Search

سند دین ہے

تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری حفظ اللہ

سند دین ہے۔ سند ہی کے ذریعے حدیث کے من الله ہونے کا یقین ہوتا ہے۔ اسی کی بدولت حدیث رسول ہر قسم کی تحریف و تبدیلی اور ترمیم و اضافے سے محفوظ ہے۔ یہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں محدثین عظام کی کرامت اور لازوال اعزاز ہے۔ یہ قرآن و حدیث کی صداقت پر وہ روشن حجت اور دلیل ہے، جس سے دیگر مذاہب عالم کی قدیم و جدید کتابیں خالی ہیں۔ یہ پیغمبر اسلام، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچنے کا واحد راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نعمت عظمیٰ اہل حدیث کو بخشی ہے، وہی اس کے اہل اور قدر دان ہیں۔ جاہل، کاہل اور کج فطرت انسانوں کی گمراہی اور اخلاقی پستی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔ یہ آج بھی اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ اہل اسلام کے پاس بطور دائمی نعمت محفوظ و موجود ہے۔

سند کی اہمیت سے انکار یا روگردانی یقیناً اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناسپاسی اور احسان کی ناشکری ہے۔ ائمہ مسلمین نے اس کی اہمیت کو خوب واضح کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے آج تک بے سند یا محدثین کرام کے اصولوں کے مطابق ’’ ضعیف “ و ’’ متروک “ راوی کی روایت کو دین نہیں بنایا۔ محدثین کرام اس میدان کے شہسوار تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر حقائق منکشف کیے تھے۔

 شیخ الاسلام ثانی، عالم ربانی، علامہ محمد بن ابوبکر، ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ان كل ما حكم به رسول الله صلى الله عليه وسلم، فهو مما أنزل الله، وهو ذكر من الله أنزله على رسوله، وقد تكفل سبحانه بحفظه، فلو جاز على حكمه الكذب، والغلط والسهو من الرواة، ولم يقم دليل على غلطه، وسهو ناقله : لسقط حكم ضمان الله، وكفالته لحفظه؛ وهذا من أعظم الباطل! ونحن لا ندعي عصمة الرواة، بل نقول: إن الراوي إذا كذب أو غلط، أو سها، فلا بد أن يقوم دليل على ذلك، ولا بد أن يكون فى الأمة من يعرف كذبه، وغلطه، ليتم حفظه لحججه وأدلته، ولا تلتبس بما ليس منها، فإنه من حكم الجاهلية . انتهى
’’ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بھی حکم فرمایا، وہ وحی الٰہی پر مبنی ذکر تھا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر نازل فرمایا اور اس کی حفاظت کا ذمہ بھی خود لیا۔ اگر یہ ممکن ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم میں راویوں کے جھوٹ، غلطیاں سہو شامل ہو جائیں، اور اس پر کوئی دلیل بھی قائم نہ ہو سکے تو اللہ تعالیٰ کی ضمانت اور حفاظت والی بات تو ساقط ہو جائے گی اور یہ بہت بڑا جھوٹ ہے۔ ہم راویوں کے معصوم عن الخطا ہونے کا دعویٰ نہیں کرتے، لیکن یہ کہتے ہیں کہ راوی جب جھوٹ بولے، غلطی کرے یا بھول جائے توضرور اس پر کوئی دلیل قائم ہو جاتی ہے اور امت میں ضرور ایسے افراد موجود رہتے ہیں جو راویوں کے جھوٹ اور ان کی غلطیوں کو جان جاتے ہیں۔ اسی سے اللہ تعالیٰ کا اپنی نصوص و دلائل کی حفاظت کرنے کا وعدہ پورا ہوتا ہے اور اسی سے دین میں وہ بات شامل نہیں ہو پاتی جو اس کی تعلیمات کے منافی ہے۔ “ 
[مختصر الصواعق المرسلة على الجهمية والمعطلة، ص: 555]

