Search

صحیح بخاری جلد اول :كتاب العيدين (عیدین کے مسائل کے بیان میں) : حدیث:-968

كتاب العيدين
کتاب: عیدین کے مسائل کے بیان میں
The Book of The Two Eid (Prayers and Festivals).
10- بَابُ التَّبْكِيرِ إِلَى الْعِيدِ:
باب: عید کی نماز کے لیے سویرے جانا۔
وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُسْرٍ إِنْ كُنَّا فَرَغْنَا فِي هَذِهِ السَّاعَةِ وَذَلِكَ حِينَ التَّسْبِيحِ .
‏‏‏‏ اور عبداللہ بن بسر صحابی نے (ملک شام میں امام کے دیر سے نکلنے پر اعتراض کیا اور) فرمایا کہ ہم تو نماز سے اس وقت فارغ ہو جایا کرتے تھے۔ یعنی جس وقت نفل نماز پڑھنا درست ہوتا ہے۔

[quote arrow=”yes” "]

1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]

2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:

3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:

4: حدیث کا اردو ترجمہ:

5: حدیث کی اردو تشریح:

English Translation :6 

[/quote]

حدیث اعراب کے ساتھ:  [sta_anchor id=”artash”]

حدیث نمبر:968           

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ زُبَيْدٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ الْبَرَاءِ ، قَالَ : خَطَبَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ ، قَالَ : ” إِنَّ أَوَّلَ مَا نَبْدَأُ بِهِ فِي يَوْمِنَا هَذَا أَنْ نُصَلِّيَ ، ثُمَّ نَرْجِعَ فَنَنْحَرَ ، فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدْ أَصَابَ سُنَّتَنَا وَمَنْ ذَبَحَ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ فَإِنَّمَا هُوَ لَحْمٌ عَجَّلَهُ لِأَهْلِهِ لَيْسَ مِنَ النُّسُكِ فِي شَيْءٍ ، فَقَامَ خَالِي أَبُو بُرْدَةَ بْنُ نِيَارٍ فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا ذَبَحْتُ قَبْلَ أَنْ أُصَلِّيَ وَعِنْدِي جَذَعَةٌ خَيْرٌ مِنْ مُسِنَّةٍ ، قَالَ : اجْعَلْهَا مَكَانَهَا أَوْ قَالَ اذْبَحْهَا ، وَلَنْ تَجْزِيَ جَذَعَةٌ عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ ” .

.حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ:  
[sta_anchor id=”arnotash”]

968 ـ حدثنا سليمان بن حرب، قال حدثنا شعبة، عن زبيد، عن الشعبي، عن البراء، قال خطبنا النبي صلى الله عليه وسلم يوم النحر قال ‏”‏ إن أول ما نبدأ به في يومنا هذا أن نصلي ثم نرجع فننحر، فمن فعل ذلك فقد أصاب سنتنا، ومن ذبح قبل أن يصلي فإنما هو لحم عجله لأهله، ليس من النسك في شىء ‏”‏‏.‏ فقام خالي أبو بردة بن نيار فقال يا رسول الله، أنا ذبحت قبل أن أصلي وعندي جذعة خير من مسنة‏.‏ قال ‏”‏ اجعلها مكانها ـ أو قال اذبحها ـ ولن تجزي جذعة عن أحد بعدك ‏”‏‏.‏

حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:   [sta_anchor id=”urnotash”]

968 ـ حدثنا سلیمان بن حرب، قال حدثنا شعبۃ، عن زبید، عن الشعبی، عن البراء، قال خطبنا النبی صلى اللہ علیہ وسلم یوم النحر قال ‏”‏ ان اول ما نبدا بہ فی یومنا ہذا ان نصلی ثم نرجع فننحر، فمن فعل ذلک فقد اصاب سنتنا، ومن ذبح قبل ان یصلی فانما ہو لحم عجلہ لاہلہ، لیس من النسک فی شىء ‏”‏‏.‏ فقام خالی ابو بردۃ بن نیار فقال یا رسول اللہ، انا ذبحت قبل ان اصلی وعندی جذعۃ خیر من مسنۃ‏.‏ قال ‏”‏ اجعلہا مکانہا ـ او قال اذبحہا ـ ولن تجزی جذعۃ عن احد بعدک ‏”‏‏.‏

‏‏‏اردو ترجمہ:   [sta_anchor id=”urdtrjuma”]

´ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے زبید سے بیان کیا، ان سے شعبی نے، ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے کہا کہ` نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن خطبہ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس دن سب سے پہلے ہمیں نماز پڑھنی چاہیے پھر (خطبہ کے بعد) واپس آ کر قربانی کرنی چاہیے جس نے اس طرح کیا اس نے ہماری سنت کے مطابق کیا اور جس نے نماز سے پہلے ذبح کر دیا تو یہ ایک ایسا گوشت ہو گا جسے اس نے اپنے گھر والوں کے لیے جلدی سے تیار کر لیا ہے، یہ قربانی قطعاً نہیں۔ اس پر میرے ماموں ابوبردہ بن نیار نے کھڑے ہو کر کہا کہ یا رسول اللہ! میں نے تو نماز کے پڑھنے سے پہلے ہی ذبح کر دیا۔ البتہ میرے پاس ایک سال کی ایک پٹھیا ہے جو دانت نکلی بکری سے بھی زیادہ بہتر ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے بدلہ میں اسے سمجھ لو یا یہ فرمایا کہ اسے ذبح کر لو اور تمہارے بعد یہ ایک سال کی پٹھیا کسی کے لیے کافی نہیں ہو گی۔


حدیث کی اردو تشریح:   [sta_anchor id=”urdtashree”]

تشریح : اس حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے یوں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اس دن پہلے جو کام ہم کرتے ہیں وہ نماز ہے۔ اس سے یہ نکلا کہ عید کی نماز صبح سویرے پڑھنا چاہیے کیونکہ جو کوئی دیر کر کے پڑھے گا اور وہ نماز سے پہلے دوسرے کام کرے گا تو پہلا کام اس کا اس دن نماز نہ ہوگا۔ یہ استنباط حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کی گہر ی بصیرت کی دلیل ہے۔ ( رحمہ اللہ )
اس صورت میں آپ نے خاص ان ہی ابو بردہ بن نیار نامی صحابی کے لیے جذعہ کی قربانی کی اجازت بخشی، ساتھ ہی یہ بھی فر مادیا کہ تیرے بعد یہ کسی اور کے لیے کافی نہ ہوگی۔یہاں جذعہ سے ایک سال کی بکری مراد ہے لفظ جذعہ ایک سال کی بھیڑ بکری پر بولا جاتا ہے۔حضرت علامہ شوکانی فرماتے ہیں الجذعۃ من الضان مالہ سنۃ تامۃ ھذا ھو الاشھر عن اھل اللغۃ وجمہور اھل العلم من غیر ھم یعنی جذعہ وہ ہے جس کی عمر پر پورا ایک سال گزر چکا ہو۔ اہل سنت اور جمہور اہل علم سے یہی منقول ہے۔ بعض چھ اور آٹھ اور دس ماہ کی بکری پر بھی لفظ جذعہ بولتے ہیں۔
دیوبندی تراجم بخاری میں اس مقام پر جگہ جگہ جذعہ کا ترجمہ چار مہینے کی بکری کا کیا گیا ہے۔ تفہیم البخاری میں ایک جگہ نہیں بلکہ متعدد مقامات پر چار مہینے کی بکری لکھا ہوا موجود ہے۔ علامہ شوکانی کی تصریح بالا کے مطابق یہ غلط ہے اسی لیے اہل حدیث تراجم بخاری میں ہر جگہ ایک سال کی بکری کے ساتھ ترجمہ کیا گیا ہے۔
لفظ جذعہ کا اطلاق مسلک حنفی میں بھی چھ ماہ کی بکری پر کیا گیاہے دیکھو تسہیل القاری، پ:4ص:400 مگر چار ماہ کی بکری پر لفظ جذعہ یہ خود مسلک حنفی کے بھی خلاف ہے۔ قسطلانی شرح بخاری، ص: 117 مطبوعہ نول کشور میں ہے ( جذعۃمن المعز ذات سنۃ ) یعنی جذعہ ایک سال کی بکری کو کہا جاتا ہے۔

English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] 

Narrated Al-Bara’:
The Prophet delivered the Khutba on the day of Nahr (‘Id-ul-Adha) and said, "The first thing we should do on this day of ours is to pray and then return and slaughter (our sacrifices). So anyone who does so he acted according to our Sunna; and whoever slaughtered before the prayer then it was just meat that he offered to his family and would not be considered as a sacrifice in any way. My uncle Abu Burda bin Niyyar got up and said, "O, Allah’s Apostle! I slaughtered the sacrifice before the prayer but I have a young she-goat which is better than an older sheep.” The Prophet said, "Slaughter it in lieu of the first and such a goat will not be considered as a sacrifice for anybody else after you.”
.

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں