كتاب الاستسقاء
کتاب: استسقاء یعنی پانی مانگنے کا بیان
( The Book of)(Invoking Allah for Rain (Istisqaa)
18- بَابُ صَلاَةِ الاِسْتِسْقَاءِ رَكْعَتَيْنِ:
باب: استسقاء کی نماز دو رکعتیں پڑھنا۔
[quote arrow=”yes” "]
1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]
2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
[/quote]
حدیث اعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”artash”]
حدیث نمبر:1026
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، سَمِعَ عَبَّادَ بْنَ تَمِيمٍ ، عَنْ عَمِّهِ ، ” أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَسْقَى فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَقَلَبَ رِدَاءَهُ ” .
.حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ: ⇪
[sta_anchor id=”arnotash”]
1026 ـ حدثنا قتيبة بن سعيد، قال حدثنا سفيان، عن عبد الله بن أبي بكر، عن عباد بن تميم، عن عمه، أن النبي صلى الله عليه وسلم استسقى فصلى ركعتين، وقلب رداءه.
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”urnotash”]
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”urnotash”]
1026 ـ حدثنا قتیبۃ بن سعید، قال حدثنا سفیان، عن عبد اللہ بن ابی بکر، عن عباد بن تمیم، عن عمہ، ان النبی صلى اللہ علیہ وسلم استسقى فصلى رکعتین، وقلب رداءہ.
اردو ترجمہ: ⇪ [sta_anchor id=”urdtrjuma”]
´ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن ابی ذئب نے زہری سے بیان کیا، ان سے عباد بن تمیم نے، ان سے ان کے چچا عبداللہ بن زید نے کہ` میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم استسقاء کے لیے باہر نکلے، دیکھا تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیٹھ صحابہ کی طرف کر دی اور قبلہ رخ ہو کر دعا کی۔ پھر چادر پلٹی اور دو رکعت نماز پڑھائی جس کی قرآت قرآن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہر کیا تھا۔
حدیث کی اردو تشریح: ⇪ [sta_anchor id=”urdtashree”]
تشریح : استسقاءکی دورکعت نماز سنت ہے۔ امام مالک، امام شافعی، امام احمد اور جمہور کا یہی قول ہے حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ استسقاءکے لیے نماز ہی نہیں تسلیم کرتے مگر صاحبین نے اس بارے میں حضرت امام کی مخالفت کی ہے اور صلوۃ استسقاءکے سنت ہونے کا اقرار کیا ہے۔
صاحب عرف الشذی نے اس بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔ حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث مد ظلہ العالی جملہ اختلافات کی تشریح کے بعد فرماتے ہیں:
وقد عرفت بما ذکرنا من وجہ تخبط الحنفیۃ فی بیان مذھب امامھم وھو انہ قد نفی الصلوۃ فی الاستسقاءمعلقاًکماھو مصرح فی کلام ابی یوسف ومحمد فی بیان مذھب ابی حنیفۃ ولا شک ان قولہ ھذا مخالف ومنابذ للسنۃ الصحیحۃ الثابتۃ الصریحۃ فاضطربت الحنفیۃ لذالک وتخبطوا فی تشریح مذھبہ وتعلیلہ حتی اضطربعضھم الی الاعتراف بان الصلوۃ فی الاستسقاءبجماعۃ سنۃ وقال لم ینکر ابو حنیفۃسنیتھا واستحبابھا وانما انکر کونھا سنۃ مؤکدۃ وھذا کما تری من باب توجیہ الکلام بما لا یرضی بہ قائلہ لانہ لوکان الامر کذالک لم یکن بینہ وبین صاحبیہ خلاف مع انہ قد صرح جمیع الشراح وغیرھم ممن کتب فی اختلاف الائمۃ بالخلاف بینہ وبین الجمھور فی ھذہ المسئلۃ قال شیخنا فی شرح الترمذی قول الجمھور وھو الصواب والحق لانہ قدثبت صلوتہ صلی اللہ علیہ وسلم رکعتین فی الاستسقاءمن احادیث کثیرۃ صحیحۃ۔ ( مرعاۃ، ج: 2 ص: 390 )
خلاصہ یہ کہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے مطلقا صلوۃ الاستسقاءکا انکار کیا ہے تم پر واضح ہو گیا ہوگا کہ اس بارے میں حنفیہ کو کس قدر پریشان ہونا پڑا ہے حالانکہ حضرت امام ابو یوسف رحمہ اللہ وحضرت امام محمد کے کلام سے صراحتا ثابت ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے اور کوئی شک نہیں کہ آپ کا قول سنت صحیحہ کے صراحتا خلاف ہے۔ اس لیے اس کی تاویل اور تشریح اور تعلیل بیان کرنے میں علمائے احناف کو بڑی مشکل پیش آئی ہے حتیٰ کہ بعض نے اعتراف کیا ہے کہ نماز استسقاءجماعت کے ساتھ سنت ہے اور حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے صرف سنت مؤکدہ ہونے کا انکار کیا ہے۔ یہ قائل کے قول کی ایسی توجیہ ہے جو خود قائل کو بھی پسند نہیں ہے۔ اگر حقیقت یہی ہوتی تو صاحبین رحمہ اللہ اپنے امام سے اختلاف نہ کرتے۔ اختلافات ائمہ بیان کرنے والوں نے اپنی کتابوں میں صاف لکھا ہے کہ صلوۃ استسقاءکے بارے میں حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول جمہور امت کے خلاف ہے۔ ہمارے شیخ حضرت مولانا عبد الرحمن مبارک پوری فرماتے ہیں کہ جمہور کا قول ہی درست ہے اور یہی حق ہے کہ نماز استسقاءکی دو رکعتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہیں جیسا کہ بہت سی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے پھر حضرت مولانا مرحوم نے اس سلسلہ کی بیشتر احادیث کو تفصیل سے ذکر فرمایا ہے، شائقین مزید تحفۃ الاحوذی کا مطالعہ فرمائیں۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک استسقاءکی دو رکعتیں عیدین کی نمازوں کی طرح تکبیر زوائد کے ساتھ ادا کی جائیں مگر جمہور کے نزدیک اس نماز میں تکبیرات زوائد نہیں ہیں بلکہ ان کو اسی طرح ادا کیا جا ئے جس طرح دیگر نمازیں ادا کی جاتی ہیں، قول جمہور کو ہی ترجیح حاصل ہے۔ نماز استسقاءکے خطبہ کے لیے منبر کا استعمال بھی مستحب ہے جیسا کہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا میں صراحت کے ساتھ موجود ہے جسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے اس میں صاف فقعد علی المنبر کے لفظ موجود ہیں۔
صاحب عرف الشذی نے اس بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔ حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث مد ظلہ العالی جملہ اختلافات کی تشریح کے بعد فرماتے ہیں:
وقد عرفت بما ذکرنا من وجہ تخبط الحنفیۃ فی بیان مذھب امامھم وھو انہ قد نفی الصلوۃ فی الاستسقاءمعلقاًکماھو مصرح فی کلام ابی یوسف ومحمد فی بیان مذھب ابی حنیفۃ ولا شک ان قولہ ھذا مخالف ومنابذ للسنۃ الصحیحۃ الثابتۃ الصریحۃ فاضطربت الحنفیۃ لذالک وتخبطوا فی تشریح مذھبہ وتعلیلہ حتی اضطربعضھم الی الاعتراف بان الصلوۃ فی الاستسقاءبجماعۃ سنۃ وقال لم ینکر ابو حنیفۃسنیتھا واستحبابھا وانما انکر کونھا سنۃ مؤکدۃ وھذا کما تری من باب توجیہ الکلام بما لا یرضی بہ قائلہ لانہ لوکان الامر کذالک لم یکن بینہ وبین صاحبیہ خلاف مع انہ قد صرح جمیع الشراح وغیرھم ممن کتب فی اختلاف الائمۃ بالخلاف بینہ وبین الجمھور فی ھذہ المسئلۃ قال شیخنا فی شرح الترمذی قول الجمھور وھو الصواب والحق لانہ قدثبت صلوتہ صلی اللہ علیہ وسلم رکعتین فی الاستسقاءمن احادیث کثیرۃ صحیحۃ۔ ( مرعاۃ، ج: 2 ص: 390 )
خلاصہ یہ کہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے مطلقا صلوۃ الاستسقاءکا انکار کیا ہے تم پر واضح ہو گیا ہوگا کہ اس بارے میں حنفیہ کو کس قدر پریشان ہونا پڑا ہے حالانکہ حضرت امام ابو یوسف رحمہ اللہ وحضرت امام محمد کے کلام سے صراحتا ثابت ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے اور کوئی شک نہیں کہ آپ کا قول سنت صحیحہ کے صراحتا خلاف ہے۔ اس لیے اس کی تاویل اور تشریح اور تعلیل بیان کرنے میں علمائے احناف کو بڑی مشکل پیش آئی ہے حتیٰ کہ بعض نے اعتراف کیا ہے کہ نماز استسقاءجماعت کے ساتھ سنت ہے اور حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے صرف سنت مؤکدہ ہونے کا انکار کیا ہے۔ یہ قائل کے قول کی ایسی توجیہ ہے جو خود قائل کو بھی پسند نہیں ہے۔ اگر حقیقت یہی ہوتی تو صاحبین رحمہ اللہ اپنے امام سے اختلاف نہ کرتے۔ اختلافات ائمہ بیان کرنے والوں نے اپنی کتابوں میں صاف لکھا ہے کہ صلوۃ استسقاءکے بارے میں حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول جمہور امت کے خلاف ہے۔ ہمارے شیخ حضرت مولانا عبد الرحمن مبارک پوری فرماتے ہیں کہ جمہور کا قول ہی درست ہے اور یہی حق ہے کہ نماز استسقاءکی دو رکعتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہیں جیسا کہ بہت سی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے پھر حضرت مولانا مرحوم نے اس سلسلہ کی بیشتر احادیث کو تفصیل سے ذکر فرمایا ہے، شائقین مزید تحفۃ الاحوذی کا مطالعہ فرمائیں۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک استسقاءکی دو رکعتیں عیدین کی نمازوں کی طرح تکبیر زوائد کے ساتھ ادا کی جائیں مگر جمہور کے نزدیک اس نماز میں تکبیرات زوائد نہیں ہیں بلکہ ان کو اسی طرح ادا کیا جا ئے جس طرح دیگر نمازیں ادا کی جاتی ہیں، قول جمہور کو ہی ترجیح حاصل ہے۔ نماز استسقاءکے خطبہ کے لیے منبر کا استعمال بھی مستحب ہے جیسا کہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا میں صراحت کے ساتھ موجود ہے جسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے اس میں صاف فقعد علی المنبر کے لفظ موجود ہیں۔
English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] ⇪
Narrated Abbas bin Tamim from his uncle,
"I saw the Prophet on the day when he went out to offer the Istisqa’ prayer. He turned his back to-wards the people and faced the Qibla and asked Allah for rain. Then he turned his cloak inside out and led us in a two Rakat prayer and recited the Qur’an aloud in them.”
"I saw the Prophet on the day when he went out to offer the Istisqa’ prayer. He turned his back to-wards the people and faced the Qibla and asked Allah for rain. Then he turned his cloak inside out and led us in a two Rakat prayer and recited the Qur’an aloud in them.”