 علامہ، ابراہیم بن موسیٰ، شاطبی، غرناطی رحمہ اللہ (م :790ھ) فرماتے ہیں :
ولو كان من شأن أهل الإسلام، الذابين عنه الأخذ من الأحاديث بكل ما جاء عن كل من جاء لم يكن لانتصابهم للتعديل والتجريح معنى، مع أنهم قد أجمعوا على ذلك، ولا كان لطلب الإسناد معنى يتحصل، فلذلك جعلوا الإسناد من الدين، ولا يعنون : حدثني فلان عن فلان مجردا، بل يريدون ذلك لما تضمنه من معرفة الرجال الذين يحدث عنهم، حتى لا يسند عن مجهول، ولا مجروح، ولا متهم، ولا عمن لا تحصل الثقة بروايته، لأن روح المسألة أن يغلب على الظن من غير ريبة أن ذلك الحديث قد قاله النبى صلى الله عليه وسلم، لنعتمد عليه فى الشريعة، ونسند إليه الأحكام، والأحاديث الضعيفة الإسناد، لا يغلب على الظن أن النبى صلى الله عليه وسلم قالها، فلا يمكن أن يسند إليها حكم فما ظنك بالأحاديث المعروفة الكذب؟ نعم الحامل على اعتمادها فى الغالب، انما هو ما تقدم، من الهوي المتبع.
’’ اگر دین کا دفاع کرنے والے اہل اسلام یہ رَوَش اپناتے کہ ہر شخص کی بیان کردہ ہر شخص کی حدیث قبول کرتے تو ان کی جرح و تعدیل کی طرف اتفاقی نسبت کیا معنی رکھتی ؟ نیز سند کا مطالبہ کرنا بھی بے فائدہ ہوتا۔ اسی بنا پر محدثین کرام نے سند کو دین کا حصہ قرار دیا اور سند کا مطلب صرف فلاں سے فلاں کی روایت نہیں، بلکہ محدثین کی مراد سند کے ضمن میں راویوں کی معرفت ہوتی ہے تاکہ کسی مجہول و نامعلوم، مجروح، متہم اور ایسے شخص سے حدیث نہ لی جائے جو ناقابل اعتماد ہے۔ سند کا مقصد تو یہ ہے کہ بغیر کسی شبہے کے ظن پر یہ چیز غالب ہو جائے کہ یہ حدیث رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمودہ ہے تاکہ ہم شریعت میں اس پر اعتماد اور احکام میں اس سے استدلال کر سکیں۔ اس کے برعکس ضعیف احادیث سے یہ ظن غالب پیدا نہیں ہوتا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہو گا۔ لہٰذا ان میں کسی حکم کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔ (جب ضعیف حدیث کا یہ حال ہے تو) ان احادیث کا کیا ہو گا جن کا جھوٹا ہونا مشہور و معروف ہے۔ ان پر اعتماد کا سبب تو خواہش نفس کی پیروی ہی ہو سکتا ہے۔ “ 
[الاعتصام : 125,124/1، وفي نسخة : 288,287/1 بتحقيق سليم الهلالي]

سند کا مطالبہ کرنا صدرِ اول سے مسلمانوں کا وطیرہ رہا ہے، جیسا کہ :
 مشہور تابعی، امام ہشام بن عروہ رحمہ اللہ (م :146 ھ ) فرماتے ہیں :
اذا حدثك رجل بحديث، فقل : عمن هذا ؟
’’ جب آپ کو کوئی شخص حدیث بیان کرے تو آپ اس سے پوچھیں کہ یہ کس کی بیان کردہ ہے ؟ “ 
[الجرح والتعديل لابن أبى حاتم :34/2، وسندۂ صحيح ]
اگر آج بھی اہل کلام اور اہل باطل سے یہی سوال کیا جائے تو ان کو منہ کی کھانا پڑتی ہے۔ اہل حق کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو سند سے مسلح رکھیں۔

