بعد آپ کئی دن زندہ رہے مگر دوبارہ کتاب لکھوانے کا حکم نہیں فرمایا۔ ( وحیدی ) 

English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] 

Narrated `Aisha: the mother of the believers: Allah’s Apostle in his illness said, "Tell Abu Bakr to lead the people in prayer.” I said to him, "If Abu Bakr stands in your place, the people would not hear him owing to his (excessive) weeping. So please order `Umar to lead the prayer.” `Aisha added I said to Hafsa, "Say to him: If Abu Bakr should lead the people in the prayer in your place, the people would not be able to hear him owing to his weeping; so please, order `Umar to lead the prayer.” Hafsa did so but Allah’s Apostle said, "Keep quiet! You are verily the Companions of Joseph. Tell Abu Bakr to lead the people in the prayer. ” Hafsa said to `Aisha, "I never got anything good from you.”

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں