Search

زیارت قبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اہمیت و فضیلت حصہ اول

  • تحریر: غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کی فضیلت و اہمیت پر مبنی بہت سی روایات زبان زد عام ہیں۔ ان روایات کا اصول محدثین کی روشنی میں تحقیقی جائزہ پیش خدمت ہے :
روایت نمبر 

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من زار قبري، وجبت له شفاعتي ”جو شخص میری قبر کی زیارت کرے گا، اس کے لیے میری سفارش واجب ہو جائے گی۔“ [سنن الدارقطني : 278/2، ح : 2669، شعب الإيمان للبيهقي : 490/3، ح : 5169، مسند البرار كشف الأستار : 57/2، ح 1197]

تبصرہ : اس کی سند ”ضعیف“ ہے، اس کے بارے میں :
➊ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فإن فى القلب منه، أنا أبرا من عهدته
”میرے دل میں اس کے بارے میں خلش ہے۔ میں اس کی ذمہ داری سے بری ہوں۔“ [لسان الميزان لابن حجر : 135/6]
◈ نیز اس روایت کو امام صاحب نے ”منکر“ بھی قرار دیا ہے۔ [أيضا]
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کی ساری بحث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
ومع ما تقدم من عبارة ابن خزيمة، وكشفه عن علة هذا الخبر، لا يحسن أن يقال : أخرجه ابن خزيمة فى صحيحه إلا مع البيان.
”امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کی عبارت بیان ہو چکی سے، نیز انہوں نے اس روایت کی علت بھی بیان کر دی ہے، اس سب کچھ کے ہوتے ہوئے یہ کہنا درست نہیں کہ اس روایت کو امام ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ ہاں ! وضاحت کر کے ایسا کہا جا سکتا ہے۔“ [ايضا]
◈ حافظ سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهو فى صحيح ابن خزيمة وأشار الي تضعيفه .
یہ روایت صحیح ابن خزیمہ میں ہے، لیکن امام صاحب نے اس کے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔“ [المقاصد الحسنة فى بيان كثير من الأحاديث المشتهرة على الألسنة : 1125]
➋ امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فيها لين ”اس میں کمزوری ہے۔“ [الضعفاء الكبير : 170/4]
➌ حافظ بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فهو منكر ”یہ روایت منکر ہے۔“ [شعب الإيمان للبيهقي : 490/3]
➍ حافظ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس کی سند ”ضعیف“ ہے۔ [المجموع شرح المهذب : 272/8]
➎ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وهو حديث منكر ”یہ حدیث منکر ہے۔“ [تاريخ الإسلام : 212/11، وفي نسخة : 115/11]
➏ حافظ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وهو مع هذا حديث غير صحيح ولا ثابت، بل هو حديث منكر عند ائمة هذا الشان. ضعيف الاسناد عندهم، لايقوم بمثله حجة، ولا يعتمد علي مثله عند الاحتجاج الا الضعفاء في هذا العلم
یہ حدیث نہ صحیح ہے نہ ثابت۔ یہ تو فن حدیث کے ائمہ کے ہاں منکر اور ضعیف الاسناد روایت ہے۔ ایسی روایت دلیل بننے کے لائق نہیں ہوتی۔ علم حدیث میں ناپختہ کار لوگ ہی ایسی روایات کو اپنی دلیل بناتے ہیں۔“ [الصارم المنكي فى الرد على السبكي، ص : 30]
➐ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ولا يصح فى هذا الباب شیء . ”اس بارے میں کچھ بھی ثابت نہیں۔“ [التلخيص الحبير : 267/2]
◈ نیز فرماتے ہیں :
وفيه ضعف ”اس روایت میں کمزوری ہے۔“ [اتحاف المهرة : 123/9-124]
↰ اس روایت کے راوی موسیٰ بن ہلال عبدی کی توثیق ثابت نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ محدثین کرام نے اس کو ’’ مجہول“ اور اس کی بیان کردہ روایات کو ”منکر“ قرار دیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں :
➊ امام ابوحاتم رازی نے اسے ’’ مجہول“ قرار دیا ہے۔ [الجرح والتعديل لابن أبى حاتم : 166/8]
➋ امام دارقطنی نے اسے ’’ مجہول“ قرار دیا ہے۔ [لسان الميزان لابن حجر : 136/6]
➌ امام عقلیی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لايصح حديثه، ولا يتابع عليه ”اس کی حدیث ضعیف اور منکر ہوتی ہے۔“ [الضعفاء الكبير : 170/4]
➍ اس کے بارے میں امام ابن عدی رحمہ اللہ کے قول وأرجوا أنه لا بأس به [الكامل فى ضعفاء الرجال : 351/6] ذکر کرتے ہوئے حافظ ابن قطان فاسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فالحق فيه أنه لم تثبت عدالته. ”حق بات یہ ہے کہ اس راوی کی عدالت ثابت نہیں ہوئی۔“ [بيان الوهم والابهام فى كتاب الاحكام : 322/4]
↰ حافظ ابن قطان رحمہ اللہ کی یہ بات بالکل درست ہے۔ امام ابن عدی رحمہ اللہ کے اس قول سے موسیٰ بن ہلال عبدی کی توثیق ثابت نہیں ہوئی، کیونکہ جعفر بن میمون نامی راوی کے بارے میں امام صاحب فرماتے ہیں :
وأرجوا أنه لا باس به، ويكتب حديثه فى الضعفاء . ”مجھے امید ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس کی حدیث ضعیف راویوں میں لکھی جائے گی۔“ [لكامل : 138/2ء، وفي نسخة : 562]

