Search

صحیح بخاری جلد دؤم :کتاب الوتر (نماز وتر کے مسائل کا بیان) : حدیث:-993

كتاب الوتر
کتاب: نماز وتر کے مسائل کا بیان
( The Book of The witre Prayer)
1- بَابُ مَا جَاءَ فِي الْوِتْرِ:
باب: وتر کا بیان۔

[quote arrow=”yes” "]

1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]

2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:

3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:

4: حدیث کا اردو ترجمہ:

5: حدیث کی اردو تشریح:

English Translation :6 

[/quote]

حدیث اعراب کے ساتھ:  [sta_anchor id=”artash”]

حدیث نمبر:993           

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنِي بْنُ وَهْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي عَمْرُو ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْقَاسِمِ حَدَّثَهُ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى ، فَإِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَنْصَرِفَ فَارْكَعْ رَكْعَةً تُوتِرُ لَكَ مَا صَلَّيْتَ ” ، قَالَ الْقَاسِمُ : وَرَأَيْنَا أُنَاسًا مُنْذُ أَدْرَكْنَا يُوتِرُونَ بِثَلَاثٍ وَإِنَّ كُلًّا لَوَاسِعٌ أَرْجُو أَنْ لَا يَكُونَ بِشَيْءٍ مِنْهُ بَأْسٌ .

.حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ:  
[sta_anchor id=”arnotash”]

993 ـ حدثنا يحيى بن سليمان، قال حدثني ابن وهب، قال أخبرني عمرو، أن عبد الرحمن بن القاسم، حدثه عن أبيه، عن عبد الله بن عمر، قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏”‏ صلاة الليل مثنى مثنى، فإذا أردت أن تنصرف فاركع ركعة توتر لك ما صليت ‏”‏‏.‏ قال القاسم ورأينا أناسا منذ أدركنا يوترون بثلاث، وإن كلا لواسع أرجو أن لا يكون بشىء منه بأس‏.‏

حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:   [sta_anchor id=”urnotash”]

993 ـ حدثنا یحیى بن سلیمان، قال حدثنی ابن وہب، قال اخبرنی عمرو، ان عبد الرحمن بن القاسم، حدثہ عن ابیہ، عن عبد اللہ بن عمر، قال قال النبی صلى اللہ علیہ وسلم ‏”‏ صلاۃ اللیل مثنى مثنى، فاذا اردت ان تنصرف فارکع رکعۃ توتر لک ما صلیت ‏”‏‏.‏ قال القاسم وراینا اناسا منذ ادرکنا یوترون بثلاث، وان کلا لواسع ارجو ان لا یکون بشىء منہ باس‏.‏

‏‏‏اردو ترجمہ:   [sta_anchor id=”urdtrjuma”]

´ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں عمرو بن حارث نے خبر دی، ان سے عبدالرحمٰن بن قاسم نے اپنے باپ قاسم سے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، رات کی نماز دو، دو رکعتیں ہے اور جب تو ختم کرنا چاہے تو ایک رکعت وتر پڑھ لے جو ساری نماز کو طاق بنا دے گی۔ قاسم بن محمد نے بیان کیا کہ ہم نے بہت سوں کو تین رکعت وتر پڑھتے بھی پایا ہے اور تین یا ایک (رکعت وتر) سب جائز اور مجھ کو امید ہے کہ کسی میں قباحت نہ ہو گی۔


حدیث کی اردو تشریح:   [sta_anchor id=”urdtashree”]

تشریح : یہ قاسم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے تھے۔ بڑے عالم اور فقیہ تھے۔ ان کے کلام سے اس شخص کی غلطی معلوم ہوگئی جو ایک رکعت وتر کو نا درست جا نتا ہے اور مجھ کو حیرت ہے کہ صحیح حدیثیں دیکھ کر پھر کوئی مسلمان یہ کیسے کہے گا کہ ایک رکعت وتر نا درست ہے۔
اس روایت سے گو عبد اللہ بن عمر کا تین رکعتیں وتر پڑھنا ثابت ہوتا ہے مگر حنفیہ کے لیے کچھ بھی مفید نہیں کیونکہ اس میں یہ نہیں ہے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہمیشہ وتر کی تین ہی رکعتیں پڑھتے۔ علاوہ بھی اس کے دو سلام سے تین رکعتیں وتر کی ثابت ہیں اور حنفیہ ایک سلام سے کہتے ہیں ( مولانا وحیدی ) یہی عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہیں جن سے صحیح مسلم شریف ص 257 میں صراحتاً ایک رکعت وتر ثابت ہے۔ عن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الوتررکعۃ من آخر اللیل رواہ مسلم۔ حضرت ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وتر پچھلی رات میں ایک رکعت ہے۔ دوسری حدیث میں مزید وضاحت موجود ہے۔عن ایوب رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الوتر حق علی کل مسلم ومن احب ان یوتر بخمس فلیفعل ومن احب ان یوتر بثلاث فلیفعل ومن احب ان یوتر بواحدۃ فلیفعل ( رواہ ابو داؤد والنسائی او ابن ماجہ ) یعنی حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وتر کی نماز حق ہے جو ہر مسلم کے لیے ضروری ہے اور جو چاہے پانچ رکعات وتر پڑھ لے اور جوچاہے تین رکعات اور جو چاہے ایک رکعت وتر ادا کر لے۔ اور بھی اس قسم کی کئی روایات مختلفہ کتب احادیث میں موجود ہیں۔ اسی لیے حضرت مولانا عبید اللہ شیخ الحدیث بذیل حدیث حضرت عائشہ صدیقہ لفظ ویوتر بواحدۃ ( آپ ایک رکعت وتر پڑھتے ) فرماتے ہیں فیہ ان اقل الوتر رکعۃ وان الرکعۃ الفردۃ صلوۃ صحیحۃ وھو مذھب الائمۃ الثلاثۃ وھو الحق وقال ابو حنیفۃ لا یصح الایتار بواحدۃ فلا تکون الرکعۃ الواحدۃ صلوۃ قط قال النووی والاحادیث الصحیحۃ ترد علیہ ( مرعاۃ ج:2ص:158 ) یعنی اس حدیث میں دلیل ہے کہ وتر کی کم از کم ایک رکعت ہے اور یہ کہ ایک رکعت پڑھنا بھی نماز صحیح ہے، ائمہ ثلاثہ کا یہی مذہب ہے اور یہی حق ہے ( ائمہ ثلاثہ سے حضرت امام شافعی، امام مالک، امام احمدبن حنبل رحمہم اللہ مراد ہیں ) حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک رکعت وتر صحیح نہیں کیونکہ ایک رکعت نماز ہی نہیں ہوتی۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ احادیث صحیحہ سے حضرت امام کے اس قول کی تردید ہوتی ہے۔
وتر کے واجب فرض سنت ہونے کے متعلق بھی اختلاف ہے، اس بارے میں حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں والحق ان الوتر سنۃ ھو اوکد السنن بینہ علی وابن عمر وعبادۃ ابن الصامت رضی اللہ عنہم اور حق یہ ہے کہ نماز وتر سنت ہے اور وہ سب سنتوں سے زیادہ مؤکد ہے۔ حضرت علی،حضرت عبد اللہ عمر، حضرت عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہم نے ایسا ہی بیان فرمایا ہے ( حجۃ البالغۃ، ج:2ص :24 )
وتر تین رکعت پڑھنے کی صورت میں پہلی رکعت میں سورۃ سبح اسم ربک الاعلی اور دوسری میں قل یایھا الکفرون اور تیسری میں قل ھو اللہ احد پڑھنا مسنون ہے۔ وتر کے بعد بآواز بلند تین مرتبہ سبحان الملک القدوس کا لفظ ادا کرنا مسنون ہے۔

English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] 

Narrated ‘Abdullah bin ‘Umar:
 
The Prophet said, "Night prayer is offered as two Rakat followed by two Rakat and so on, and if you want to finish it, pray only one Raka which will be Witr for all the previous Rakat.” Al-Qasim said, "Since we attained the age of puberty we have seen some people offering a three-Rakat prayer as Witr and all that is permissible. I hope there will be no harm in it.”

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں