وعن سهل بن سعد رضى الله عنه قال: جاء رجل إلى النبى صلى الله عليه وآله وسلم فقال: يا رسول الله دلني على عمل إذا عملته احبني الله واحبني الناس؟ فقال: ازهد فى الدنيا يحبك الله وازهد فيما عند الناس يحبك الناس رواه ابن ماجه وغيره وسنده حسن.
”سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے ایسا عمل بتائیں کہ جب میں اسے کروں تو اللہ تعالیٰ مجھ سے محبت کریں اور لوگ مجھ سے محبت کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دنیا سے بےرغبتی اختیار کر اللہ تعالیٰ تجھ سے محبت کرے گا اور اس چیز سے بےرغبت ہو جا جو لوگوں کے پاس ہے تو لوگ تجھ سے محبت کریں گے۔ “ (اسے ابن ماجہ وغیرہ نے روایت کیا اور اس کی سند حسن ہے)
تخریج : حسن ، (ابن ماجہ کی سند اس طرح ہے عن خالد بن عمرو القرشي عن سفيان الثوري عن ابي حازم عن سهل بن سعدد الخ خالد بن عمرو وضاع ہے اس لئے بعض محدثین نے اس حدیث کو باطل کہا ہے۔ مگر اس کی متابعت موجود ہے اور یہ حدیث اس کے علاوہ اور سندوں سے بھی آئی ہے جن میں شدید ضعف نہیں علاوہ ازیں جید سند کے ساتھ ایک مرسل روایت بھی اس کی شاہد ہے اس لئے شیخ البانی نے صحیح ابن ماجہ میں اسے صحیح قرار دیا ہے اور سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ (944) میں بھی اس کی متابعات اور شواہد تفصیل سے ذکر کر کے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
فوائد :
➊ دنیا سے بےرغبت ہو جا اللہ تعالیٰ تجھ سے محبت کرے گا۔ دنیا کیا ہے اس کا آسان مختصر جواب یہ ہے کہ وہ چیزیں جن کا فائدہ صرف دنیا میں ہے آخرت میں نہیں کیونکہ جن چیزوں کا فائدہ آخرت میں ہو یا آخرت میں بھی ہو وہ آخرت قرار پائیں گی دنیا نہیں اس لئے اللہ کی محبت حاصل کرنے کا نسخہ یہ ہے کہ آدمی ان تمام چیزوں سے بےرغبتی اختیار کرے جو آخرت میں کسی کام نہیں آئیں گی۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے فرمایا : الزهد ترك ما لا ينفع فى الاخرة زہد ان چیزوں کو چھوڑ دینے کا نام ہے جو آخرت میں کوئی فائدہ نہ دیں۔
➋ اس چیز سے بے رغبت ہو جا جو لوگوں کے پاس ہے لوگ تجھ سے محبت کریں گے۔ کیونکہ جو شخص لوگوں سے مانگے یا ان کے پاس موجود چیزوں کی حرص رکھے لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں اور اسے ناپسند کرتے ہیں کیوں کہ فطرتاً انسان کے دل میں مال کی محبت رکھ دی گئی ہے :
زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ [3-آل عمران:14]
”لوگوں کے لیے خواہشات کی محبت مزین کر دی گئی ہے عورتوں سے، بیٹوں سے، سونے چاندی کے جمع کردہ خزانوں سے، نشان والے گھوڑوں سے اور چوپاؤں اور کھیتی سے۔ “
اب جو شخص لوگوں سے ان کی محبوب چیز مانگے وہ اس سے محبت کس طرح کر سکتے ہیں، ہاں ان کے مال و متاع سے بےنیاز ہو جائے تو لوگ عزت اور محبت کرتے ہیں۔
➌ ایک اعرابی نے لوگوں سے پوچھا اہل بصرہ کا سردار کون ہے لوگوں نے بتایا حسن بصری! اس نے پوچھا وہ ان کا سردار کیسے بن گیا ؟ بتایا گیا کہ لوگ اس کے علم کے محتاج ہیں اور وہ ان کی دنیا سے مستغنی ہے۔ [توضيح الاحكام ]
➍ لوگوں کی محبت کی خواہش اور اسے حاصل کرنے کی کوشش کوئی بری چیز نہیں بلکہ یہ مستحب، بلکہ فرض ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : والذي نفسي بيده لا تومنوا حتي تحابوا ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم مومن نہیں بنو گے جب تک کہ ایک دوسرے سے محبت نہیں کرو گے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا طریقہ بتایا کہ آپس میں سلام کثرت سے کیا کرو اسی طرح آپ نے باہمی محبت حاصل کرنے کے لیے ہدیہ دینے کی تلقین فرمائی۔ [صحيح مسلم-كتاب الايمان-54]