↰ یعنی امام ابن عدی رحمہ اللہ ”ضعیف“ راویوں کے بارے میں بھی یہ الفاظ بول دیتے ہیں۔ ان کی مراد شاید یہ ہوتی ہے کہ یہ راوی جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولتا تھا۔
ہماری بات کی تائید علامہ عبد الرحمن بن یحیی یمانی معلی رحمہ اللہ (1313۔ 1386ھ) کے ایک قول سے بھی ہوتی ہے۔ یوسف بن محمد بن منکدر کے بارے میں بھی امام ابن عدی رحمہ اللہ نے بالکل یہی الفاظ کہے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے :
◈ علامہ یمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
هذه الكلمة رأيت ابن عدي يطلقها فى مواضع تقتضي أن يكون مقصوده : أرجوا أنه لا يتعمد الكذب، وهذا منها، لأنه قالها بعد أن ساق أحاديث يوسف، وعامتها لم يتابع عليها.
”میں نے کئی ایسے مقامات پر امام ابن عدی کی طرف سے اس کلمے کا اطلاق دیکھا ہے، جہاں ان کے قول کا مقصود یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ راوی جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولتا تھا۔ یہاں بھی یہی معاملہ ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ یوسف (بن محمد بن منکدر) کی بیان کردہ روایات ذکر کرنے کے بعد امام ابن عدی نے ایسا کہا ہے اور ان میں سے اکثر روایات منکر ہیں۔“ [التعليق على الفوائد المجموعة، ص : 51]

↰ ثابت ہوا کہ موسیٰ بن ہلال کو واضح طور پر کسی متقدم امام نے ”ثقہ“ قرار نہیں دیا۔ اس کی حدیث ”ضعیف“ اور ”منکر“ ہوتی ہے، جیسا کہ ائمہ کی تصریحات بیان ہو چکی ہیں۔ لہذا حافظ ذہبی رحمہ اللہ [ميزان الاعتدال : 225/4] کا اسے ’’ صالح الحدیث“ کہنا ان کا علمی تسامح ہے، یہ بات درست نہیں۔ ہم نقل کر چکے ہیں کہ خود حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ”منکر“ بھی قرار دیا ہے۔ اس لئے حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے اس تسامح کو اس حدیث کی صحت کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔ متقدمین ائمہ حدیث میں سے کسی نے اس حدیث کو ”صحیح“ قرار نہیں دیا۔ اعتبار محدثین ہی کی بات کا ہے۔

