سیدنا عمر فاروق ؓ (اسلام قبول کرنےس ے پہلے ) تلوار لٹکائے ہوئے نکلے، تو آپ کی ملاقات بنی زہرہ کے شخص (نعیم بن عبداللہ) سے ہوئی، نعیم نے کہا، اے عمر!کہاں کا ارادہ ہے؟ عمر ؓ نے فرمایا محمد ﷺ کو قتل کرنا چاہتا ہوں، تو نعیم نے کہا: اگر آپ نے محمد ﷺ کو قتل کر ڈالا تو بنو ہاشم اور بنو زہرہ سے کیسے بچ پائیں گے؟
عمر ؓ نے فرمایا!لگتا ہے تو بھی بے دین ہو کر اپنا پچھلا دین چھوڑ چکا ہے؟
انہوں نے کہا اے عمر!آپ کو ایک عجیب بات پر اطلاع نہ دوں کہ آپ کے بہنوئی اور بہن بھی (آپ کے زعم کے مطابق) بے دین ہو چکے ہیں اور ان دونوں نے وہ دین چھوڑ دیا جس پر آپ ہیں۔ (یہ سن کر) عمر ؓ انتہائی غصہ میں ان کی طرف چلے یہاں تک کہ ان کے پاس آ پہنچے، اس وقت ان کے ہاں مہاجرین میں سے ایک شخص (سیدنا) خباب (رضی اللہ عنہ) موجود تھے، کہا: جب خباب ؓ نے عمرؓ کے آنے کی آہٹ محسوس کی تو وہ گھر کے اندر چھپ گئے، عمر ؓ ان دونوں (یعنی بہن و بہنوئی) کے پاس آئے اور پوچھا کہ یہ دھیمی دھیمی سی آواز کیسی ہے جو میں نے تمہارے ہاں سنی ہے؟(دارمی نے ) کہا کہ اس وقت وہ سورۃ طٰہٰ پڑھ رہے تھے، ان دونوں نے کہا : کچھ نہیں ہم تو بس آپس میں باتیں کر رہے تھے ، تو عمر ؓ نے فرمایا: لگتا ہے کہ تم دونوں بے دین ہو چکے ہو، تو ان کے بہنائی نے کہا: اے عمر !یہ بتاؤ اگر حق تمہارے دین کے بجائے کسی اور دین میں ہو تو؟ بس (یہ سننا تھا کہ ) عمر ؓ اپنے بہنوئی پر ٹوٹ پڑے اور انہیں بری طرح کچل دیا۔ ان کی بہن (قریب) آئی اور انہیں اپنے شوہر پر سے ہٹایا تو آپ نے بہن کو ایسا شدید چانٹا مارا کہ ان کا چہرہ خون آلود ہو گیا، تو وہ غصہ ہوئی اور فرمایا، اے عمر!اگر حق تیرے دین کے علاوہ کسی اور دین میں ہو تو؟ میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور میں گواہی دیتی ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، (یہ سن کر) عمر ؓ جب مایوس ہو گئے،تو فرمایا: یہ کتاب جو تمہارے پاس ہے مجھے دو میں اسے پڑھوں، عمر ؓ کتاب پڑھا کرتے تھے(مطلب یہ کہ وہ پڑ ھ سکتے تھے، پڑھےلکھے تھے)
اس پر ان کی بہن نے کہا کہ آپ ناپاک ہیں اس کتاب کو تو بس پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں، پس کھڑے ہو جائیں غسل یا وضو کر لیں۔ آپ کھڑے ہوئے وضو کیا پھر وہ کتاب (تحریر) اٹھائی پس آپ نے پڑھا طٰہٰ یہاں تک کہ آپ نے اس آیت پر ختم کیا۔‘‘اِنَّنِیۡۤ اَنَا اللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعۡبُدۡنِیۡ ۙ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکۡرِیۡ’’بے شک میں ہی اللہ ہوں کوئی الٰہی نہیں سوائے میرے پس میری عبادت کرو اور میرے ذکر (اد) کے لئے نماز قائم کرو۔ [طٰہٰ:۱۴]
تو عمر ؓ نے فرمایا مجھے محمد ﷺ کا پتہ بتاؤ۔ جب خباب ؓ نے عمر ؓ کی یہ بات سنی تو فرمایا: خوشخبری ہو!اے عمر میں امید کرتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے جمعرات کو جو دعافرمائی تھی کہ :‘‘اللھم أعز الإسلام بعمر بن الخطاب أو بعمر بن ھشام ’’ اے اللہ عمر بن خطاب یا عمر بن ہشام کے ذریعے اسلام کو قوت پہنچا۔ یہ اسی (دعا )کا اثرہے۔
اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ اس وقت کوہ صفا کے دامن میں واقع ایک گھر میں ہیں، اس وقت گھر کے دروازے پر (بغرض پہرہ) سیدنا حمزہ و سیدنا طلحہ اور رسول اللہ ﷺ کے چند دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین تھے، جب حمزہ ؓ نے دیکھا کہ لوگ سیدنا عمر ؓ سے خوفزدہ ہیں تو فرمایا: ہاں یہ عمر ہی تو ہیں اگر اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمایا ہے تو یہ اسلام لے آئیں گے اور نبی ﷺ کی اتباع کریں گے اور اگر یہ اس کے علاوہ کئی اور ارادہ کریں تو ان کا قتل کرنا ہم پر آسان ہے، اور آپ ﷺ (مکان کے ) اندر تھے آپ پر وحی کا نزول ہو رہا تھا۔ ( اس کے بعد) آپ ﷺ عمر ؓ کے پاس تشریف لائے اور آپ ﷺ نے ان کے کپڑے اور تلوار کا پرتا لا سمیٹ کر پکڑ ا اور فرمایا!اے عمر!کیا تم اس وقت تک باز نہیں آؤ گے جب تک کہ اللہ تعالیٰ تمہیں بھی ویسی ہی ذلت اور رسوائی اور عبرتناک سزا میں مبتلا نہ کر دے جس میں ولید بن مغیرہ مبتلا ہوا؟اے اللہ!یہ عمر بن خطاب ہے، اے اللہ !اسلام کو عمر بن خطاب کے ذریعے قوت عطا فرما۔ اس پر عمر ؓ نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ، اور (میں نے) اسلام قبول کر لیا اور فرمایا: (باہر) نکلیں اے اللہ کے رسول ﷺ ۔
- پہلی سند: امام بیہقی نے اس روایت کو دلائل النبوۃ (ج۲ص۲۱۹، ۲۲۰) میں روایت کیا اور ابن سعد نے الطبقات الکبریٰ (ج۳ص۲۶۷) میں، امام دار قطنی نے اپنی سنن میں مختصراً (ج۱ص۱۲۳)، ابن شبۃ نے تاریخ المدینہ(ج۲ص۲۵۷)میں ‘‘ إسحاق بن یوسف الأزرق قال: أخبر نا القاسم بن عثمان البصري عن أنس بن مالک رضی اللہ عنہ قال فذکرہ’’ کی سند سے اس قصہ کو بیان کیا۔
- دوسری سند: امام طبرانی نے المعجم الکبیر (ج۲ص۹۷) میں:
- تیسری سند:امام بیہقی نے دلائل النبوۃ (ج۲ص۲۱۶) ابو نعیم نے حلیۃ الولیاء(ج۱ص۴۱) میں، ابن الجوزی نے الحدائق(ج۱ص ۳۵۳) میں، امام البزار نے اپنی مسند(ج ۳ص۱۶۹، الزوائد) میں ابن الاثیر نے اُسد الغابۃ (ج۴ص۱۴۷) میں اس قصہ کو‘‘ عن إسحاق بن إبراھیم الحنینی: ثنا أصامۃ بن زید بن أسلم عن أبیہ عن جدہ’’ کی سند سے کئی طرق سے بیان کیا ہے۔
- چوتھی سند: ابو نعیم نے دلائل النبوۃ (ج۱ص۲۴۱) اور حلیۃ الولیاء(ج۱ص۴۰) میں۔
- پانچویں سند: ابو نعیم نے حلیۃ الاولیاء(ج۱ص۳۹ ، ۴۰) میں ‘‘یحی بن یعلی الأسلمی عن عبداللہ بن المؤمل عن أبی الزبیر عن جابر رضی اللہ عنہ’’ کی سند سے بیان کیا۔ میں کہتا ہوں اس کی سند بھی سخت ضعیف ہے اس میں علتون کا ایک سلسلہ ہے۔