سند کے حوالے سے بندر بانٹ !
بعض لوگوں کا حال یہ ہے کہ من کو بھائے تو ایسی باتوں کو دین قرار دے کر اپنے ماتھے کا جھومر بنا لیتے ہیں جن کے بارے میں کسی قسم کی کوئی شرعی دلیل سرے سے نہیں ملتی، دل چاہے تو ’’ کذاب “ اور ’’ متروک “ راویوں کی مرویات کو دلیل بنا لیتے ہیں اور دل کو نہ لگے تو صحیح بخاری و مسلم کی اجماعی طور پر صحیح احادیث کو ردّ کر دیتے ہیں۔ ہم اس بات کو مثالوں کے ذریعے بیان کرتے ہیں :
فقہ حنفی میں چاٹنے سے نجاست زائل :
فقہ حنفی کا مشہور و معروف مسئلہ ہے کہ نجاست غلیظہ، مثلاً دمِ مسفوح (ذبح کے وقت بہنے والا خون )، شراب، پیشاب، پاخانہ، حیض کا خون، کتے کا پاخانہ، درندوں کا پاخانہ، اگر جسم یا کپڑے پر ایک درہم (ہتھیلی بھر) سے کم ہو تو معاف ہے اور اس میں نماز پڑھنا جائز ہے۔ 
[الجامع الصغير للشيباني، ص : 9، الهداية : 45/1، شرح النقاية : 45/1، الأصل للشيباني : 68/1. المبسوط : 186/1 بدائع الصنائع : 18/1، فتح القدير : 208,202/1، البحر الرائق :239/1، رد المحتار :213/1]

اس حوالے سے جو دلائل احناف نے ذکر کیے ہیں، وہ تبصرے سمیت ملاحظہ فرمائیں :

 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
تعاد الصلاة من قدر الدرهم من الدم
’’ خون کی ایک درہم مقدار سے نماز دوہرائی جائے گی۔ “ 
[سنن الدارقطني : 401/1، الكامل فى ضعفاء الرجال لابن عدي : 138/3، ت : 660، السنن الكبرى للبيهقي : 404/2، الضعفاء الكبير للعقيلي : 561/2]

تبصرہ :
یہ جھوٹی روایت ہے، اس کو گھڑنے کی کارروائی رَوح بن غطیف جزری نامی راوی نے کی ہے۔ اس کے بارے میں :
 امام بخاری رحمہ اللہ نے ’’ منکرالحدیث “ کا حکم لگایا ہے۔
 امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ليس بالقوي، منكر الحديث جدا.
’’ یہ قوی نہیں، بلکہ اس کی حدیث سخت منکر ہوتی ہے۔ “ 
[الجرح والتعديل لابن أبى حاتم : 495/3]
 امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’ متروک “ ہے۔ [الضعفاء والمتروكون:190]
 امام دارقطنی رحمہ اللہ نے بھی ’’ متروک الحدیث “ کہا ہے۔ [سنن الدارقطني:401/1]
 امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كان يروي الموضوعات عن التقات، لا تحل كتابة حديثه ولا الرواية عنه.
’’ یہ ثقہ راویوں کی طرف منسوب کر کے بناوٹی احادیث بیان کرتا تھا۔ اس کی حدیث کو لکھنا اور اس سے روایت کرنا جائز ہی نہیں۔ “ 
[كتاب المجروحين :298/1]
اس پر اور جروح بھی ثابت ہیں، لیکن اس کے بارے میں ادنیٰ کلمہ توثیق بھی ثابت نہیں۔ اس روایت کی دوسری سند 
[تاريخ بغداد للخطيب : 300/9، الموضوعات لابن الجوزي : 75/2* نصب الراية للزيلعي :212/1] بھی جھوٹی ہے۔ اس میں نوح بن ابو مریم نامی راوی ہے جو باتفاقِ محدثین ’’ ضعیف “، ’’ متروک “ اور کذاب ہے۔ اس میں امام زہری رحمہ اللہ کی ’’ تدلیس “ بھی موجود ہے، نیز اس کے راویوں، ابو محمد صالح بن محمد بن نصر بن محمد بن عیسیٰ، قاسم بن عباد ترمذی، ابوعامر اور یزید ہاشمی کے حالات بھی نہیں ملے۔ ؟
اس روایت کے جھوٹا ہونے کے متعلق ائمہ حدیث نے واضح طور پر خبردار بھی کیا ہوا ہے، محدثین کی تصریحات ملاحظہ فرمائیں :
 امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ولا أصل له عن النبى صلى الله عليه وسلم
’’ یہ حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بالکل ثابت نہیں۔ “ 
[الضعفاء الصغير: 45/1، ت: 118]
 نیز فرماتے ہیں :
هذٰا الحديث باطل
’’ یہ حدیث جھوٹی ہے۔ “ 
[الضعفاء الكبير للعقيلي : 56/2، وسنده صحيح]
 امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
هو منكر بهذا الإسناد.
’’ اس سند کے ساتھ یہ منکر روایت ہے۔ “ 
[الكامل فى ضعفاء الرجال: 138/3]
 امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهذا خبر موضوع، لا شك فيه، ما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم هذا، ولا روى عنه أبو هريرة، ولا سعيد بن المسيب ذكره، ولا الزهري قاله، وإنما هذا اختراع أحدثه أهل الكوفة فى الإسلام، وكل شيء يكون بخلاف السنة، فهو متروك، وقائلة مهجور.
’’ یہ روایت جھوٹی ہے، اس کے جھوٹا ہونے میں کسی قسم کا کوئی شبہ نہیں۔ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے، نہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اسے آپ سے روایت کیا ہے، نہ سعید بن مسیّب رحمہ اللہ نے اسے ذکر کیا، نہ امام زہری رحمہ اللہ نے ایسا کہا۔ یہ اہل کوفہ کی طرف سے اسلام میں ایجاد کی گئی ایک بدعت ہے۔ ہر خلاف سنت بات کو ترک کر دیا جائے گا اور اس کے کہنے والے کو بھی چھوڑ دیا جائے گا۔ “ 
[المجروحين :299/1]
 امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فإنه لم يثبت . ’’ بلاشبہ یہ حدیث ثابت نہیں۔ “ [معرفة السنن والاثار : 355/2، ح : 4910]
 علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے ’’ موضوعات “ (من گھڑت روایات ) میں ذکر کیا ہے۔ [الموضوعات : 75/2]
 حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے واه (کمزور) قرار دیا ہے۔ [تنقيح التحقيق : 129/1]
 حافظ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهو حديث باطل، لا أضل له عند أهل الحديث.
’’ یہ من گھڑت حدیث ہے۔ محدثین کرام کے نزدیک یہ بے بنیاد ہے۔ “ 
[شرح صحيح مسلم : 97/1]
ایسی روایت جس کو محدثین جھوٹی اور من گھڑت قرار دیں، اس سے دلیل لے کر نجس کپڑوں میں نماز کی اجازت دینا بڑی دیدہ دلیری ہے۔