روایت نمبر 

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من جاءني زائرا لا يعلمه حاجة إلا زيارتي، كان حقا على ان اكون له شفيعا يوم القيامة
”جو شخص صرف میری زیارت کی خاطر میرے پاس آئے گا، مجھ پر روز قیامت اس کی سفارش کرنا واجب ہو جائے گا۔“ [المعجم الكبير للطبراني : 291/12، ح : 13149، المعجم الاوسط للطبراني : 4543، الخلعيات للخلعي : 52، المعجم لابن المقري : 158، تاريخ أصبهان لابي نعيم الاصبهاني : 190/2، الدرة الثمينة فى أخبار المدينة لابن النجار : 155]

تبصرہ : اس کی سند ”ضعیف“ ہے۔
اس کا راوی مسلمہ بن سالم جہنی (مسلم بن سالم جہنی) ’’ مجہول“ اور ”ضعیف“ ہے۔
حافظ ہیثمی [مجمع الزوائد : 2/4] اور حافظ ابن حجر [تقريب التهذيب : 6628] نے اسے ”ضعیف“ قرار دیا ہے۔
حافظ ابن عبد الہادی [الصارم المنكي، ص : 36] نے اسے موسیٰ بن ہلال عبدی کی طرح کا ”مجہول الحال“ کہا ہے۔ اس کی کوئی توثیق ثابت نہیں۔
↰ یہی وجہ ہے کہ علامہ نووی رحمہ اللہ نے اس سند کو ”ضعیف“ قرار دیا ہے۔ [المجموع شرح المهذب : 272/8]
لہذا حافظ عراقی رحمہ اللہ [تخريج احاديث الاحياء : 306/1] کا اس کے بارے میں وصححه ابن السكن کہنا اس کی صحت کے لئے مفید نہیں۔
◈ حافظ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ فرما تے ہیں :
انه حديث ضعيف الإسناد، لا يصلح الاحتجاج به، ولا يجوز الاعتماد على مثله .
”اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔ اسے دلیل بنانا اور اس جیسی روایت پر اعتماد کرنا جائز نہیں۔“ [الصارم المنكي فى الرد على السبكي، ص : 36]
↰ پھر اگر اس روایت کو صحیح بھی مان لیا جائے تو اس سے مراد نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہے، نہ کہ وفات کے بعد قبر مبارک کی زیارت۔

روایت نمبر 

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : من زارني فى مماتي، كان كمن زارني فى حياتي، ومن زارني حتى ينتهي إلى قبري، كنت له شهيدا يؤم القيامة، أو قال : ”شفيعا“ .
”جو میری موت کے بعد میری زیارت کرے گا، اس نے گویا زندگی میں میری زیارت کی اور جو شخص میری زیارت کو آئے حتی کہ میری قبر تک پہنچ جائے، اس کے لئے میں روز قیامت گواہی دوں گا۔“ یا فرمایا : ’’ سفارش کروں گا۔“ [الضعفاء الكبير للعقيلي : 457/3]

تبصرہ : اس کی سند سخت ”ضعیف“ اور ”منکر“ ہے۔
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ (663- 748ھ) فرماتے ہیں :
هذا موضوع . ”یہ خود ساختہ روایت ہے۔“ [ميزان الاعتدال : 349/3، ت : 6709]
◈ امام عقیلی رحمہ اللہ نے اسے ”غیر محفوظ“ قرار دیا ہے۔ [الضعفاء الكبير : 457/3]
↰ اس کا راوی فضالہ بن سعید بن زمیل ماربی ”ضعیف“ ہے۔ کسی نے اسے ”ثقہ“ نہیں کہا البتہ اس کے بارے میں :
◈ امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وحديثه غير محفوظ، ولا يعرف الا به .
”اس کی حدیث شاذ ہے اور اس سے یہی ایک روایت مشہور ہے۔“ [الضعفاء الكبير : 457/3]
◈ حافظ ابونعیم فرماتے ہیں :
روي المناكير، لاشي ء . ”اس نے منکر روایات بیان کی ہیں۔ یہ ناقابل التفات ہے۔“ [لسان الميزان لابن حجر:436/4]
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے واه یعنی ”ضعیف“ کہا ہے۔ [المغني فى الضعفاء : 510/2]
◈ حافظ ابن حجر نے بھی اسے ”ضعیف“ قرار دیا ہے۔ [التلخيص الحبير : 267/2]
◈ حافظ ابن ملقن نے بھی اسے ”ضعیف“ قرار دیا ہے۔ [البدر المنير : 255/3]

