[quote arrow=”yes” "]
1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]
2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
[/quote]
حدیث اعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”artash”]
حدیث نمبر:902
.حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”arnotash”]
902 ـ حدثنا أحمد، قال حدثنا عبد الله بن وهب، قال أخبرني عمرو بن الحارث، عن عبيد الله بن أبي جعفر، أن محمد بن جعفر بن الزبير، حدثه عن عروة بن الزبير، عن عائشة، زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت كان الناس ينتابون يوم الجمعة من منازلهم والعوالي، فيأتون في الغبار، يصيبهم الغبار والعرق، فيخرج منهم العرق، فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم إنسان منهم وهو عندي، فقال النبي صلى الله عليه وسلم ” لو أنكم تطهرتم ليومكم هذا ”.
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”urnotash”]
902 ـ حدثنا احمد، قال حدثنا عبد اللہ بن وہب، قال اخبرنی عمرو بن الحارث، عن عبید اللہ بن ابی جعفر، ان محمد بن جعفر بن الزبیر، حدثہ عن عروۃ بن الزبیر، عن عائشۃ، زوج النبی صلى اللہ علیہ وسلم قالت کان الناس ینتابون یوم الجمعۃ من منازلہم والعوالی، فیاتون فی الغبار، یصیبہم الغبار والعرق، فیخرج منہم العرق، فاتى رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم انسان منہم وہو عندی، فقال النبی صلى اللہ علیہ وسلم ” لو انکم تطہرتم لیومکم ہذا ”.
اردو ترجمہ: ⇪ [sta_anchor id=”urdtrjuma”]
تشریح : جمعہ کے دن غسل کرنا موجب اجر وثواب ہے مگر یہ غسل واجب ہے یا مستحب، اس میں اختلاف ہے۔ بعض احادیث میں اس کے لیے لفظ واجب استعمال ہوا ہے اور بعض میں صیغہ امر بھی ہے جس سے اس کا وجوب ثابت ہوتا ہے مگر ایک روایت میں سمرہ ابن جندب رضی اللہ عنہ سے ان لفظوں میں بھی مروی ہے۔ ان نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال من توضا للجمعۃ فبھا ونعمت ومن اغتسل فذلک افضل( رواہ الخمسۃ الا ابن ماجۃ ) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے جمعہ کے لیے وضو کیا پس اچھا کیا اور بہت ہی اچھا کیا اور جس نے غسل بھی کر لیا پس یہ غسل افضل ہے۔ اس حدیث کو ترمذی نے حسن کہا ہے اسی بناءپر علامہ شوکانی فرماتے ہیں۔ قال النووی فحکی وجوبہ عن طائفۃ من السلف حکوہ عن بعض الصحابۃ وبہ قال اھل الظاھر یعنی ( حدیث بخاری کے تحت ) سلف میں سے ایک جماعت سے غسل جمعہ کا وجوب نقل ہوا ہے بعض صحابہ سے بھی یہ منقول ہے اور اہل ظاہر کا یہی فتوی ہے۔
مگر دوسری روایت کی بنا پر حضرت علامہ شوکانی فرماتے ہیں: وذھب جمھور العلماءمن السلف والخلف وفقھاءالامصار الی انھا مستحب ( نیل ) یعنی سلف اور خلف سے جمہور علماءفقہاءامصار اس طرف گئے ہیں کہ یہ مستحب ہے جن روایات میں حق اور واجب کا لفظ آیا ہے اس سے مراد تاکید ہے اور وہ وجوب مراد نہیں ہے جن کے ترک سے گناہ لازم آئے ( نیل ) ہاں جن لوگوں کا یہ حال ہو وہ ہفتہ بھر نہ نہاتے ہوں اور ان کے جسم ولباس سے بدبو آرہی ہو، ان کے لیے غسل جمعہ ضروری ہے۔ حضرت علامہ عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ قلت قد جاءفی ھذا الباب احادیث مختلفۃ بعضھا یدل علی ان الغسل یوم الجمعۃ واجب وبعضھا یدل علی انہ مستحب والظاھر عندی انہ سنۃ موکدۃ وبھذا یحصل الجمع بین الاحادیث المختلفۃ واللہ تعالی اعلم ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی میں کہتا ہوں کہ اس مسئلہ میں مختلف احادیث آئی ہیں بعض سے وجوب غسل ثابت ہوتا ہے اور بعض سے صرف استحباب اور میرے نزدیک ظاہر مسئلہ یہ ہے کہ غسل جمعہ سنت مؤکدہ ہے اور اسی طرح سے مختلف احادیث واردہ میں تطبیق دی جا سکتی ہے۔ احادیث مذکورہ سے یہ بھی ظاہر ہے کہ اہل دیہات جمعہ کے لیے ضرور حاضر ہوا کرتے تھے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداءان کے لیے باعث صد فخر تھی اور وہ اہل دیہات بھی ایسے کہ اونٹ اور بکریوں کے چرانے والے، عسرت کی زندگی گزارنے والے، بعض دفعہ غسل کے لیے موقع بھی نہ ملتا اور بدن کے پسینوں کی بو آتی رہتی تھی۔
اگر اسلام میں اہل دیہات کے لیے جمعہ کی ادائیگی معاف ہوتی تو ضرور کبھی نہ کبھی آنحضرت ان سے فرما دیتے کہ تم لوگ اس قدر محنت مشقت کیوں اٹھاتے ہو، تمہارے لیے جمعہ کی حاضری فرض نہیں ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ بھی کبھی ایسا نہیں فرمایا جس سے صاف ظاہر ہے کہ جمعہ ہر مسلمان پر فرض ہے ہاں جن کوخود صاحب شریعت نے مستثنی فرما دیا، ان پر فرض نہیں ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ غسل جمعہ بہر حال ہونا چاہیے کیونکہ اسلام میں صفائی ستھرائی کی بڑی تاکید ہے۔
قرآن مجید میں اللہ پاک نے فرمایا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِینَ وَیُحِبُّ المُتَطَھَّرِینَ ( البقرۃ:222 ) “بے شک اللہ پاک توبہ کرنے والوں اور پاکی حاصل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ ” غسل بھی پاکی حاصل کرنے کا اہم ذریعہ ہے، اسلام میں یہ اصول مقرر کیا گیا کہ بغیر پاکی حاصل کئے نماز ہی درست نہ ہوگی جس میں بوقت ضرورت استنجائ، غسل، وضو سب طریقے داخل ہیں۔
حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں۔ قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم الطھور شطر الایمان۔ اقول المراد بالایمان ھھنا ھیئۃ نفسانیۃ مرکبۃ من نور الطھارۃ والاخبات والاحسان اوضح منہ فی ہذا المعنی ولا شک ان الطھور شطرہ ( حجۃ اللہ البالغۃ ) یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “طہارت نصف ایمان ہے” میں کہتاہوں کہ یہاں ایمان سے ایک ایسی ہیئت نفسانیہ مراد ہے جو نور طہارت اور خشوع سے مرکب ہے اور لفظ احسان اس معنی میں ایمان سے زیادہ واضح ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ طہارت اس کانصف ہے۔
خلاصۃ المرام یہ کہ جمعہ کے دن خاص طور پر نہا دھوکر خوب پاک صاف ہو کر نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے جانا موجب صداجر وثواب ہے اور نہانے دھونے سے صفائی ستھرائی کا حصول صحت جسمانی کے لیے بھی مفید ہے۔ جو لوگ روز انہ غسل کے عادی ہیں ان کا تو ذکر ہی کیا ہے مگر جو لوگ کسی وجہ سے روزانہ غسل نہیں کر سکتے کم از کم جمعہ کے دن وہ ضرورضرورغسل کر کے صفائی حاصل کریں۔ جمعہ کے دن غسل کے علاوہ بوقت جنابت مرد وعورت دونوں کے لیے غسل واجب ہے، یہ مسئلہ اپنی جگہ پر تفصیل سے آچکا ہے۔۔
English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] ⇪