تنبیہ نمبر 

علامہ عینی حنفی نے اپنے دلائل میں لکھا ہے :
وذكر فى (الأسرارا) عن علي، وابن مسعود، أنهما قدر النجاسة بالدرهم .
[الاسرار] میں سیدنا علی اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے مذکور ہے کہ انہوں نے نجاست کو درہم کے ساتھ ماپا۔ “ [البناية فى شرح الهداية :726/1]

اس جھوٹی روایت کی سند کہاں ہے اور کیسی ہے ؟ کوئی اتا پتا نہیں۔ حدیث کی کسی کتاب میں اس کا ذکرتک نہیں۔
لطیفہ :

علامہ عینی حنفی نے اپنا دامن دلائل سے خالی پا کر ایک من گھڑت، بے سروپا اور عجیب و غریب دلیل ذکر کی ہے، قارئین کی اطلاع کے لیے پیش خدمت ہے :
وعن عمر، أنه قدرها بظفره، قال فى (المحيط): وكان ظفره قريبا من كفنا، فدل على أن ما دونه لا يمنع وقول عمر يبطل قول الشافعي.
’’ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنے ناخن کے ساتھ نجاست کو ماپا۔ 
[المحيط] کتاب کے مصنف نے کہا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ناخن تقریباً ہماری ہتھیلی کے برابر تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس سے کم نجاست نماز کے لیے رکاوٹ نہیں بنتی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول امام شافعی رحمہ اللہ کے نجاست کو نہ ماپنے کے قول کا ردّ کرتا ہے۔ “ [البناية فى شرح الهداية : 726/1]

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ناخن کا ہماری ہتھیلی کے برابر ہونا ایساجھوٹ ہے، جس کا کوئی قرینہ کتب ِ حدیث و تاریخ میں مذکور نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو ضرور کتب ِ تاریخ وغیرہ میں اس کا ذکر ہوتا، کیونکہ یہ کوئی عام بات نہیں تھی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ عجیب و غریب جھوٹ تراش کر امام شافعی رحمہ اللہ کا ردّ کیا جا رہا ہے۔ یہ تقلید ناسدید ہی ہے جو جھوٹ تراش کر ائمہ حق کا ردّ کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔

تنبیہ نمبر 

امام قتادہ تابعی رحمہ اللہ سے منقول ہے :
موضع الدرهم فاحش
’’ ایک درہم کی مقدار نجاست فاحش ہوتی ہے۔ “ 
[مصنف عبد الرزاق :375/1]

اس کی سند امام عبدالرزاق رحمہ اللہ کی ’’ تدلیس “ کی وجہ سے ’’ ضعیف “ ہے۔
اسی طرح امام حماد بن ابوسلیمان تابعی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا:
إذا كان موضع الدرهم فى ثوبك، فأعد الصلاة.
’’ جب تیرے کپڑے میں ایک درہم کی مقدار نجاست ہو تو نماز دہرا لے۔ “ 
[ايضًا]
اس کی سند امام عبدالرزاق اور امام سفیان ثوری کی ’’ تدلیس “ کی بنا پر ’’ ضعیف “ ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ دونوں قول شرعی نصوص کے خلاف ہونے کی بنا پر مردود اور ناقابل التفات ہیں۔

تنبیہ نمبر 
حنفی فقہاء لکھتے ہیں کہ اگر جسم کے کسی حصے پر نجاست لگ جائے تو اسے زبان سے چاٹ لیا جائے۔ اس سے جسم پاک ہو جاتا ہے۔
فقہ حنفی کی معتبر ترین کتابوں میں لکھا ہے :
إذا أصاب النجاسة بعض أعضائه، ولحسها بلسانه، حت ذهب أثرها، يطهر.
’’ جب اس (حنفی ) کے جسم کے کسی حصے کو نجاست لگ جائے اور وہ اسے زبان سے چاٹ لے، حتی کہ اس کا اثر ختم ہو جائے، تو وہ پاک ہو جاتا ہے۔ “ 
[فتاوي عالمگيري: 45/1، فتاوي قاضي خان : 11/1، البحرالرائق لابن نجيم : 127/1، رد المحتار على الدر المختار لابن عابدين :226/1، حاشية الطحطاوي على الدر المختار:157/1، وغيرهم]
دیکھا آپ نے کہ کیسی فقاہت ہے !
جناب احمد رضاخان، بریلوی (1272-1340ھ) اس مسئلے میں یوں برستے ہیں :
’’ انگلی سے نجاست چاٹ کر پاک کرنا کسی سخت گندی ناپاک روح کا کام ہے اور اسے جائز جاننا شریعت پر افتراء و اتہام اور تحلتل حرام اور قاطع اسلام ہے۔ اور یہ کہنا محض جھوٹ ہے کہ منہ بھی پاک رہے گا۔ نجاست چاٹنے سے قطعاً ناپاک ہو جائے گا۔ اگرچہ بار بار وہ نجس ناپاک تھوک یہاں تک نگلے کہ اثر نجاست کا منہ سے دھل کر سب پیٹ میں چلا جائے، پاک ہو جائے گا۔ مگر اس چاٹنے نگلنے کو وہی جائز رکھے گا جو نجس کھانے والا ہے۔ 
الخبيث للخبيثون، والخبيثون للخبيث نجاست نجس لوگوں کے لیے ہے اور نجس لوگ نجاست کے لیے ہیں۔ “ [فتاوئ رضویہ : 565/4، نسخہ : 134/2، احکامِ شریعت، حصہ سوئم، ص : 252]
ہم بھی کہتے ہیں کہ قرآن و حدیث اور فقہ محدثین کو چھوڑنے والوں کے منہ میں نجاست ہی پڑنی چاہیے۔ البتہ ’’ اعلیٰ حضرت “ کو یہ بھول گیا تھا کہ ان کی فقہ میں یہی کچھ لکھا ہوا ہے، بلکہ خود انہوں نے دوسری جگہ یہ بات اپنی کتب فقہ سے نقل کر کے اس سے استدلال بھی کیا ہوا ہے اور بتایا ہوا ہے کہ اسی پر فتویٰ ہے۔ ملاحظہ فرمائیں، وہ لکھتے ہیں :
’’ منیہ اور حلیہ میں ہے۔۔۔ یوں ہی جب اس کے بعض اعضاء پر نجاست لگی اور اس نے اس کو اپنی زبان سے پاک کر دیا، یہاں تک کہ اس کا اثر چلا گیا، اسی طرح جب چھری ناپاک ہو گئی، پھر اس نے اسے زبان سے چاٹا یا تھوک سے صاف کیا، یوں ہی جب بچے نے ماں کے پستان پر قے کی پھر کئی بار پستان کو چوسا تو وہ پاک ہو جائے گا انتہی۔ دوسری کتب میں بھی اسی طرح ہے۔ قواعد مذہبیہ اس مقام پر جس کلام کے تحریر کے متقاضی ہیں وہ یہ ہیں کہ جب کسی عضو پر نجاسب حقیقی لگ جائے تو اگر وہ دکھائی دینے والی ہے اور اس نے یا کسی دوسرے نے اس کو چاٹ لیا یہاں تک کہ اصل نجاست اور اس کا اثر زائل ہو گیا۔ اگر اس کو دُور کرنے میں مشقت نہ ہو تو پاک ہو جائے گا، اور اگر وہ نجاست دکھائی نہیں دیتی تو تین بار چاٹنے سے پاک ہو جاتی ہے جیسا کہ مصف نے اس مسئلہ میں ذکر کیا ہے یا کہ اس وقت جبکہ اس کے زوال کا غالب گمان ہو جائے۔ عنقریب مصنف اس کی تصریح کریں گے کہ فتویٰ اسی پر ہے۔ “ 
[فتاوئ رضويه : 466، 465/4]
ایک ہتھیلی کی مقدار نجاست کے ساتھ نماز پڑھنے کے حوالے سے احناف کے دلائل ہم نے ذکر کر دئیے ہیں اور ان کا حال بھی آپ نے ملاحظہ کیا۔ دنیا جہان کی جھوٹی اور من گھڑت روایات جن کو محدثین کرام نے کوڑے کے ڈھیر میں پھینک دیا تھا، ان کو بغیر جھاڑے پھونکے اٹھا کر ان لوگوں نے سینے سے لگایا ہے۔ لیکن دوسری طرف صحیح بخاری و صحیح مسلم کی احادیث کو ردّ کر دیا ہے۔

میت عورت کی تین چوٹیاں اور احناف :
میت عورت کو غسل دیتے وقت اس کے بالوں کی تین چوٹیاں بنانے اور ان کو پشت کی طرف ڈالنے کا ذکر صحیح بخاری و مسلم کی حدیث میں موجود ہے، چنانچہ سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے تعلیم و حکم نبوی کے مطابق رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت ِ جگر، سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو غسل دیا تو ان کی تین چوٹیاں بنائیں اور انہیں پشت کی طرف ڈال دیا۔ اس سلسلے میں وہ فرماتی ہیں :
فضفرنا شعرها ثلاثة اثلاث، قرنيها، وناصيتها .
’’ ہم نے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے دونوں اطراف اور ماتھے کے بالوں کی تین الگ الگ چوٹیاں بنا دیں۔ “ 
[صحيح البخاري:169/1، ح:1262، صحيح مسلم : 304/1، ح: 939]
صحیح بخاری کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں :
وألقيناها خلفها.
’’ اور ہم نے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی چوٹیاں ان کے پشت کی طرف ڈال دیں۔
صحیح بخاری و مسلم کی اس متفق علیہ صحیح حدیث کی دو طرح سے مخالفت کرتے ہوئے احناف مقلدین کا کہنا ہے کہ میت عورت کی تین نہیں، بلکہ دو چوٹیاں بنائی جائیں اور ان کو پشت کی طرف نہیں، بلکہ سینے کی جانب ڈالا جائے، چنانچہ ان کی معتبر ترین کتابوں میں ہے :
يجعل شعرها ضفيرتين على صدرها.
’’ میت عورت کے بالوں کی دو چوٹیاں بنائی جائیں اور ان کو سینے پر ڈالا جائے۔ “ 
[الهداية للمرغيناني الحنفي : 191/1، طبع مكتبة رحمانية، لاهور، عمدة القاري للعيني الحنفي : 43/8، وغيرها من كتب الفقه الحنفية]
احناف نے جہاں اس صحیح و صریح حدیث کی مخالفت کی، وہاں اپنی جہالت کی بنا پر اس بارے میں تعلیم و حکم نبوی کو بھی مشکوک قرار دینے کی کوشش کی۔ چنانچہ جناب تقی عثمانی، دیوبندی، حیاتی کہتے ہیں :
’’ اس کے بارے میں حنفیہ یہ کہتے ہیں کہ اس میں کہیں یہ ذکر نہیں ہے کہ تین چوٹیاں بنا کر پیچھے ڈالنے کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا اور یہ کہنا کہ سیدنا امِ عطیہ رضی اللہ عنہا کا ایسا کرنا آپ کی تعلیم سے تھا، یہ محض ایک امکان ہے ، 
والحكم لا يكبح به . حضرت گنگوہی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت امِ عطیہ رضی اللہ عنہا کے فعل کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم یا تقریر پر محمول کرنا تکلف سے خالی نہیں، لہٰذا حنفیہ ہی کا مسلک بہتر ہے۔ “ [ درس ترمذي :26/3 ]
سیدہ امِ عطیہ رضی اللہ عنہا کی بیان کردہ درجِ ذیل صحیح حدیث کو ملاحظہ فرمائیں اور گنگوہی و تقی صاحبان سمیت احناف ’’ اہل علم و مفتیان “ کی حدیث بینی کو داد دیں۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ امِ عطیہ رضی اللہ عنہا کو اپنی لخت جگر کے غسل کے لیے جو تعلیم دی تھی، اس میں صاف مذکور ہے کہ :
إغسلنها ثلاثا أو خمسا أو سبعا، واجعلن لها ثلاثة فرون.
’’ اسے تین، پانچ یا سات دفعہ غسل دو اور اس کی تین چوٹیاں بناؤ۔ “ 
[المعجم الكبير للطبراني : 49/25، صحيح ابن حبان: 3033، و سندهٔ صحيح]
گنگوہی و تقی صاحبان کے پیدا ہونے سے کئی صدیاں پہلے اسی اعتراض کا جواب دیتے ہوئے معروف محدث، امام ابن حبان رحمہ اللہ جن کی تصنیف حدیث کی معروف و متداول کتاب ہے، اسی حدیث پر یوں تبویب فرما گئے ہیں :
ذكر البيان بأن أم عطية إنما مشطت قرونها بأمر المصطفى صلى الله عليه وسلم، لا من تلقاء نفسها.
’’ اس بات کا بیان کہ سیدہ امِ عطیہ رضی اللہ عنہا کا سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی تین چوٹیاں بنانا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانِ مبارک کی وجہ سے تھا، اپنی ذاتی رائے سے نہیں تھا۔