فائدہ : محمد بن یحییٰ بن قیس ماربی راوی کو امام دارقطنی [سوالات البرقاني : 464] اور امام حبان [الثقات ;45/9] رحمہ اللہ نے ”ثقہ“ قرار د یا ہے لیکن امام ابن عدی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں : منكر الحديث، أحاديثه مظلمة منكرة
”یہ منکر الحدیث راوی ہے۔ اس کی بیان کردہ روایات سخت ضعیف اور منکر ہیں۔“ [الكامل فى ضعفاء الرجال : 2239/6، وفي نسخة : 234/6]
↰ یعنی یہ باوجود ثقہ ہونے کے ’’ منکر“ روایات بیان کرتا تھا۔ یہ روایت بھی اس کی مناکیر میں سے ہے۔

روایت نمبر 

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من زارني بالمدينة محتسبا، كنت له شفيعا وشهيدا يؤم القيامة
”جو شخص مدینہ منورہ آ کر ثواب کی نیت سے میری زیارت کرے گا، میں قیامت کے دن اس کی سفارش کروں گا اور اس کے حق میں گواہی بھی دوں گا۔ [تاريخ جرجان لحمزة بن يوسف السهمي، ص : 434، كتاب القبور لابن أبى الدنيا كما فى التلخيص الحبير لابن حجر : 265/2، شعب الإيمان للبيهقي : 488/3]

تبصرہ : اس کی سند ”ضعیف“ ہے، کیونکہ :
➊ اس کا راوی ابومثنی کعبی (سلیمان بن یزید) ”ضعیف“ ہے۔
اس کے بارے میں :
◈ امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
منكر الحديث، ليس بقوي .
”یہ منکر الحدیث اور ضعیف راوی ہے۔“ [الجرح والتعديل لابن أبى حاتم : 149/4]

◈ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے ”ضعیف“ کہا: ہے۔ [العلل الواردة فى الأحاديث النبوية : 3823]
◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
يخالف الثقات فى الروايات، لا يجوز الاحتجاج به، ولا الرواية عنه، إلا للاعتبار.
”یہ روایات میں ثقہ راویوں کی مخالفت کرتا ہے۔ نہ اس کی روایات سے دلیل لینا جائز ہے، نہ اس کی روایات کو بیان کرنا۔ ہاں صرف متابعات و شواہد میں اس کی روایات کو بیان کیا جا سکتا ہے۔“ [كتاب المجروحين : 151/3]
↰ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اسے اپنی کتاب [الثقات 395/6] میں بھی ذکر کر دیا ہے۔ اصولی طور پر ان کا جمہور کے موافق جرح والا قول لے لیا جائے گا۔

رہا امام ترمذی رحمہ اللہ [الجامع : 1493] کا اس کی ایک حدیث کو ”حسن“ اور امام حاکم رحمہ اللہ [المستدرك على الصحيحين : 222/4] کا ”صحیح الاسناد“ قرار دینا تو وہ اس کی ثقاہت پر دلیل نہیں بن سکتا، کیونکہ امام ترمذی رحمہ اللہ کا کسی حدیث کو ”حسن“ کہنا ان کی ایک خاص اصطلاح ہے، جس کا اطلاق انہوں نے بہت سے مقامات پر ”ضعیف“ سند والی روایات پر بھی کیا ہے اور امام حاکم رحمہ اللہ کا مذکورہ حکم ان کے تساہل پر مبنی ہے۔

غرضیکہ ابومثنی جمہور محدثین کرام کے نزدیک ”ضعیف“ ہے، جیسا کہ :
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ”ضعیف“ قرار دیا ہے۔ [تقريب التهذيب : 3840]
➋ یہ ابومثنی راوی تبع تابعی ہے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اس کی ملاقات ہی ثابت نہیں۔ یوں اس کی سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ”منقطع“ بھی ہے۔
فائدہ :

اس روایت کی ایک سند مسند اسحاق بن راہویہ میں بھی ہے،

لیکن وہ ایک ”شیخ“ مبہم کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے۔

روایت نمبر 

قال يحيى بن الحسن بن جعفر فى أخبار المدينة : ثنا محمد بن يعقوب : ثنا عبد الله بن وهب عن رجل، عن بكر بن عبدالله، عن النبى صلى الله عليه وسلم، قال : من اتى المدينة زائرا لي، وجبت له شفاعتي يؤم القيامة، ومن مات فى أحد الحرمين، بعث آمنا
”عبداللہ بن وہب ایک آدمی کے واسطے سے بیان کرتے ہیں کہ بکر بن عبد اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کیا : جو شخص میری زیارت کے لیے مدینہ آئے گا، اس کے لیے روز قیامت میری شفاعت واجب ہو جائے گی اور جو شخص حرمین میں سے کسی ایک حرم میں فوت ہو گا، وہ امن کی حالت میں اٹھایا جائے گا۔“ [شفاء السقام للسبكي، ص : 40]

تبصرہ :
یہ باطل روایت ہے، کیونکہ :
➊ اس میں ”رجل“ مبہم ہے۔ اس کی دیانت و امانت اور حافظہ تو درکنار، اس کا نام بھی معلوم نہیں۔
➋ بکر بن عبداللہ کون ہے ؟ اس کا تعارف، تعین اور توثیق مطلوب ہے۔ یہ کوئی تابعی ہے یا تبع تابعی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ڈائریکٹ اس کی روایت ”مرسل“ اور ”منقطع“ ہے۔
➌ اس میں عبداللہ بن وہب مصری کی ”تدلیس“ بھی موجود ہے۔ انہوں نے نہ اپنے استاذ کا نام لیا ہے نہ اس سے سماع کی صراحت کی ہے۔
↰ محسوس یوں ہوتا ہے کہ یہ اسی نامعلوم شحص کی کارروائی ہے۔

◈ علامہ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ (705-744ھ) اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں :
وهو حديث باطل، لا أصل له، وخبر معضل، لا يعتمد على مثله، وهو من أضعف المراسيل وأوهى المنقطعات.
”یہ باطل، بے اصل اور سخت منقطع روایت ہے۔ ایسی روایات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ یہ عام مرسل اور منقطع روایات سے بھی گئی گزری روایت ہے۔“ [الصارم المنكي، ص : 243]

↰ پھر اس روایت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضر ہونے کا کوئی ذکر ہیں۔ اس کا تعلق تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے ساتھ تھا۔ یا اس سے مراد خواب میں آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہے۔

روایت نمبر 

سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ ہے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من زارني بعد مؤتي، فكأنما زارني فى حياتي، ومن مات بأحد الحرمين، بعث آمنا يؤم القيامة .
”جس شخص نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی، اس نے گویا میری زندگی میں میری زیارت کی اور جو شخص حرمین میں سے کسی ایک میں فوت ہو گا، قیامت کے روز امن کی حالت میں اٹھایا جائے گا۔“ [سنن الدارقطني : 277/2، شعب الايمان للبيهقي : 488/3]

تبصرہ : اس کی سند ”ضعیف“ ہے۔
◈ حافظ عبدالرؤف مناوی رحمہ اللہ نے اسے ”معلول“ قرار دیا ہے۔ [الفتح السماوي فى تخريج أحاديث القاضي البيضاوي : 381/1]

اس روایت میں دو علتیں ہیں :
➊ ہارون بن ابوقزعہ راوی ”منکر الحدیث“ ہے۔
◈ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لا يتابع عليه. ”یہ منکر الحدیث راوی ہے۔“ [الضعفاء الكبير للعقيلي : 362/4، و سندهٔ صحيح]

◈ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهارون أبو قزعة لم ينسب، وإنما روى الشيء اليسير الذى أشار إليه البخاري.
”ہارون ابوقزعہ غیر منسوب راوی ہے۔ اس نے بہت تھوڑی روایات بیان کی ہیں، جن (کے منکر ہونے) کی طرف امام بخاری رحمہ اللہ نے اشارہ فرمایا ہے۔“ [الكامل فى ضعفاء الرجال : 128/7]
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وقد ضعفه يعقوب بن شيبة، وذكره العقيلي والساجي وابن الجارود فى الضعفاء.
”اسے امام یعقوب بن شیبہ نے ضعیف قرار دیا ہے اور امام عقیلی، امام ساجی اور امام ابن جارود نے ضعیف راویوں میں شمار کیا ہے۔“ [لسان الميزان : 181/6]
◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے [الثقات 580/7] میں ذکر کیا ہے جو کہ ان کا تساہل ہے۔ بات وہی ہے جو جمہور محدثین نے فرمائی ہے۔
➋ رجل من آل حاطب ’’ مجہول“ و ’’ مبہم“ ہے۔ اسی لئے تو :
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وفي إسناده الرجل المجهول. ”اس کی سند میں مجہول راوی ہے۔“ [التلخيص الحبير : 266/2]
لہٰذا اس روایت کے باطل ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔

روایت نمبر 

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من زار قبري – أو قال : من زارني – كنت له شفيعا أو شهيدا، ومن مات فى أحد الحرمين، بعث الله من الآمنين يؤم القيامة
”جو شخص میری قبر کی زیارت کرے گا، میں اس کے لئے سفارشی اور گواہ بنوں گا اور جو حرمین میں سے کسی حرم میں فوت ہو گا، اسے روز قیامت اللہ تعالیٰ امن والوں میں اٹھائے گا۔“ [مسند الطيالسي، منحة المعبود : 228/1، السنن الكبرى للبيهقي : 245/5، شعب الإيمان للبيهقي : 488/3]

تبصرہ : اس کی سند باطل ہے، کیونکہ :
➊ سوار بن میمون راوی کا کتب رجال میں کوئی ذکر نہیں مل سکا۔
➋ رجل من آل عمر ’’ مجہول“ ہے۔
اس لیے اس روایت کی سند کے بارے میں :
◈ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهذا إسنادمجهول. ”اس کی سند مجہول راویوں پر مشتمل ہے۔“ [السنن الكبري : 245/5]
◈ حافظ منذری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فى إسناده نظر. ”اس کی سند میں نکارت ہے۔ [البدر المنير لابن الملقن : 298/6]

فائدہ :

شعب الایمان بیہقی [489/3] میں یہ روایت یوں ہے :
. . . حدثنا شعبة عن سوار بن ميمون : حدثنا هارون بن قزعة، عن رجل من آل الخطاب، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال : من زارني متعمدا، كان فى جواري يؤم القيامة، ومن سكن المدينة وصبر على بلائها، كنت له شهيدا وشفيعا يؤم القيامة، ومن مات فى أحد الحرمين بعثه الله من الآمنين يؤم القيامة .
”جو شخص قصداً میری زیارت کرے گا، وہ روز قیامت میرے پڑوس میں ہو گا۔ جو شخص مدینہ منورہ میں رہائش اختیار کرے گا اور وہاں کی تکالیف پر صبر کرے گا، میں قیامت کے دن اس کے لئے گواہی دوں گا اور سفارش کروں گا اور جو شخص حرمیں میں سے کسی ایک حرم میں فوت ہو گا، اسے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز امن والوں میں سے اٹھائیں گے۔“

اس کی سند بھی باطل ہے، کیونکہ :
➊ اس میں وہی سوار بن میمون ”مجہول“ موجود ہے، جس کا ذکر ابھی ہوا ہے۔
➋ اس میں ہارون بن قزعہ بھی ہے، جس کے بارے میں بتایا جا چکا ہے کہ وہ جمہور کے نزدیک ”ضعیف“ ہے۔
➌ رجل من آل الخطاب ”مجہول“ اور ”مبہم“ ہے۔
اس بارے میں :
◈ امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
والرواية فى هذا لينة. ”اس بارے میں روایت کمزور ہے۔“ [الضعفاء الكبير : 362/4]

روایت نمبر 

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من حج، فزار قبري بعد موتي كان كمن زارني فى حياتي
”جو شخص میری وفات کے بعد حج کرے، پھر میری قبر کی زیارت کرے، گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی۔“ [المعجم الكبير للطبراني : 406/12، سنن الدارقطني : 278/2، الكامل فى ضعفاء الرجال لابن عدي : 790/2، السنن الكبري للبيهقي : 246/5، أخبار مكة للفاكهي : 437/1، مسند أبى يعلى كما فى المطالب العالية لابن حجر : 372/1]

تبصرہ : یہ سخت ترین ”ضعیف“ روایت ہے، کیونکہ :
➊ حفص بن سلیمان قاری راوی ”متروک الحدیث“ ہے۔ [تقريب التهذيب لابن حجر : 1404]
◈ حافظ ہیثمی فرماتے ہیں :
وضعفه الجمهور. ”اسے جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ [مجمع الزوائد : 163/10]
◈ حافظ سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فقد ضعفه الجمهور. ”اسے جمہور اہل علم نے ضعیف کہا ہے۔“ [القول البديع فى الصلاة على الحبيب الشفيع، ص : 120]
➋ لیث بن ابوسلیم راوی جمہور محدثین کرام کے نزدیک ”ضعیف“ ہے۔
◈ حافظ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
فضعفہ الجماهير . ”اسے جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ [شرح صحيح مسلم : 52/1]
◈ حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعفه الجمهور. ”اسے جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ [تخريج أحاديث الإحياء : 1817]
◈ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
وضعفه الأكثر. ’’ اسے جمہور اہل علم نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ [مجمع الزوائد : 90/1، 91، 178/2]
◈ بوصیری رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
ضعفه الجمهور . ”اسے جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ [زوائد ابن ماجه : 542]
◈ حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعيف عند الجمهور. ”یہ راوی جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔“ [البدر المنير : 104/2، 227/7، تحفة المحتاج : 48/2]
◈ علامہ ابوالحسن سندھی حنفی لکھتے ہیں :
وفي الزوائد : ليث ابن ابي سليم، ضعفه الجمهور.
’’ زوائد میں ہے کہ لیث بن ابوسلیم راوی کو جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ [حاشية السندي على ابن ماجه : 1891]

فائدہ :

➊ معجم کبیر طبرانی [406/12] اور معجم اوسط طبرانی [201/1] میں حفص بن سلیمان کی متابعت عائشہ بنت سعد نے کر رکھی ہے۔

لیکن اس کے بارے میں :
◈ حافظ ہیثمی فرماتے ہیں :
وفيه عائشة بنت سعد، ولم أجد من ترجمها.
”اس سند میں عائشہ بنت سعد ہے۔ مجھے کتب رجال میں کہیں اس کے حالات نہیں ملے۔“ [مجمع الزوائل : 2/4]
اسی طرح اس سند میں علی بن حسن بن ہارون انصاری اور لیث بن بنت لیث بن ابوسلیم کے حالات زندگی بھی نہیں مل سکے۔ اس میں چوتھی علت یہ ہے کہ امام طبرانی رحمہ اللہ کے استاذ احمد بن رشدین ”ضعیف“ ہیں۔ بنابریں یہ متابعت بےکار اور بے فائدہ ہے۔

(ب) شفاء السقام سبکی [ص : 27] میں

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں