1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]
2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
[/quote]
حدیث اعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”artash”]
حدیث نمبر:679
حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”arnotash”]
الخط میں بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”urnotash”]
679 ـ حدثنا عبد اللہ بن یوسف، قال اخبرنا مالک، عن ہشام بن عروۃ، عن ابیہ، عن عایشۃ ام المومنین ـ رضى اللہ عنہا ـ انہا قالت ان رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم قال فی مرضہ ” مروا ابا بکر یصلی بالناس ”. قالت عایشۃ قلت ان ابا بکر اذا قام فی مقامک لم یسمع الناس من البکاء، فمر عمر فلیصل للناس. فقالت عایشۃ فقلت لحفصۃ قولی لہ ان ابا بکر اذا قام فی مقامک لم یسمع الناس من البکاء، فمر عمر فلیصل للناس. ففعلت حفصۃ. فقال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ” مہ، انکن لانتن صواحب یوسف، مروا ابا بکر فلیصل للناس ”. فقالت حفصۃ لعایشۃ ما کنت لاصیب منک خیرا.
اردو ترجمہ: ⇪ [sta_anchor id=”urdtrjuma”]
حدیث کی اردو تشریح: ⇪ [sta_anchor id=”urdtashree”]
تشریح : اس واقعہ سے متعلق احادیث میں “ صواحب یوسف ” کا لفظ آتا ہے۔ صواحب صاحبۃ کی جمع ہے، لیکن یہاں مراد صرف زلیخا سے ہے۔ اسی طرح حدیث میں “ انتم ” کی ضمیر جمع کے لیے استعمال ہوتی ہے، لیکن یہاں بھی صرف ایک ذات عائشہ رضی اللہ عنہا کی مراد ہے۔ یعنی زلیخا نے عورتوں کے اعتراض کے سلسلے کو بند کرنے کے لیے انہیں بظاہر دعوت دی اور اعزاز و اکرام کیا، لیکن مقصد صرف یوسف علیہ السلام کو دکھانا تھا کہ تم مجھے کیا ملامت کرتی ہو بات ہی کچھ ایسی ہے کہ میں مجبور ہوں۔ جس طرح اس موقع پر زلیخا نے اپنے دل کی بات چھپائے رکھی تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی جن کی دلی تمنا یہی تھی کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھائیں۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مزید توثیق کے لیے ایک دوسرے عنوان سے بار بار پچھواتی تھیں۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے ابتداءمیں غالباً بات نہیں سمجھی ہوگی۔ اور بعد میں جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زور دیا۔ تو وہ بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مقصد سمجھ گئیں اور فرمایا کہ میں بھلا تم سے کبھی بھلائی کیوں دیکھنے لگی۔ ( تفہیم البخاری، ص:82پ:3 )
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا مطلب یہ تھا کہ آخر تم سوکن ہو، تو کیسی ہی سہی تم نے ایسی صلاح دی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مجھ پر خفا کرادیا۔ اس حدیث سے اہل دانش سمجھ سکتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قطعی طور پر یہ منظور نہ تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سوا اور کوئی امامت کرے اور باوجودیکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جیسی پیاری بیوی نے تین بار معروضہ پیش کیا۔ مگر آپ نے ایک نہ سنی۔
پس اگر حدیث القرطاس میں بھی آپ کا منشاءیہی ہوتا کہ خواہ مخواہ کتاب لکھی جائے تو آپ ضرور لکھوا دیتے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جھگڑے کے بعد آپ کئی دن زندہ رہے مگر دوبارہ کتاب لکھوانے کا حکم نہیں فرمایا۔ ( وحیدی )
English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] ⇪