یہ ہے حدیث و فقہ حدیث کے حوالے سے ان لوگوں کا علمی مقام ! حدیث صریح طور پر یہ بتا رہی ہے کہ سیدہ امِ عطیہ رضی اللہ عنہا نے یہ عمل رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم مبارک کی تعمیل میں کیا تھا اور فقہاء ائمہ کرام باقاعدہ تبویب میں یہ بتا گئے ہیں کہ یہ سیدہ امِ عطیہ رضی اللہ عنہا کا ذاتی فعل نہیں تھا، بلکہ امر نبوی کی تعمیل تھی۔ اس کے برعکس ان لوگوں کے پاس میت عورت کے بالوں کی دو چوٹیاں بنانے اور ان کو سینے کی طرف ڈالنے کی کوئی شرعی دلیل نہیں۔ یہ ہے وہ فقہ، جسے قرآن و حدیث کا نچوڑ قرار دیا جاتا ہے !

صحیح مسلم میں دوہری اذان اور احناف :
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اذان اکہری اور دوہری دونوں طرح ثابت ہے۔ اذان میں شہادتین کو دو دو دفعہ کہنا بغیر ترجیع کے، یعنی اکہری اذان، جبکہ شہادتیں کو چار چار دفعہ کہنا ترجیع والی، یعنی دوہری اذان، کہلاتا ہے۔ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ اکہری اذان دیتے تھے، جبکہ سیدنا ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوہری اذان سکھائی تھی۔ اس حوالے سے سیدنا ابومحذورہ کا اپنا بیان، جو صحیح مسلم میں مذکور ہے، ملاحظہ فرمائیں :
ان نبي الله صلى الله عليه وسلم علمه هذا الاذان:‏‏‏‏ الله اكبر، ‏‏‏‏‏‏الله اكبر، ‏‏‏‏‏‏اشهد ان لا إله إلا الله، ‏‏‏‏‏‏اشهد ان لا إله إلا الله، ‏‏‏‏‏‏اشهد ان محمدا رسول الله، ‏‏‏‏‏‏اشهد ان محمدا رسول الله، ‏‏‏‏‏‏ثم يعود، ‏‏‏‏‏‏فيقول:‏‏‏‏ اشهد ان لا إله إلا الله، ‏‏‏‏‏‏اشهد ان لا إله إلا الله، ‏‏‏‏‏‏اشهد ان محمدا رسول الله، ‏‏‏‏‏‏اشهد ان محمدا رسول الله، ‏‏‏‏‏‏حي على الصلاة مرتين، ‏‏‏‏‏‏حي على الفلاح مرتين، ‏‏‏‏‏‏زاد إسحاق الله اكبر، ‏‏‏‏‏‏الله اكبر، ‏‏‏‏‏‏لا إله إلا الله
’’ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ اذان سکھائی :
الله اكبر، ‏‏‏‏‏‏الله اكبر، ‏‏‏‏‏‏اشهد ان لا إله إلا الله، ‏‏‏‏‏‏اشهد ان لا إله إلا الله، ‏‏‏‏‏‏اشهد ان محمدا رسول الله، ‏‏‏‏‏‏اشهد ان محمدا رسول الله، اشهد ان لا إله إلا الله، ‏‏‏‏‏‏اشهد ان لا إله إلا الله، ‏‏‏‏‏‏اشهد ان محمدا رسول الله، ‏‏‏‏‏‏اشهد ان محمدا رسول الله، ‏‏‏‏‏‏حي على الصلاة ، ‏‏‏‏‏‏ ‏‏‏‏‏‏حي على الصلاة ، حي على الفلاح ، حي على الفلاح، ‏‏‏‏‏‏الله اكبر، ‏‏‏‏‏‏الله اكبر، ‏‏‏‏‏‏لا إله إلا الله [صحيح مسلم:164/1، ح: 379]
اس صحیح و صریح حدیث کے خلاف بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ :
ولا ترجيع فيه. ’’ اذان میں ترجیع (جائز/ثابت )نہیں۔ “ [الهداية للمرغيناني الحنفي:85/1، طبع مكتبة رحمانية، لاهور]
قارئین کرام ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ صحیح مسلم میں ثابت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود سیدنا ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کو ترجیع والی، یعنی دوہری اذان سکھائی تھی۔ اس کی مخالفت میں بعض لوگ بے دھڑک دوہری اذان کی مخالفت کرتے ہیں۔ افسوس در افسوس یہ کہ وہ اس صحیح حدیث کو ردّ کرنے کے لیے فہم صحابہ پر بھی طعن کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں صحیح حدیث کو ’’ جواب “ دیتے ہوئے لکھتے ہیں :

وكان ما رواه تعليما، فظنه ترجيعا.
’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو (ترجیع والی کلمات ) فرمائے، وہ اذان سکھانے کے لیے تھے، لیکن سیدنا ابومحذورہ نے اسے دوہری اذان سمجھ لیا۔ “ 
[الهداية للمرغيناني : 85/1، طبع مكتبة رحمانية، لاهور]

اس ’’ چوری اور سینہ زوری “ کا اندازہ کریں کہ ایک تو صحیح حدیث کو ردّ کیا، دوسرے صحابی رسول کے متعلق بدگمانی پیدا کرتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ وہ مرادِ رسول کو سمجھ ہی نہیں پائے۔ یوں ان لوگوں نے انکارِ حدیث کی راہ ہموار کرتے ہوئے ہر ایک کے لیے دین کی خود ساختہ تعبیر کا دروازہ کھول دیا ہے۔ اگر صحابہ کرام ہی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد کو نہیں سمجھ پائے تو پھر دین کو کس نے سمجھا ؟ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین، جو بزبانِ نبوی خیرالقرون (علم و عمل اور فہم و شعور ہر اعتبار سے بعد والوں سے بہتر) تھے، میں سے کسی نے نہ دوہری اذان کا انکار کیا ہے، نہ اسے سیدنا ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کے فہم کی غلطی قرار دیا ہے۔ کئی صدیوں بعد بعض جاہل مقلدین کو یہ اختیار کس نے دے دیا کہ وہ صحابہ کرام کی غلطیاں نکالنے لگیں ؟

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں