Search

اللہ تعالیٰ ہی سے سوال کرنے کے متعلق حدیث کی توثیق

تحریر: مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی

سوال : اللہ ہی سے مانگنے کے متعلق حدیث کے بارے میں معلوم ہو ا ہے کہ اس کی استنادی حیثیت معتبر نہیں۔ مہربانی فرما کر درست موقف کی رہنمائی فرما دیں۔
جواب : سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
يسئل احدكم ربه حاجته كلها حتي يساله شسع نعله اذا انقطع .
’’ تم میں سے ہر کوئی اپنی حاجات اپنے رب سے مانگے حتیٰ کہ جب جوتی کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ بھی اس سے مانگے۔ “ [شعب الايمان اللبيهقي (2/ 41) (1116)، مجمع الزوائد (10/ 228)، صحيح ابن حبان (2 / 240)، عمل اليوم و الليلة الابن السني (354)، الكامل لابن عدي (6 / 208)، مسند بزار (3135)، مسند ابي يعلي 6/ 130]
اس حدیث کے موصول و مرسل ہونے میں اختلاف ہے۔

امام ترمذی رحمہ اللہ نے فرمایا : یہ حدیث غریب ہے، اس کو جعفر بن سلیمان از ثابت البنانی از نبی صلی اللہ علیہ وسلم بہت سے راویوں نے روایت کیا ہے، انہوں نے ثابت البنانی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان انس رضی اللہ عنہ کا ذکر نہیں کیا۔ یعنی امام ترمذی رحمہ اللہ نے ایک تو جعفر بن سلیمان کے تفرد کی وجہ سے اسے غریب کہا ہے اور دوسرے جعفر بن سلیمان کے اکثر شاگردوں نے اسے مرسل بیان کیا ہے، موصول بیان نہیں کیا۔ اس کے جوابات درج ذیل ہیں :

(1) جعفر بن سلیمان کا تفرد مضر نہیں اس لیے کہ یہ مسلم کے راویوں سے ہے۔ اسے امام احمد، امام یحییٰ بن معین، امام علی بن المدینی، امام ابن حبان، امام ابواحمد اور ابن سعد وغیرہم نے ثقہ قرار دیا ہے۔ [تهذيب التهذيب 1/ 380، تقريب التهذيب : ص/ 56، الكاشف : 1/ 294، تهذيب سیر اعلام النبلاء 1/ 485، الجرح والتعديل 2/ 481 ]

(2) جعفر بن سلیمان سے قطن بن نسیر ہی نے اسے موصول بیان نہیں کیا بلکہ مسند بزار میں سیار بن حاتم نے اسے موصول بیان کرنے میں قطن کی متابعت کی ہے۔ سیار بن حاتم کو علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے مجمع الزوائد میں ثقہ قرار دیا ہے۔

امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ یہ صالح ہے اور صالح الحدیث ہے، اس میں کچھ کمی ہے۔ کسی نے اسے ضیعف قرار نہیں دیا۔ “

لیکن ازدی نے کہا: ’’ اس کے پاس منکر روایات ہیں۔ “ [المغني فى الضعفاء : 1/ 409 ]

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں : ’’ یہ صدوق ہے۔ “ [الكاشف : 1/ 470 ]

امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے اپنی کتاب ’’ الثقات “ میں ذکر کیا ہے۔ [كتاب الثقات : 8/ 298 ]

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ صدوق ہے اور خطا کر جا ہے۔ “ [تقريب التهذيب : ص 282 ]

لہٰذا قطن بن نسیر حسن الحدیث ہے اور سیار بن حاتم ثقہ راوی نے اسے موصول بیان کیا ہے، جس کی وجہ سے یہ حدیث صحیح ہے۔ محدثین کا قاعدہ ہے کہ جب موصول و مرسل میں جھگڑا ہو جائے تو حکم موصول ہی کا ہوتا ہے خواہ موصول بیان کرنے والے تعدار میں تھوڑے ہی ہوں۔

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ یقینا صحیح بلکہ درست بات وہی ہے کہ جس پر فقہائے اصولین اور محققین محدثین ہیں کہ جب ایک حدیث مرفوع اور موقوف یا موصول اور مرسل روایت کی گئی ہو تو حکم مرفوع اور موصول کا لگایا جائے گا۔ اس لیے کہ وہ ثقہ راوی کی زیادتی ہے۔ “ [شرح مسلم للنووي : 1/ 206 ]

امام نووی رحمہ اللہ کے اس اصولی قاعدے سے معلوم ہو ا کہ جعفر بن سلیمان کے تلامذہ میں سے قطن بن نسیر اور سیار بن حاتم نے اس حدیث کو موصول بیان کیا ہے۔ باقی تلامذہ اسے مرسل بیان کرتے ہیں تو اس حدیث پر مرسل کا نہیں بلکہ موصول کا حکم لگے گا۔ لہٰذا یہ حدیث صحیح ہے۔ اس پر کوئی غبار نہیں جب کہ اس کی تائید میں ایک اثر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے : ’’ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : عن عائشة رضي الله عنه قالت سلوا الله كل شيء حتي الشسع فان الله ان لم يسسره لم يتيسر ’’ ہر چیز اللہ تعالیٰ سے مانگو حتیٰ کہ جوتی کا تسمہ بھی۔ بیشک اللہ تعالیٰ اگر اس کو آسان نہ کرے تو وہ آسان نہیں ہوتا۔ “

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انسان کو کوشش کرنی چاہیے کہ اپنی تمام تر ضروریات میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کے سامنے دست بدعا ہو اور صرف اس سے سوال کرے۔

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں