بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث کی تصحیح اور تضعیف کا مسئلہ اور ہمارے جدید محککین(محققین)
۰۰( ابوالمحبوب سیدانورشاہ راشدی)
حدیث کی تصحیح وتضعیف کامسئلہ بہت ہی اہم اور پیچیدہ ہے، محض اس میں موجود مثبت ومنفی پہلو اسکی صحت وضعف کاضامن نہیں بن سکتے،،
اس کے لئے باقاعدہ طویل مزاولت وممارست ضروری اور لازمی امرہے، کسی کومحض اپناشوق پورا کرنے کےلئےاجازت نہیں کہ وہ اسے اپنی مانی سے اس پر طبع آزمائی کرتارہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول فعل اور تقریر کااثبات یامنفی کافیصلہ تب ممکن ہے جب وہ اسکااہل ہو،ویسے بھی دنیا میں یہی اصول اور ضابطے کارفرماہیں کہ جس کاجوفن ہے اسے اسی کے متعلق ہی طبع آزامائی کی اجازت ہوتی ہے، قانون کبھی بھی اجازت نہیں دیگا کہ ایک ڈاکٹر ، انجینیئر کے معاملات میں دخل اندازی کرے، ایک سائنسدان کبھی بھی معاشیات پر بات کرے، اسکول ٹیچر کبھی بھی فوجی معاملات پر بات کرے، اس طرح بہت سارے فن ہیں ، کہنے کامقصد یہ ہے کہ جب دنیامیں ہمارے یہ اصول چلتے ہیں ، اگر کوئی اسکی خلاف ورزی کریگا قانون اسے روکنے کاحق رکھتاہے،،اور اس حوالے سے کوئی بھی معترض نہیں ہوتاکہ یہ زیادتی کیوں ہے،، ؟؟ نہیں،، کبھی بھی صاحب عقل وفراست اس قسم کا فضول اعتراض نہیں کرسکتا،، تو جب دنیاکے ان اصولوں اور قوانین کااحترام کرتے ہوئے کسی بھی قسم کی من مانی اور مستی نہیں کی جاتی اور نہ ہی مہذب لوگ اسے اچھاسمجھتے ہیں، تو پھر افضل العلوم واشرفہا واعلاہا ومنزلة وقدرا ، علم حدیث وفن حدیث پر ہر کوئی ، اور ہرایراغیرا اسے آزمانے کے لئے آئے دن کیوں ٹپک پڑتاہے،،جن لوگوں کو یہی معلوم نہیں کہ حدیث کا اصطلاحی معنی کیاہے،،؟؟ صحیح حدیث کیا ہوتی ہے،،حضرات محدثین نے اسکے کیاحدود متعین کئے ہیں، نہ انہیں یہ پتاہے کہ حدیث ضعیف کب بنتی ہے ، اور ضعیف حدیث یاموضوع کی علامات کیاہیں،اب ایسے لوگ چاہے وہ دنیامیں مدبر ، مفکر اور دانا لوگ شمارکئے جاتے ہوں، لوگ انہی بڑا سے بڑا صحافی سمجھتے ہوں،بھلے وہ سائنسی کہانیاں لاتے ہوں،لیکن اس سے یہ کہاں سے نکلتاہے کہ وہ حدیث کی تصحیح اور تضعیف کے لائق بھی بن جائیں،دنیاوی اعتبار سے اگر کوئی کسی دوسرے فن پر بات کرے تو فورا آوازے کسے جاتے ہیں کہ مسٹر!اپنے کام تک محدود رہئے، بہت تنبیہات ملتی ہیں، لیکن خود ان لوگوں کواحساس نہیں کہ حدیث کے حوالے سے جوہساسیت ہیلے اسے وہ کیوں یک مشت بھلابیٹھتے ہیں،،
یہ لوگ محض اپنی ناقص عقل کی بنا پر آئے روز احادیث میں ٹیرہاپن نکالتے رہتے ہیں، محدثین کے برخلاف انکااصول یہ ہے کہ جوبات انکے کجی والے دماغ میں نہیں آتی وہ ضعیف اور بے اصل اور جسے انکا ذہن قبول کرے ضعف اور بے اصل ہونے کے اعتبار سے چاہے وہ حضرات محدثین کے منہج پر پوری نہ اتررہی ہو، وہ ان مفکرین ومحککین کے نزدیک صحت کے اعلی درجہ پر فائز ہوتی ہے،،حالانکہ عقل کے اعتبار سے حدیث کی تضعیف عندالمحدثین انتہائی آخری مراحل میں ہوتی ہے، بلکہ محدثین نے عقل کے بنا پر بہت ہی کم احادیث کی تضعیف کی ہے اور انہیں بے اصل قراردیاہے،محدثین کو لاکھوں احادیث قرآن مجید کی طرح حفظ تھیں، روات کی درجات بندی، انہیں طویل مزاولت اورممارست سے اس قدر تجربہ حاصل ہوچکاتھاکہ وہ روایت کو محض دیکھ کر ہی اسکی تصحیح وتضعیف کا فیصلہ کردیاکرتے تھے، اسکے پیچھے اس علم اور فن میں پختگی اور پائیداری تھی کہ جس طرح دنیاوی فن میں ماہرین اپنے فن کے معاملات کی تہہ تک جلدی پہنچ جایاکرتے ہیں،حضرات محدثین کو اپنے فن میں اس قدر مہارت حاصل تھی کہ
ایک ایک راوی کی روایات کوجمع کرکے سخت سے سخت اصولوں سے جانچااورپرکھاہے،جن لوگوں نے اپنی ساری زندگیاں اس فن میں کھپادیں، جن لوگوں کااوڑھنا بچھونا حدیث تھا، ان لوگوں نے کبھی بھی صحت وضعف کا کلی طور عقل کوپیمانہ نہیں بنایا کہ جو عقل پرپورااترے وہ درست اور جو نہ اترے وہ ضعیف،،اگر ایسی حدیث ہے جو عقل پر پورا نہیں اتررہی تو اسکے لئے بھی بہت کوششیں بروئے کار لائی گئیں کہ اس کا بہتر سے بہتر جواب دیاجاسکے،، بلاوجہ وہ ناقابل عمل نہ ہو،گویا عقل سے پیچھے ایک لانگ نرم ہے کہ جسے بروئے کار لاتے ہوئے صحیح وغلط کی تمیز ہوسکتی ہے،،بات یہ ہے کہ اسکے لئے زندگیاں چاہئیں ،جس قدر مزاولت وممارست ہوگی اس قدر اسکی عقل میں وسعت فہم کادائرہ کار وسیع سے وسیع تر ہوتاچلائیگا،اور اس ممارست سے اسے وہ احادیث بھی درست نظرآنے لگیں گی جو اسے ممارست سے قبل ضعیف یاباطل محسوس ہورہی تھیں، یہی وجہ ہے کہ انسان تحقیق کے میدان میں جیسے جیسے آگے قدم رکھتاہے ویسے علم میں پختگی کی وجہ سے کل تک جو اسے غلط لگ رہاتھا آج اسے وہ درست معلوم ہونے لگتاہے،،اسکی وجہ یہی ہے کہ تحقیق کاجوزاویہ ہے اگر اسی زاویہ پر رہاجائے تو بہت سے معاملات اور حقائق کی اصل تک پہنچنا کوئی مشکل کام نہیں ہوتا،
لیکن جیسے ہی حقیقی اور اصلی سمت کوچھوڑ کرغلط راہ اپنائی جاتی ہے قدم حقائق کے بلکل برخلاف اٹھتے ہیں،
عقل سے مات کھائے ہوئے ان محککین کا یہی مسئلہ ہے وہ صحیح ڈگر پر نہ چلنے کی وجہ سے بار بار ٹھوکر کھاتے ہیں اور کھاتے رہینگے، بھائی اگر آپکو حدیث کے حوالے سے کوئی اشکال ہو تو جس طرح بیماری کی وجہ ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں اسی طرح ان لوگوں کے پاس جائیں جن کا وہ مشغلہ ہے، اپنے طور تجربات نہ کیاکریں، ورنہ خود بھی تباہی کے کنارے پہنچیں گے اور خلق خدا کوبھی گمراہ کربیٹھینگے ، جن کا گناہ بھی آپکے سر بھی اسی طرح لگیگا جتنا وہ پائینگے، بلکہ یہ قانون بھی بننا چاہئے کہ کوئی ایراغیرا حدیث پر تماشا نہ بناتاہھرے،، یہ علم اور فن بہت ہی مقدس اور عظیم الشان ہے،ایسے دروغ گؤوں کی وجہ سے حساس لوگوں کے جذبات کوٹھینس پہچتی ہے،،کیونکہ یہ مسلمانوں کے ایمان اور اعتقاد کامسئلہ ہے، اس لئے حساسیت اپنی جگہ مسلم ہے،
ہم ان مفکرین ، اور دانشوروں سے اپیل کرتے ہیں کہ جناب اپنے میدان میں جوکرنا ہے کرلو، لیکن خدارا حدیث کے معاملہ میں نہ پڑیں ، تمہارا یہ میدان نہیں ، اگر آپ کو کوئی مسئلہ درپیش ہو تو آپ عالم نہ بنیں ، خود کو محدث اور ماہر نہ سمجھیں ، اہنے مرض کا خود سے علاج کرکے خود کو برباد نہ کیجئے، بلکہ ڈاکٹر کے پاس جاکر اپنا علاج کرائیے اور صحت جیسی عظیم نعمت پائیے،