كتاب الاستسقاء
کتاب: استسقاء یعنی پانی مانگنے کا بیان
( The Book of)(Invoking Allah for Rain (Istisqaa)
13- بَابُ إِذَا اسْتَشْفَعَ الْمُشْرِكُونَ بِالْمُسْلِمِينَ عِنْدَ الْقَحْطِ:
باب: اس بارے میں کہ اگر قحط میں مشرکین مسلمانوں سے دعا کی درخواست کریں؟
[quote arrow=”yes” "]
1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]
2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
[/quote]
حدیث اعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”artash”]
حدیث نمبر:1020
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ ، عَنْ سُفْيَانَ ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ ، وَالْأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِي الضُّحَى ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : أَتَيْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ فَقَالَ : إِنَّ قُرَيْشًا أَبْطَئُوا عَنِ الْإِسْلَامِ فَدَعَا عَلَيْهِمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ حَتَّى هَلَكُوا فِيهَا وَأَكَلُوا الْمَيْتَةَ وَالْعِظَامَ ، فَجَاءَهُ أَبُو سُفْيَانَ ، فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ جِئْتَ تَأْمُرُ بِصِلَةِ الرَّحِمِ وَإِنَّ قَوْمَكَ هَلَكُوا فَادْعُ اللَّهَ ، فَقَرَأَ : فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ سورة الدخان آية 10 ثُمَّ عَادُوا إِلَى كُفْرِهِمْ فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى سورة الدخان آية 16 يَوْمَ بَدْرٍ قَالَ وَزَادَ أَسْبَاطٌ : عَنْمَنْصُورٍ ، فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسُقُوا الْغَيْثَ فَأَطْبَقَتْ عَلَيْهِمْ سَبْعًا وَشَكَا النَّاسُ كَثْرَةَ الْمَطَرِ قَالَ : ” اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا فَانْحَدَرَتِ السَّحَابَةُ عَنْ رَأْسِهِ فَسُقُوا النَّاسُ حَوْلَهُمْ ” .
.حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ: ⇪
[sta_anchor id=”arnotash”]
1020 ـ حدثنا محمد بن كثير، عن سفيان، حدثنا منصور، والأعمش، عن أبي الضحى، عن مسروق، قال أتيت ابن مسعود فقال إن قريشا أبطئوا عن الإسلام،، فدعا عليهم النبي صلى الله عليه وسلم فأخذتهم سنة حتى هلكوا فيها وأكلوا الميتة والعظام، فجاءه أبو سفيان فقال يا محمد، جئت تأمر بصلة الرحم، وإن قومك هلكوا، فادع الله. فقرأ {فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين} ثم عادوا إلى كفرهم فذلك قوله تعالى {يوم نبطش البطشة الكبرى} يوم بدر. قال وزاد أسباط عن منصور فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسقوا الغيث، فأطبقت عليهم سبعا، وشكا الناس كثرة المطر فقال ” اللهم حوالينا ولا علينا ”. فانحدرت السحابة عن رأسه، فسقوا الناس حولهم.
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”urnotash”]
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”urnotash”]
1020 ـ حدثنا محمد بن کثیر، عن سفیان، حدثنا منصور، والاعمش، عن ابی الضحى، عن مسروق، قال اتیت ابن مسعود فقال ان قریشا ابطئوا عن الاسلام،، فدعا علیہم النبی صلى اللہ علیہ وسلم فاخذتہم سنۃ حتى ہلکوا فیہا واکلوا المیتۃ والعظام، فجاءہ ابو سفیان فقال یا محمد، جئت تامر بصلۃ الرحم، وان قومک ہلکوا، فادع اللہ. فقرا {فارتقب یوم تاتی السماء بدخان مبین} ثم عادوا الى کفرہم فذلک قولہ تعالى {یوم نبطش البطشۃ الکبرى} یوم بدر. قال وزاد اسباط عن منصور فدعا رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم، فسقوا الغیث، فاطبقت علیہم سبعا، وشکا الناس کثرۃ المطر فقال ” اللہم حوالینا ولا علینا ”. فانحدرت السحابۃ عن راسہ، فسقوا الناس حولہم.
اردو ترجمہ: ⇪ [sta_anchor id=”urdtrjuma”]
´ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے، انہوں نے بیان کیا کہ ہم سے منصور اور اعمش نے بیان کیا، ان سے ابوالضحی نے، ان سے مسروق نے، آپ نے کہا کہ` میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھا۔ آپ نے فرمایا کہ قریش کا اسلام سے اعراض بڑھتا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں بددعا کی۔ اس بددعا کے نتیجے میں ایسا قحط پڑا کہ کفار مرنے لگے اور مردار اور ہڈیاں کھانے لگے۔ آخر ابوسفیان آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے محمد! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں لیکن آپ کی قوم مر رہی ہے۔ اللہ عزوجل سے دعا کیجئے۔ آپ نے اس آیت کی تلاوت کی (ترجمہ)اس دن کا انتظار کر جب آسمان پر صاف کھلا ہوا دھواں نمودار ہو گا الآیہ (خیر آپ نے دعا کی بارش ہوئی قحط جاتا رہا) لیکن وہ پھر کفر کرنے لگے اس پر اللہ پاک کا یہ فرمان نازل ہوا (ترجمہ) جس دن ہم انہیں سختی کے ساتھ پکڑ کریں گے اور یہ پکڑ بدر کی لڑائی میں ہوئی اور اسباط بن محمد نے منصور سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعائے استسقاء کی (مدینہ میں) جس کے نتیجہ میں خوب بارش ہوئی کہ سات دن تک وہ برابر جاری رہی۔ آخر لوگوں نے بارش کی زیادتی کی شکایت کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی «اللهم حوالينا ولا علينا» کہ اے اللہ! ہمارے اطراف و جوانب میں بارش برسا، مدینہ میں بارش کا سلسلہ ختم کر۔ چنانچہ بادل آسمان سے چھٹ گیا اور مدینہ کے اردگرد خوب بارش ہوئی۔
حدیث کی اردو تشریح: ⇪ [sta_anchor id=”urdtashree”]
تشریح : شروع میں جو واقعہ بیان ہوا، اس کاتعلق مکہ سے ہے۔ کفار کی سرکشی اور نافرمانی سے عاجز آکر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بد دعا کی اور اس کے نتیجہ میں سخت قحط پڑا تو ابو سفیان جو ابھی تک کافر تھے، حاضر خدمت ہوئے اور کہا کہ آپ صلہ رحمی کاحکم دیتے ہیں۔ لیکن خود اپنی قوم کے حق میں اتنی سخت بددعا کردی۔ اب کم از کم آپ کو دعا کرنی چاہیے کہ قوم کی یہ پریشانی دور ہو۔حدیث میں اس کی تصریح نہیں ہے کہ آپ نے ان کے حق میں دوبارہ دعا فرمائی لیکن حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے دعا کی تھی جبھی تو قحط کا سلسلہ ختم ہوا لیکن قوم کی سرکشی برابرجاری رہی اور پھر یہ آیت نازل ہوئی یَومَ نَبطِشُ البَطشَۃَ الکُبرٰی ( الدخان:16 ) یہ بطش کبریٰ بدر کی لڑائی میں وقوع پزیر ہوئی۔جب قریش کے بہترین افراد لڑائی میں کام آئے اور انہیں بری طرح پسپا ہونا پڑا۔دمیاطی نے لکھا ہے کہ سب سے پہلے بد دعا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کی تھی جب کفار نے حرم میں سجدہ کی حالت میں آپ پر اوجھڑی ڈال دی تھی اور پھر خوب اس “کارنامے” پر خوش ہوئے اور قہقہے لگائے تھے۔ قوم کی سرکشی اور فساد اس درجہ بڑھ گیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسے حلیم الطبع اور بردبار اور صابر نبی کی زبان سے بھی بد دعا نکل گئی۔ جب ایمان لانے کی کسی درجہ میں بھی امید نہیں ہوتی بلکہ قوم کا وجود دنیا میں صرف شر وفساد کا باعث بن کر رہ جاتا ہے تو اس شرکو ختم کرنے کی آخری تدبیر بد دعا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے پھر بھی کبھی بھی ایسی بد دعا نہیں نکلی جو ساری قوم کی تباہی کا باعث ہوتی کیونکہ عرب کے اکثر افراد کا ایمان مقدر تھا۔ اس روایت میں اسباط کے واسطہ سے جو حصہ بیان ہوا ہے اس کا تعلق مکہ سے نہیں بلکہ مدینہ سے ہے۔
اسباط نے منصور کے واسطے سے جو حدیث نقل کی ہے اس کی تفصیل اس سے پہلے متعدد ابواب میں گزر چکی ہے۔مصنف رحمہ اللہ نے دو حدیثوں کو ملا کر ایک جگہ بیان کر دیا، یہ خلط کسی راوی کا نہیں بلکہ جیسا کہ دمیاطی نے کہا ہے خود مصنف رحمہ اللہ کا ہے ( تفہیم البخاری )
پیغمبروں کی شخصیت بہت ہی ارفع واعلی ہوتی ہے، وہ ہر مشکل کو ہر دکھ کو ہنس کر برداشت کر لیتے ہیں مگر جب قو م کی سر کشی حد سے گزر نے لگے اور وہ ان کی ہدایت سے مایوس ہو جائیں تو وہ اپنا آخری ہتھیار بد دعا بھی استعمال کر لیتے ہیں۔ قرآن مجید میں ایسے مواقع پر بہت سے نبیوں کی دعائیں منقول ہیں۔ہمارے سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مایوس کن مواقع پر بد دعا کی ہے جن کے نتائج بھی فوراً ہی ظاہر ہوئے ان ہی میں سے ایک یہ واقعہ مذکورہ بھی ہے ( واللہ اعلم)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے پھر بھی کبھی بھی ایسی بد دعا نہیں نکلی جو ساری قوم کی تباہی کا باعث ہوتی کیونکہ عرب کے اکثر افراد کا ایمان مقدر تھا۔ اس روایت میں اسباط کے واسطہ سے جو حصہ بیان ہوا ہے اس کا تعلق مکہ سے نہیں بلکہ مدینہ سے ہے۔
اسباط نے منصور کے واسطے سے جو حدیث نقل کی ہے اس کی تفصیل اس سے پہلے متعدد ابواب میں گزر چکی ہے۔مصنف رحمہ اللہ نے دو حدیثوں کو ملا کر ایک جگہ بیان کر دیا، یہ خلط کسی راوی کا نہیں بلکہ جیسا کہ دمیاطی نے کہا ہے خود مصنف رحمہ اللہ کا ہے ( تفہیم البخاری )
پیغمبروں کی شخصیت بہت ہی ارفع واعلی ہوتی ہے، وہ ہر مشکل کو ہر دکھ کو ہنس کر برداشت کر لیتے ہیں مگر جب قو م کی سر کشی حد سے گزر نے لگے اور وہ ان کی ہدایت سے مایوس ہو جائیں تو وہ اپنا آخری ہتھیار بد دعا بھی استعمال کر لیتے ہیں۔ قرآن مجید میں ایسے مواقع پر بہت سے نبیوں کی دعائیں منقول ہیں۔ہمارے سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مایوس کن مواقع پر بد دعا کی ہے جن کے نتائج بھی فوراً ہی ظاہر ہوئے ان ہی میں سے ایک یہ واقعہ مذکورہ بھی ہے ( واللہ اعلم)
English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] ⇪
Narrated Masruq:
One day I went to Ibn Masud who said, "When Quraish delayed in embracing Islam, the Prophet I invoked Allah to curse them, so they were afflicted with a (famine) year because of which many of them died and they ate the carcasses and Abu Sufyan came to the Prophet and said, ‘O Muhammad! You came to order people to keep good relation with kith and kin and your nation is being destroyed, so invoke Allah I ? So the Prophet I recited the Holy verses of Sirat-Ad-Dukhan: ‘Then watch you For the day that The sky will Bring forth a kind Of smoke Plainly visible.’ (44.10) When the famine was taken off, the people renegade once again as nonbelievers. The statement of Allah, (in Sura "Ad-Dukhan”-44) refers to that: ‘On the day when We shall seize You with a mighty grasp.’ (44.16) And that was what happened on the day of the battle of Badr.” Asbath added on the authority of Mansur, "Allah’s Apostle prayed for them and it rained heavily for seven days. So the people complained of the excessive rain. The Prophet said, ‘O Allah! (Let it rain) around us and not on us.’ So the clouds dis-persed over his head and it rained over the surroundings.”
One day I went to Ibn Masud who said, "When Quraish delayed in embracing Islam, the Prophet I invoked Allah to curse them, so they were afflicted with a (famine) year because of which many of them died and they ate the carcasses and Abu Sufyan came to the Prophet and said, ‘O Muhammad! You came to order people to keep good relation with kith and kin and your nation is being destroyed, so invoke Allah I ? So the Prophet I recited the Holy verses of Sirat-Ad-Dukhan: ‘Then watch you For the day that The sky will Bring forth a kind Of smoke Plainly visible.’ (44.10) When the famine was taken off, the people renegade once again as nonbelievers. The statement of Allah, (in Sura "Ad-Dukhan”-44) refers to that: ‘On the day when We shall seize You with a mighty grasp.’ (44.16) And that was what happened on the day of the battle of Badr.” Asbath added on the authority of Mansur, "Allah’s Apostle prayed for them and it rained heavily for seven days. So the people complained of the excessive rain. The Prophet said, ‘O Allah! (Let it rain) around us and not on us.’ So the clouds dis-persed over his head and it rained over the surroundings.”